خطے میں پائیدار امن کے لیے مسئلہ کشمیر کا حل ناگزیر ہے، اسحاق ڈار WhatsAppFacebookTwitter 0 22 June, 2025 سب نیوز

استنبول (آئی پی ایس )نائب وزیراعظم اور وزیرخارجہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ ایران پر اسرائیلی جارحیت کی سخت مذمت کرتے ہیں، مشرق وسطی میں بڑھتی کشیدگی پر تشویش ہے، ایران کو دفاع کا حق حاصل ہے، اسرائیلی جارحیت سے عالمی امن کو خطرہ ہے۔

استنبول میں او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس میں ایران کے خلاف اسرائیلی جارحیت کے حوالے سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ مشرق وسطی میں بڑھتی کشیدگی پر تشویش ہے، ایران کے خلاف اسرائیلی جارحیت کی شدید مذمت کرتے ہیں۔اسحاق ڈار نے کہا کہ اسرائیلی جارحیت سے عالمی امن کو خطرہ ہے، اسرائیلی اقدامات عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہیں، اسرائیلی جارحیت سے خطے کے امن کو شدید خطرات لاحق ہیں۔

وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ یو این چارٹر کے تحت ایران کے حق دفاع کی مکمل حمایت کرتے ہیں، اسرائیل کے معاملے پر دہرا معیار اپنایا جاتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ مذاکرات سے ہی ایران اور اسرائیل جنگ کا حل ممکن ہے، پاکستان علاقائی امن و استحکام کے لیے تمام اقدامات کررہا ہے، قیام امن کے لیے اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے غزہ میں فوری اور غیر مشروط اور مستقل جنگ بندی کا بھی مطالبہ کیا۔اسحاق ڈار نے مزید کہا کہ خطے میں پائیدار امن کے لیے مسئلہ کشمیر کا حل ناگزیر ہے، بھارت کو پاکستان کا پانی روکنے کی اجازت نہیں دیں گے، بھارت نے پانی روکا تو اسے جنگی اقدام تصور کیا جائے گا۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرآسٹریلیا، نیوزی لینڈ، یورپی یونین، جاپان نے ایرانی جوہری صلاحیت کو دنیا کیلئے خطرہ قرار دیدیا آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، یورپی یونین، جاپان نے ایرانی جوہری صلاحیت کو دنیا کیلئے خطرہ قرار دیدیا ایران کو غیرملکی جارحیت کیخلاف اپنے دفاع کا حق حاصل ہے، بیرسٹر گوہر ایران کی جوہری سائٹس پر حملے جنگی جرائم ہیں، مشاہد حسین سید ٹرمپ کی نوبل انعام کیلئے نامزدگی غلامی کی آخری حد ہے، بیرسٹر سیف پاکستان تحریک انصاف کی ایران پر امریکی حملوں کی شدید الفاظ میں مذمت وزیر اعظم شہباز شریف کا ایران کے صدر سے ٹیلی فونک رابطہ ، پاکستان کی غیر متزلزل یکجہتی کا اعادہ TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: اسرائیلی جارحیت اسحاق ڈار نے امن کے لیے ایران کے

پڑھیں:

دوحا پر اسرائیلی جارحیت خطے کے ممالک کیلئے مقام عبرت

اسلام ٹائمز: اسی طرح اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے کے خواہاں حکمرانوں خاص طور پر امریکہ اور اسرائیل کے سامنے گھٹنے ٹیک دینے والے لبنانی حکمرانوں سے بھی چند سوالات ہیں: کیا قطر میں حماس کے پاس اسلحہ اور فوجی سازوسامان تھا جس سے اسرائیل کی قومی سلامتی کو خطرہ لاحق تھا؟ کیا قطر کی فوجی طاقت اسرائیل کے لیے خطرہ ہے؟ کیا جولانی کی سربراہی میں شام حکومت اسرائیل کی قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہے؟ کیا فلسطین اتھارٹی کا اسلحہ اسرائیل کے لیے خطرہ ہے؟ ان سب نے اسرائیل کی خدمت کی ہے اور اسے تعلقات استوار کیے ہیں لیکن اس کے باوجود اسرائیل شام پر بمباری، قطر پر حملے اور فلسطین اتھارٹی کا محاصرہ کرنے سے باز نہیں آیا اور حتی ترکی کو بھی خفیہ بمباری کے ذریعے وہاں موجود حماس رہنماوں کی ٹارگٹ کلنگ کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ تحریر: نسیب حطیط (لبنانی تجزیہ کار)
 
اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے قطر پر فضائی حملے کے ذریعے حماس رہنماوں کی ٹارگٹ کلنگ کی ناکام کوشش کے چند ہی گھنٹے بعد قطر کے چینل الجزیرہ نے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی لائیو تقریر نشر کی جس میں اس نے حماس رہنماوں پر قاتلانہ حملے پر فخر کا اظہار کرتے ہوئے اس کی ذمہ داری قبول کی اور مزید دھمکی دی کہ اگلے مرحلے میں اسرائیل کے اسٹریٹجک اتحادی اور حماس کے اتحادی ترکی کو ٹھیک قطر کی طرح نشانہ بنائے گا۔ اسرائیل نے بارہا ثابت کیا ہے کہ مشرق وسطی میں کسی ملک کی خودمختاری اور ملکی سالمیت کا احترام نہیں کرتا اور اسے حتی اپنے اتحادیوں، دوستوں، نوکروں اور ایجنٹوں کی بھی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ اسرائیلی حکمرانوں کی نظر میں تمام عرب "غیر یہودی" ہونے کے ناطے ان کے غلام ہیں، چاہے فرمانروا ہوں، امیر ہوں یا صدر ہوں اور چاہے مجاہد، سپاہی یا عام شہری ہوں۔
 
اسرائیل نے خلیجی ریاستوں پر حکمفرما اس "خیالی فضا" کو ختم کر دیا جس کی بنیاد اسرائیل سے دوستانہ تعلقات، امریکہ اور برطانیہ کے فوجی اڈوں کی تشکیل، امریکہ کو بھتہ دینے اور تحائف دینے کے ذریعے اپنی سیکورٹی یقینی بنانے جیسے اوہام پر استوار تھی۔ خلیجی ریاستوں کی جانب سے امریکہ اور اسرائیل کو دیے گئے اہم ترین تحائف میں فلسطین کاز سے دستبرداری اور لبنان، یمن اور عراق میں اسلامی مزاحمتی گروہوں کے خلاف اقدامات شامل ہیں۔ عرب حکمرانوں نے شام میں صدر بشار اسد کی حکومت گرا کر اسے تکفیری گروہوں کے حوالے کر دیا۔ ایسا تکفیری گروہ جس نے اعلان کیا کہ اسرائیل اس کا دشمن نہیں ہے اور اسرائیل سے دوستانہ تعلقات استوار کرنے کے لیے مذاکرات شروع کرنے کے ساتھ ساتھ شام کے جنوبی حصوں پر اسرائیلی فوجی قبضے کو قانونی حیثیت دینے کا بھی آغاز کر دیا ہے۔ یہ امریکہ اور اسرائیل کو عرب ممالک کا سب سے بڑا تحفہ تھا۔
 
کوئی عرب ملک قطر کی مانند میڈیا اور سیاست کے شعبے میں اسرائیل اور امریکہ کی خدمت نہیں کر سکتا۔ قطر کے چینل الجزیرہ نے "عرب اسپرنگ" کی قیادت کی اور حقائق کو مسخ کر کے پیش کیا۔ یوں یہ چینل تمام عرب محاذوں پر مجاہد کی حیثیت سے سرگرم رہا اور فلسطین خاص طور پر غزہ میں اسرائیل کی آنکھوں کا کردار ادا کیا۔ اس بارے میں جو حقائق چھپے ہوئے ہیں وہ ان سے کہیں زیادہ ہیں جو منظرعام پر آ چکے ہیں۔ دوحا پر اسرائیل کے فضائی حملے نے قطری حکمرانوں کے ساتھ ساتھ ان تمام سازباز کرنے والوں کو بھی مشکل امتحان میں ڈال دیا ہے جو اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے اور اقتدار میں باقی رہنے کی خاطر اسرائیلی دشمن کا ہاتھ چومنے کے لیے جلدبازی کا شکار تھے۔ قطر پر اسرائیلی حملے کے بارے میں دو امکان پائے جاتے ہیں جو دونوں ان کے لیے بہت تلخ ہیں:
 
پہلا امکان یہ کہ اسرائیل نے پیشگی اطلاع کے بغیر قطر پر فضائی حملہ انجام دیا ہے۔ ایسی صورت میں قطری حکمرانوں کو شرمندگی کا احساس ہونا چاہیے کیونکہ 1990ء کے عشرے سے اسرائیل سے سفارتی تعلقات برقرار ہونے کے باوجود وہ قطر کی خودمختاری اور قومی سلامتی کے تحفظ میں ناکام رہے ہیں۔ دوسرا امکان یہ ہے کہ اسرائیل نے قطر کی خودمختاری کا احترام ملحوظ خاطر رکھا اور امریکہ کے ذریعے قطر کے حکمرانوں کو مطلع کر کے یہ حملہ انجام دیا ہے۔ یہ پہلے سے زیادہ سنگین مسئلہ ہے اور قطر کے حکمران زیادہ مشکل صورتحال کا شکار ہو جاتے ہیں۔ زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ اگر خطے میں امریکہ کا سب سے بڑا فوجی اڈہ "العدید" قطر میں ہے اور سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں میں موجود امریکہ کے تمام فضائی دفاعی نظام اسرائیلی جنگی طیاروں کو روکنے میں ناکام ہوئے ہیں تو اس کا مطلب کیا بنتا ہے؟
 
اسی طرح اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے کے خواہاں حکمرانوں خاص طور پر امریکہ اور اسرائیل کے سامنے گھٹنے ٹیک دینے والے لبنانی حکمرانوں سے بھی چند سوالات ہیں: کیا قطر میں حماس کے پاس اسلحہ اور فوجی سازوسامان تھا جس سے اسرائیل کی قومی سلامتی کو خطرہ لاحق تھا؟ کیا قطر کی فوجی طاقت اسرائیل کے لیے خطرہ ہے؟ کیا جولانی کی سربراہی میں شام حکومت اسرائیل کی قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہے؟ کیا فلسطین اتھارٹی کا اسلحہ اسرائیل کے لیے خطرہ ہے؟ ان سب نے اسرائیل کی خدمت کی ہے اور اسے تعلقات استوار کیے ہیں لیکن اس کے باوجود اسرائیل شام پر بمباری، قطر پر حملے اور فلسطین اتھارٹی کا محاصرہ کرنے سے باز نہیں آیا اور حتی ترکی کو بھی خفیہ بمباری کے ذریعے وہاں موجود حماس رہنماوں کی ٹارگٹ کلنگ کی دھمکیاں دے رہا ہے۔
 
اے حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح کرنے میں جلدبازی کرنے والے لبنانی حکمرانو، آپ لوگوں کے پاس مزاحمت کے علاوہ اسرائیل کو تحفے میں دینے کے لیے کیا ہے؟ نہ آپ کے پاس دولت ہے جو قطر کے پاس ہے، نہ سیاسی کردار ہے جو قطر کے پاس ہے، نہ میڈیا طاقت ہے جو قطر کے پاس ہے، لہذا اسرائیل کبھی بھی آپ لوگوں کو احترام نہیں دے گا۔ اسرائیل اور امریکہ سے صرف طاقت کی زبان میں بات کی جا سکتی ہے۔ امریکہ اور اسرائیل صرف طاقتور کو اہمیت دیتے ہیں اور ان کی نظر میں معاہدوں، مفاہمتی یادداشتوں اور بین الاقوامی قوانین کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ وہ صرف مزاحمت کی زبان سمجھتے ہیں اور اس کے بل بوتے پر احترام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ لہذا حزب اللہ کے پاس جو ہتھیار ہیں وہ لبنان کی طاقت کا باعث ہیں۔ کیا آپ اس طاقت کو گنوا دینا چاہتے ہیں؟

متعلقہ مضامین

  • دوحا پر اسرائیلی جارحیت خطے کے ممالک کیلئے مقام عبرت
  • مسئلہ کشمیر کے بغیر  بھارت سے تعلقات ممکن نہیں، وزیر اعظم
  • ڈی جی آئی ایس پی آر کا کیڈٹ کالج پلندری کا دورہ
  • مسئلہ کشمیر اور فلسطین کے حل کے بغیر دنیا کا امن ادھوار ہے، زرداری
  • مسئلہ کشمیر اور فلسطین کے حل کے بغیر دنیا کا امن ادھوار ہے: آصف زرداری  
  • مسئلہ کشمیر اور فلسطین کے حل کے بغیر دنیا کا امن ادھوار ہے، صدر مملکت
  • مسئلہ کشمیر حل کئے بغیر پاک بھارت تعلقات قائم نہیں ہو سکتے: وزیراعظم
  •  مسئلہ کشمیر حل کئے بغیر پاک، بھارت تعلقات قائم نہیں ہو سکتے: وزیراعظم شہباز شریف 
  • مسئلہ کشمیر حل کئے بغیر پاک بھارت تعلقات قائم نہیں ہو سکتے، شہباز شریف
  • مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر بھارت سے کوئی بات نہیں ہوسکتی، وزیراعظم شہباز شریف