ضیاء چشتی کیس، ٹی آر جی پاکستان کی انتظامیہ نے دھوکہ دہی سے کام کیا، سندھ ہائی کورٹ
اشاعت کی تاریخ: 23rd, June 2025 GMT
ضیاء چشتی/ فائل فوٹو
سندھ ہائی کورٹ نے ہانگ کانگ سے تعلق رکھنے والے فنڈ منیجر پائن برج کو 150 ملین ڈالر کے فراڈ میں ملوث قرار دے دیا ہے۔
عدالت نے 52 صفحات پر مشتمل ایک فیصلے میں لکھا کہ ٹی آر جی پاکستان کی انتظامیہ دھوکے سے کام کررہی تھی، برمودا میں واقع گرین ٹری ہولڈنگز کی ٹی آر جی کے حصص کی خریداری غیر قانونی تھی۔
جسٹس عدنان اقبال چوہدری نے 52 صفحات پر مشتمل فیصلے میں ٹی آر جی کو فوری طور پر بورڈ کے انتخابات کرانے کی ہدایت کردی ہے۔
واضح رہے کہ موجودہ انتظامیہ نے بورڈ کے انتخابات 14 مئی 2025 سے غیرقانونی طور پر روکے ہوئے ہیں۔
سندھ ہائی کورٹ نے اپنے تاریخی فیصلے میں گرین ٹری ہولڈنگز کو ٹی آر جی پاکستان لمیٹڈ کو ٹیک اوور کرنے کی کوشش کو بھی روک دیا ہے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں قرار دیا گیا کہ ٹی آر جی کے 30 فیصد حصص کو ٹی آر جی کا فنڈز استعمال کرتے ہوئے فنانس کیا گیا۔
یہ مقدمہ ٹی آر جی پی کے سابق سی اِی او اور بانی پاکستانی امریکن ضیاء چشتی نے ٹی آر جی پاکستان اور ٹی آر جی انٹرنیشنل کی مکمل ملکیت والی شیل کمپنی گرین ٹری لمیٹیڈ کے خلاف کیا تھا۔
مقدمہ اس تنازع کے گرد تھا کہ شیل کمپنی گرین ٹری لمیٹڈ ضیاء چشتی کے سابق کاروباری ساتھی محمد خیشگی، حسنین اسلم اور پائن برج انوسٹمنٹ کو کنٹرول کرنے کے لیے دھوکہ دہی سے ٹی آر جی پاکستان کے فنڈز سے ٹی آر جی کے حصص خرید رہی تھی۔
کیس کے حقائق کے مطابق چیئرمین ٹی آر جی پاکستان محمد خیشگی اور سی اِی او، ٹی آر جی پاکستان حسنین اسلم 150 ملین ڈالر فراڈ کے ماسٹر مائنڈ تھے۔
عدالتی فیصلے کے مطابق انہوں نے یہ عمل ہانگ کانگ میں واقع فنڈ منیجر پائن برج کے ٹی آر جی پاکستان کے بورڈ کے لیے دو نامزد افراد جان لیون اور پیٹرک میک گینس کے ساتھ مل کر کیا۔
عدالتی دستاویز کے مطابق خیشگی، اسلم، لیون اور میک گینس نے گرین ٹری کے نام سے ایک شیل کمپنی قائم کی جسے خفیہ طور پر کنٹرول کیا جاتا تھا۔
عدالت نے فیصلے میں لکھا کہ چاروں افراد نے ٹی آر جی پاکستان کے حصص خریدنا شروع کردئے تاکہ یہ لگے کہ گرین ٹری ٹی آر جی پاکستان کے فنڈز خود استعمال کررہی ہے۔
درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ چاروں افراد ایک فیصد سے بھی کم کا مالک ہونے کے باوجود کمپنی کا کنٹرول حاصل کرنا چاہتے تھے۔
ضیاء چشتی 2021 میں ایک سابق ملازمہ کی طرف سے جنسی الزامات لگائے جانے کے بعد مستعفی ہوکر ٹی آر جی کا کنٹرول دوبارہ حاصل کرنا چاہتے تھے۔
برطانوی اخبار ٹیلی گراف نے ضیاء چشتی پر جھوٹے الزمات لگانے کے سبب 13 مضامین میں معافی مانگی اور قانونی اخراجات و ہرجانہ بھی ادا کیا۔ اب خیال ہے کہ ٹی آر جی کے انتخابات کے بعد ضیا چشتی ٹی آر جی پاکستان کا کنٹرول سنبھال لیں گے
ضیا چشتی اور ان کا خاندان 30 فیصد حصص کا ملک ہونے کے سبب سب سے بڑا شئیر ہولڈر ہے، ٹی آر جی کے مسلسل خبروں میں رہنے کے سبب اس کے حصص کی قیمتوں میں آٹھ فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: ٹی آر جی پاکستان کے ٹی آر جی کے ضیاء چشتی فیصلے میں کے حصص
پڑھیں:
کراچی چڑیا گھر سے ریچھ ’رانو’ کی منتقلی کا کیس، سندھ ہائیکورٹ کا انتظامیہ پر سخت اظہارِ برہمی
سندھ ہائیکورٹ میں کراچی چڑیا گھر سے مادہ ریچھ ’رانو‘ کی منتقلی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے چڑیا گھر کی بدانتظامی، جانوروں کی حالتِ زار اور ناکارہ سہولیات پر برہمی کا اظہار کیا۔
سماعت جسٹس اقبال کلہوڑو اور جسٹس فیض شاہ پر مشتمل بینچ نے کی۔ عدالت کے روبرو کے ایم سی، محکمہ بلدیات اور محکمہ جنگلی حیات کے نمائندے پیش ہوئے۔
’رانو‘ اسلام آباد منتقل، درخواست غیر مؤثر ہو چکی: وکیل کے ایم سیسماعت کے آغاز پر وکیل درخواست گزار نے بتایا کہ مادہ ریچھ ’رانو‘ کو اسلام آباد منتقل کر دیا گیا ہے۔
کے ایم سی کے وکیل بیرسٹر اسد احمد نے مؤقف اختیار کیا کہ چونکہ رانو کی منتقلی ہو چکی ہے، اس لیے درخواست کا مقصد پورا ہو گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے ریچھ ’رانو‘ کی حالت تشویشناک، مشاہداتی رپورٹ میں مبینہ غفلت کا انکشاف
عدالت نے اس موقع پر کہا کہ اگر مزید کسی پہلو پر کارروائی درکار ہے تو نئی درخواست دائر کی جائے۔
عدالت کا چڑیا گھر کی حالت پر اظہارِ افسوسکنزرویٹر جنگلی حیات جاوید مہر نے عدالت کو بتایا کہ ’رانو‘ کا جسمانی و ذہنی معائنہ کیا گیا تھا، تاہم دیگر جانوروں کے لیے وقت درکار ہے۔
جسٹس اقبال کلہوڑو نے ریمارکس دیے کہ ’اس طرح کا چڑیا گھر نہیں چل سکتا۔ چھوٹے چھوٹے پنجروں میں جانوروں کا تماشا بند کریں، اور کراچی چڑیا گھر کو قدرتی پارک میں تبدیل کریں۔‘
عدالت نے کہا کہ جانوروں کی فلاح اولین ترجیح ہونی چاہیے، نہ کہ صرف ٹکٹوں کے ذریعے آمدنی حاصل کرنا۔
ویٹنری سہولیات کی کمی پر برہمیدرخواست گزار کے وکیل نے نشاندہی کی کہ چڑیا گھر میں ویٹنری ڈاکٹر کا کمرہ اسٹور کے طور پر استعمال ہو رہا ہے، ایکسرے مشین خراب ہے، اور آپریشن تھیٹر ناقابلِ استعمال ہے۔
انہوں نے کہا کہ جانوروں کو بے ہوش کرنے اور خون کے نمونے لینے کا کوئی نظام موجود نہیں، جبکہ بعض پنجروں میں پانی تک دستیاب نہیں۔
جسٹس اقبال کلہوڑو نے سخت ریمارکس دیتے ہوئے کہا: ’آپ لوگوں کو خدا کا خوف نہیں ہے؟ اگر خوفِ خدا ہوتا تو یہ پٹیشن دائر نہ ہوتی۔ جانوروں پر رحم کریں، یہ سب کرپشن اور بدانتظامی ہے۔‘
یہ بھی پڑھیں:ماں مار کر بچے لے جانا اور دیگر عوامل ریچھوں کو پاکستان سے مٹا رہے ہیں
عدالت نے ہدایت کی کہ تمام خراب مشینیں فوری طور پر درست یا نئی خریدی جائیں، اور اگر ویٹنری ڈاکٹر دستیاب نہیں تو خدمات آؤٹ سورس کی جائیں۔
چڑیا گھروں کو قدرتی پارک میں تبدیل کرنے کی ہدایتعدالت نے قرار دیا کہ کراچی اور حیدرآباد کے چڑیا گھروں کو بتدریج ختم کر کے قدرتی ماحول والے نیشنل پارکس میں تبدیل کیا جائے۔
مزید کہا کہ چڑیا گھر میں ویک اینڈ کے علاوہ عوامی تماشا بند رکھا جائے تاکہ جانوروں کو سکون میسر ہو۔
عدالت نے میونسپل کمشنر، سیکریٹری بلدیات، کنزرویٹر جنگلی حیات، سینیئر ڈائریکٹر زو اور ماہرین پر مشتمل کمیٹی تشکیل دینے کا حکم دیا۔
درخواست گزار کو بھی ہدایت کی گئی کہ وہ ماہرین کے نام عدالت میں جمع کرائیں۔
کمیٹی ایک ماہ میں اپنی رپورٹ عدالت میں جمع کرائے گی، جبکہ دو ہفتے بعد پیش رفت کا جائزہ لینے کے لیے سماعت دوبارہ مقرر کر دی گئی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
رانو مادہ ریچھ