صحافیوں کو معاوضہ کیوں نہیں ملتا؟
اشاعت کی تاریخ: 23rd, June 2025 GMT
صحافت کو معاشرے کا آئینہ دار اور جمہوریت کا محافظ سمجھا جاتا ہے، لیکن پاکستان کے چھوٹے شہروں میں صحافیوں کی اکثریت بغیر معاوضے کے کام کرنے پر مجبور ہے۔
یہاں برسوں سے صحافت پیشہ نہیں بلکہ ایک ’بیگار‘ بن چکی ہے، جہاں پیشہ ور نوجوان کی بڑی تعداد مالی مجبوریوں کے باعث اس شعبے کو خیرباد کہہ رہی ہے۔
32 سالہ محمد نوید احمد نے 4 سال تک میانوالی میں الیکٹرانک میڈیا کے لیے رپورٹنگ کی، لیکن معاوضہ نہیں ملنے پر انہوں نے ادویات کا کاروبار شروع کر دیا۔
نوید نے اس حوالے سے بتاتے ہیں کہ ’مجھے صحافت میں کافی دلچسپی تھی، جس کے سبب پڑھائی مکمل کرنے کے بعد میں مختلف ٹی وی چینلز کے ساتھ بطور رپورٹر کام کیا۔ شروع شروع میں رپورٹنگ کا کوئی معاوضہ نہیں دیا جاتا تھا۔ مجھے لگا کہ کچھ عرصہ تجربہ حاصل کرنے کے بعد شاید معاوضہ ملنا شروع ہو جائے، لیکن کافی عرصہ محنت کرنے کے باوجود مجھے کوئی معاوضہ نہیں دیا گیا تو میرا دل اس شعبے سے بھر گیا، جس کے سبب میں نے اس بیگار سے توبہ کر لی۔‘
پنجاب یونین آف جرنلسٹس کے سینئر رہنما فرید قاضی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں 80 کی دہائی کے بعد سے صحافت میں بڑے میڈیا اداروں کی جانب سے نمائندگان کو معاوضہ کے بنا ملازمت پر رکھنے سے استحصا ل کا دور شروع ہوا، جو آج تک جاری و ساری ہے اور یہی عمل صحافت کی بدنامی اور بگاڑ کا باعث بنا ہے۔
تقریبا ہر چھوٹے شہر کے صحافی اس مسئلہ سے دوچار ہیں۔ راقم الحروف کے کیے گئے سروے کے مطابق ضلع میانوالی کے علاوہ سرگودھا، بھکر اور خوشاب میں بھی تقریبا 95 فیصد رپورٹر بغیر کسی معاوضے کے فرائض سر انجام دیتے ہیں۔
جنوبی پنجاب کے بڑے اضلاع بالخصوص ڈیرہ غازی خان، رحیم یار خان اور بہاولپور میں بھی کم و بیش یہی صورت حال ہے، جہاں صحافیوں کی واضح اکثریت بغیر معاوضہ کے ساتھ پیشہ ورانہ ذمہ داری سرانجام دے رہی ہے۔
ڈیرہ غازی خان سے بول نیوز نیٹ ورک کے نمائندے شیر افگن کا کہنا ہے کہ ’مجھے صحافت میں 10 سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے۔ مجھے یا دیگر صحافیوں کو بڑے اداروں سے منسلک رہنے کے باوجود بھی تنخواہ نہیں دی جاتی، جو بہت پریشان کن امر ہے۔ صحافیوں کی کارکردگی کا گراف کافی حد تک گر جاتا ہے اور ان کے حو صلے بھی پست ہوجاتے ہیں۔‘
بلامعاوضہ صحافت کے ساتھ وابستہ افراد کی جسمانی حفاظت شدید متاثر ہوتی ہے۔ ادارہ جاتی تحفظ نہیں ہونے کے سبب ایسے صحافی دھمکیوں اور خطرات کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں اور وسائل اور عدم تحفظ کے سبب اکثر خاموشی اختیار کر لیتے ہیں اور صرف وہ خبریں ادارے کو فراہم کرتے ہیں جو بیانات پر مشتمل ہوتی ہیں۔
شعبہ صحافت، بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود کے مطابق، ’میڈیا مالکان صحافیوں کا استحصال کرتی ہے، جس کی وجہ سے صحافت کی بنیادی اصول تباہ ہو رہےہیں۔ چیک اینڈ بیلنس اور صحافت کے لئے کوئی معیار طے نہیں ہونے کی وجہ سے جرائم پیشہ افراد بھی صحافت کی پناہ لئے ہوئے ہیں، جن کو معاوضے سے کوئی سروکار نہیں ہوتاہے۔ اس لئے حکومت کو فوری طور پر ویج بورڈ ایوارڈ نافذ کرنے کے ساتھ چیک اینڈ بیلنس کا کوئی مربوط نظام رائج کرنا چاہیے۔‘
ڈاکٹرخالد محمود نے مزید بتاتے ہیں کہ ’صحافیوں کو مناسب معاوضہ نہ ملنے کا مسئلہ صحافت کے پیشے کو سنجیدہ خطرات سے دوچار کرتا ہے۔ جب ایک صحافی اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہو، تو وہ اپنے پیشہ ورانہ فرائض کو دیانت داری سے انجام دینے کے بجائے ایسے ذرائع تلاش کرتا ہے جو فوری مالی فائدہ فراہم کریں۔ اس مالی دباؤ کے تحت صحافی سنسنی خیز اور غیر مصدقہ خبروں کی طرف مائل ہوتا ہے، کیونکہ ایسی خبریں زیادہ ناظرین کو متوجہ کرتی ہیں اور میڈیا اداروں کو اشتہارات کی صورت میں منافع دیتی ہیں۔ اس رجحان سے تحقیقی صحافت کا دائرہ سکڑتا جاتا ہے، اور سطحی و جذباتی رپورٹنگ کو فروغ ملتا ہے۔‘
ان حالات میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ اگر صحافیوں کو معاوضہ نہیں ملتا تو آخر کیوں صحافی صحافت سے وابستہ ہیں؟ اس حوالے سے پریس کلب میانوالی کے سابقہ جنرل سیکرٹری ملک غلام حسین اعوان کا کہنا ہے کہ رپورٹرز کی اکثریت مقامی اخبارات کے ساتھ منسلک ہوتی ہے، جہاں اشتہارات کی مد میں کوئی نہ کوئی حصہ ِ آمدن مل ہی جاتا ہے۔ چند رپورٹر فری لانس جرنلزم بھی کرتے ہیں جس سے تھوڑی بہت آمدنی ہو جاتی ہے۔
پاکستان میں 1973 میں نیوز پیپر ملازمین (کنڈیشنز آف سروسز ایکٹ) منظور ہواجس کی شق نمبر 9 کے تحت ویج بورڈ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اسی قانون کی شق نمبر 16 کے تحت ویج بورڈ پرنٹ میڈیا سے وابستہ صحافیوں کی تنخواہ متعین کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ اب تک ویج بورڈ کے 8 آڈرز جاری ہو چکے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود میڈیا ورکرز کی تنخواہوں کے مسائل جوں کے توں ہیں۔
ڈائریکٹر تعلقات عامہ جنوبی پنجاب عابد بھٹی کا کہنا ہے حکومت کی جانب سے صحافیوں کے تحفظ کے لئے متعدد اقدامات کئے گئے ہیں، صحافیوں کے لئے طبی بیمہ کے ساتھ رہنے کے لئے بڑے اضلاع میں کالونیاں بنا کر انتہائی سستے داموں پلاٹ دئیے گئے ہیں، اور مالی امداد میں بیماری، بچوں کی شادی اور اموات پر خصوصی گرانٹس دی جارہی ہیں۔
عابد بھٹی کے مطابق اس طرح صحافیوں کے ملازمتی تحفظ کے لئے وفاق میں آئی ٹی این ای اور اب پروٹیکشن جرنلسٹ ایکٹ پر بھی عملدرآمد کیا جا رہا ہے جبکہ پنجاب میں بھی اس طرح تحفظ کے لئے اقدامات کو تیز کیا جا رہا ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پاکستان صحافی معاوضہ نہیں صحافیوں کی صحافیوں کو کا کہنا ہے ویج بورڈ کرنے کے تحفظ کے جاتا ہے کے ساتھ کے لئے کے سبب
پڑھیں:
اگر کراچی رہنے کے قابل نہیں، تو ہزاروں لوگ یہاں کیوں آتے ہیں؟ شرجیل میمن
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی: سندھ کے سینئر وزیر شرجیل انعام میمن نے کراچی کو غیر قابل رہائش قرار دینے والی رپورٹ پر سخت ردعمل دیتے ہوئے سوال اٹھایا ہے کہ اگر کراچی رہنے کے قابل نہیں تو پورے ملک سے ہزاروں افراد یہاں کیوں آ رہے ہیں؟
سندھ اسمبلی کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے شرجیل میمن کا کہنا تھا کہ حال ہی میں ایک رپورٹ کو ضرورت سے زیادہ اچھالا گیا جس میں کراچی کو دنیا کے بدترین شہروں میں شمار کیا گیا، مگر اس کے باوجود ملک کے کونے کونے سے لوگ کراچی کا رخ کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر کراچی اتنا ہی غیر محفوظ اور غیر موزوں ہے تو لوگ لاہور، اسلام آباد یا پشاور جانے کے بجائے کراچی میں کیوں رہائش اختیار کر رہے ہیں؟ شرجیل میمن نے اس بات کا اعتراف کیا کہ شہر میں مسائل ضرور موجود ہیں لیکن پھر بھی تین کروڑ سے زائد کی آبادی کو پانی میسر ہے، صفائی ہو رہی ہے، کچرا اٹھایا جا رہا ہے اور لوگ روزگار کے لیے دفاتر اور کاروبار پر جا رہے ہیں۔
سینئر وزیر نے کہا کہ کراچی کا شمار پاکستان کے معاشی دل میں ہوتا ہے اور یہی شہر روزگار، تعلیم اور سہولتوں کے اعتبار سے لاکھوں افراد کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ مسائل کا ذکر ضرور ہونا چاہیے، مگر شہر کی مجموعی حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔