اسلام آباد:

پاکستان میں ایرانی سفیر رضا امیری مقدم نے کہا ہے کہ امریکا نے ایران کے ایٹمی تنصیبات پر حملہ کیا لیکن اپنا دفاع جاری رکھیں گے اور اس جنگ میں بھی پہلی جنگوں کی طرح کامیاب ہوں گے لیکن ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال ہمارے دفاع میں شامل نہیں ہے۔

اسلام آباد میں تعینات ایرانی سفیر رضا امیری مقدم نے اسلام آباد میں پریس کلب میں امریکا اور اسرائیل کی طرف سے ایران پر حملے سے متعلق میڈیا کو بریفنگ دی اور انہوں نے کہا کہ 13 جون کو امریکی وفد کے ساتھ مذاکرات طے تھے، اس کے باوجود اسرائیل نے بلااشتعال حملہ کیا اور ہمارے کمانڈرز، سائنس دانوں اور شہری آبادی کو شہید کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ یہ حملہ تمام بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے، اسرائیل کی ناجائز حکومت نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے نیوکلیئر پروگرام پر حملہ کیا ہے، ہمارے ایٹمی پروگرام پر پہلے سے سخت مانیٹرنگ ہے، ناجائز صہیونی ریاست نے این پی ٹی کا ممبر ہونے کے باجود ایران پر حملہ کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے سپریم لیڈر نے اعلان کیا کہ ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال ممنوع ہے، ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال ہمارے دفاع میں شامل نہیں ہے۔

ایرانی سفیر نے کہا کہ ہمارے اوپر حملہ غزہ اور فلسطین سے متعلق واضح مؤقف رکھنے پر کیا گیا، آج صبح امریکا نے ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کیا، افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے امریکا نے اسرائیل کی مدد کی ہے۔

رضا امیری مقدم نے کہا کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق اپنے دفاع کا پورا حق رکھتے ہیں اور ہم اپنا دفاع جاری رکھیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہم اس جنگ میں بھی پہلی جنگوں کی طرح کامیاب ہوں گے، ہمیں مسلم امت کی حمایت حاصل ہے، دفاع اپنے اسلحے سے جاری و ساری ہے، ہمارا ایٹمی پروگرام پرامن مقاصد کے لیے تھا جس سے بجلی اور ادویات پیدا کرنا تھا۔

ایرانی سفیر نے کہا کہ طاقت ور ممالک طاقت کی زبان میں ہماری راہ میں رکاوٹ بنے ہیں، عمارات کو نقصان پہنچانے سے پروگرام رکے گا نہیں، ایران کا ایٹمی پروگرام آگے چلے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکسان کے آرمی چیف اور ٹرمپ کی ملاقات پر تبصرہ نہیں کروں گا، ٹرمپ کو نوبل انعام دینا تاریخ کا عجیب واقعہ ہو گا، ٹرمپ امریکی کانگرس کی تجاویز پر بھی عمل نہیں کر رہا اور جنرل سلیمانی کو شہید کرنے میں بھی ٹرمپ کا ہاتھ تھا۔

ایک سوال پر ایرانی سفیر نے کہا کہ امریکا نے مغربی سمت سے حملہ کیا ہے، اسلامی ممالک کو اگر سپورٹ کرنا ہے تو غزہ کی کرنی چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ جاسوس گرفتار ہونے کی تعداد کا علم نہیں ہے، شہریت کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا تاہم جاسوسی میں بعض ایرانی بھی تھے جن میں سے ایک ایرانی شہری کو آج سزائے موت دی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ امریکا اور اسرائیلی جنگ کو خطے میں پھیلانا چاہتے ہیں، ہم چاہیں گے کہ جنگ کو کسی دوسرے اسلامی ممالک میں نہ پھیلنے دیا جائے، رجیم چینج بارے میں انقلاب کے بعد سے باتیں ہو رہی ہیں، رجیم چینج اور مذاکرات کی بات کی یہ دونوں خواہشات پوری نہیں ہو سکتی ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ ایرانی سفیر پر حملہ کیا امریکا نے نہیں ہے

پڑھیں:

بدلتی دنیا میں ہم کہاں ہیں؟

اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا بہت تیزی سے بدل رہی ہے۔ تبدیلی کی رفتار وقت کے ساتھ تیز تر ہو رہی ہے، بلکہ اب تو رفتار اس قدر تیز ہے کہ انسان کو ان تبدیلیوں کے ساتھ قدم ملانا اور سانس بحال رکھنا مشکل ہو رہا ہے۔ 70 کی دہائی میں امریکا کے ایک معروف ماہر سماجیات ایلون ٹافلر نے دو کتابوں (Third Wave & Future Shock) میں ایجادات کے حوالے سے دنیا کے بدلاؤ کی تاریخ اور نئے امکانات کا چشم کشا تجزیہ پیش کیا۔ خلاصہ یہ تھا کہ ایک وقت تھا دنیا کے ایک سرے سے آخری سرے تک انسانی ایجاد کو پہنچنے میں 800 سال لگ جاتے لیکن صنعتی ترقی کے دور اور بڑے بڑے شہروں میں یونیورسٹیز، تحقیقات، لیبارٹریز اور ٹیکنالوجیز کے مراکز قائم ہونے سے تبدیلیوں کا یہ سفر صدیوں سے سکڑ کر مہینوں بلکہ ہفتوں میں سمٹ آیا ہے۔

گزشتہ تین چار صدیوں سے نئی ایجادات کے مراکز امریکا، یورپ یا دیگر ممالک میں ہیں جب کہ مسلمانوں کے ہاں کوئی ایک بھی ایسا مرکز موجود نہیں۔ اسی لیے جدید ایجادات میں ہمارا کوئی حصہ نہیں ہے۔ گزشتہ پچاس سالوں کے دوران البتہ ایشیاء کے کئی ممالک نے صدیوں کا سفر دہائیوں میں طے کرکے امریکا اور یورپ کی ہمسری کر کے دنیا کو حیران کر دیا ہے۔ فی زمانہ نئی ٹیکنالوجیز اور موزوں کاروباری ماحول یعنی ایکو سسٹم جدت اور ایجادات کے نئے مراکز تشکیل دے رہا ہے۔ 

صنعتی ترقی اب چوتھے دور یعنی 4.0 میں سرپٹ دوڑ رہی ہے جہاں ٹیکنالوجیز اور ایجادات کا نیا جہان تشکیل پارہا ہے۔ نئے پیٹنٹس اور نئے سائنسی خیالات پر مبنی تحقیقی پیپرز کی اشاعت اب تک عالمی ایجاد سازی ماپنے کے معروف پیمانے تھے مگر اس سال کا گلوبل انوویشن انڈکس 2025 جسے یو این او کا ادارہ WIPRO ترتیب دیتا ہے، اس میں ایک تیسرا فیصلہ ساز پہلو بھی شامل کیا گیا، یعنی وینچر انویسٹمنٹ کی فراہمی۔ تیسرے عنصر کی شمولیت سے اس سال کی گلوبل رینکنگ گزشتہ سالوں سے مختلف ہے مگر مستقبل کے ٹیکنالوجی مراکز، ممالک اور شہروں کا پتہ دیتی ہے جو آنے والے سالوں میں دنیا پر ایجادات اور جدت طرازی کے راہبر ہوں گے۔ 100 ایسے مراکز کی فہرست میں پہلے 50 میں کوئی مسلم ملک موجود نہیں۔ 51 سے 100 کی فہرست میں چار مسلم ممالک شامل ہیں، ترکی 58ویں، ایران 64 ویں، مصر 83ویں اور ملائیشیا 86ویں نمبر پر ہے…!

دنیا کا منظرنامہ بدل رہا ہے، جو کل خواب تھا، آج حقیقت ہے اور جو آج حقیقت ہے، کل فرسودہ لگے گا۔ گلوبل انوویشن انڈیکس 2025 کی حالیہ رپورٹ کا خلاصہ یہ ہے کہ مستقبل کے قلعے تلواروں یا توپوں سے نہیں بلکہ جدت، اختراع اور ٹیکنالوجی کے ایوانوں میں تعمیر ہوں گے۔ معیشت اور معاشرت کے مراکز اب وہاں نہیں جہاں بندرگاہیں یا تیل کے کنویں ہیں بلکہ وہاں ہوں گے جہاں نئی ایجادات کو جنم دینے کے لیے دماغ، تحقیق اور سرمایہ یکجا ہوتے ہیں۔

اس رپورٹ کے مطابق دنیا کے ٹاپ 100 انوویشن کلسٹرز ستر فیصد عالمی پیٹنٹ فائلنگز اور وینچر کیپیٹل ڈیلز کے حامل ہیں۔ گویا دنیا کا بیشتر دماغ اور سرمایہ چند مخصوص جغرافیوں میں سکڑ کر رہ گیا ہے۔ اگر نظر ٹاپ ٹین پر ڈالیں تو وہ اکیلے ہی تقریباً چالیس فیصد پیٹنٹ اور پینتیس فیصد سرمایہ کاری کے حامل ہیں۔ شینزین، ٹوکیو، سان ہوزے، بیجنگ اور سیول جیسے مراکز آنے والے کل کے عالمی ٹیکنالوجی نقشے کے خدوخال طے کر رہے ہیں۔ یہ شہر صرف جغرافیائی شناخت نہیں ہیں بلکہ یہ طاقت کے نئے مراکز ہیں یعنی نئے روم، نئے بغداد!

چین اس رینکنگ میں 24 کلسٹرز کے ساتھ ٹاپ پر ہے جس سے اس نے یہ ثابت کیا کہ تحقیق اور سرمایہ کاری کا ملاپ کس طرح عالمی طاقت کا روپ دھارتا ہے۔ امریکا کے 22 کلسٹرز سلیکان ویلی سے لے کر مشرقی ساحل تک پھیلے ہوئے ہیں اور دنیا بھر سے ٹیلنٹ کو اپنی طرف کھینچ رہے ہیں۔ جرمنی نے اپنے سات یونیورسٹی شہروں کو انوویشن ہب میں بدلا ہے۔ بھارت نے چار کلسٹرز کے ذریعے یہ پیغام دیا ہے کہ اگر تعلیمی ادارے اور صنعت ایک دوسرے سے جڑ جائیں تو ترقی یافتہ دنیا کے برابر کھڑا ہونا ممکن ہے۔

پاکستان کا معاملہ اس تناظر میں افسوسناک ہے۔ ہماری مجموعی درجہ بندی 99ویں ہے، اور ہمارے کسی شہر نے ٹاپ 100 کلسٹرز میں جگہ نہیں بنائی۔ بلاشبہ ہمارے طلبہ مقالے لکھتے ہیں، تحقیقی جرائد میں نام چھپتے ہیں، آئی ٹی ایکسپورٹ کے اعدادوشمار کچھ امید دلاتے ہیں، مگر جہاں اصل کھیل کھیلا جا رہا ہے… یعنی R&D کی سرمایہ کاری، وینچر کیپیٹل کا بہاؤ، اور پالیسیوں کا تسلسل… وہاں ہم غائب ہیں۔ یہ محض اتفاق نہیں، ایک رویہ ہے۔ ہمارے ہاں سرمایہ کار زمین اور پلازے خریدنے کو تو تیار ہے، لیکن کسی نئے آئیڈیا پر پیسہ لگانے کو حماقت سمجھتا ہے۔ ہمارے پالیسی ساز ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ پر بجٹ مختص کرنے سے زیادہ کانفرنسوں میں تقاریر کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہماری جامعات مقالے تو شایع کرتی ہیں مگر صنعت کے ساتھ ربط قائم کرنے میں ناکام ہیں۔ نتیجہ یہ کہ ہمارے بہترین دماغ یا تو ملک چھوڑ جاتے ہیں یا پھر تدریس اور بیوروکریسی میں کھپ جاتے ہیں، جہاں ان کی صلاحیتیں عالمی دوڑ کے تقاضوں سے میل نہیں کھاتیں۔

ایسا بھی نہیں کہ ہمارے ہاں ذہین افراد موجود نہیں۔ بے شمار انفرادی مثالیں ہیں جو حوصلہ افزائی کا باعث بھی ہیں۔ ہمارے ایک دوست کنور حیدر ہیں، ٹیکسٹائل پروفیشنل ہیں اور اسی شعبے کی تدریس و تحقیق سے وابستہ ہیں، انھوں نے ہمیں گزشتہ ہفتے ایک ایسے ہی عالی دماغ سے ملوایا۔ تحصیل میلسی کے گاؤں کرم آباد سے ایک عام گھرانے کی بچی رمشا بابر نے ایجوکیشن یونیورسٹی لاہور سے میتھ میں ایم فل کرنے کے بعد تھائی لینڈ کی Thammasa University سے فل اسکالر شپ پر اسی مضمون میں بلیک ہول پارٹیکلز کی رفتار کو ایک نئے خیال پر جانچنے کو موضوع پر پی ایچ ڈی کی۔ ڈاکٹر رمشا اسی موضوع پر اب پوسٹ ڈاکٹریٹ کی خواہشمند ہیں۔ اس سے قبل ایک عزیز کی بیٹی نے بتایا کہ وہ فزکس میں اسکالرشپ پر چین کے شہر ووہان میں پی ایچ ڈی کرنے جا رہی ہے۔ یہ نوجوان امید دلاتے ہیں کہ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی!

گلوبل انوویشن انڈیکس 2025 کا سبق یہی ہے کہ مستقبل ان کا ہے جو اپنے نوجوانوں کے خوابوں کو حقیقت کا روپ دیتے ہیں، جو تحقیقی مقالوں کو کاروباری ماڈل بناتے ہیں اور جو سرمایہ زمینوں اور پلازوں کے بجائے آئیڈیاز میں لگاتے ہیں۔ یہی راستہ ہے جس سے ہم اپنی معیشت کو دلدل سے نکال کر ایک مضبوط بنیاد فراہم کر سکتے ہیں اور یہی وہ سبق ہے جو ہمیں دنیا کے صف اول کے ٹیکنالوجیز کلسٹرز سے سیکھنا چاہیے۔ ورنہ ہم ایک بار پھر تماشائیوں کی صف میں کھڑے کے کھڑے رہ جائیں گے۔ 
 

متعلقہ مضامین

  • بدلتی دنیا میں ہم کہاں ہیں؟
  • ہمارے قول و فعل میں تضاد کیوں ہے؟
  • سعودی عرب پر حملہ ہوا تو اپنی سرزمین کی طرح دفاع کریں گے، خواجہ آصف
  • حد سے بڑھے مطالبات کے سامنے ہتھیا رنہیں ڈالیں گے: ایرانی صدر کا ردعمل
  • ’’پاک سعودی دفاعی معاہدے میں مشرق وسطیٰ کی سلامتی کےلئے ایٹمی تحفظ شامل‘‘ عالمی میڈیا کی رپورٹ
  • ’’پاک سعودی دفاعی معاہدے میں مشرق وسطیٰ کی سلامتی کیلیے ایٹمی تحفظ شامل‘‘ عالمی میڈیا کی رپورٹ
  • پاک، سعودی دفاعی معاہدہ نیٹو طرز پر ہے، دیگر عرب ممالک شامل ہو سکتے ہیں، خواجہ آصف
  • دفاعی معاہدے میں شامل ہونے کیلئے دیگر عرب ممالک پر دروازے بند نہیں، خواجہ آصف
  • سعودی معاہدے کی کوئی خفیہ شرائط نہیں، خلیجی ممالک شامل ہو سکتے ہیں: خواجہ آصف
  • پاک سعودی دفاعی معاہدہ نیٹو طرز پر ہے، دیگر عرب ممالک شامل ہو سکتے ہیں، خواجہ آصف