امریکا میں شدید طوفان کیوجہ سے گنبد نما پراسرار شے آسمان سے آگری
اشاعت کی تاریخ: 20th, June 2025 GMT
یہ پراسرار واقعہ امریکی شہر انڈیاناپولس کے ایسٹ سائیڈ میں پیش آیا، جہاں شدید طوفان کے دوران اچانک ایک گنبد نما پراسرار شے ایک رہائشی سڑک پر گر پڑی, جس نے محلّے میں حیرت اور تجسس پھیلا دیا۔
شدید طوفان کے دوران ایک بڑا گنبد یعنی ریڈار اینٹینا کا موسمی حفاظتی گنبد ہوا کے طوفانی جھکڑوں کی قوت سے اپنا مقام چھوڑ کر رہائشی علاقے میں آگرا۔
یہ دھاتی گنبد نارتھ پاساڈینا اسٹریٹ کے قریب دیکھا گیا جہاں لوگ اسے دیکھ کر سیلفی لینے لگے۔ بعدازاں ایک کمپنی نے تصدیق کی کہ یہ گنبد ان کا ریڈاراینٹینا ہی تھا لیکن وہ بھی حیران ہیں کہ یہ کیسے اتنا دور تک اُڑ کر آیا۔
تاہم گرنے کے باوجود کسی شہری کو کوئی چوٹ یا جانی نقصان نہیں ہوا، جو واقعی ایک بڑی خوش قسمتی ہے۔ گنبد پر ڈینٹ پڑنے یا اس کے ٹوٹ جانے کے آثار تھے مگر یہ مکمل طور پر سلامت ہے۔
مقامی افراد کا کہنا تھا کہ آواز ایک ایک ہلکے دھماکے کے شور جیسا تھا جس نے انھیں بم یا آسمانی چیز کا گمان دلایا۔
واقعے نے مقامی لوگوں کے درمیان قدرے تشویش بڑھا دی ہے خاص طور پر حفاظتی اقدامات اور طوفانی حالات میں گھروں کی حفاظت کے حوالے سے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
امریکا، بھارت اور ٹیرف کی جنگ
اسلام ٹائمز: ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان اندرونی سطح پر سیاسی ہم آہنگی پیدا کرے۔ اپوزیشن کو دیوار سے لگانے کے بجائے قومی سیاسی دھارے کا حصہ بنایا جائے، تاکہ قومی پالیسیوں میں وسیع تر سیاسی اتفاقِ رائے پیدا ہو۔ اگر ہم داخلی طور پر کمزور رہے تو بیرونی دنیا میں ہماری آواز نہ صرف غیر مؤثر ہوگی بلکہ عالمی قوتیں ہماری اس کمزوری سے اپنے مفادات کیلئے فائدہ بھی اٹھا سکتی ہیں۔ دنیا ایک نئی سرد جنگ کے دہانے پر کھڑی ہے، جہاں اقتصادی پابندیاں، سفارتی چالاکیاں اور اسٹریٹجک داؤ پیچ اصل ہتھیار ہیں۔ اس بدلتی دنیا میں پاکستان کو نہ صرف اپنے مفادات کا تحفظ کرنا ہے بلکہ اپنی حیثیت کو بھی برقرار رکھنا ہے۔ شرط صرف ایک ہے، خود مختاری، دانشمندی اور قومی وحدت۔ تحریر: نادر بلوچ
امریکا اور بھارت کے مابین پیدا ہونے والی حالیہ کشیدگی محض دو معیشتوں کی باہمی رسہ کشی نہیں، بلکہ اس کے پس منظر میں ایک وسیع تر عالمی حکمتِ عملی اور طاقت کے توازن کی بازترتیب کارفرما ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بھارت پر یکے بعد دیگرے ٹیرف عائد کرنے، بعض مصنوعات پر پچیس فیصد تک درآمدی ڈیوٹی لگانے اور مزید سخت اقتصادی اقدامات کی دھمکی دینے کا معاملہ معمولی تجارتی چپقلش سے کہیں زیادہ گہرا اور پرمعانی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سیاسی بیانیے کو "MAGA" یعنی Make America Great Again کے نعرے کے گرد استوار کیا۔ اس نعرے کی عملی تعبیر مقامی صنعتوں کی بحالی، درآمدات پر انحصار میں کمی اور روزگار کے مواقع میں اضافہ تھی۔ مگر زمینی حقائق یہ ہیں کہ امریکی مارکیٹ چینی اور بھارتی مصنوعات سے بھری پڑی ہے۔ یہ اشیاء نہ صرف قیمت میں سستی ہیں بلکہ وہ امریکی پیداوار کا گلا گھونٹ رہی ہیں۔ نتیجتاً، ملکی صنعتیں بند ہو رہی ہیں، روزگار کے مواقع سمٹتے جا رہے ہیں اور قومی سرمایہ بیرونِ ملک بہہ رہا ہے۔
اسی تناظر میں ایک چونکا دینے والا مگر غیر مبہم فیصلہ سامنے آیا کہ امریکا نے ایپل کمپنی کو بھارت میں اپنا پیداواری یونٹ بند کرنے کی ہدایت کی۔ یہ اقدام بظاہر ایک کاروباری فیصلہ لگتا ہے، لیکن دراصل یہ امریکی اقتصادی تحفظ پسندی کی پالیسی کا حصہ ہے۔ مقصد صاف ہے: ایسے ممالک میں تیار ہونے والی کم لاگت مصنوعات کو امریکی منڈی میں مہنگا کر دیا جائے، تاکہ امریکی صارفین مقامی مصنوعات کی جانب راغب ہوں اور ملکی صنعت کو سانس لینے کا موقع ملے۔ بھارت کے لیے یہ صورتحال خاصی پریشان کن ہے۔ اس کی امریکا کو برآمدات تیزی سے بڑھ رہی ہیں، جبکہ امریکی مصنوعات بھارتی مارکیٹ میں محدود پیمانے پر داخل ہو پاتی ہیں۔ اس عدم توازن کو ٹرمپ انتظامیہ ایک ناقابلِ قبول خسارے کے طور پر دیکھتی ہے۔ چین کے بعد بھارت بھی اسی فہرست میں شامل ہوچکا ہے، جسے امریکا اپنے اقتصادی مفادات کے لیے خطرہ تصور کر رہا ہے۔ ٹرمپ کی پالیسی واضح ہے: یا تو معاہدے پر ازسرنو بات چیت کی جائے، یا پھر نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہا جائے۔ یہی اس کا رویہ روس کے ساتھ بھی ہے۔
ایسے میں پاکستان کی حیثیت نہایت اہم ہوگئی ہے۔ افغانستان سے امریکی انخلاء کے بعد خطے میں پاکستان کی تزویراتی (اسٹریٹجک) اہمیت ازسرنو نمایاں ہوئی ہے۔ چین کے ساتھ پاکستان کے معاشی تعلقات، خصوصاً سی پیک جیسے منصوبے، پاکستان کو ایک علاقائی مرکزیت فراہم کرتے ہیں۔ ٹرمپ کی جانب سے پاکستان کے لیے نرم رویہ اختیار کرنا اور بھارت کو تجارتی شکنجے میں کسنا، اس امر کا مظہر ہے کہ امریکا جنوبی ایشیاء میں اپنی حکمتِ عملی کو دوبارہ ترتیب دے رہا ہے۔ پاکستان کے لیے یہ صورتِ حال ایک اہم موقع بھی ہے اور آزمائش بھی۔ امریکا کے ساتھ تعلقات میں بہتری کا فائدہ صرف اسی صورت میں حاصل کیا جا سکتا ہے، جب اسلام آباد اپنی خودمختاری کو مجروح کیے بغیر توازن کی پالیسی اپنائے۔ اگر ہم اندرونی سیاسی عدم استحکام کے باعث یا کسی خارجی دباؤ میں آکر اپنے معدنی وسائل یا قومی مفادات ارزاں نرخوں پر پیش کرنے لگیں، تو یہ وقتی فائدہ درحقیقت طویل المدت نقصان میں بدل جائے گا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان اندرونی سطح پر سیاسی ہم آہنگی پیدا کرے۔ اپوزیشن کو دیوار سے لگانے کے بجائے قومی سیاسی دھارے کا حصہ بنایا جائے، تاکہ قومی پالیسیوں میں وسیع تر سیاسی اتفاقِ رائے پیدا ہو۔ اگر ہم داخلی طور پر کمزور رہے تو بیرونی دنیا میں ہماری آواز نہ صرف غیر مؤثر ہوگی بلکہ عالمی قوتیں ہماری اس کمزوری سے اپنے مفادات کے لیے فائدہ بھی اٹھا سکتی ہیں۔ دنیا ایک نئی سرد جنگ کے دہانے پر کھڑی ہے، جہاں اقتصادی پابندیاں، سفارتی چالاکیاں اور اسٹریٹجک داؤ پیچ اصل ہتھیار ہیں۔ اس بدلتی دنیا میں پاکستان کو نہ صرف اپنے مفادات کا تحفظ کرنا ہے بلکہ اپنی حیثیت کو بھی برقرار رکھنا ہے۔ شرط صرف ایک ہے، خود مختاری، دانشمندی اور قومی وحدت۔