آبنائے ہرمز کی اہمیت کیا ہے اور اسے ماضی میں کب کب بند کیا گیا؟
اشاعت کی تاریخ: 23rd, June 2025 GMT
ایران نے امریکا کی جانب سے اپنی جوہری تنصیبات پر حملوں کے ردعمل میں خطے میں ایک غیر معمولی قدم اٹھاتے ہوئے آبنائے ہرمز کو بند کرنے کی منظوری دے دی ہے جو دنیا کی سب سے اہم توانائی گزرگاہوں میں سے ایک تصور کی جاتی ہے جبکہ اسرائیل کی جانب سے ایران پر مزید حملے کیے گئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیل کے ایران پر مزید حملے، ایرانی پارلیمنٹ نے آبنائے ہرمز بند کرنے کی منظوری دے دی
آبنائے ہرمز (Strait of Hormuz) دنیا کی سب سے اہم اور مصروف بحری گزرگاہوں میں سے ایک ہے۔ یہ ایک قدرتی سمندری راستہ ہے جو خلیج فارس کو خلیج عمان اور بحر ہند سے جوڑتا ہے۔ اس کی چوڑائی تقریباً 33 کلومیٹر ہے اور یہ توانائی کی عالمی نقل و حمل کی سب سے اہم راہداریوں میں شمار ہوتی ہے۔
واضح رہے کہ یہ دنیا کے اہم ترین تیل بردار بحری راستوں میں شمار ہوتا ہے کیونکہ مشرق وسطیٰ کے کئی تیل پیدا کرنے والے ممالک (خصوصاً سعودی عرب، ایران، عراق، کویت، بحرین، قطر اور متحدہ عرب امارات) کا برآمد شدہ تیل اسی راستے سے گزرتا ہے۔
روزانہ تقریبا 20 سے 21 ملین بیرل خام تیل یہاں سے گزرتا ہے جو دنیا کی کل تیل تجارت کا تقریبا ایک تہائی ہے۔
ماضی میں کب کب آبنائے ہرمز کو بند کرنے کی دھمکی دی گئی؟آبنائے ہرمز ماضی میں کبھی مکمل طور پر بند نہیں ہوئی لیکن کئی بار اس کی بندش کی کوششیں ہوئیں یا دھمکیاں دی گئیں اور بعض اوقات جزوی طور پر بحری جہازوں کو نشانہ بنایا گیا یا خطرہ پیدا کیا گیا جس نے عالمی سطح پر سنجیدہ اثرات دیکھے گئے۔
1980–1988: ‘Tanker War’ (ایران-عراق جنگ)اس دوران ایران اور عراق نے ایک دوسرے کے ٹینکروں کو نشانہ بنایا۔ عراق نے ایرانی گزرگاہ پر حملوں کے ذریعے بندش کی کوشش کی جبکہ ایران نے ردعمل کے طور پر دھمکی دی کہ وہ گزرگاہ بند کر دے گا۔ تاہم بحری راستہ بحری راستہ بند نہیں ہوا۔
ٹینکر وار کے دوران ایران اور عراق نے ایک دوسرے کے تیل بردار جہازوں کو نشانہ بنایا جس سے خلیج فارس میں تیل کی ترسیل میں رکاوٹیں آئیں۔ اس کے نتیجے میں عالمی خام تیل کی قیمتیں بڑھی اور تیل کی تجارت غیر مستحکم ہوئی۔ اس واقعے نے خلیج فارس کو عالمی توانائی کی سیکیورٹی کے لیے ایک حساس خطہ بنا دیا۔
2007–2008: امریکی-ایرانی بحری کشیدگیدسمبر 2007 اور جنوری 2008 میں ایرانی تیز رفتار بوٹس اور امریکی جنگی جہازوں کے درمیان جھڑپیں ہوئیں مگر اس دوران بھی آبنائے ہرمز بند نہیں ہوئی۔
اگرچہ کوئی باقاعدہ حملہ یا بندش نہیں ہوئی مگر اس واقعے نے عالمی سطح پر خاص طور پر توانائی منڈیوں میں تشویش پیدا کر دی۔ خلیج فارس کے راستے تیل کی سپلائی کو لاحق خطرات کے پیش نظر خام تیل کی قیمت میں اضافہ ہوا اور بین الاقوامی بحری نقل و حمل میں احتیاطی تدابیر بڑھا دی گئیں۔ اس کشیدگی نے ایک بار پھر آبنائے ہرمز کی جغرافیائی اور اسٹریٹجک اہمیت کو دنیا کے سامنے اجاگر کیا تھا۔
2011–2012: پابندیوں کے ردعمل میں دھمکیاں2011–2012 میں ایران نے مغربی اقتصادی پابندیوں کے ردعمل میں آبنائے ہرمز بند کرنے کی کھلی دھمکیاں دیں۔ ان پابندیوں کا مقصد ایران کے جوہری پروگرام کو محدود کرنا تھا، خاص طور پر اس کے تیل کے شعبے کو نشانہ بنایا گیا۔ دسمبر 2011 میں ایران کے نائب صدر نے کہا کہ اگر ایران کے تیل کی برآمدات پر پابندی لگائی گئیں تو وہ آبنائے ہرمز کو بند کر دے گا۔
مزید پڑھیے: اسرائیل ایران کشیدگی، پیٹرول پرائس کہاں تک پہنچ سکتے ہیں؟
ایران نے اس دھمکی کے بعد سمندری مشقیں بھی کیں اور میزائل ٹیسٹ کیے جس سے عالمی منڈیوں میں بے چینی پھیل گئی۔ تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا اور امریکہ سمیت دیگر مغربی ممالک نے گزرگاہ کے تحفظ کے لیے بحری بیڑے متحرک کر دیے۔ اگرچہ ایران نے عملی طور پر گزرگاہ بند نہیں کی لیکن اس کشیدگی نے واضح کر دیا کہ آبنائے ہرمز کی بندش کی محض دھمکی بھی عالمی توانائی مارکیٹ کو ہلا کر رکھ سکتی ہے۔
2018–2019: تہران کی دھمکیاں اور کارروائیاں2018–2019 میں ایران نے امریکہ کی پابندیوں کے جواب میں آبنائے ہرمز بند کرنے کی دھمکیاں دیں اور کچھ کارروائیاں بھی کیں۔ ایرانی پاسدارانِ انقلاب نے برطانوی آئل ٹینکر Stena Impero کو ضبط کیا اور کئی تیل بردار جہازوں پر حملے ہوئے۔ ان واقعات سے بھی عالمی منڈی میں بے چینی پھیلی، تیل کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ آیا اور خلیج میں فوجی تناؤ بڑھ گیا اگرچہ راستہ مکمل بند نہیں ہوا۔
22 جون 2025 کو ایران کی پارلیمنٹ کی جانب سے آبنائے ہرمز بند کرنے کی منظوری دی گئی، یہ اقدام امریکی حملوں کے ردعمل میں تجویز کیا گیا ہے۔ اگر یہ اقدام منظور ہوا تو دنیا کے تقریباً 20 فیصد تیل بردار راستے متاثر ہو سکتے ہیں۔
اسرائیل اور ایران کے درمیان جاری کشیدگی کے باعث عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔ منگل کے روز برینٹ خام تیل کی قیمت میں تقریباً 5 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا اور ایک بیرل کی قیمت 76.
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ آبنائے ہرمز بند ہونے سے تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا جس کی وجہ سے ٹرانسپورٹ مہنگی ہوگی اور ٹرانسپورٹ کے کرائے مہنگے ہونے سے تمام چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا۔ چاہے پھر وہ امپورٹڈ اشیا ہوں یا پھر لوکل۔
معاشی تجزیہ کار عابد سلہری کا کہنا ہے کہ ایران اسرائیل کشیدگی سے قبل ہی عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں اضافہ جاری تھا اور صرف 2 ہفتوں میں قیمت 10 ڈالر فی بیرل بڑھ چکی ہے۔
عابد سلہری نے کہا کہ اگر ابنائے ہرمز بند ہو گئی تو دنیا کی 30 فیصد تیل کی ترسیل رک جائے گی۔
مزید پڑھیں: امریکا کے ایران پر حملوں کے بعد پوپ لیو کا ردعمل بھی سامنے آگیا
انہوں نے کہا کہ ایسی صورت میں قیمتیں 76 ڈالر فی بیرل سے تجاوز کر سکتی ہیں جس کا براہ راست اثر پاکستانی صارفین پر پڑے گا۔
عابد سلہری نے کہا کہ اگر حکومت نے پیٹرولیم لیوی میں بھی اضافہ کیا تو مہنگائی کی شدت اور بڑھ جائے گی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آبنائے ہرمز آبنائے ہرمز کی اہمیت آبنائے ہرمز کی بندش ایرانذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ا بنائے ہرمز کی اہمیت ا بنائے ہرمز کی بندش ایران بنائے ہرمز بند کرنے کی کی قیمتوں میں اضافہ تیل کی قیمتوں میں خام تیل کی قیمت ا بنائے ہرمز کی کو نشانہ بنایا کے ردعمل میں خلیج فارس تیل بردار میں ایران نے کہا کہ ایران کے بند نہیں ایران نے حملوں کے ایران ا دنیا کی کی بندش
پڑھیں:
انقلاب اسلامی ایران نے کیسے دنیا کا فکری DNA ہی تبدیل کر دیا؟
اسلام ٹائمز: نتیجہ یہ ہے کہ انقلاب اسلامی ایران کے اثرات کی صورت میں نرم طاقت کے نیا جینیاتی ماڈل ظاہر ہونے کے بعد اب دنیا ہر طرح کی طاقت کی حیاتیات کو بدلتے دیکھ رہی ہے۔ تہران میں جس عمارت سے بیٹھ کر امریکہ اور اسرائیل آدھی دنیا پر حکومت کرتے تھے، وہ کئی دہائیوں سے ایک عجائب گھر بن چکی ہے اور کشمیر، فلسطین سے لیکر نیویارک تک کروڑوں لوگ میں انقلابی اور مزاحمتی بیداری کا DND راسخ ہو چکا ہے۔ اب اثر و نفوذ بندوق سے نہیں، بیانیے اور علم سے طے ہوتا ہے۔ جس قوم کے پاس فکری DNA مضبوط ہو، یعنی نظریہ، ثقافت، اخلاق اور مقصد ایک لڑی میں جڑے ہوں، وہ کسی بھی عسکری یا اقتصادی طاقت سے زیادہ پائیدار اثر رکھتی ہے۔ خصوصی رپورٹ:
طوفان الاقصیٰ اور غزہ جنگ بندی کے دروان دنیا نے یہ منظر دیکھا کہ صیہونی قیدی نے فسطینی مزاحمت کے مجاہدین میں سے ایک مجاہد کے ماتھے کا بوسہ لیا، اور کیمروں کی موجودگی میں دنیا کو پیغام دیا کہ حماس اور مزاحمت انسانی اصولوں اور اقدار کے پاسدار ہیں۔ انقلاب، قیام اور جہاد کی تشدد زدہ تصویر دکھانے والوں نے اس وقت بھی یہی کوشش کی تھی جب انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی کے بعد 4 نومبر کو ایرانی تعلیمی اداروں کے طلبہ نے امریکہ کیخلاف احتجاج کرتے ہوئے امریکی سفارت خانے پر قبضہ کی اور اس قبضے کے نتیجے میں دنیا پر واضح ہوا کہ امریکی استعمار سفارتی اور بین الاقوامی اصولوں کی آڑ میں جاسوسی کرتا اور کرواتا ہے، نام کے سفارت خانے دنیا کو محکوم رکھنے میں منفی کردار ادا کرتے ہیں۔
سفارت خانے اقوام کے درمیان میل جول اور روابط کو انسانی بنیادوں پر قائم کرنے اور بہتر بنانے کے کھولے جاتے ہیں، اسی لئے سفیروں اور سفارتی عملے کو خاص رعایتیں حاصل وہتی ہیں، لیکنن جب سفارت خانے کی بلڈنگ جاسوسی کا اڈا ثابت ہوئی تو ایرانی انقلابی نوجوانوں نے امریکی جاسوسوں کو یرغمال بنا لیا۔ اس دوران امریکی اسپانسرڈ میڈیا حرکت میں آیا اور انقلاب اسلامی کا چہرہ مسخ کرنیکی کوشش کی۔ سفارت خانے پر قبضے کے بعد، مغربی ذرائع ابلاغ نے وسیع پیمانے پر فضا سازی کرتے ہوئے یہ کوشش کی کہ ایران کے یرغمالیوں کے ساتھ سلوک کو غیر انسانی ظاہر کریں۔
ایسے حالات میں، آیتالله سید علی خامنه ای نے ایک مؤثر میڈیا حکمتِ عملی کے تحت یرغمالیوں کے پاس گئے اور انہیں موقع دیا کہ وہ خود اپنی حالت اور حقیقتِ حال بیان کریں۔ یہ اقدام مغربی نفسیاتی جنگ کے لیے ایک سخت اور غیر متوقع ضرب ثابت ہوا، یہ امریکہ کے تبلیغاتی دباؤ کے مقابلے میں ایک نہایت ہوشیار اور مدبرانہ جواب تھا۔ اس وقت اس اقدام کو بانی انقلاب اسلامی امام خمینی نے اس اقدام کو جوہری تبدیلی اور انقلاب دوم قرار دیتے ہوئے سراہا۔ نہ صرف ایرانی قوم بلکہ پوری دنیا میں اس کے اثرات کا جائزہ لینے کے لئے ذیل میں اس تبدیلی کو عام اور معمولی تبدیلی سمجھنے کی بجائے نرم طاقت اور فکری DNA میں تبدیلی کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے جائزہ لیا گیا ہے۔
طاقت کا بدلتا جینیاتی کوڈ:
گزشتہ صدیوں میں طاقت کی تعریف عسکری قوت، معیشت یا ریاستی اختیار سے جڑی تھی، مگر اکیسویں صدی میں طاقت کی ساخت بدل گئی ہے۔ اب طاقت وہ نہیں جو بندوق یا سرمایہ فراہم کرے، بلکہ وہ ہے جو سوچ، اخلاق اور احساس کو متاثر کرے۔ یہی نرم قوت (Soft Power) ہے۔ طاقت کی وہ خاموش، مگر گہری شکل جو تلوار سے نہیں، تصور سے اثر کرتی اور اذہان و افکار فتح کرتی ہے۔ جب کوئی نظریہ، ثقافت یا بیانیہ کسی قوم یا اقوام کے ذہن، زبان یا خوابوں میں رچ جائے، تو وہ فکری DNA کا حصہ بن جاتا ہے۔ یعنی وہ اندر سے سوچنے، ردعمل دینے اور فیصلے کرنے کے انداز بدل دیتا ہے۔
۱۔ نرم قوت (Soft Power) کا نظریاتی مفہوم:
جوزف نائے (Joseph Nye) نے 1990 کی دہائی میں Soft Power کی اصطلاح متعارف کروائی تھی۔ اس کے مطابق “دوسروں کو اپنی پسند کے مطابق قائل کرنے کی وہ صلاحیت جو جبر یا خرید کے بغیر حاصل ہو۔” یہ طاقت جذبات، اخلاق، نظریہ اور ثقافت سے پیدا ہوتی ہے، یعنی وہ اثر جو انسان کے دل اور ضمیر پر حاوی ہو جائے۔ اس کی روشنی میں نرم قوت کے بنیادی عناصر میں پہلا فکر و نظریہ (Ideology) ہے، جس سے اقدار طے ہوتی ہیں۔ دوسرا ثقافت و تہذیب (Culture & Civilization) ہے، جو طرزِ زندگی میں جھلکتی ہے۔ تیسرا اخلاق و کردار (Moral Authority) ہے، جو اعتماد پیدا کرتا ہے۔ چوتھا علم و بیانیہ (Knowledge & Narrative) ہے، جو ذہن پر اثر انداز ہوتا ہے۔
۲. فکری DNA:
نظریہ اور شعور کا حیاتیاتی استعارہ ہے۔ DNA دراصل حیاتیاتی جینیاتی ساخت کا استعارہ ہے، مگر فکری لحاظ سے یہ اس بنیادی سانچے کی علامت ہے، جس سے انسانی رویہ، ترجیحات اور اجتماعی شعور تشکیل پاتا ہے۔ جب کسی معاشرے میں ایک نظریہ نسل در نسل منتقل ہونے لگے، جب وہ تعلیم، میڈیا، عبادت اور سیاست کا حصہ بن جائے، تو وہ محض ایک خیال نہیں رہتا، بلکہ فکری جین (Intellectual Gene) بن جاتا ہے۔ نرم قوت کا اصل کمال یہی ہے کہ وہ معاشرے کے DNA میں سرایت کر جاتی ہے، اور لوگ اسے قوت نہیں، فطرت سمجھنے لگتے ہیں۔
۳. انقلابِ اسلامی ایران، نرم قوت کا جاندار نمونہ:
اسلامی ایران نے ۱۹۷۹ء کے انقلاب کے بعد طاقت کے اس نئے اصول کو عملی شکل دی۔ اس نے بندوق سے زیادہ بیانیے، مذہبی شعور، اور اخلاقی خودمختاری پر انحصار کیا۔ فکری DNA کی تشکیل میں انقلاب اسلامی ایران بطور ماڈل سے مذہبی خودارادیت، ولایتِ فقیہ اور محرومین کی قیادت کیوجہ سے قیادت کا اخلاقی جواز محکم ہوا۔ ثقافتی خودمختاری پیدا ہوئی جس سے مغربی طرزِ زندگی کے مقابل اسلامی تمدن اور تہذیبی اعتماد میں اضافہ ہوا۔ استکبار دشمنی، ظلم کے خلاف فکری مزاحمت ایک عالمگیر اخلاقی رویہ بن چکا ہے۔ عاشورائی بیانیہ راسخ ہوا اور جس نے شہادت کو مزاحمت کی علامت بنا کر روحانی اور معنوی قوت عطا کی ہے۔ یہی فکری جینز بعد میں حزب اللہ، حماس، انصاراللہ اور دیگر تحریکوں میں منتقل ہوئے، یعنی انقلابِ اسلامی ایران نے نرم قوت کے فکری DNA کی وہ نسل پیدا کی جو عسکری طاقت سے زیادہ نظریاتی بصیرت پر قائم ہے۔
۴. یمن اور نرم قوت کی مزاحمت:
یمن کی انصاراللہ تحریک نے اسی نرم قوت کے DNA کو عرب دنیا کے جسم میں پیوند کیا۔ بیانیاتی سطح پر فلسطین سے عملی یکجہتی اور استکبار کے خلاف مزاحمت قومی نظریہ بن چکا ہے۔ ثقافتی سطح پر شہادت اور صبر کو قومی قوت کا مظہر جانا جاتا ہے۔ سیاسی سطح پر خودمختاری اور غیروں پر انحصاریت کا بیانیہ رد ہو چکا ہے۔ یہ تحریک عسکری لحاظ سے کمزور تھی، مگر فکری و اخلاقی لحاظ سے اس قدر طاقتور ہو گئی کہ پوری دنیا اصولی طور پر یمن کے کردار پر حرف زنی کی جرات نہیں کر سکتی۔ اور یہی نرم قوت کا سب سے گہرا مظہر ہے۔
۵۔ پاکستان اور فکری DNA کی منتقلی:
پاکستانی معاشرے میں بھی ایران کی نرم قوت آہستہ آہستہ ثقافتی اور فکری DNA کے طور پر جذب ہو رہی ہے، جیسے عزاداری کے سماجی تصور میں اب شہادت کو اجتماعی مزاحمت کی علامت کے طور پر قبولیت حاصل ہو چکی ہے۔ استقلال و خودمختاری کا نعرہ اب لفظوں سے بڑھ کر قومی بیانیے کی صورت میں خود ارادیت کے نمو پذیر رجحان کی صورت میں اجاگر ہو چکا ہے۔ سامراج دشمن فہم اب حقیقی تصور بن کر عالمی طاقتوں پر فکری تنقید کی روایت کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ فکری بیداری کا اثر یہ ہو رہا ہے کہ نوجوانوں میں مقاومت بطور اخلاقی وقار کا نظریہ سمجھا جانے لگا ہے۔ یہ تمام عناصر اس بات کا ثبوت ہیں کہ نرم قوت ایک فکری وراثت بن چکی ہے، جو سرحدوں کے پار منتقل ہو رہی ہے، بلکہ اب ایک نئے فکری تمدن (Neo-Islamic Intellectual Civilization) کی بنیاد بن رہی ہے۔
۶. نرم قوت کی نفسیاتی ساخت — عقل، احساس اور ایمان
عقلی (Rational) پر علم، ابلاغ اور استدلال کے پیمانے بدلے اور سچائی کی بنیاد پر معاشروں کی ذہن سازی ہوئی۔ احساساتی (Emotional) لحاظ سے شہادت طلبی، ظلم ستیزی و عدل کا بیانیہ پورے طور پر عوام کے دل و ضمیر پر اثرانداز ہوا۔ روحانی (Spiritual) اور معنوی سطح پر ایمان، صبر، اور توکل کی اقدار مضبوط ہوئیں جس سے عالم انسانیت کو باطنی طور پر ظلم کیخلاف استقامت کی قوت نصیب ہوئی۔ جب یہ تین سطحیں ہم آہنگ ہو جائیں، تو نرم قوت ایک روحانی فکری DNA بن جاتی ہے، جو جسموں پر نہیں، ضمیر پر حکومت کرتی ہے۔
نتیجہ یہ ہے کہ انقلاب اسلامی ایران کے اثرات کی صورت میں نرم طاقت کے نیا جینیاتی ماڈل ظاہر ہونے کے بعد اب دنیا ہر طرح کی طاقت کی حیاتیات کو بدلتے دیکھ رہی ہے۔ تہران میں جس عمارت سے بیٹھ کر امریکہ اور اسرائیل آدھی دنیا پر حکومت کرتے تھے، وہ کئی دہائیوں سے ایک عجائب گھر بن چکی ہے اور کشمیر، فلسطین سے لیکر نیویارک تک کروڑوں لوگ میں انقلابی اور مزاحمتی بیداری کا DND راسخ ہو چکا ہے۔ اب اثر و نفوذ بندوق سے نہیں، بیانیے اور علم سے طے ہوتا ہے۔ جس قوم کے پاس فکری DNA مضبوط ہو، یعنی نظریہ، ثقافت، اخلاق اور مقصد ایک لڑی میں جڑے ہوں، وہ کسی بھی عسکری یا اقتصادی طاقت سے زیادہ پائیدار اثر رکھتی ہے۔
اسلامی انقلاب کے بانی، موجودہ رہبر، شہید مطہری جیسے فکری معماروں اور ڈاکٹر چمران شہید سے لیکر شہید قاسم سلیمانی تک شہدا نے اپنے خون اور خلوص سے ایسے نقوش چھوڑے ہیں کہ یہ افکار اور بیانیہ پوری دنیا میں تبدیلی کی علامت بن چکا ہے۔ اس کی مثال اور قابل تقلید نمونہ پیروان امام خمینی اور جانبازان امام خامنہ ای ہیں۔ طاقت اب جسموں کو نہیں، شعور کو فتح کرنے کا نام ہے، اور نرم قوت وہ کوڈ ہے جو اس شعور کے DNA میں لکھا جا چکا ہے۔ مغربی ممالک میں عوامی بیداری اور فلسطین سے یکجہتی کے عظیم الشان مظاہرے اور تازہ ترین مثال نیویارک میں صیہونی لابی کی شکست اس کے بین مظاہر ہیں۔