Daily Ausaf:
2025-08-06@22:35:51 GMT

جنگ میں کون کہاں کھڑا ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 22nd, June 2025 GMT

ایران کی جس ایٹمی صلاحیت کو آڑ بنا کر اسرائیل نے ایران پر حملہ کرنے میں پہل کی، اس کی بنیاد ایران نے امریکہ کے تعاون سے 1957ء میں رکھی تھی۔ اس وقت ڈیوڈ آئیزن ہاور امریکہ کے صدر تھے۔ وہ ریاست ہائے امریکہ کے 34ویں صدر تھے جنہوں نے ایران کے اس اٹامک انرجی پروگرام کا نام ’’ایٹم فار پیس‘‘ رکھا تھا جس کا مطلب ’’امن کا زرہ‘‘ ہے اور جسے آج اسرائیل اپنے لئے خطرہ سمجھ کر ایران پر حملہ آور ہوا۔ 1967 ء کی عرب اسرائیل جنگ میں بھی اسرائیل نے عربوں پر حملہ کرنے میں پہل کی تھی جب اسے معلوم ہوا تھا کہ عرب ممالک اسرائیل پر حملہ کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ یہ جنگ صرف 6دن تک جاری رہی تھی جس میں اسرائیل نے عربوں کو شکست دی۔ اس جنگ میں اسرائیل نے مصر اور شام کی ایئرفورس کو تباہ کر دیا تھا۔ اسرائیل نے اردن کے حملوں کو بھی ناکام بنایا تھا۔ اس جنگ کا خاتمہ اسرائیل کے غزہ سٹرپ، صحرائے سنہا، ویسٹ بنک، گولان کی پہاڑیوں اور ایسٹ یروشلم پر قبضے کی صورت میں ہوا تھا۔ 1967 ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد ایران اسرائیل کی شدید کشمکش کا آغاز 80کی دہائی میں ایران عراق جنگ کے دوران ہوا تھا جب اسرائیل نے ایران پر حملہ کر کے اس کے ’’نیوکلیئر پراسیسنگ پلانٹ‘‘کو تباہ کر دیا تھا۔ اس بار بھی اسرائیل نے بغیر کسی پیشگی اطلاع کے ایران پر حملہ کر کے اس کے ایٹمی پروگرام کو تباہ کرنے کی کوشش کی جس میں ایران کو اعلی فوجی جرنیلوں اور اب تک 80 سے زیادہ سویلین کی شہادتوں کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ اس کے بدلے میں ایرانی کارروائیوں سے اسرائیل کو کتنا نقصان ہوا؟ ایران کے دعوے اپنی جگہ لیکن دنیا الجزیرہ اور ’’فاکس نیوز‘‘کی رپورٹنگ کو نظرانداز نہیں کر سکتی۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ جنگ ہے اور جنگ کے میدان کی گرما گرمی کے ساتھ ’’جنگی دعویٰ جات‘‘ فروخت ہوتے ہیں۔ اسرائیل معاشی طور پر ایران سے زیادہ مضبوط ہے۔ یہ دعویٰ نہیں کیا سکتا کہ ایران یا اسرائیل دونوں جھوٹ بول رہے ہیں۔ البتہ ایک تو اسرائیل میں حالیہ جنگ کے آغاز کے ساتھ ہی نافذ ہونے والی خصوصی سنسر شپ کی بدولت انہی اطلاعات پر انحصار کرنا پڑے گا جو دستیاب ہوں گی۔
اطلاعات کا ایک ذریعہ سوشل میڈیا کی مختلف سائٹس بھی ہیں۔ ان میں کچھ سنجیدہ تجزیے اور ٹھوس اطلاعات ضرور ہیں۔ دوسرا عالمی میڈیا اسرائیل کے زیر اثر ہے۔ انہی اطلاعات کے مطابق جنگ کے آغاز میں اسرائیل نے برتری حاصل کی مگر اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اسرائیل چاہتا ہے کہ امریکہ مداخلت کر کے جنگ بندی کروائے کیونکہ اسرائیل کے مطابق اس نے ایران کی کمر توڑ دی ہے اب وہ اٹھنے کے قابل نہیں رہا ہے یعنی اسرائیل ایران پر حملے سے جو مقاصد حاصل کرنا چاہتا تھا یا تو اس نے وہ مقاصد حاصل کر لیئے ہیں اور یا پھر وہ اندرون خانہ جنگ ہار رہا ہے اور اب وہ جنگ سے فرار چاہتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہی ہے کہ ایرانیوں نے اسرائیلی اندازوں کے برعکس حیران کن جوابی وار کئے ہیں جس سے تل ابیب سے لے کر حیفہ تک اسرائیلی عوام میں خوف کا رقص شروع ہو گیا ہے۔ جنگ کے آغاز میں اسرائیلی شرح اموات کم تھیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ایران کے خلاف جنگی کارروائی کے آغاز پر اسرائیلی حکومت نے اپنے شہریوں کو محفوظ مقامات پر منتقل ہونے کے لئے کہہ دیا تھا۔لیکن سچ یہ ہے کہ جنگ کے ابتدائی چند دنوں کے دوران ایران کی جانب سے اسرائیل پر کئے گئے غیرمعمولی اور منظم میزائل حملوں نے مشرق وسطیٰ میں طاقت کے توازن کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ایرانی حملوں کا صرف عسکری نہیں بلکہ ان کا سیاسی، نفسیاتی اور سماجی اثر بھی نمایاں ہے۔ اسرائیل کے وجود کو جس مسلم ملک ترکی نے سب سے پہلے تسلیم کیا تھا اس کے سربراہ نے بھی اسرائیلی حملوں کی شدید مذمت کی ہے اور گزشتہ سال تک جس سعودی عرب کے وزیر خارجہ نے اسرائیل کو سعودی عرب اور پاکستان سے تسلیم کروانے کے لئے اسرائیل کا خفیہ دورہ کیا تھا، اب اسی سعودی عرب کے ولی عہد نے چند روز قبل ایرانی صدر کو فون کر کے جنگی تعاون کی یقین دہانی کروائی اور اپنے ایک بیان میں کہا کہ ’’پوری اسلامی دنیا ایران اسرائیل جنگ کے حوالے سے متحد ہے۔ اسرائیلی حکومت اور اس کا مین اسٹریم میڈیا دنیا کو یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ صورتحال ان کے مکمل کنٹرول میں ہے، لیکن زمینی حقائق، سوشل میڈیا پر عوامی ردعمل اور غیر سرکاری بیانیئے اسرائیل کے اس سرکاری دعوے کو مکمل طور پر چیلنج کر رہے ہیں۔اسرائیل کی سرکاری رپورٹوں کے مطابق، ان حملوں میں اسرائیل کے کم از کم 18افراد ہلاک اور 200کے قریب زخمی ہوئے ہیں۔ اب تک درجنوں ایرانی میزائل اور ڈرونز اپنے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ حملوں کا نشانہ بننے والے مقامات میں تل ابیب، حیفہ، بیرشیوا، اشدود، اور دیگر اہم شہر شامل ہیں۔ ان علاقوں میں اسرائیلی پینٹاگان، فوجی تنصیبات، تیل کے ذخائر، ریفائنریز، اسلحہ کے گوداموں اور کارخانوں کے علاوہ کچھ رہائشی عمارات بھی تباہ ہوئیں ہیں۔ عینی شاہدین کے مطابق بعض جگہوں پر آگ کئی گھنٹوں تک لگی رہی، اور اسرائیل کے ریسکیو ادارے مکمل طور پر بے بس دکھائی دیئے۔ اگرچہ اسرائیلی حکام نے صرف چند مخصوص مقامات پر نقصانات کو تسلیم کیا ہے، لیکن مختلف ذرائع سے آنے والی ویڈیوز اور تصاویر یہ ظاہر کرتی ہیں کہ اصل نقصان اس سے کہیں زیادہ وسیع اور گہرا ہے۔ان حملوں کے بعد اسرائیل میں معلومات کی ترسیل پر بھی خاصی قدغن دیکھی گئی۔ اسرائیل کے ہزاروں شہریوں نے سوشل میڈیا پر شکایت کی ہیں کہ حملوں کے فورا بعد کئی علاقوں میں انٹرنیٹ اور موبائل نیٹ ورکس بند کر دیئے جاتے ہیں، خاص طور پر وہ مقامات جہاں نقصانات زیادہ ہوئے ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ بعض صارفین نے بتایا کہ ان کی پوسٹس، جن میں وہ میزائل حملوں کے مناظر یا نقصانات کی ویڈیوز شیئر کر رہے تھے، بغیر کسی وضاحت کے سوشل میڈیا سے ہٹا دی گئیں۔ اسرائیلی صارفین نے یہ بھی دعوی کیا کہ ان کی جنگی رپورٹنگ کو بین کیا جا رہا ہے یا اس کی ’’پہنچ‘‘ کم کر دی جاتی ہے۔ ایران، فلسطین کے الفاظ کی حامل پوسٹ اور جنگی مناظر پر مبنی ویڈیوز، ریلز، اور اسٹوریز ’’اپ لوڈ‘‘نہیں ہو رہی ہیں، جبکہ دوسرے مواد پر ایسا نہیں ہے۔
اطلاعات ہیں کہ صرف ’’میٹا‘‘نے جنگ کے پہلے تین دنوں میں 795,000 عربی و عبرانی پوسٹس اور تحاریر ہٹا دیں، اور سوشل میڈیا کے کئی اکائونٹس کو سسپینڈ کر دیا۔ یہ تمام اقدامات اس تاثر کو تقویت دیتے ہیں کہ اسرائیلی حکومت معلوماتی کنٹرول کے ذریعے داخلی بے چینی کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے۔اسرائیلی شہری اس دبا کو کھلے عام محسوس کر رہے ہیں۔ کئی شہروں میں اسکول بند رہے، بازار محدود وقت کے لئے کھلے، اور لوگ اپنی روزمرہ زندگی کو بم شیلٹرز کے ساتھ ہم آہنگ کرنے پر مجبور رہے۔ سیاحتی شعبہ مکمل طور پر مفلوج ہو چکا ہے، اس وقت تقریباً 40 ہزار غیر ملکی سیاح اسرائیل کے مختلف شہروں میں پھنسے ہوئے ہیں کیونکہ فضائی حدود جزوی طور پر بند کر دی گئی ہیں۔ ہوٹلوں، ریلوے سٹیشنز، اور ایئرپورٹس پر غیر معمولی ہجوم دیکھا گیا۔ عوام میں نہ صرف غصہ بڑھ رہا ہے بلکہ ایک قسم کا عدم اعتماد بھی پیدا ہو رہا ہے کہ حکومت ان کے ساتھ مکمل سچائی کا برتا نہیں کر رہی ہے۔اس دوران اسرائیلی حکومت نے مغربی کنارے، مشرقی یروشلم، اور دیگر فلسطینی علاقوں میں سیکورٹی کی آڑ میں شدید پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ درجنوں نئے چیک پوائنٹس قائم کئے گئے ہیں، جن کی وجہ سے فلسطینیوں کی نقل و حرکت سخت متاثر ہوئی ہے۔ کئی جگہوں پر شہریوں کو ہسپتال یا عبادت گاہوں تک جانے کے لئے گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ مسجد اقصی کے گرد اسرائیلی سیکیورٹی فورسز کی موجودگی میں بے پناہ اضافہ کیا گیا ہے۔ صرف معمر افراد کو داخلے کی اجازت ہے۔ جبکہ نوجوانوں اور بچوں کو زبردستی روک دیا گیا ہے۔ اسرائیل میں اگرچہ رسمی طور پر کسی کرفیو کا اعلان نہیں کیا گیا، لیکن اکثر شہروں میں صورتحال عملا ایک مکمل کرفیو جیسی ہے، خاص طور پر مسلمان اکثریتی علاقوں میں۔
یہ تمام صورت حال اس حقیقت کی نشاندہی کرتی ہے کہ ایران کے میزائل حملوں نے صرف فوجی اہداف کو نشانہ نہیں بنایا، بلکہ اسرائیل کے دہائیوں سے اپنی ناقابلِ تسخیر دفاعی طاقت کے دعووں کو بھی خاک میں ملا دیا ہے۔ اب خود اسرائیلی عوام سچائی جاننا چاہتے ہیں، اور عبرانی و اسرائیلی سوشل میڈیا پر یہ مطالبہ زور پکڑ رہا ہے کہ حکومت اصل نقصان کی تفصیلات فراہم کرے۔ یوں اسرائیلی ریاست اپنے داخلی تضادات سے دوچار دکھائی دیتی ہے۔ اگر یہ رجحان جاری رہا، اور عوامی دبا بڑھتا رہا، تو شائد آنے والے دنوں میں اسرائیلی قیادت کو بین الاقوامی محاذ کے ساتھ ساتھ اپنے اندرونی عوامی محاذ پر بھی ایک بڑے چیلنج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اطلاعات پر کنٹرول، اظہارِ رائے کی پابندی، اور حقائق سے چشم پوشی کی پالیسی دیرپا نہیں ہو سکتی۔ ایران کے میزائل بے شک اسرائیل پر کم وقت کے لیئے گریں، لیکن ان کا اثر اسرائیل کی داخلی اور سیاسی ساکھ پر برسوں تک قائم رہے گا۔بہرکیف یہ 1967ء ہے اور نہ ہی 80 کی دہائی ہے۔ اس پر مستزاد امریکی صدارت کی گدی پر امریکی تاریخ کے شاطر ترین صدر مکرمی ڈونلڈ ٹرمپ صاحب بیٹھے ہیں جن کی نظر ’’نوبل پیس پرائز‘‘پر ہے۔ جس طرح انہوں نے پاک بھارت جنگ بندی کروائی، اسی طرح وہ ایران اسرائیل جنگ بھی امید ہے ضرور بند کروائیں گے۔ لیکن اس سے پہلے بہت سی ایسی رکاوٹیں اور مسائل ہیں جو ابھی حل طلب ہیں۔
یاد رہے اسرائیل نے ایران پر عین اس وقت حملہ کیا جب ایران اور اسرائیل کے درمیان مشرق وسطی ہی کے دو ممالک میں ’’مذاکرات‘‘جاری تھے۔ ان مذاکرات کا پہلا دور 12جون کو ہوا اور ابھی 13اور 14 جون کو مذاکرات ہونا تھے کہ اسی دوران اسرائیل نے اچانک علی الصبح ایران پر شدید حملہ کر دیا۔اگر کبھی جنگ بندی ہو گئی تو اس صورت میں ’’مسئلہ فلسطین‘‘حل ہو گا، دیگر مسلمان ممالک اسرائیل کو تسلیم کریں گے یا نہیں اور ایران اپنی ’’پراکسی وارز‘‘کو کہاں تک ختم کرے گا؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب ابھی آنا باقی ہے۔ کیا معطل ایران امریکہ مذاکرات دوبارہ شروع ہونگے اور ہوں گے تو ان کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، ان سوالوں کا سردست صحیح جواب ڈھونڈنا صرف قیاس آرائی ہے۔ مشرق وسطی میں امن کی بحالی دنیا بھر میں امن کی ضمانت ہے۔ دیگر عالمی طاقتوں کو چایئے کہ وہ جنگ بھڑکانے کی بجائے اس کے شعلوں کو بجھانے کے لیئے اپنا کردار ادا کریں، جس میں روس، چین، برطانیہ، فرانس اور جرمنی وغیرہ سرفہرست ہیں۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: اسرائیلی حکومت ایران پر حملہ اسرائیل جنگ میں اسرائیل اسرائیل نے علاقوں میں کہ اسرائیل سوشل میڈیا اسرائیل کے پر حملہ کر کر رہے ہیں ایران کے کہ ایران کے مطابق نے ایران یہ ہے کہ کے ساتھ اور اس کے لئے رہا ہے ہے اور کر دیا جنگ کے ہیں کہ

پڑھیں:

یرغمالیوں کی رہائی اور حماس کی مکمل تباہی دو متضاد آپشنز ہیں، اسرائیلی تجزیہ کار

مبصرین کے مطابق یہ اعتراف نہ صرف اسرائیلی حکومت کی اندرونی شکست کا غماز ہے بلکہ اس بات کا ثبوت بھی کہ حماس، عالمی دباؤ اور بے مثال بمباری کے باوجود، ایک مضبوط اور مؤثر مزاحمتی قوت بن کر ابھری ہے۔ اسلام ٹائمز۔ غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کی غزہ میں جاری خونریزی اور یرغمالیوں کی رہائی کے مذاکرات میں جمود کے بعد ایک سینئر اسرائیلی ماہر نے اعتراف کیا ہے کہ اسرائیل کی موجودہ حکمت عملی مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے اور حکومت کو فوری طور پر ایک فیصلہ کن راستہ چننا ہوگا۔ یروشلم پوسٹ کے مطابق، ویسٹرن گلیلی اکیڈمک کالج کے مذاکراتی ماہر ڈاکٹر اَونیر سار نے عبرانی اخبار معاریو سے گفتگو میں کہا کہ اسرائیلی قیادت ایک خطرناک تزویراتی بحران میں مبتلا ہے۔ ان کے بقول اسرائیلی حکومت ایک وقت میں دو متضاد مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے: یرغمالیوں کی رہائی اور حماس کی مکمل تباہی، جو کہ آپس میں مکمل تضاد رکھتے ہیں۔

ڈاکٹر اَونیر سار کا کہنا تھا کہ اس وقت اسرائیلی حکومت کو ایک واضح اور غیر مبہم فیصلہ لینا ہوگا۔ یا تو وہ یرغمالیوں کو واپس لانے پر توجہ دے، جو ایک اخلاقی، قومی اور عوامی ترجیح ہے، یا پھر غزہ کی مکمل تباہی اور حماس کی جڑ سے بیخ کنی کرے۔ دونوں اہداف ایک ساتھ حاصل کرنے کی کوشش صرف بربادی، وسائل کا ضیاع اور تزویراتی (جنگی حکمت عملی) ناکامی کو گہرا کر رہی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ حماس کے پاس اس وقت سب سے طاقتور ہتھیار یرغمالی ہیں، جو اسے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات میں نہ صرف برتری دیتے ہیں بلکہ اسرائیلی عسکری حکمت عملی کو بھی مفلوج کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ حماس کے پاس موجود یرغمالی تنظیم کے لیے ایک اعلیٰ درجے کا اسٹریٹجک اثاثہ ہیں، جو نہ صرف اسے سودے بازی میں طاقت فراہم کرتا ہے بلکہ اسرائیلی عسکری کارروائیوں کو روکنے، عالمی سطح پر اسرائیلی مظالم کے خلاف آواز کو بلند کرنے اور خود اسرائیلی معاشرے میں تقسیم پیدا کرنے کا بھی ذریعہ بن چکا ہے۔ ڈاکٹر سار کا کہنا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حماس کی پوزیشن مزید مضبوط ہو رہی ہے، کیونکہ اسرائیلی قیادت ابھی تک کسی ایک واضح حکمت عملی پر متفق نہیں۔ ان کے بقول جب تک یرغمالی حماس کے پاس ہیں، تنظیم اپنی شرائط پر ایجنڈا طے کر سکتی ہے، وقت حاصل سکتی ہے اور اپنے عوام میں حمایت حاصل کر سکتی ہے۔

انہوں نے موجودہ بحران میں ایک خطرناک تضاد کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ جتنا حماس کو خدشہ ہے کہ کسی ممکنہ معاہدے کے بعد اسرائیل دوبارہ حملہ کرے گا، اتنا ہی وہ سخت موقف اپناتی جا رہی ہے اور اپنی شرائط میں اضافہ کر رہی ہے۔ ڈاکٹر سار نے تسلیم کیا کہ اگرچہ دونوں فریق اب بھی مذاکرات جاری رکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں، لیکن وقت اسرائیل کے خلاف کام کر رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حماس سیاسی بقا، جنگ بندی اور قیدیوں کی رہائی چاہتی ہے، جبکہ اسرائیل یرغمالیوں کی بازیابی چاہتا ہے۔ مگر اس وقت کا فائدہ صرف حماس کو ہو رہا ہے۔ یہ اعتراف نہ صرف اسرائیلی حکومت کی اندرونی شکست کا غماز ہے بلکہ اس بات کا ثبوت بھی کہ حماس، عالمی دباؤ اور بے مثال بمباری کے باوجود، ایک مضبوط اور مؤثر مزاحمتی قوت بن کر ابھری ہے، جس نے نہ صرف اسرائیلی عسکری برتری کو چیلنج کیا بلکہ اس کے سیاسی فیصلوں کو بھی مفلوج کر دیا ہے۔  

متعلقہ مضامین

  • یرغمالیوں کی رہائی اور حماس کی مکمل تباہی دو متضاد آپشنز ہیں، اسرائیلی تجزیہ کار
  • ایران؛ اسرائیل کو شہید جوہری سائنسدان کی ’لوکیشن‘ فراہم کرنے والے کو پھانسی دیدی گئی
  • ایران نے اسرائیل کے لیے جاسوسی کے الزام میں نیوکلئیر سائنسدان سمیت دو افراد کو پھانسی دے دی
  • ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ پر قبضے کا معاملہ اسرائیل پر چھوڑ دیا
  • بلوچستان، اسرائیلی دلچسپی کا اگلا ہدف؟
  • ایرانی صدر کا دورہ ثبوت ہے کہ پاکستان نے ایران، اسرائیل جنگ میں مثبت کردار ادا کیا، عرفان صدیقی
  • اسرائیل نے ایک نیا نقشہ بنا لیا
  • اسرائیل کی جانب سے حماس کے خاتمے کا اعادہ
  • پی ٹی آئی احتجاج: خیبر پختونخوا میں کہاں کہاں مظاہرے ہوں گے، کون سی اہم شاہراہیں متاثر ہوں گی؟
  • ’غزہ جنگ بند کروائیں‘، اسرائیل کے 600 سے زائد سابق سیکیورٹی عہدیداروں کا امریکی صدر ٹرمپ کو خط