data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

تل ابیب: وہ نظر نہ آنے والی تباہی جس نے اسرائیل کی مضبوط دفاعی لائنوں کو لمحوں میں چکرا کر رکھ دیا، ایران کے میزائل حملے کا سب سے خطرناک پہلو بن کر سامنے آئی، میزائلوں کے زمین سے ٹکرانے پر پیدا ہونے والی دھماکے کی لہر اتنی شدید تھی کہ اسرائیل کے جدید دفاعی نظام اسے روکنے میں ناکام رہا، اس مہلک لہر نے نہ صرف عمارتوں، گاڑیوں اور دیگر تنصیبات کو نقصان پہنچایا بلکہ اپنی زبردست رفتار اور دباؤ سے انسانی جانوں کے لیے بھی سنگین خطرہ بن گئی۔

 ایران کے اس غیر متوقع وار نے خطے میں جاری کشیدگی کو نئی سطح پر پہنچا دیا ہے اور اسرائیل کی دفاعی حکمت عملی پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔

ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری جنگ کے دوران عام تاثر یہ ہے کہ سب سے بڑا خطرہ میزائل کے دھماکے یا اس کے ٹکڑوں سے ہوتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اصل مہلک اثر دھماکے کی لہر سے ہوتا ہے، جو میزائل سے کہیں زیادہ تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔

دھماکے کی یہ لہر جو میزائل کے زمین سے ٹکرانے پر پیدا ہوتی ہے، آواز کی رفتار سے بھی کہیں زیادہ تیزی سے حرکت کرتی ہے، اس کی شدت اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ یہ انسان کے اندرونی اعضا کو چیر پھاڑ سکتی ہے، ہڈیاں توڑ سکتی ہے اور شدید زخموں کا باعث بن سکتی ہے، چاہے کوئی شخص میزائل کی زد میں نہ بھی آیا ہو۔

دھماکے کی لہر کیا ہوتی ہے؟

یروشلم پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق جب کوئی میزائل یا کوئی اور دھماکہ خیز مواد زمین یا فضا میں پھٹتا ہے تو اس کے نتیجے میں زبردست توانائی خارج ہوتی ہے، یہ توانائی ارد گرد کی ہوا کو انتہائی قوت سے دھکیلتی ہے اور ایک دباؤ کی لہر بناتی ہے جو تمام سمتوں میں آواز کی رفتار سے بھی زیادہ تیزی سے پھیلتی ہے۔

یہ لہر 2000 کلومیٹر فی گھنٹہ سے زائد کی رفتار سے حرکت کرتی ہے اور اپنے راستے میں آنے والی ہر شےچاہے انسان ہو، عمارت، گاڑی یا درخت کو تباہ کر سکتی ہے، رپورٹ میں بتایا گیا کہ اگر کوئی شخص دھماکے کے مرکز کے قریب موجود ہو تو محض اس لہر کی رفتار اور دباؤ کی شدت سے شدید زخمی ہو سکتا ہے۔

یہ لہر دائرے کی شکل میں چاروں طرف پھیلتی ہے اور جتنا کوئی دھماکے کے مرکز کے قریب ہوگا، اتنا ہی اس پر اس کے اثرات شدید ہوں گے۔ فاصلے کے ساتھ اس کی شدت کم ہوتی چلی جاتی ہے۔

دھماکے کی لہر سے ہونے والی چوٹیں

دھماکے کی لہر سے کان کے پردے پھٹ سکتے ہیں، سننے کی صلاحیت عارضی یا مستقل طور پر ختم ہو سکتی ہے، ہڈیاں ٹوٹ سکتی ہیں اور جسم کے اندرونی اعضا کو نقصان پہنچ سکتا ہے، اگر کوئی شخص دھماکے کے مرکز کے بہت قریب ہو تو اس کی پھیپھڑوں کی جھلیاں پھٹ سکتی ہیں یا وہ مکمل طور پر ناکارہ ہو سکتے ہیں اور شدید اندرونی خون بہنے کا بھی خطرہ ہوتا ہے۔

خیال رہےکہ ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ ساتویں روز میں داخل ہو چکی ہے۔ دونوں جانب سے ایک دوسرے پر میزائل حملے جاری ہیں حالانکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران سے “بلا شرط ہتھیار ڈالنے” کا مطالبہ کیا ہے، ایران نے کسی بھی دباؤ میں مذاکرات یا امن کے امکان کو مسترد کر دیا ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: دھماکے کی لہر کی رفتار سکتی ہے ہوتی ہے ہے اور

پڑھیں:

غزہ نسل کشی میں اسرائیل سمیت 63 ممالک ملوث

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251102-09-2

 

اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ نے وہ حقیقت بے نقاب کر دی ہے جو دنیا کی طاقتور حکومتیں برسوں سے چھپاتی آرہی تھیں۔ رپورٹ کے مطابق غزہ میں گزشتہ دو برسوں کے دوران ہونے والی نسل کشی صرف اسرائیل کی کارروائی نہیں تھی بلکہ تریسٹھ ممالک اس جرم میں شریک یا معاون رہے۔ ان میں امریکا، برطانیہ، جرمنی جیسے وہ ممالک شامل ہیں جو خود کو انسانی حقوق کے علمبردار کہتے نہیں تھکتے۔ رپورٹ نے واضح کیا کہ اسرائیل نے فلسطینیوں کے خلاف جو وحشیانہ کارروائیاں کیں، وہ کسی ایک ملک کی طاقت سے ممکن نہ تھیں بلکہ ایک عالمی شراکت ِ جرم کے نظام کے تحت انجام پائیں۔ یہ رپورٹ مغرب اور بے ضمیر حکمرانوں کا اصل چہرہ عیاں کرتی ہے۔ دو برسوں میں غزہ کی زمین خون میں نہا گئی، لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے، ہزاروں بچے اور عورتیں شہید ہوئیں اور پورا خطہ ملبے کا ڈھیر بن گیا، مگر عالمی ضمیر خاموش رہا۔ بین الاقوامی قانون، انسانی حقوق کے چارٹر اور اقوام متحدہ کے وعدے سب اس وقت بے معنی ہو گئے۔ فرانسسکا البانیز کی رپورٹ نے بتا دیا کہ عالمی طاقتوں نے اسرائیل کے ظلم کو روکنے کے بجائے اسے معمول کا حصہ بنا دیا۔ امریکا نے نہ صرف اسرائیل کو مسلسل عسکری امداد فراہم کی بلکہ سلامتی کونسل میں اس کے خلاف آنے والی ہر قرارداد کو ویٹو کر کے اسے مکمل تحفظ دیا۔ برطانیہ نے اپنے اڈے اسرائیلی جنگی مشین کے لیے استعمال ہونے دیے، جرمنی اور اٹلی نے اسلحے کی سپلائی جاری رکھی، اور یورپی ممالک نے اسرائیلی تجارت میں اضافہ کر کے اس کے معیشتی ڈھانچے کو مزید مضبوط کیا۔ حیرت انگیز طور پر انہی ممالک نے غزہ میں انسانی بحران پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے یو این آر ڈبلیو اے کی فنڈنگ بند کر دی، یوں انہوں نے مظلوموں سے امداد چھین کر ظالم کو سہارا دیا۔ یہ رویہ صرف دوغلا پن نہیں بلکہ کھلی شراکت ِ جرم ہے۔ رپورٹ نے یہ بھی بتایا کہ اسرائیل نے انسانی امداد کو جنگی ہتھیار بنا دیا۔ محاصرہ، قحط، دوا اور خوراک کی بندش کے ذریعے فلسطینی عوام کو اجتماعی سزا دی گئی، اور دنیا کے بڑے ممالک اس جرم پر خاموش تماشائی بنے رہے۔ فضائی امداد کی نام نہاد کوششوں نے اصل مسئلے کو چھپانے کا کام کیا، یہ دراصل اسرائیلی ناکہ بندی کو جواز فراہم کرنے کا ایک طریقہ تھا۔ رپورٹ کے مطابق عرب اور مسلم ممالک نے اگرچہ فلسطینیوں کی حمایت میں آواز اٹھائی، مگر ان کی کوششیں فیصلہ کن ثابت نہ ہو سکیں۔ صرف چند ممالک نے جنوبی افریقا کے کیس میں شامل ہو کر عالمی عدالت میں اسرائیل کے خلاف قانونی کارروائی کی حمایت کی، جب کہ بیش تر مسلم ممالک بیانات اور قراردادوں سے آگے نہ بڑھ سکے۔ یہ کمزوری بھی فلسطینیوں کو انصاف کی فراہمی میں روکاٹ رہی اور اس طرح وہ حکمران بھی شریک جرم ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ نے عالمی دوہرے معیار کو برہنہ کر دیا ہے۔ روس یا کسی اور ملک کے خلاف پابندیاں لگانے والی مغربی دنیا اسرائیل کے معاملے میں خاموش ہے۔ یہ خاموشی دراصل ظلم کی حمایت ہے۔ جب انسانی حقوق کی دہائی دینے والے ملک خود ظالم کے معاون بن جائیں، تو یہ نہ صرف اقوام متحدہ کے نظام پر سوال اُٹھاتا ہے بلکہ پوری تہذیب کی اخلاقی بنیادوں کو ہلا دیتا ہے۔ رپورٹ نے واضح سفارش کی ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تمام فوجی، تجارتی اور سفارتی تعلقات فوری طور پر معطل کیے جائیں، غزہ کا محاصرہ ختم کر کے انسانی امداد کے راستے کھولے جائیں، اور اسرائیل کی رکنیت اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت معطل کی جائے۔ عالمی عدالتوں کو فعال بنا کر ان ممالک کے خلاف بھی کارروائی کی جائے جنہوں نے نسل کشی میں براہِ راست یا بالواسطہ کردار ادا کیا۔ غزہ میں اب تک اڑسٹھ ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ ہر روز نئے ملبے کے نیچے سے انسانی لاشیں برآمد ہوتی ہیں، مگر عالمی طاقتیں اب بھی امن کی بات صرف بیانات میں کرتی ہیں۔ درحقیقت یہ امن نہیں بلکہ ظلم کے تسلسل کو وقت دینا ہے۔ فلسطینیوں کی قربانی انسانیت کے ضمیر کا امتحان ہے۔ اگر دنیا نے اب بھی خاموشی اختیار کی تو آنے والی نسلیں پوچھیں گی کہ جب غزہ جل رہا تھا، جب بچوں کے جسم ملبے تلے دبے تھے، جب بھوک اور پیاس کو ہتھیار بنایا گیا تھا، تب تم کہاں تھے؟

اداریہ

متعلقہ مضامین

  • اسرائیل نے اسماعیل ہنیہ کو کیسے شہید کیا؟ ایران نے حیران کن تفصیلات جاری کردیں
  • پشاور: تھانہ سی ٹی ڈی میں دھماکے کی رپورٹ تیار
  • تہران کاایٹمی تنصیبات زیادہ قوت کیساتھ دوبارہ تعمیر کرنےکا اعلان
  • کس پہ اعتبار کیا؟
  • اسلام آباد : بھاری گاڑیاں فضائی آلودگی کا سب سے بڑا ذریعہ بن گئیں
  • جوہری پروگرام پر امریکا سے براہ راست مذاکرات میں کوئی دلچسپی نہیں‘ایران
  • ایران نیوکلیئر مذاکرات کے لیے تیار، میزائل پروگرام پر ’کوئی بات نہیں کرے گا‘
  • غزہ نسل کشی میں اسرائیل سمیت 63 ممالک ملوث
  • یورینیم افزودگی روکیں گےنہ میزائل پروگرام پر مذاکرات کریں گے: ایران کا دوٹوک جواب
  • جوہری یا میزائل پروگرام پر کسی قسم کی پابندی قبول نہیں ،ایران