کیا روس اور عرب ریاستوں کا نیااتحاد بننے جارہا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 20th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
روسی صدر ولادی میر پوتن نے کہا ہے کہ روس اور عرب ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی شراکت داری عالمی طاقت کے توازن کو تبدیل کر رہی ہے۔
روسی صدر ولادی میر پوتن نے جمعرات کو منعقدہ “سان پیٹرزبرگ انٹرنیشنل اکنامک فورم” سے خطاب کرتے ہوئے زور دیا کہ یہ اتحاد نہ صرف معاشی بلکہ سیاسی اور دفاعی میدانوں میں بھی اہم کردار ادا کر رہا ہے، روس اور عرب ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی شراکت داری عالمی طاقت کے توازن کو بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
انہوں نے زور دیا کہ یہ تعلقات صرف معاشی حد تک محدود نہیں بلکہ سیاسی اور دفاعی شعبوں میں بھی گہرا اثر مرتب کر رہے ہیں۔ پوتن نے بتایا کہ روس عرب ممالک کے ساتھ توانائی، ٹیکنالوجی، اور بنیادی ڈھانچے کے شعبوں میں تعاون کو فروغ دے رہا ہے، جو عالمی معیشت میں نئے رجحانات کو جنم دے رہا ہے۔
پوتن نے کہا کہ مغربی ممالک کی پابندیوں کے باوجود روس نے اپنی معاشی خودمختاری برقرار رکھی ہے، جو اس کی مضبوط پوزیشن کو اجاگر کرتا ہے۔
فورم میں عرب رہنماؤں نے بھی شرکت کی اور اس بات پر اتفاق کیا کہ روس کے ساتھ تعلقات ان کے ممالک کی خودمختاری اور ترقی کے لیے بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ یہ شراکت داری مغربی اثر و رسوخ کے مقابلے میں ایک متوازن عالمی نظام کی جانب بڑھنے کا باعث بنے گی۔ اس موقع پر توانائی اور تجارت کے متعدد معاہدوں پر دستخط ہوئے، جو دونوں فریقوں کے درمیان مستقبل کے تعاون کی بنیاد رکھتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ روس عرب ممالک کے ساتھ مشترکہ منصوبوں پر کام کر رہا ہے، جن میں تیل اور گیس کی فراہمی، جوہری توانائی کے شعبے، اور جدید ٹیکنالوجیز شامل ہیں۔ انہوں نے خاص طور پر سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، اور مصر جیسے ممالک کے ساتھ تعلقات کو نمایاں کیا، جہاں توانائی کے منصوبوں اور فوجی تعاون میں پیش رفت ہو رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ تعلقات عالمی منڈیوں میں روس اور عرب ریاستوں کی مشترکہ طاقت کو بڑھائیں گے۔
عرب رہنماؤں نے بھی اس اتحاد کی اہمیت کو تسلیم کیا اور کہا کہ روس کے ساتھ تعاون ان کے لیے مغربی دباؤ سے نجات اور خودمختاری کے تحفظ کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ عالمی معاشی نظام میں تبدیلی کے لیے روس کے ساتھ مل کر کام کرنا ضروری ہے، خاص طور پر جب کہ یورپی یونین اور امریکہ کی پالیسیاں ان کے مفادات کے خلاف جا رہی ہیں۔
فورم کے دوران ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا کہ یہ اتحاد مغربی طاقتوں کے لیے ایک چیلنج ہو سکتا ہے، کیونکہ روس اور عرب ممالک مل کر توانائی کے شعبے میں ایک متبادل بلاک تشکیل دے سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر یہ تعلقات ایک رسمی اتحاد کی شکل اختیار کرتے ہیں، تو یہ عالمی طاقت کے نقشے کو دوبارہ ترتیب دے سکتا ہے، خاص طور پر جب کہ دنیا نئے جغرافیائی اور معاشی چیلنجز کا سامنا کر رہی ہے۔
سان پیٹرزبرگ انٹرنیشنل اکنامک فورم (St.
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: روس اور عرب ممالک عالمی طاقت کے ممالک کے ساتھ عرب ممالک کے زور دیا کہ کے درمیان انہوں نے پوتن نے رہا ہے کہا کہ روس کے کہ روس کے لیے
پڑھیں:
عالمی شخصیات کی دوسری چین وسطی ایشیا سمٹ میں چینی صدر کی تقریر کی تعریف
عالمی شخصیات کی دوسری چین وسطی ایشیا سمٹ میں چینی صدر کی تقریر کی تعریف WhatsAppFacebookTwitter 0 20 June, 2025 سب نیوز
بیجنگ :وسطی ایشیائی ممالک کی شخصیات نے دوسری چین-وسطی ایشیا سمٹ میں چین کے صدر مملکت شی جن پھنگ کی کلیدی تقریر کی بہت تعریف کی اور ان کا یقین ہے کہ چین اور وسطی ایشیائی ممالک “چین-وسطی ایشیا روح” کو آگے بڑھائیں گے اور چین-وسطی ایشیا تعاون میں نئی کامیابیوں کو مسلسل فروغ دیں گے۔ قازقستان سینٹر فار چائنا اینڈ سنٹرل ایشیا اسٹڈیز کے ڈائریکٹر روسلان ایزیموف کا خیال ہے کہ چین کے صدر مملکت شی جن پھنگ کی اپنی تقریر میں “چین-وسطی ایشیا کی روح” کی تجویز چین اور وسطی ایشیائی ممالک کے تعلقات میں ایک اور بڑی پیش رفت ہے۔ وسطی ایشیائی ممالک سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے کہا کہ
چین کے صدر مملکت شی جن پھنگ اور وسطی ایشیائی ممالک کے سربراہان نے سربراہی اجلاس میں مستقل اچھی ہمسائیگی، دوستی اور تعاون کے معاہدے پر مشترکہ طور پر دستخط کیے جس سے چین وسطی ایشیا میکانزم میں تعاون کی سطح کو مزید فروغ ملے گا۔ تاجکستانی سیاست دانوں کی ایسوسی ایشن کے چیئرمین سیفولو صفروف نے کہا کہ مستقل اچھی ہمسائیگی، دوستی اور تعاون کا معاہدہ سنگ میل کی اہمیت کا حامل ہے اورچین وسطی ایشیا ہم نصیب معاشرے کی اسٹریٹجک بلندی پر مستقبل میں تعاون کی سمت کی نشاندہی کرتا ہے۔
بین الاقوامی شخصیات نے کہا کہ دوسری چین-وسطی ایشیا سمٹ کے وافر ثمرات نے بین الاقوامی برادری کے سامنے چین اور وسطی ایشیائی ممالک کے درمیان گہرے تعاون کے نئے امکانات ظاہر کئے اور صدر شی جن پھنگ کی طرف سے تجویز کردہ اہم تصورات نے عالمی خوشحالی اور استحکام کو مضبوط قوت محرکہ فراہم کی ہے۔ جرمنی میں کیئل انسٹی ٹیوٹ برائے عالمی اقتصادیات کے ڈائریکٹر مورٹز شولرک نے کہا کہ چین اور وسطی ایشیائی ممالک کو متعلقہ مسائل پر مل کر کام کرنا اور اقتصادی ترقی اور موسمیاتی تبدیلی جیسے مسائل کا مشترکہ حل تلاش کرنا، نہ صرف چین اور وسطی ایشیائی ممالک کی ترقی کے لیے فائدہ مند ہے بلکہ دنیا کے تمام ممالک کے مفاد میں بھی ہے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرپارلیمینٹیرینز کافی کارنر: قومی اسمبلی میں روایت اور جدت کا امتزاج زرمبادلہ کے مجموعی ذخائر کی مالیت تین سال کی بلند ترین سطح پر آگئی ایف بی آرمیں غیر رجسٹرڈ افراد کیخلاف گھیرا تنگ، بینک اکاونٹ چلانے پرپابندی، بجلی وگیس کاٹ دی جائیگی وزیرِاعظم شہباز شریف نے چینی کی قیمتوں میں مصنوعی اضافہ روکنے کیلئے کریک ڈاون کی منظوری دے دی حکومت نے قومی الیکٹرک وہیکل پالیسی 2025 تا30کا باضابطہ اجرا کر دیا ملک بھر کے چیمبرز اور ٹریڈ یونینز کا ایف پی سی سی آئی عہدیدران کو ایک سال توسیع دینے کا مطالبہ نویں چین-جنوبی ایشیا ایکسپو میں 2500 سے زائد کمپنیوں کی شرکتCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم