منی پور فسادات، مودی سرکار کی غفلت اور سکیورٹی کی ناکامی ثابت
اشاعت کی تاریخ: 22nd, June 2025 GMT
بھارتی ریاست منی پور طویل عرصے سے مودی سرکار کی سیاسی نااہلی، سماجی غیر ذمہ داری اور سکیورٹی غفلت کا شکار ہے۔
مئی 2023 سے منی پور میں شروع ہونے والی خونی جھڑپیں اب تک متعدد جانیں لے چکی ہیں، جس سے یہ بھی واضح ہو گیا ہے کہ مودی سرکار اپنی ریاستی رِٹ مکمل طور پر کھو چکی ہے۔
این ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق’’بھارتی لیفٹیننٹ جنرل (ر) نیشی کانتا سنگھ نے منی پور بحران کو محض فرقہ وارانہ نہیں بلکہ منظم سیکیورٹی ناکامی کا نتیجہ قرار دے دیا۔
انہوں نے کہا کہ منی پور تصادم دو مرحلوں پر مشتمل تھا، پہلا مرحلہ 3 سے 10 مئی تک جاری رہا، جوکہ چھوٹے پیمانے کی جھڑپوں پر مبنی تھا، دوسرا مرحلہ 27 اور 28 مئی کو منظم حملوں کی صورت میں شروع ہوا۔
لیفٹیننٹ جنرل (ر) نیشی کانتا سنگھ نے کہا کہ وادی امفال کو چاروں اطراف سے گھیر کر بھارتی سکیورٹی فورسز کو مکمل طور پر بے بس کر دیا گیا، منی پور کے پولیس اسٹیشنوں سے چار ہزار سے زائد ہتھیار بھی چوری ہوئے۔
این ڈی ٹی وی کے مطابق منی پور میں خواتین سے زیادتی، گھروں کی تباہی اور معصوم عوام کے قتل پر مودی سرکار کی مجرمانہ خاموشی ریاستی بے حسی کی واضح مثال ہے، اس تمام صورتحال کے باوجود، حکومت کی جانب سے نہ کوئی واضح پالیسی سامنے آئی اور نہ ہی کوئی ہنگامی سیکیورٹی پلان نافذ کیا گیا۔
این ڈی ٹی وی کی رپورٹ میں کہا گیا کہ سیکیورٹی ناکامی چھپانے کے لیے ریاست بھر میں انٹرنیٹ کی بندش اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے داخلے پر مکمل پابندی عائد ہے، منی پور کے پچاس ہزار سے زائد شہری اپنے گھروں سے بے دخل ہو کر ریلیف کیمپوں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ سرکاری اداروں کی غفلت کے نتیجے میں 180 سے زائد افراد ہلاک جبکہ سیکڑوں دیہات مکمل طور پر خاکستر ہو چکے ہیں۔
منی پور ایک ایسی ریاست بن چکی ہے جہاں حکومتی ادارے محض علامتی حیثیت رکھتے ہیں، یہ سارا منظرنامہ اس سوال کو جنم دیتا ہے کہ آیا بھارت واقعی ایک متحد اور محفوظ ریاست ہے؟، منی پور جیسے علاقے بھارتی نظام کی کھلی دراڑوں کو بے نقاب کرتے ہیں۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: مودی سرکار منی پور
پڑھیں:
جوہری ہتھیار کسی تیسرے ملک کو دیے جائیں گے؟ پاکستانی دفتر خارجہ نے واضح اعلان کردیا
پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان شفقت علی خان نے کہا ہے کہ موجودہ باہمی تزویراتی دفاعی معاہدہ کسی تیسرے ملک کے خلاف خطرے کے طور پر استعمال نہیں ہوگا۔
ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی خان نے ہفتہ وار بریفنگ کے دوران ایک سوال کے جواب میں کہا کہ آیا پاک سعودی تزویراتی دفاعی معاہدہ صرف اسرائیل کو نشانہ بنانے کے لیے ہے یا اس کا وسیع تر ایجنڈا ہے، اور کیا پاکستان اپنے جوہری ہتھیار اب تیسرے ملک کو پیشکش کر رہا ہے؟ اس پر ترجمان نے کہا کہ ’پاکستان اور سعودی عرب کا تاریخی برادرانہ تعلق ہے جسے اب نئی بلندیوں پر لے جایا جا رہا ہے، معاہدے کا مقصد صرف استحکام ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے باہمی تعلقات منفرد اور دیرینہ ہیں، دونوں ممالک کی قیادت ان تعلقات کو نئی بلندیوں پر لے جانا چاہتی ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی تعلقات 1960 سے جاری ہیں، موجودہ باہمی تزویراتی دفاعی معاہدہ کسی تیسرے ملک کے خلاف خطرے کے طور پر استعمال نہیں ہوگا۔
فتنہ الخوارج سے متعلق وزیر اعظم کے بیان پر ایک سوال کے جواب میں ترجمان نے کہا کہ وزیر اعظم کا بیان نہایت واضح ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ اچھے ہمسائیگی والے تعلقات چاہتے ہیں۔ یہ بیان افغانستان کو سفارتی ذرائع سے بھجوایا گیا ہے۔ نمائندہ خصوصی صادق خان کا دورہ معمول کا ہے، جونہی ان کا نیا دورہ افغانستان طے ہوگا، میڈیا کو آگاہ کیا جائے گا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ بگرام ایئربیس سے متعلق بیانات پر ردعمل دیتے ہوئے ترجمان نے کہا کہ بگرام کا معاملہ کابل میں افغان حکومت اور امریکی حکومت کا باہمی معاملہ ہے، ہم اُن ملکوں کی خودمختاری کا احترام کرتے ہیں۔
اس سے قبل وزیراعظم کے دورے پر بریفنگ دیتے ہوئے ترجمان دفتر خارجہ نے بتایا کہ سعودی فرمانروا کی دعوت پر وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف نے 17 ستمبر کو سعودی عرب کا سرکاری دورہ کیا۔ سعودی ولی عہد اور وزیراعظم محمد بن سلمان نے ریاض میں وزیراعظم کا استقبال کیا۔ دونوں ملکوں کے درمیان وفود کی سطح پر بات چیت ہوئی جس میں تاریخی اور تزویراتی تعلقات سمیت کئی امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس موقع پر وزیراعظم شہباز شریف اور سعودی ولی عہد نے تزویراتی مشترکہ دفاعی معاہدے پر دستخط کیے۔
معاہدے کے مطابق ایک ملک پر حملہ دونوں ملکوں پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے گرم جوش میزبانی پر محمد بن سلمان کا شکریہ ادا کیا اور خادم الحرمین الشریفین کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا۔ ولی عہد نے بھی پاکستانی عوام کے لیے امن اور خوشحالی کی خواہش کا اظہار کیا۔
9 ستمبر کو دوحہ پر اسرائیلی حملے کے تناظر میں عرب اسلامک سمٹ کا ہنگامی اجلاس ہوا جس میں 50 اسلامی ممالک کے سربراہان نے شرکت کی۔ سمٹ کا مشترکہ اعلامیہ مسلم اُمہ کے اتحاد اور اسرائیل کے خلاف یکجہتی کا مظہر تھا۔ اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی وزیراعظم شہباز شریف نے کی، جبکہ آرمی چیف فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر بھی اُن کے ہمراہ تھے۔ وزیراعظم نے اسرائیلی جارحیت کے خلاف مسلمان ممالک کے اتحاد پر زور دیا اور فلسطینی کاز کے لیے پاکستان کے غیر متزلزل عزم کا اعادہ کیا۔ انہوں نے اسرائیلی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے 7 نکاتی منصوبہ بھی پیش کیا۔
سمٹ کے موقع پر وزیراعظم نے قطر کے امیر، سعودی ولی عہد، اُردن کے بادشاہ اور مصر و ایران کے صدور سے بھی ملاقاتیں کیں۔
دوسری جانب صدر آصف علی زرداری اس وقت چین کے دورے پر ہیں جہاں انہوں نے اعلیٰ چینی حکام سے ملاقاتیں کیں۔ صدر زرداری نے چین کی لڑاکا طیارے بنانے والی فیکٹری کا دورہ بھی کیا اور پاکستان کے فضائی دفاع میں جے ایف-17 اور جے-10C طیاروں کے کردار کو سراہا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں