بھارتی ہٹ دھرمی برقرار ،سندھ طاس معاہدہ بحال نہ کرنے کا اعلان،پاکستان نے بیان مسترد کردیا
اشاعت کی تاریخ: 22nd, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
نئی دہلی(صباح نیوز)بھارتی وزیر داخلہ ا میت شاہ نے کہا ہے کہ سندھ طاس معاہدہ کبھی بحال نہیں ہو گا، ہم وہ پانی جو پاکستان جا رہا تھا، نہر بنا کر راجستھان لے جائیں گے، پاکستان کو وہ پانی نہیں ملے گا جو اسے مل رہا تھا۔بھارتی اخبار ٹائمز آف انڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے ا میت شاہ نے کہا ہے کہ نئی دہلی اسلام آباد کے ساتھ سندھ طاس معاہدہ کبھی بحال نہیں کرے گا اور پاکستان جانے والے پانی کا رخ اندرون ملک استعمال کے لیے موڑ دیا جائے گا۔ بھارتی وزیر داخلہ نے دعوی کیا کہ پاکستان کو وہ پانی کبھی نہیں ملے گا جو اسے ناجائز طور پر مل رہا تھا۔۔ انہوں نے اصرار کیا کہ اس معاہدے کی بحالی کبھی بھی ممکن نہیں ہو گی۔ بھارت نے 1960میں طے پانے والے اس معاہدے کو اس وقت ”معطل کر دیا تھا، جب مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں ہونے والے ایک حملے میں اس کے 26 شہری مارے گئے تھے۔ بھارتی حکومت نے اس کارروائی کو ”دہشت گردی قرار دیا تھا۔اس معاہدے کے تحت پاکستان کو بھارت سے نکلنے والے تین دریاوں سے 80فیصد زرعی پانی کی ضمانت حاصل تھی۔امیت شاہ نے کہا، ”نہیں، یہ معاہدہ کبھی بحال نہیں ہو گا۔ انہوں نے مزید کہا، ”وہ پانی جو پاکستان جا رہا تھا، ہم اسے ایک نہر بنا کر راجستھان کی طرف لے جائیں گے۔ پاکستان کو وہ پانی نہیں ملے گا جس کا وہ ناحق فائدہ اٹھا رہا تھا۔دوسری جانب ترجمان دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ پاکستان اپنی جانب سے اس معاہدے کا مکمل احترام کرتا ہے اور اپنے جائز حقوق اور مفادات کے تحفظ کے لیے تمام ضروری اقدامات کرے گا۔بھارتی وزیر داخلہ کے سندھ طاس معاہدے کی بحالی کو مکمل طور پر مسترد کرنے سے متعلق بیان پر ترجمان دفتر خارجہ نے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ “یہ بیان بین الاقوامی معاہدوں کی حرمت کی کھلی خلاف ورزی اور سنگین بے حسی کا مظہر ہے، سندھ طاس معاہدہ کوئی سیاسی مفاہمت نہیں بلکہ ایک بین الاقوامی معاہدہ ہے جس میں کسی یک طرفہ اقدام کی کوئی گنجائش نہیں۔انہوں نے کہا کہ بھارت کی جانب سے معاہدے کو معطل کرنے کا غیر قانونی اعلان بین الاقوامی قانون، معاہدے کی شقوں اور ریاستوں کے باہمی تعلقات کے بنیادی اصولوں کی صریح خلاف ورزی ہے۔ ترجمان نے کہا کہ اس قسم کا طرزِ عمل نہایت خطرناک اور غیر ذمے دارانہ نظیر قائم کرتا ہے، جو بین الاقوامی معاہدوں کی ساکھ کو نقصان پہنچاتا ہے اور ایسی ریاست کی سنجیدگی پر سوال اٹھاتا ہے جو کھلے عام اپنے قانونی وعدوں سے انحراف کرتی ہے۔ترجمان کا کہنا تھا کہ پانی کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا غیر ذمے دارانہ فعل ہے اور عالمی سطح پر تسلیم شدہ ریاستی اصولوں کے منافی ہے بھارت کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر اپنے یک طرفہ اور غیر قانونی مقف کو واپس لے اور سندھ طاس معاہدے پر مکمل اور بلا تعطل عملدرآمد کو بحال کرے، پاکستان اپنی جانب سے اس معاہدے کا مکمل احترام کرتا ہے اور اپنے جائز حقوق اور مفادات کے تحفظ کے لیے تمام ضروری اقدامات کرے گا۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: سندھ طاس معاہدہ بین الاقوامی پاکستان کو اس معاہدے کہا ہے کہ وہ پانی رہا تھا نے کہا ہے اور
پڑھیں:
سندھ طاس معاہدہ غیر سیاسی، یکطرفہ کارروائی کی گنجائش نہیں، پاکستان کی امیت شاہ کے بیان پر تنقید
اسلام آباد: دفتر خارجہ نے بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ کے بین الاقوامی معاہدوں کی صریح خلاف ورزی پر شدید تنقید کی ہے، امیت شاہ نے کہا تھا کہ نئی دہلی کبھی بھی اسلام آباد کے ساتھ سندھ طاس معاہدے (آئی ڈبلیو ٹی) کو بحال نہیں کرے گا۔
برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق امیت شاہ نے ہفتے کی صبح ’ٹائمز آف انڈیا‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’نہیں، سندھ طاس معاہدہ کبھی بحال نہیں ہوگا، ہم پاکستان جانے والے پانی کو ایک نہر بنا کر راجستھان لے جائیں گے، پاکستان کو وہ پانی نہیں ملے گا جو وہ بلاجواز حاصل کر رہا تھا‘۔
وزیر اعظم نریندر مودی کی کابینہ کے طاقتور ترین رکن امیت شاہ کے یہ تازہ ترین بیانات ظاہر کرتے ہیں کہ جب اسلام آباد مستقبل قریب میں معاہدے پر مذاکرات کی امید کر رہا ہے، نئی دہلی اس کے برعکس ارادہ رکھتا ہے۔
امیت شاہ کے بیانات پر ردعمل دیتے ہوئے دفتر خارجہ نے کہا کہ ’ ایسے بیانات بین الاقوامی معاہدوں کی حرمت کی صریح خلاف ورزی کو ظاہر کرتے ہیں، اور نشاندہی کی کہ سندھ طاس معاہدہ ایک غیر سیاسی معاہدہ ہے جس میں یکطرفہ کارروائی کی کوئی گنجائش نہیں۔
دفتر خارجہ نے بیان میں کہا کہ بھارت کا معاہدے کو معطل کرنے کا غیر قانونی اعلان بین الاقوامی قانون، معاہدے کی شقوں، اور بین الدولی تعلقات کے بنیادی اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ایسا رویہ ایک غیر ذمہ دارانہ اور خطرناک مثال قائم کرتا ہے، جو بین الاقوامی معاہدوں کی ساکھ کو متاثر کرتا ہے، اور ایک ایسی ریاست کے قابلِ اعتماد اور دیانت دار ہونے پر سنگین سوالات اٹھاتا ہے، جو کھلے عام اپنے قانونی فرائض سے انکار کرتی ہے۔
دفتر خارجہ نے کہا کہ سیاسی مقاصد کے لیے ’پانی کو ہتھیار بنانا‘ ایک غیر ذمہ دارانہ عمل ہے، جو کسی ذمہ دار ریاست کے رویے کے خلاف ہے، اور بھارت سے مطالبہ کیا کہ وہ سندھ طاس معاہدے کی مکمل بحالی کو فوری یقینی بنائے۔
دفتر خارجہ کے بیان کا اختتام ان الفاظ پر ہوا کہ ’پاکستان اپنی طرف سے معاہدے پر مکمل طور پر کاربند ہے اور اپنے جائز حقوق اور حصص کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدام کرے گا‘۔
قبل ازیں جمعہ کی شب اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ نئی دہلی کو سندھ طاس معاہدے کو تسلیم کرنا ہوگا، اور خبردار کیا کہ اگر بھارت معاہدے کی پاسداری سے انکار کرتا ہے تو ’ہم ایک اور جنگ لڑیں گے اور تمام 6 دریا لے لیں گے، ہمیں معلوم ہے کہ اپنے دریاؤں کا دفاع کیسے کرنا ہے۔
اس ماہ کے آغاز میں وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی بھارت کے یکطرفہ فیصلے کی شدید مذمت کی تھی، اسے ’واضح خلاف ورزی اور آبی جارحیت‘ قرار دیتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ پاکستان قومی سلامتی کمیٹی (این ایس سی) کے 24 اپریل کے اجلاس میں کیے گئے فیصلوں کے مطابق بھرپور جواب دے گا۔
گزشتہ ماہ ’رائٹرز‘ نے رپورٹ کیا تھا کہ بھارت ایک اہم دریا سے پانی کی مقدار میں ڈرامائی اضافہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، جو پاکستان کے کھیتوں کو سیراب کرتا ہے۔
اگرچہ دفتر خارجہ نے فوری طور پر ’رائٹرز‘ کے تبصرے کی درخواست کا جواب نہیں دیا، لیکن اس نے پہلے کہا تھا کہ معاہدے میں یکطرفہ طور پر پیچھے ہٹنے کی کوئی شق موجود نہیں، اور پاکستان کو بہنے والے پانی کو روکنا ’جنگی اقدام‘ تصور کیا جائے گا۔
اسلام آباد بین الاقوامی قانون کے تحت بھارت کے اس فیصلے کو چیلنج کرنے کے لیے قانونی راستے تلاش کر رہا ہے۔
مقبوضہ کشمیر کے وزیر اعلیٰ کی مخالفت
مقبوضہ کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے جمعہ کے روز ریاست کا پانی پنجاب اور دیگر ہمسایہ ریاستوں کو منتقل کرنے کی مخالفت کی، اور سوال اٹھایا کہ جب ان کے پاس پہلے ہی 3 دریا ہیں اور جموں و کشمیر پانی کی شدید قلت سے دوچار ہے، تو انہیں مزید پانی کیوں دیا جائے؟۔
عمر عبداللہ نے کہا کہ کوئی یہ (فیصلہ) قبول نہیں کرے گا، کم از کم میں اسے ابھی قبول نہیں کروں گا، پہلے ہمیں اپنا پانی استعمال کرنے دیں، پھر دوسروں کی بات کریں گے، جموں میں خشک سالی جیسی صورت حال ہے، نلکوں میں پانی نہیں آ رہا۔
وہ مرکزی حکومت کے اُس مبینہ منصوبے پر ردعمل دے رہے تھے جس کے تحت سندھ طاس نظام کے 3 مغربی دریاؤں کے اضافی پانی کو منتقل کرنے کے لیے 113 کلومیٹر طویل نہر کی تعمیر کا امکان دیکھا جا رہا ہے۔
عمر عبداللہ نے ماضی میں ’اجھ‘ کثیرالمقاصد منصوبے اور شاہ پور کندی بیراج کے دوران پانی کی تقسیم پر جھگڑوں کے وقت پنجاب کی طرف سے پانی نہ دینے کا حوالہ بھی دیا اور کہا کہ ہم اس وقت شدید بحران کا شکار تھے لیکن انہوں نے ہمیں سالوں تک انتظار کرایا، کئی سال کے بعد ہی شاہ پور کندی بیراج پر کچھ کام ہوسکا ہے۔
Post Views: 5