سندھ حکومت کا کم از کم تنخواہ 42000 روپے کرنے کا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 23rd, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">کراچی: سندھ حکومت نے کم سے کم تنخواہ میں 12 فیصد اضافہ کرکے کم از کم اجرت 42000 روپے کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے سندھ اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ سندھ میں کم سے کم تنخواہ میں 12 فیصد اضافہ کرنا چاہتے ہیں، جلد سندھ میں کم سے کم تنخواہ 42000 روپے ہوگی، کوشش ہے کہ اسی مہینے اعلان کردیں۔
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے اسمبلی میں گزشتہ 7 روز سے جاری بجٹ بحث کو سمیٹتے ہوئے اپنے خطاب میں کہا کہ پیپلز پارٹی اور اس کی سندھ حکومت عوام کی بھرپور طریقے سے خدمت کررہی ہے، سندھ حکومت نے زندگی کے ہر شعبے میں لوگوں کو سہولتیں مہیا کی ہیں۔
مراد علی شاہ نے اپنی بجٹ تقریر کے موقع پر ایوان میں اپوزیشن کے شور شرابے اور ہنگامہ آرائی کو بدتمیزی قراردیتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی سے احتجاج کے وقت اسمبلی قوائد کی بھی پاسداری نہیں کی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس ایوان میں قطعی اکثریت ہے ہم بجٹ خود پاس کرا سکتے ہیں لیکن اس کے باوجود ہم سب کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں۔
وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ ایوان کی کارروائی پرسکون ماحول میں جاری رکھنے کیلیے ہم نے ایڈوائزری کمیٹی بنائی تھی اس میں اصول طے ہوئے تھے تاہم میری بجٹ تقریر کے موقع پر ہنگامہ آرائی کی گئی، کیا کسی کے سامنے کھڑے ہو کر چور چور کہنا اخلاقی بات ہے؟ میں 135واں رکن ہوں جو بجٹ پر بات کر رہا ہے، سندھ اسمبلی میں ایسی بحث پہلے کبھی نہیں ہوئی، وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ اپوزیشن نے جو کیا وہ معذرت کے ساتھ بدتمیزی کے زمرے میں آتا ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 سے 12 فیصد اور پنشن میں 8 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔
انہوں نے بتا یا کہ ہم نے پروفیشنل ٹیکس، انٹرٹینمنٹ ٹیکس ختم کردیا ہے، گاڑیوں پر کئی ٹیکسز کی چھوٹ دے دی ہے۔
مراد علی شاہ نے کہا کہ اس وقت 10820 ارب روپے کی صوبائی اے ڈی پی ہے، میں وزیراعلیٰ ہوں اور اصل میں میرے پاس 45 محکمے ہیں، ویسے اس وقت میرے پاس 6 محکمے ہیں، وزیراعلیٰ نے بتایا کہ اس وقت وزیراعلیٰ پنجاب کے پاس 14 محکمے ہیں جبکہ وزیراعلیٰ بلوچستان کے پاس 20 محکمے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے ایک ایک اخبار نے بھی لکھ دیا کہ کراچی کے لیے کوئی میگا اسکیم نہیں ہے حالانکہ ہم نے اس سال کراچی کے لیے 12 ارب روپے کے میگا منصوبے رکھے ہیں۔ سندھ وہ واحد صوبہ ہے جہاں مالیاتی نظم و نسق موجود ہے۔
مراد علی شاہ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ اور پارٹی چاہے گی تو میں 18 سال بھی وزیر اعلیٰ رہوں گا۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: مراد علی شاہ نے سندھ حکومت کم تنخواہ محکمے ہیں نے کہا کہ
پڑھیں:
تنخواہ دارطبقے پر عائد ٹیکس میں ایک بار پھر ردوبدل کا فیصلہ
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس میں پھر ردو بدل کرتے ہوئے 6 سے 12 لاکھ روپے سالانہ والے سیلری سلیب پر انکم ٹیکس کی شرح ایک فیصد کرنے کی چھ لاکھ سے بارہ لاکھ سالانہ آمدن پر ٹیکس ڈھائی فیصد سے کم کرکے ایک فیصد کرنے کی تجویز منظور کر لی گئی۔
سید نوید قمر کی زیر صدارت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس ہوا، اجلاس میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی خزانہ نے روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس پر منافع کیلئے سرمایہ کاری کی کم از کم مدت 3 ماہ کرنے کی سفارش کردی،
اجلاس میں چھ لاکھ سے بارہ لاکھ سالانہ آمدن پر ٹیکس ڈھائی فیصد سے کم کرکے ایک فیصد کرنے کی تجویز منظور کر لی گئی۔
آئی ایم ایف نے اساتذہ کو ٹیکس چھوٹ دینے کی تجویز مسترد کردی، نان فائلرز کیلئے بینکوں سے کیش نکلوانے کی حد 50 ہزار سے بڑھا کر 75 ہزار روپے کرنے کی تجویز منظور کرلی۔
کیش آن ڈیلیوری خریداری پر 2 فیصد ود ہولڈنگ ٹیکس لگانے کی تجویز منظور کرلی گئی، آن لائن مارکیٹ پر سالانہ 50 لاکھ روپے کی فروخت پر ٹیکس چھوٹ ہوگی۔
کمیٹی نے روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس پر منافع کیلئے سرمایہ کاری کی کم از کم مدت 3 ماہ کرنے کی تجویز دیدی، اسٹیٹ بینک نے روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس میں سرمایہ کاری کی مدت ایک سال کرنے کی تجویز دی ہے۔
ایف بی آر حکام نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ سرمایہ کار چند دنوں کی سرمایہ کاری پر منافع لے جاتے ہیں، چیئرمین کمیٹی نوید قمر نے کہا کہ ایک سال کی مدت بہت زیادہ ہے اس کو ایک سہہ ماہی کرلیں سرمایہ کار اتنی دیر انتظار نہیں کرتے۔
کمیٹی رکن مرزا اختیار بیگ نے کہا کہ روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس میں اوورسیز پاکستانیوں کی سرمایہ کاری ہے، اس میں کوئی تبدیلی کرنے سے پہلے اچھی طرح غور کیا جائےاوورسیز پاکستانی رقم واپس بھی لے کر جاسکتے ہیں۔
چیئرمین ایف بی آر راشد لنگڑیال نے کہا کہ اس مدت کو چھ ماہ کر دیں، مدت مقرر کرنے سے پہلے بہتر ہے کہ گورنر اسٹیٹ بینک کو سن لیا جائے۔
چیئرمین کمیٹی نویر قمر نے کہا کہ گورنر اسٹیٹ بینک کو آن لائن اجلاس میں شرکت کیلئے بلالیں۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی میں فنانس بل 2025 میں انکم ٹیکس تجاویز کا شق وار جائزہ لیا گیا، کمیٹی نے تنخواہ دار طبقے پر انکم ٹیکس کی شرح میں ردو بدل کی تجویز منظور کرلی۔
6 لاکھ سے 12 لاکھ سالانہ آمدن پر ٹیکس 2.5 فیصد سے کم کرکے ایک فیصد کرنے کی تجویز منظور کرلی گئی ہے، کارپوریٹ سیکٹر پر سپر ٹیکس میں 0.5 فیصد کمی کی تجویز بھی منظور کرلی گئی۔
ساکرا اکاؤنٹس میں 6 ماہ سے کم مدت کیلئے ڈیپازٹ کرانے پر ٹیکس چھوٹ ختم کرنے اور کیش آن ڈیلیوری خریداری پر 2 فیصد ود ہولڈنگ ٹیکس لگانے کی تجویز منظور کرلی گئی۔
کمیٹی نے ای کامرس بزنس پر ٹیکس لگانے کی تجویز دیدی، آمدن سے زیادہ بینکاری لین دین کرنیوالے افراد کا ڈیٹا بینکوں سے لینے کی تجویز منظور کرلی گئی۔
چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ کمپیوٹرائزڈ الگورتھم کے ذریعے ایک حد سے زیادہ ٹرانزیکشنز کا ڈیٹا بینک کو فراہم کیا جائے گا، کرنٹ اکاؤنٹ میں ہائی ٹرانزیکشنز کرنیوالوں کا ریڈ فلیگ جاری کیا جائے گا۔
قائمہ کیٹی فنانس نے کاروباری احاطے میں نگرانی کیلئے ایف بی آر عملے کی تعیناتی کی تجویز منظور کرلی، آن لائن مارکیٹ پر غیر رجسٹرڈ افراد کو فروخت پر جرمانے کی تجویز مسترد کردی گئی۔
آن لائن مارکیٹ پر سالانہ 50 لاکھ روپے کی فروخت پر ٹیکس چھوٹ ہوگی۔
قائمہ کمیٹی نے نان فائلرز کیلئے بینکوں سے کیش نکلوانے کی حد 50 ہزار سے بڑھا کر 75 ہزار روپے کرنے کی تجویز منظور کرلی۔
نان فائلرز پر یومیہ 75 ہزار روپے نکلوانے پر ودہولڈنگ ٹیکس 0.6 فیصد سے بڑھا کر 0.8 فیصد کرنے کی تجویز کی بھی منظوری دیدی۔
چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ آئی ایم ایف نے اساتذہ کو ٹیکس چھوٹ دینے کی تجویز مسترد کردی، ٹیچرز کو 25 فیصد ٹیکس ری بیٹ دلانے کیلئے آئی ایم ایف سے دوبارہ رجوع کیا گیا۔
چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ اس حوالے سے آئی ایم ایف کا جواب آگیا ہے، وہ نہیں مانے، اب ہم کچھ نہیں کرسکتے، ویسے یہ زیادتی ہے، آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ کلرک ہو یا ٹیچرز، ٹیکس میں ہم آہنگی ہونی چاہئے۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے ارکان کا اساتذہ کو ٹیکس چھوٹ دینے پر اصرار کیا، چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ حکومت اپنے بجٹ سے اساتذہ کو سبسڈی دے سکتی ہے۔
وزیر مملکت خزانہ بلال کیانی نے کہا کہ موجودہ بجٹ میں اس کی گنجائش نہیں ہے، رکن کمیٹی عمر ایوب نے کہا کہ بجٹ میں گنجائش ہے، قرضوں پر سود کی لاگت میں ایک ہزار ارب روپے کی کمی آئی، حکومت یہ پیسہ اساتذہ کو ریلیف دینے کیلئے استعمال کرے۔