WE News:
2025-09-24@17:56:03 GMT

صحافیوں کو معاوضہ کیوں نہیں ملتا؟

اشاعت کی تاریخ: 23rd, June 2025 GMT

صحافیوں کو معاوضہ کیوں نہیں ملتا؟

صحافت کو معاشرے کا آئینہ دار اور جمہوریت کا محافظ سمجھا جاتا ہے، لیکن پاکستان کے چھوٹے شہروں میں صحافیوں کی اکثریت بغیر معاوضے کے کام کرنے پر مجبور ہے۔

یہاں  برسوں سے صحافت پیشہ نہیں بلکہ ایک ’بیگار‘ بن چکی ہے، جہاں پیشہ ور نوجوان کی بڑی تعداد مالی مجبوریوں کے باعث اس شعبے کو خیرباد کہہ رہی ہے۔

32 سالہ محمد نوید احمد نے 4 سال تک میانوالی میں الیکٹرانک میڈیا کے لیے رپورٹنگ کی، لیکن معاوضہ نہیں ملنے پر انہوں نے ادویات کا کاروبار شروع کر دیا۔

نوید نے اس حوالے سے بتاتے ہیں کہ ’مجھے صحافت میں کافی دلچسپی تھی، جس کے سبب پڑھائی مکمل کرنے کے بعد میں مختلف ٹی وی چینلز  کے ساتھ بطور رپورٹر کام کیا۔ شروع شروع میں رپورٹنگ کا کوئی معاوضہ نہیں دیا جاتا تھا۔ مجھے لگا کہ کچھ عرصہ تجربہ حاصل کرنے کے بعد شاید معاوضہ ملنا شروع ہو جائے، لیکن کافی عرصہ محنت کرنے کے باوجود مجھے کوئی معاوضہ نہیں دیا گیا تو میرا دل اس شعبے سے بھر گیا، جس کے سبب میں نے اس بیگار سے توبہ کر لی۔‘

پنجاب یونین آف جرنلسٹس  کے سینئر رہنما فرید قاضی کا کہنا ہے کہ  پاکستان میں 80 کی دہائی کے بعد سے صحافت میں بڑے میڈیا اداروں کی جانب سے نمائندگان کو معاوضہ  کے بنا ملازمت پر رکھنے سے استحصا ل کا دور شروع ہوا، جو آج تک جاری و ساری ہے اور یہی عمل صحافت کی بدنامی اور بگاڑ کا باعث بنا ہے۔

تقریبا ہر چھوٹے شہر کے صحافی اس مسئلہ سے دوچار ہیں۔ راقم الحروف کے کیے گئے سروے کے مطابق ضلع میانوالی کے علاوہ سرگودھا، بھکر اور خوشاب میں بھی تقریبا 95 فیصد رپورٹر بغیر کسی معاوضے کے فرائض سر انجام دیتے ہیں۔

جنوبی پنجاب کے بڑے اضلاع بالخصوص ڈیرہ غازی خان، رحیم یار خان اور  بہاولپور میں بھی کم و بیش یہی صورت حال ہے، جہاں صحافیوں کی واضح اکثریت بغیر معاوضہ کے ساتھ پیشہ ورانہ ذمہ داری سرانجام دے رہی ہے۔

ڈیرہ غازی خان سے بول  نیوز نیٹ ورک کے نمائندے شیر افگن کا کہنا ہے کہ  ’مجھے صحافت میں 10 سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے۔ مجھے یا دیگر صحافیوں کو  بڑے اداروں سے منسلک رہنے کے باوجود بھی تنخواہ نہیں دی جاتی، جو بہت پریشان کن امر ہے۔ صحافیوں کی کارکردگی کا گراف کافی حد تک گر جاتا ہے اور ان کے حو صلے بھی پست ہوجاتے ہیں۔‘

بلامعاوضہ صحافت کے ساتھ وابستہ افراد کی جسمانی حفاظت شدید متاثر ہوتی ہے۔ ادارہ جاتی تحفظ نہیں ہونے کے سبب ایسے صحافی دھمکیوں اور خطرات کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں اور وسائل اور عدم تحفظ کے سبب اکثر خاموشی اختیار کر لیتے ہیں اور صرف وہ خبریں ادارے کو فراہم کرتے ہیں جو بیانات پر مشتمل ہوتی ہیں۔

شعبہ صحافت، بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی  پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود کے مطابق، ’میڈیا مالکان صحافیوں کا استحصال کرتی ہے، جس کی وجہ سے صحافت کی بنیادی اصول تباہ ہو رہےہیں۔ چیک اینڈ بیلنس اور صحافت کے لئے کوئی معیار طے نہیں ہونے کی وجہ سے جرائم پیشہ افراد بھی صحافت کی پناہ لئے ہوئے ہیں، جن کو معاوضے سے کوئی سروکار نہیں ہوتاہے۔ اس لئے حکومت کو فوری طور پر ویج بورڈ ایوارڈ نافذ کرنے کے ساتھ چیک اینڈ بیلنس کا کوئی مربوط نظام رائج کرنا چاہیے۔‘

ڈاکٹرخالد محمود نے مزید بتاتے ہیں کہ ’صحافیوں کو مناسب معاوضہ نہ ملنے کا مسئلہ صحافت کے پیشے کو سنجیدہ خطرات سے دوچار کرتا ہے۔ جب ایک صحافی اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہو، تو وہ اپنے پیشہ ورانہ فرائض کو دیانت داری سے انجام دینے کے بجائے ایسے ذرائع تلاش کرتا ہے جو فوری مالی فائدہ فراہم کریں۔ اس مالی دباؤ کے تحت صحافی سنسنی خیز اور غیر مصدقہ خبروں کی طرف مائل ہوتا ہے، کیونکہ ایسی خبریں زیادہ ناظرین کو متوجہ کرتی ہیں اور میڈیا اداروں کو اشتہارات کی صورت میں منافع دیتی ہیں۔ اس رجحان سے تحقیقی صحافت کا دائرہ سکڑتا جاتا ہے، اور سطحی و جذباتی رپورٹنگ کو فروغ ملتا ہے۔‘

ان حالات میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ اگر صحافیوں کو معاوضہ نہیں ملتا تو آخر کیوں  صحافی صحافت سے وابستہ ہیں؟ اس حوالے سے پریس کلب میانوالی کے سابقہ  جنرل سیکرٹری ملک غلام حسین اعوان کا کہنا ہے کہ رپورٹرز کی اکثریت مقامی اخبارات کے ساتھ منسلک ہوتی ہے، جہاں اشتہارات کی مد میں کوئی نہ کوئی حصہ ِ آمدن  مل ہی جاتا ہے۔ چند رپورٹر فری لانس جرنلزم بھی کرتے ہیں جس سے تھوڑی بہت آمدنی ہو جاتی ہے۔

پاکستان میں 1973 میں نیوز پیپر ملازمین (کنڈیشنز آف سروسز ایکٹ) منظور ہواجس کی شق نمبر 9 کے تحت ویج بورڈ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اسی قانون کی شق  نمبر 16 کے تحت ویج بورڈ پرنٹ میڈیا سے وابستہ صحافیوں کی تنخواہ متعین کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ اب تک ویج بورڈ کے 8 آڈرز جاری ہو چکے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود میڈیا ورکرز کی تنخواہوں کے مسائل جوں کے توں ہیں۔

ڈائریکٹر تعلقات عامہ  جنوبی پنجاب عابد بھٹی کا کہنا ہے حکومت کی جانب سے صحافیوں کے تحفظ کے لئے متعدد اقدامات کئے گئے ہیں، صحافیوں کے لئے طبی بیمہ کے ساتھ رہنے کے لئے بڑے اضلاع میں کالونیاں بنا کر انتہائی سستے داموں پلاٹ دئیے گئے ہیں، اور مالی  امداد میں بیماری، بچوں کی شادی اور اموات پر خصوصی گرانٹس دی  جارہی ہیں۔

عابد بھٹی کے مطابق اس طرح صحافیوں کے ملازمتی تحفظ کے لئے وفاق میں  آئی ٹی این ای  اور اب پروٹیکشن جرنلسٹ ایکٹ پر بھی عملدرآمد کیا جا رہا ہے جبکہ پنجاب میں بھی اس طرح تحفظ کے لئے اقدامات کو تیز کیا جا رہا ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

مہ پارا ذوالقدر

پاکستان جنوبی پنجاب صحافی.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: پاکستان صحافی معاوضہ نہیں صحافیوں کی صحافیوں کو کا کہنا ہے ویج بورڈ کرنے کے تحفظ کے جاتا ہے کے ساتھ کے لئے کے سبب

پڑھیں:

کھیلنے کی ہامی بھرلی تو ہاتھ ملانے سے انکار کیوں؟ سابق بھارتی کپتان کی شدید تنقید

ایشیا کپ 2025 میں بھارتی ٹیم کی جانب سے کھیل کی روح کے منافی حرکت کو خود سابق بھارتی کرکٹرز کی جانب سے بھی تنقید کا نشانہ بنایا جانے لگا۔

بھارت کی جانب سے پاکستان کے خلاف میچ کے بائیکاٹ کی افواہوں کے زیر گردش ایشیا کپ 2025 کا آغاز تو ہوگیا مگر امپائرنگ کے معیار اور بھارتی ٹیم کی گری ہوئی حرکت نے اسے متنازع بنادیا ہے۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان گروپ اسٹیج اور سپر فور مرحلے میں دو میچز کھیلے جاچکے ہیں۔

تاہم بھارتی ٹیم نے کھلاڑیوں کے ہاتھ ملانے کی روایت توڑتے ہوئے دونوں میچز میں ٹاس کے وقت اور  میچ کے بعد پاکستانی کھلاڑیوں سے ہاتھ نہیں ملائے۔

سابق بھارتی کپتان  محمد اظہرالدین کی جانب سے بھی ایشیا کپ میں پاکستانی ٹیم سے ہاتھ نہ ملانے پر ردعمل سامنے آیا ہے۔

بھارتی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے محمد اظہر الدین نے کہا کہ میرے خیال میں ہاتھ ملانے میں کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہئے، نہیں معلوم بھارتی ٹیم نے پاکستانی ٹیم سے ہاتھ کیوں نہیں ملائے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ جب میچ کھیلنے کی حامی بھرلی تو ہاتھ ملانے سے انکار مناسب نہیں ہے۔

واضح رہے کہ رواں ایونٹ میں پاکستان کے خلاف ریفری اور امپائر کی جانب سے کئی متنازع فیصلے بھی سامنے آچکے ہیں۔ جس میں سپر فور مرحلے میں بھارت کے خلاف میچ میں فخر زمان کا غلط کیچ آؤٹ دیا جانا بھی شامل ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ہمیں اپنے تحفظ کو ترجیح دینی ہوگی تاکہ ہم زمین کا تحفظ کر سکیں، ماحولیاتی ماہرین
  • لاہور کے صحافیوں کو نیشنل کرائم ایجنسی کے نوٹسز کیوں جاری ہوئے، معاملہ کیا ہے؟
  • قائمہ کمیٹیوں سے مستعفی ہونے کے بعد پی ٹی آئی سینیٹرز نے سرکاری گاڑیاں واپس کیوں نہیں کیں؟
  • کھیلنے کی ہامی بھرلی تو ہاتھ ملانے سے انکار کیوں؟ سابق بھارتی کپتان کی شدید تنقید
  • ’پنوتی!‘۔۔۔ ایم بی اے چائے والا کو ایچ ون بی ویزا فیس میں اضافے کی وجہ کیوں کہا جارہا ہے؟
  • اسپیکٹرم کیا اور پاکستان میں اس پر تنازع کیوں، اس کا انٹرنیٹ اسپیڈ سے کیا تعلق ہے؟
  • کینسر، مالی مشکلات اور زندگی کی جنگ
  • وزارت تجارت سے سوال ’ہم چین کو کاٹن کیوں بھیجتے ہیں؟ کپڑا بناکر کیوں نہیں بھیجتے؟‘
  • جویریہ نے اداکاراؤں کو گود میں اٹھانے کا شکوہ کیوں کیا؟ سعود نے بتادیا
  • تعلیم و تربیت