WE News:
2025-11-08@21:28:53 GMT

صحافیوں کو معاوضہ کیوں نہیں ملتا؟

اشاعت کی تاریخ: 23rd, June 2025 GMT

صحافیوں کو معاوضہ کیوں نہیں ملتا؟

صحافت کو معاشرے کا آئینہ دار اور جمہوریت کا محافظ سمجھا جاتا ہے، لیکن پاکستان کے چھوٹے شہروں میں صحافیوں کی اکثریت بغیر معاوضے کے کام کرنے پر مجبور ہے۔

یہاں  برسوں سے صحافت پیشہ نہیں بلکہ ایک ’بیگار‘ بن چکی ہے، جہاں پیشہ ور نوجوان کی بڑی تعداد مالی مجبوریوں کے باعث اس شعبے کو خیرباد کہہ رہی ہے۔

32 سالہ محمد نوید احمد نے 4 سال تک میانوالی میں الیکٹرانک میڈیا کے لیے رپورٹنگ کی، لیکن معاوضہ نہیں ملنے پر انہوں نے ادویات کا کاروبار شروع کر دیا۔

نوید نے اس حوالے سے بتاتے ہیں کہ ’مجھے صحافت میں کافی دلچسپی تھی، جس کے سبب پڑھائی مکمل کرنے کے بعد میں مختلف ٹی وی چینلز  کے ساتھ بطور رپورٹر کام کیا۔ شروع شروع میں رپورٹنگ کا کوئی معاوضہ نہیں دیا جاتا تھا۔ مجھے لگا کہ کچھ عرصہ تجربہ حاصل کرنے کے بعد شاید معاوضہ ملنا شروع ہو جائے، لیکن کافی عرصہ محنت کرنے کے باوجود مجھے کوئی معاوضہ نہیں دیا گیا تو میرا دل اس شعبے سے بھر گیا، جس کے سبب میں نے اس بیگار سے توبہ کر لی۔‘

پنجاب یونین آف جرنلسٹس  کے سینئر رہنما فرید قاضی کا کہنا ہے کہ  پاکستان میں 80 کی دہائی کے بعد سے صحافت میں بڑے میڈیا اداروں کی جانب سے نمائندگان کو معاوضہ  کے بنا ملازمت پر رکھنے سے استحصا ل کا دور شروع ہوا، جو آج تک جاری و ساری ہے اور یہی عمل صحافت کی بدنامی اور بگاڑ کا باعث بنا ہے۔

تقریبا ہر چھوٹے شہر کے صحافی اس مسئلہ سے دوچار ہیں۔ راقم الحروف کے کیے گئے سروے کے مطابق ضلع میانوالی کے علاوہ سرگودھا، بھکر اور خوشاب میں بھی تقریبا 95 فیصد رپورٹر بغیر کسی معاوضے کے فرائض سر انجام دیتے ہیں۔

جنوبی پنجاب کے بڑے اضلاع بالخصوص ڈیرہ غازی خان، رحیم یار خان اور  بہاولپور میں بھی کم و بیش یہی صورت حال ہے، جہاں صحافیوں کی واضح اکثریت بغیر معاوضہ کے ساتھ پیشہ ورانہ ذمہ داری سرانجام دے رہی ہے۔

ڈیرہ غازی خان سے بول  نیوز نیٹ ورک کے نمائندے شیر افگن کا کہنا ہے کہ  ’مجھے صحافت میں 10 سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے۔ مجھے یا دیگر صحافیوں کو  بڑے اداروں سے منسلک رہنے کے باوجود بھی تنخواہ نہیں دی جاتی، جو بہت پریشان کن امر ہے۔ صحافیوں کی کارکردگی کا گراف کافی حد تک گر جاتا ہے اور ان کے حو صلے بھی پست ہوجاتے ہیں۔‘

بلامعاوضہ صحافت کے ساتھ وابستہ افراد کی جسمانی حفاظت شدید متاثر ہوتی ہے۔ ادارہ جاتی تحفظ نہیں ہونے کے سبب ایسے صحافی دھمکیوں اور خطرات کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں اور وسائل اور عدم تحفظ کے سبب اکثر خاموشی اختیار کر لیتے ہیں اور صرف وہ خبریں ادارے کو فراہم کرتے ہیں جو بیانات پر مشتمل ہوتی ہیں۔

شعبہ صحافت، بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی  پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود کے مطابق، ’میڈیا مالکان صحافیوں کا استحصال کرتی ہے، جس کی وجہ سے صحافت کی بنیادی اصول تباہ ہو رہےہیں۔ چیک اینڈ بیلنس اور صحافت کے لئے کوئی معیار طے نہیں ہونے کی وجہ سے جرائم پیشہ افراد بھی صحافت کی پناہ لئے ہوئے ہیں، جن کو معاوضے سے کوئی سروکار نہیں ہوتاہے۔ اس لئے حکومت کو فوری طور پر ویج بورڈ ایوارڈ نافذ کرنے کے ساتھ چیک اینڈ بیلنس کا کوئی مربوط نظام رائج کرنا چاہیے۔‘

ڈاکٹرخالد محمود نے مزید بتاتے ہیں کہ ’صحافیوں کو مناسب معاوضہ نہ ملنے کا مسئلہ صحافت کے پیشے کو سنجیدہ خطرات سے دوچار کرتا ہے۔ جب ایک صحافی اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہو، تو وہ اپنے پیشہ ورانہ فرائض کو دیانت داری سے انجام دینے کے بجائے ایسے ذرائع تلاش کرتا ہے جو فوری مالی فائدہ فراہم کریں۔ اس مالی دباؤ کے تحت صحافی سنسنی خیز اور غیر مصدقہ خبروں کی طرف مائل ہوتا ہے، کیونکہ ایسی خبریں زیادہ ناظرین کو متوجہ کرتی ہیں اور میڈیا اداروں کو اشتہارات کی صورت میں منافع دیتی ہیں۔ اس رجحان سے تحقیقی صحافت کا دائرہ سکڑتا جاتا ہے، اور سطحی و جذباتی رپورٹنگ کو فروغ ملتا ہے۔‘

ان حالات میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ اگر صحافیوں کو معاوضہ نہیں ملتا تو آخر کیوں  صحافی صحافت سے وابستہ ہیں؟ اس حوالے سے پریس کلب میانوالی کے سابقہ  جنرل سیکرٹری ملک غلام حسین اعوان کا کہنا ہے کہ رپورٹرز کی اکثریت مقامی اخبارات کے ساتھ منسلک ہوتی ہے، جہاں اشتہارات کی مد میں کوئی نہ کوئی حصہ ِ آمدن  مل ہی جاتا ہے۔ چند رپورٹر فری لانس جرنلزم بھی کرتے ہیں جس سے تھوڑی بہت آمدنی ہو جاتی ہے۔

پاکستان میں 1973 میں نیوز پیپر ملازمین (کنڈیشنز آف سروسز ایکٹ) منظور ہواجس کی شق نمبر 9 کے تحت ویج بورڈ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اسی قانون کی شق  نمبر 16 کے تحت ویج بورڈ پرنٹ میڈیا سے وابستہ صحافیوں کی تنخواہ متعین کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ اب تک ویج بورڈ کے 8 آڈرز جاری ہو چکے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود میڈیا ورکرز کی تنخواہوں کے مسائل جوں کے توں ہیں۔

ڈائریکٹر تعلقات عامہ  جنوبی پنجاب عابد بھٹی کا کہنا ہے حکومت کی جانب سے صحافیوں کے تحفظ کے لئے متعدد اقدامات کئے گئے ہیں، صحافیوں کے لئے طبی بیمہ کے ساتھ رہنے کے لئے بڑے اضلاع میں کالونیاں بنا کر انتہائی سستے داموں پلاٹ دئیے گئے ہیں، اور مالی  امداد میں بیماری، بچوں کی شادی اور اموات پر خصوصی گرانٹس دی  جارہی ہیں۔

عابد بھٹی کے مطابق اس طرح صحافیوں کے ملازمتی تحفظ کے لئے وفاق میں  آئی ٹی این ای  اور اب پروٹیکشن جرنلسٹ ایکٹ پر بھی عملدرآمد کیا جا رہا ہے جبکہ پنجاب میں بھی اس طرح تحفظ کے لئے اقدامات کو تیز کیا جا رہا ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

مہ پارا ذوالقدر

پاکستان جنوبی پنجاب صحافی.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: پاکستان صحافی معاوضہ نہیں صحافیوں کی صحافیوں کو کا کہنا ہے ویج بورڈ کرنے کے تحفظ کے جاتا ہے کے ساتھ کے لئے کے سبب

پڑھیں:

ایلون مسک ایک ٹریلین ڈالر معاوضہ لینے والے دنیا کے پہلے سی ای او بن گئے

عالمی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق کمپنی کے سالانہ جنرل اجلاس میں ہونے والی ووٹنگ میں 75 فیصد حصص داروں نے اس غیر معمولی معاوضے کی حمایت کی، جس کے بعد ہال میں زبردست تالیاں بجائی گئیں، یہ معاوضہ پیکیج مسک کو اگلے 10 سالوں میں ٹیسلا کی مارکیٹ ویلیو میں نمایاں اضافہ کرنے کی صورت میں دیا جائے گا۔ اسلام ٹائمز۔ ٹیسلا کے بانی اور چیف ایگزیکٹو آفیسر ایلون مسک ایک ٹریلین ڈالر (760 ارب پاؤنڈ) معاوضہ لینے والے دنیا پہلے سی ای او بن گئے، جس کی شیئر ہولڈرز نے بھی منظوری دے دی۔ عالمی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق کمپنی کے سالانہ جنرل اجلاس میں ہونے والی ووٹنگ میں 75 فیصد حصص داروں نے اس غیر معمولی معاوضے کی حمایت کی، جس کے بعد ہال میں زبردست تالیاں بجائی گئیں، یہ معاوضہ پیکیج مسک کو اگلے 10 سالوں میں ٹیسلا کی مارکیٹ ویلیو میں نمایاں اضافہ کرنے کی صورت میں دیا جائے گا۔ اگر وہ مقررہ اہداف حاصل کر لیتے ہیں تو انہیں سینکڑوں ملین نئے شیئرز ملیں گے، جن کی مالیت تقریباً 1 ٹریلین ڈالر تک پہنچ سکتی ہے، اگرچہ اس ریکارڈ توڑ معاہدے پر تنقید بھی کی جا رہی ہے، لیکن ٹیسلا کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے مؤقف اختیار کیا کہ اگر پیکیج مسترد کیا گیا تو مسک کمپنی چھوڑ سکتے ہیں اور ٹیسلا ان کے بغیر کام نہیں چلا سکتی۔

فیصلے کے اعلان کے بعد ایلون مسک نے ٹیکساس کے شہر آسٹن میں منعقدہ اجلاس کے سٹیج پر آکر رقص کیا اور شرکاء نے ان کے حق میں نعرے لگائے۔ مسک نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہم جو کچھ شروع کرنے جا رہے ہیں، وہ ٹیسلا کے مستقبل کا نیا باب نہیں بلکہ ایک نئی کتاب ہے، انہوں نے مزید کہا کہ دوسری کمپنیوں کے شیئر ہولڈر اجلاس بورنگ ہوتے ہیں، لیکن ہمارا اجلاس شاندار ہے۔ مسک کے اہداف میں شامل ہے کہ ٹیسلا کی مارکیٹ ویلیو کو موجودہ 1.4 ٹریلین ڈالر سے بڑھا کر 8.5 ٹریلین ڈالر تک لے جایا جائے اور 10 لاکھ خودکار روبوٹیکسی گاڑیاں کمرشل آپریشن میں لائی جائیں۔

متعلقہ مضامین

  • انڈسٹری میں کام کرنے کے بعد بھیک کی طرح معاوضہ مانگنا پڑتا ہے، رومیسہ خان
  • امریکا میں تاریخ کا طویل ترین شٹ ڈاؤن کیوں ہے اور یہ بحران کب تک حل ہوگا!
  • ایلون مسک آئندہ دہائی تک ٹیسلا کے سربراہ ہوں گے، کتنا معاوضہ ملے گا؟
  • ایلون مسک ایک ٹریلین ڈالر معاوضہ لینے والے دنیا کے پہلے سی ای او بن گئے
  • صحافیوں کو ریاست کا چوتھا ستون قرار دیاگیا اسکا آئین میں ذکر نہیں
  • کوئی چھوٹا بڑا نہیں ہوتا، ہم سب انسان ہیں، امیتابھ بچن نے ایسا کیوں کہا؟
  • افغانستان، طالبان دور میں آزادیِ صحافت کا جنازہ نکل گیا
  • عفت عمر کا انڈسٹری میں کوئی دوست کیوں نہیں؟
  • افغانستان میں سچ بولنا جرم بن گیا، طالبان دور میں آزادیِ صحافت کا جنازہ نکل گیا
  • 26ویں ترمیم کے ہیرو مولانا فضل الرحمان 27ویں ترمیم کے موقعے پر کیوں نظر انداز کیے جارہے ہیں؟