اسرائیل، عیسائی صہیونیت اور اسکوفیلڈ بائبل
اشاعت کی تاریخ: 22nd, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اب سے کچھ دنوں قبل اسرائیل میں تعینات امریکی سفیر مائیک ہکابی نے اپنا ایک پیغام سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا تھا جس میں انہوں نے ایران اسرائیل تنازع کو مذہبی تاریخی واقعہ قرار دیتے ہوئے ٹرمپ صدر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ خدا نے آپ کو اسی تاریخی موقع کے لیے صدر بنایا تھا اور اسی موقع کے لیے آپ کو قاتلانہ حملوں سے بچائے رکھا ہے۔ مائیک ہکابی ایونجیلیکل عیسائی ہیں اور مسجد اقصیٰ کو ڈھا کر ہیکل سلیمانی بنانے کے خواہش مند ہیں۔ اسی طرح ٹیکساس سے تعلق رکھنے والے با اثر سینیٹر ٹیڈ کروز نے مشہور میڈیا پرسن ٹکر کارلسن کو ایک انٹرویو دیا جس میں انہوں نے اسرائیل کی سیاسی بنیادوں پر حمایت نہیں کی بلکہ اس کو حکم خداوندی قرار دیا۔ تصور کریں ایسی ہی کوئی بات کوئی مسلم سیاستدان کرے تو کیا ہنگامہ برپا ہوگا۔
امریکی سیاست پر اسرائیل کے مکمل تسلط کے دو پہلو ہیں۔ ایک تو بلیک میلنگ اور پیسوں کے ذریعے سیاستدانوں اور دیگر با اثر لوگوں کو کنٹرول کرنے کی واردات ہے جس میں جیفری ایپسٹین جیسے بلیک میلنگ آپریشن اور صہیونی تنظیم ایپک کے ذریعے رقم کی تقسیم شامل ہے۔ دوسرا پہلو عوامی حمایت کا ہے جس میں خصوصی طور پر ایونجیلیکل عیسائیوں میں اسرائیلی ریاست کی مذہبی بنیادوں پر حمایت شامل ہے۔ ایونجیلیکل عیسائی امریکا کی تیس فی صد آبادی پر مشتمل ہیں اور امریکا کا سب سے بڑا ووٹنگ بلاک ہے۔ ایونجیلیکل عیسائی یہ یقین رکھتے ہیں کہ جب تک اسرائیل کی ریاست پورے مشرق وسطیٰ میں قائم نہیں ہوگی اس وقت تک سیدنا عیسیٰؑ واپس آکر یروشلم سے ایک ہزار سال کی حکومت قائم کرنے واپس نہیں آئیں گے۔
اہم بات یہ ہے کہ بائبل کے کسی بھی ورژن کو دیکھ لیں تو ایسی کوئی بات نہیں ملتی۔ تو پھر کروڑوں ایونجیلیکل عیسائی کیوں یہودیوں سے زیادہ گریٹر اسرائیل کے حامی ہیں۔ ۱۹۰۹ میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے ایک بائبل کا مطالعہ شائع کیا جس کو اسکوفیلڈ ریفرنس بائبل کہتے ہیں۔ سائرس اسکوفیلڈ اس سلسلے میں خود لندن جا کر آکسفورڈ پریس کے عہدیداران سے ملے تھے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ آکسفورڈ پریس کی امریکا سے پہلی اشاعت ہی اسکوفیلڈ کی وجہ سے ہوئی تھی۔ یہ بائبل کنگ جیمز کی بائبل پر دراصل سائرس اسکوفیلڈ کے حاشیوں کا مجموعہ تھا جو انہوں نے جان ڈربی کے نظریات سے مستعار لیے تھے۔ اس طرح پہلی دفعہ صہیونی نظریات کو بائبل کے اندر گھسیڑ دیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ اسکوفیلڈ ریفرنس بائبل کی اشاعت و تقسیم میں روتھس چائلڈز کا سرمایہ لگا تھا۔ اور اس کی اشاعت کا وقت شعوری طور پر بالفور ڈیکلریشن کے اریب قریب کا تھا۔ اسرائیل کے قیام کے اعلان سے پہلے ہی امریکا کے سب سے بڑے مذہبی گروپ میں اسرائیل کی ریاست کے لیے رائے عامہ ہموار کی جارہی تھی۔ آکسفورڈ پریس کی طرف سے یہ بائبل مفت میں بائبل کے سیلز مینوں کو دی جاتی تھی جو کچھ منافع بنانے کے لیے اس کی ترویج کرتے رہے۔ اس کی پرنٹنگ بھی دیگر بائبل کے مقابلے میں اعلیٰ درجے کی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ بائبل امریکا کے کونے کونے میں پھیل گئی۔ سائرس اسکوفیلڈ خود ایک نوسر باز شخص تھا جس کو دھوکا دہی کی وجہ سے اپنے ڈسٹرکٹ اٹارنی کے عہدے سے استعفا دینا پڑا تھا۔ اپنے بیوی بچوں کو بے یار و مددگار چھوڑ کر اس نے ڈیلس ٹیکساس میں ایک چرچ کی بنیاد رکھی اور اپنے نام کے ساتھ بغیر کسی ڈگری کے ڈاکٹر لگانے لگا۔ وہیں اس کی ملاقات راتھس چائلڈز کے لیے کام کرنے والے ایک وکیل سے ہوئی جس نے اس کو ایلیٹس سے متعارف کروایا اور اس کے لیے راتھس چائیلڈز کی سرمایہ کاری کی راہ ہموار کی۔ محسن بھوپالی کا شعر ہے کہ ؎
بات بین السطور ہوتی ہے
شعر میں حاشیے نہیں ہوتے
لیکن اس اسکوفیلڈ ریفرنس بائبل میں ساری بات ہی حاشیوں میں ہے۔ اسکوفیلڈ کے مرنے کے بعد بھی اس کے متعدد ایڈیشن شائع ہوتے رہے اور اس میں حاشیے اتنے بڑھے کہ بائبل کا اصل متن اس کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہی رہ گیا۔ اور یہ حاشیے آخرالزماں کے حوالوں سے بھرے ہوئے تھے جس میں خصوصی طور پر ریپچر کا عقیدہ شامل ہے جس میں سارے عیسائی اور مردہ عیسائی زندہ ہو کر عیسیٰؑ کے ساتھ آسمان کی طرف چلے جائیں گے اور یہ دنیا سات سال تک جنگوں اور تباہیوں میں گھری رہے گی یہاں تک کہ عیسیٰؑ ایک ہزار سال تک حکومت کرنے کے لیے دوبارہ نہ آجائیں۔ آخر الزماں کی ان تمام پیش گوئیوں کو پورا ہونے کے لیے اس ریفرنس بائبل کے حاشیوں کے تحت یہودی گریٹر اسرائیل کا قیام لازمی ہے جس کے بعد ہی ریپچر ممکن ہوسکے گا۔ اس نظریے اور اس کے فروغ نے امریکی عیسائیت کا حلیہ اس قدر بدل دیا ہے کہ یہ عیسائیت نہیں بلکہ بالکل ایک نیا مذہب معلوم ہوتا ہو اور اگر دو سو سال پہلے کا کوئی عیسائی اچانک آجائے اور اسکرینوں پر نمودار ہونے والے شعلہ بیان ٹیلی وینجلیسٹس کو دیکھے تو پہلی نظر میں پہچان نہ پائے کہ یہ عیسائیت کی تبلیغ ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ریفرنس بائبل بائبل کے ا کسفورڈ اور اس کے لیے
پڑھیں:
ایران، اسرائیل جنگ
دنیا اس وقت مفادات کے ٹکراؤ میں گھری ہوئی ہے،اقوامِ عالم پرجنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ ایران بڑا ملک ہے اور اسرائیل چھوٹا۔البتہ اسرائیل ایک بھرپور فوجی طاقت ہے ۔اسرائیل کی معیشت ایران کی بہ نسبت بہت مضبوط ہے۔
شاہ ایران کے دور میں ، ایران مغرب بلکہ یوں کہیے کہ کیپٹلسٹ لیڈر یعنی امریکا کا اتحادی تھا اورآج خامنہ ای کا ایران روس اور چین کا اتحادی ہے۔اسرائیل مغرب کا اتحادی ہے۔مشرق وسطیٰ میں اسرائیل ، مغربی مفادات کی فرنٹ لائن اسٹیٹ ہے۔
روس کو اپنے قومی بیانیے میں سوویت یونین کے ٹوٹنے کا بڑا غم تھا۔سوویت یونین ان ریاستوں کا مجموعہ تھا جو زار بادشاہت نے مختلف ادوار میں ہتھیائی تھیں۔ ان ریاستوں میں بہت سی فارسی بولنے والی مسلم ریاستیں اور بالٹک اسٹیٹ تھیں۔
سوویت یونین جس کا محور تھا روس اور ان کی دوسری بڑی ریاست تھی یو کرین۔دوسری جنگ عظیم کے بعد سوویت یونین دنیا کی سب سے بڑی طاقت تو بنا لیکن معاشی اعتبار سے ان کا ماڈل ناکام رہا،وہ چل نہ سکا۔اس کے سامنے کھڑی مغربی ریاستیں مارکیٹ اکانومی پر کھڑی تھیں، جمہوری تھیں، آزاد تھیں، انسانی حقوق کی پاسداری کی حامی تھیں،ان کے پاس ایجادات اور تحقیق تھی،سوویت یونین ان اقوام کے سامنے ٹھہر نہ سکا۔دوسری جنگ عظیم میں سوویت یونین نے بہت سے یورپی ممالک پر قبضہ کیا۔
جرمنی بھی دو ٹکڑے ہوا۔جرمنی ایک حصہ سوویت یونین کے ساتھ ہوا اور دوسرا یورپ میں۔جن یورپی ممالک پر سوویت یونین نے قبضہ کیا ان کو اپنا اشتراکی نظام دے کر اپنے اتحاد کا حصہ بنایا۔1990 جب یہی کام عراق نے کیا اور کویت پر حملہ کیا تو عراق کو اس حملے کے دور رس نتائج بھگتنا پڑے۔
امریکا نے حملہ کر کے کویت کو آزاد کرا دیا اوراس طرح دنیا میں یونی پولر سسٹم کا آغاز ہوا،جس کو نیو ورلڈ آرڈر کہا جاتا ہے جو اب تک قائم رہا۔ اس نیو ورلڈ آرڈر کو بلآخر چین کی ابھرتی طاقت نے چیلنج کردیا ہے۔ 1990 تک سوویت بلاک اندر سے ٹوٹ پھوٹ گیا ۔ امریکا اور نیٹو نے اس دنیا پر پینتیس سال تک راج کیا،یعنی دنیا یونی پولر سسٹم میں رہی۔
معاملات تب خراب ہوئے جب یو کرین نے یورپی یونین اور نیٹو کا حصہ بننا چاہا۔روس نے یوکرین پر حملہ کردیا،روس کو مشکل وقت کا سامنا کرنا پڑا۔توقع کے خلاف یو کرین نے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔اب روس تھکاوٹ کا شکار ہے۔یوکرین کو امریکا اور یورپی یونین نے بھرپور فوجی امداد دی۔ایک طرف امریکا ، اس کے مغربی اتحادی اور اسرائیل تھے اور دوسرے بلاک میں تھے جو کہ نیا بنا ، چین، روس، ایران اور نارتھ کوریا وغیرہ۔
روس نے ایران کو یہ کہا کہ حماس ، مشرقِ وسطیٰ میں کچھ ایسا کرے کہ دنیا کا رخ اس طرف ہو اور ایسا ہی ہوا۔یہ ایک حیران کن بات تھی کہ حماس نے اسرائیل پر حملہ کر دیا جب کہ اس حملے سے پہلے ہمیشہ حماس نے دفاعی پوزیشن لی۔اسرائیل کو غزہ پر اپنی سفاکیت کا موقعہ مل گیا۔اسرائیل نے غزہ پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑ دیے اور تمام عرب دنیا مجرمانہ خاموشی کے ساتھ اس ظلم کو دیکھتی رہی۔
ایران ایک بہت بڑی قوت تھا۔ ایران نے شام، یمن، حوثی باغی، حماس، حز ب اللہ جیسی بہت سی قوتیںبنائیں ،اسرائیل سے لڑنے کے لیے اور عرب دنیا جو ایران کی طرف جھکی ہوئی تھی ان سے توازن قائم کرنے کے لیے۔چند سال پہلے، عراق میں ایک پاسدارانِ انقلاب رہنما کو امریکا نے ڈرون حملے میں مار دیا تھا۔
پھر جب ایرانی صدر پچھلے سال ہیلی کاپٹر حادثے میںمارے گئے تو ان کی آخری رسومات میں حماس کے بڑے جلا وطن لیڈران نے شرکت کی۔ اسرائیل نے حماس کے لیڈر کا تہران میںڈرون حملے کے ذریعے ایسی جگہ پر نشانہ بنایا جس کا وہم و گمان کسی کو بھی نہیں تھا۔اس سے پہلے اسرائیل نے شام میںایران کی ایجنسی پر حملہ کر کے ان کے سینیئر جرنیل کو مارا۔ایران نے بھی ڈرون حملوں کے ذریعے اسرائیل پر اٹیک کیے لیکن کوئی خاص نقصان ان کو نہ پہنچا سکے۔
اسرائیل نے ایرانی اتحادیوں کو ایک ایک کرکے جنگ میں مصروف کیا اور ان کو تھکا دیا،حزب اللہ پر حملہ کیا، یمن پر حملہ کیا اور ایسا بھی ہوا کہ ایران کے اتحادی، جہاں روس نے اپنی فوجیں بھی بٹھائی ہوئی تھیں، شام کے صدر بشار الاسد کواچانک جہاز میں بیٹھ کر روس میں پناہ لینی پڑی۔
اس طرح ایران اور اسرائیل دو بدو ہوئے۔مودی اور نیتن یاہو نے پاکستان کے خلاف بھی محاذ بنایا ہوا ہے۔بہانے بناکر مودی نے پاکستان پر حملہ کیا۔جس میں اسرائیل کی ٹیکنالوجی کو استعمال کیا گیا۔دنیا کے بہترین جہاز رافیل استعمال کیے گئے۔ پاکستان نے چین کی ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے ہندوستان کے ہوش ٹھکانے لگا دیے۔
تیسرا راؤنڈ جو اس تسلسل کا حصہ ہے وہ اسرائیل اور ایران کی جنگ کی صورت میں نظر آ رہا ہے۔یہ ٹکراؤ اب لمبا چلے گا۔اس خطے میں چین ایک بڑی طاقت کو طور پر ابھر رہا ہے۔ چین کو امریکا کی مدد کی ضرورت نہیں۔چین کی بہت سی کمپنیاں دنیا کی بہترین کمپنیوں میں شمار ہوتی ہیں۔امریکا کی مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی دنیا کو لیڈ کر رہی ہے۔چین نہ صرف معاشی طاقت بن کر ابھر رہا ہے بلکہ امریکا کے بعد ایک مضبوط فوجی طاقت بھی بن گیا ہے مگرچین براہِ راست کسی جنگ میں ملوث نہیں ہونا چاہتا۔
ایران کو اس وقت اپنے اتحادیوں کی مدد کی ضرورت ہے مگر وہ ایران کی مدد اس طرح سے نہیں کر پا رہے ہیں جس طرح سے امریکا ، اسرائیل کی کررہا ہے۔ عرب دنیا بھی خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے،بلکہ بہت سے عرب ممالک اندرونی طور پر اسرائیل کے حمایتی ہیں۔ایران ڈٹ کر اسرائیل کی جارحیت کا مقابلہ کر رہا ہے،مگر ایرانی حکومت پینتالیس سال سے ایران پر حکومت کر رہی ہے اور وہاں کی عوام میں غیر مقبول ہے۔دو مرتبہ ایران میں اس حکومت کے خلاف آواز اٹھائی گئی ہے۔اسرائیل کو اس جنگ سے بہت نقصان ہوا ہے مگر ایران اس رجیم کے ساتھ اس جنگ میں تھک جائے گا۔
ہندوستان اور اسرائیل مل کر پاکستان کی ایٹمی قوت کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ اس سے پہلے پاکستان کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، جب پاکستان نے سی پیک میں شمولیت اختیار کی،ہماری معاشی آزادی کو نقصان پہنچایا گیا، ہمیں دیوالیہ ہونے کی حد تک لایا گیا۔
بلوچستان اور طالبان کے مسائل کو ابھارا گیا۔ہم نے خود وفاق کو پانی کے حوالے سے متنازعہ پروجیکٹ دے کر کمزور بنایا۔ان بیرونی قوتوں کے ساتھ یہاں کی سیاسی پارٹیوں کے ساتھ تعلقات ہیں۔اس وقت ہم بہت مشکل دور سے گزر رہے ہیں اور دنیا سرد اور گرم جنگوں کی لپیٹ میں ہے۔
ایران اگر اسرائیل کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتا ہے تو یہ یہ روس اور چین کے لیے تشویش کی بات ہوگی۔پیوتن روس کے اندر اپنی مضبوطی برقرار نہیں رکھ پائیں گے۔ٹرمپ امریکا کے روایتی صدر نہیں۔وہ دنیا کو بحران کی طرف دھکیل سکتے ہیں اور ایسا بھی ہے کہ جو آج تک کوئی نہ کر سکا وہ ٹرمپ کر گزریں گے۔امریکا کے اندر اس بات پر بھی غور کیا جا رہا ہے کہ کشمیر کا کوئی مستقل حل نکالا جائے اور اس ٹکراؤ کا فائدہ چین اٹھا رہا ہے۔
ہم جس خطے میں ہیں وہ تیسری جنگ ِ عظیم کا مرکز بنتا جا رہا ہے۔اس بار جنگ توپوں اور ٹینکوں سے نہیں بلکہ ٹیکنالوجی سے لڑی جائے گی۔اس جنگ کے کئی سرد نوعیت کے پہلو ہیں۔جیسا کہ سوویت یونین کو تنہا کر کے اقرباء پروروں نے اس کو کھوکھلا کردیا اور جنگ کے بغیر ہی سوویت یونین ٹوٹ گیا۔