لاہور (ڈیلی پاکستان آن لائن )وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا کہنا ہے کہ تبدیلی کراچی سے شروع ہوکر نیویارک پہنچ گئی، کراچی کے لوگوں نے بھی نوجوان میئر کا انتخاب کیا تھا۔

وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کراچی میں فیوچر سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تبدیلی کراچی سے شروع ہوکر نیویارک پہنچ گئی، کراچی کے لوگوں نے بھی نوجوان میئر کا انتخاب کیا تھا، آج نیویارک نے ایک مسلمان میئر کا انتخاب کیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کو فروغ دے رہی ہے، کاروباری سرگرمیوں کیلئے سازگار ماحول فراہم کیا جارہا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ کراچی پاکستان کا معاشی حب ہے، رابطوں میں اضافے سے ہی ترقی کی راہیں کھلتی ہیں، معیشت میں نجی شعبے کا کردار اہم ہے۔

رحیم کی گائے ۔۔۔

مزید :.

ذریعہ: Daily Pakistan

کلیدی لفظ: میئر کا انتخاب کیا

پڑھیں:

میئر نیویارک ظہران ممدانی نے کیسے کرشمہ تخلیق کیا؟

ایک مسلمان، جنوبی ایشیائی اور واضح طور پر اینٹی اسرائیل موقف رکھنے والے ڈیموکریٹ ظہران ممدان نے میئر نیویارک بن کر پورے امریکا کو ہلا کر رکھ دیا۔ نیویارک ایسا شہر ہے جہاں کا میئر بننا، کسی چھوٹے ملک کی وزارتِ عظمیٰ کے برابر حیثیت رکھتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ صرف سال پہلے تک کوئی توقع بھی نہیں کرسکتا تھا کہ ظہران ممدانی جیسا نیا امیدوار اتنی طاقتور اسرائیلی لابی اور صدر ٹرمپ کے ساتھ ایلون مسک اور کئی دیگر ارب پتی بزنس مینوں کی شدید ترین مخالفت کے باوجود میئر بن جائے گا۔ ماہرین کے مطابق یہ امریکا میں امید کی نئی کرن ہے۔ یہ ایک کرشمہ ہے، ایسا کرشمہ جسے تخلیق کیا گیا۔

ظہران ممدانی کی منفرد انتخابی مہم

ممدانی کی مہم امریکی بلدیاتی تاریخ کی سب سے منظم گراس روٹ لیول کمپین قرار دی گئی ہے۔ اس سے پہلے اس کی کوئی مثال موجود نہیں۔ ظہران ممدانی کی ٹیم نے ایک لاکھ رضاکاروں کا نیٹ ورک تشکیل دیا جو گھر گھر گئے، ہر دروازے پر گھنٹی بجا کر اپنا پیغام پہنچایا۔ رینٹ فریز (کرائے کو منجمد کرو) اور فری بس کے نعرے لگائے۔ ‘پیپلزپاور’ کے نعرے نے شہریوں کو یہ احساس دیا کہ یہ مہم صرف ایک امیدوار کی نہیں بلکہ عام نیویارک شہری کی آواز ہے۔

ممدانی نے روایتی میڈیا کے بجائے سوشل میڈیا اور کمیونٹی میٹنگز پر توجہ دی۔ انسٹا گرام ریلز، ٹک ٹاک اور چھوٹے کمیونٹی فورمز کے ذریعے ان کا پیغام نوجوانوں تک پہنچا۔ ان کے ساتھ کوئی بڑے بزنس مین نہیں تھے، فنڈز کے بھی ایشو تھے، مگر چھوٹے چھوٹے چندے جمع کرکے کمپین کی گئی۔

ظہران ممدانی کا پیغام اور نظریاتی اپیل

نومنتخب میئر نیویارک کی بنیادی اپیل ‘زندگی کو قابلِ برداشت بناؤ’ کے نعرے میں سمٹی تھی۔ ممدانی نے خود کو ورکنگ کلاس نیویارک امیگرنٹ کے طور پر پیش کیا، جو امیروں کے شہر کو عام آدمی کے لیے دوبارہ قابلِ رہائش بنانا چاہتے ہیں۔ ان کے نعرے بہت پرکشش اور لوئر مڈل کلاس کے ساتھ عام آدمی کے دل کی آواز تھے۔

نیویارک میں مکانات اور دکانوں کے کرائے بہت زیادہ ہیں، شاید امریکا میں سب سے زیادہ۔ لوگ سب سے زیادہ کرائے سے تنگ ہیں۔ ایسے میں ظہران ممدانی کا یہ منشور کہ بطور میئر وہ مکانات، دکانوں کے کرائے ایک ہی جگہ فریز کردیں گے، چند سالوں کے لیے سالانہ اضافہ نیہں ہوگا۔ وہ ‘برے مالکانِ مکان’ کے خلاف سخت قوانین لانے اور کرایہ داروں کے تحفظ کے نظام کو مضبوط بنانے کا عزم رکھتے ہیں۔ اس کے ساتھ مفت پبلک ٹرانسپورٹ اوربلدیہ کے زیراہتمام سرکاری گروسری اسٹورز بنانے کا اعلان جہاں سے بہت سستی روزمرہ کی اشیا خریدی جاسکیں۔ یہ ایسے نعرے تھے جنہوں نے بڑے عوامی حلقے کو مسحور کردیا۔

اہم بات یہ تھی کہ یہ سب باتیں ظہران ممدانی نے کسی جارحانہ یا امیر طبقے کے خلاف آگ بھڑکانے والے انداز میں نہیں کہیں۔ ان کی تقریروں کا لہجہ غصے سے زیادہ ہمدردی پر مبنی تھا۔ وہ کہتے تھے: ’ہم کسی سے چھیننے نہیں آئے، ہم سب کو سانس لینے کی جگہ دلوانے آئے ہیں۔’

ظہران ممدانی کا اصلاحاتی ایجنڈا

ممدانی نے صرف نعرے نہیں لگائے بلکہ ایک پورا معاشی ایجنڈا دیا، اسی وجہ سے نیویارک کے پڑھے لکھے طبقے میں بھی انہیں پزیرائی ملی۔ ممدانی کا مؤقف ہے کہ امیر طبقے اور بڑی کمپنیوں پر ٹیکس بڑھا کر متوسط اور نچلے طبقے پر سے بوجھ کم کیا جائے۔ وہ چاہتے ہیں کہ اس اضافی آمدنی سے عوامی سہولتیں بہتر بنائی جائیں۔

گفٹڈ اینڈ ٹیلنٹڈ پروگرام: نیویارک میں کچھ عرصے سے لائق اور ذہین بچوں کے لیے الگ اسکول بنائے جارہے تھے جنہیں گفٹڈ ٹیلنٹڈ پروگرام کہا جاتا ہے۔ اس مقصد کے لیے بچوں کو کنڈرگارڈن (یعنی 5 سال کی عمر) میں ایک ٹیسٹ کے ذریعے منتخب کیا جاتا ہے۔ منتخب بچوں کو پھر مخصوص اسکولوں یا ‘G&T کلاسز’ میں داخل کیا جاتا ہے، جہاں نصاب زیادہ مشکل، تیز اور چیلنجنگ ہوتا ہے۔ اس کا مقصد ذہین بچوں کی صلاحیتوں کو بہتر طور پر فروغ دینا۔ ایسے بچوں کو ایک ایسا تعلیمی ماحول دینا جہاں وہ اپنی رفتار سے سیکھ سکیں اور تعلیمی لحاظ سے آگے بڑھ سکیں۔

ہوتا مگر یہ رہا کہ اہلیت کا ٹیسٹ صرف ان والدین کے بچوں کے لیے زیادہ کامیاب رہا جنہیں بہتر وسائل، ٹیوٹرز اور پری اسکول ٹریننگ دستیاب تھی یعنی زیادہ تر امیر اور سفید فام خاندان۔ کم آمدنی والے، سیاہ فام، لاطینی یا امیگرنٹ (ہجرت کرنے والے) خاندانوں کے بچے اس ٹیسٹ میں کم نمائندگی رکھتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ نیویارک کے پبلک یعنی سرکاری اسکول 2 طبقات میں بٹ گئے: ایک طبقہ: G&T والے بچے (زیادہ مراعات یافتہ، کم متنوع)، دوسرا طبقہ: عام کلاسز (کم آمدنی والے اور نسلی طور پر متنوع بچے)۔

ظہران ممدانی اور ان کے ترقی پسند ساتھیوں کا کہنا ہے کہ یہ نظام امتیازی ہے اور ‘ذہانت’ کا فیصلہ سماجی وسائل کی بنیاد پر کرتا ہے، نہ کہ فطری صلاحیت پر۔ ان کا عزم ہے کہ یہ پروگرام ختم کرکے سب بچوں کے لیے یکساں اور معیاری تعلیم دی جائے۔ یعنی ہر اسکول کو G&T کے معیار تک لایا جائے، بجائے اس کے کہ چند مخصوص بچوں کو الگ کیا جائے۔ ظہران ممدانی کے بقول :’جب ہم 5 سال کے بچے کو ٹیسٹ دے کر اسے ‘خصوصی’ اور باقیوں کو ‘عام’ کہتے ہیں تو ہم ان کے مستقبل کے امکانات پر فیصلہ لگا دیتے ہیں۔’

ماحول دوست پالیسیاں: ممدانی اسکولوں اور سرکاری عمارات میں شمسی توانائی اور گرین ٹیکنالوجی کے نفاذ کے حق میں ہیں تاکہ ماحول دوست نیویارک تشکیل دیا جاسکے۔ یہ بھی ٹرمپ کے خلاف سوچ ہے جو ماحولیات کی ذرا بھی پروا نہیں کرتے۔

پولیسنگ اور عوامی تحفظ: ممدانی سمجھتے ہیں کہ پولیس کا دائرہ کار محدود ہونا چاہیے۔ بعض خدمات جیسے ذہنی صحت کے کیسز، بے گھر افراد کی دیکھ بھال اور معمولی خلاف ورزیاں پولیس کے بجائے کسی نئے شہری ادارے کے سپرد کی جائیں۔ ان کا مؤقف ہے کہ ‘عوامی تحفظ’ کا مطلب صرف پولیس نہیں بلکہ صحت، رہائش اور سماجی بہبود کا مضبوط نظام ہے۔ یہ وہ پالیسی ہے جس کی وجہ سے نیویارک کے سفید فام رائٹ ونگ لوگ ممدانی کے مخالف تھے، ان کے خیال میں پولیس کے دائرہ کار کو کم کرنے (یعنی اس کی سختی کم کرنے) سےکرائم بڑھے گا۔

سیاسی وژن: ممدانی کا نعرہ ہے کہ ‘سیاست اقتدار نہیں، خدمت کا ذریعہ ہے‘۔ ان کی مہم کا بنیادی مقصد ایک ایسا شہر بنانا ہے جہاں طبقاتی تفریق کم ہو، مواقع برابر ہوں، اور شہری وقار بحال ہو۔ ان کی پالیسیوں میں ‘ترقی پسند مگر حقیقت پسندانہ’ سوچ جھلکتی ہے۔ ظہران ممدانی خود کو ڈیموکریٹ سوشلسٹ کہتے ہیں۔ تاہم وہ ایسا توازن رکھتے ہیں جو نظریاتی شدت اور عملی ضرورت کے درمیان راستہ نکالتا ہے۔

نئے انداز کی سیاسی کمپین اور دھڑوں کو متحد کرنا

ظہران ممدانی کا سب سے بڑا کارنامہ یہ بیان کیا جارہا ہے کہ اس نے متنوع قسم کی سیاست کا بڑا زبردست تجربہ کیا ہے۔ اس سے پہلے کسی نے یوں اتنے مختلف اور بظاہر ایک دوسرے سے متصادم سوچ رکھنے والوں کو چند مشترکا نکات پر اکٹھا نہیں کیا تھا۔ ظہران ممدانی نے مسلمان ووٹروں کے ساتھ سفید فام کرسچن اور نوجوان یہودی ووٹروں کو بھی اکٹھا کیا۔ ان کے حامیوں میں سیاہ فام آبادی کے ساتھ، ہسپانوی امیگرنٹس، نان ہسپانوی امیگرنٹس، عرب مسلمان، جنوبی ایشیائی (پاکستانی، انڈین، بنگلہ دیشی وغیرہ) سب شامل ہوگئے تھے۔ ایک طرف جنریشن زی کو ساتھ ملایا تو دوسری طرف ففٹی پلس عمر والے بھی ان کے چیزیں سستے کرنے اور مفت ٹرانسپورٹ وغیرہ کے ایجنڈے کے حامی تھے۔

روایتی سیاست کی شکست ہوئی

اس الیکشن سے یہ اندازہ ہوا کہ امریکا میں روایتی سیاستدان کمزور پڑ رہے ہیں، اینڈریو کومو جو سابق گورنر رہے، بڑے سرمایہ دار ہیں، انہیں ٹرمپ اور ایلون مسک جیسے کھرب پتیوں کی اعلانیہ حمایت حاصل تھی، مگر عوام نے انہیں پزیرائی نہ بخشی۔

ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ پہلے اینٹی اسٹیبلشمنٹ فیلنگز اور جذبہ ٹرمپ کے حامی رائٹ ونگ میں تھا، اب مگر یہ احساسات بائیں بازو کے شہری حلقوں میں منتقل ہوچکا ہے۔ ظہران ممدانی نے ایک طرح سے اینٹی اسٹیبلشمنٹ ووٹ بھی لیا ہے۔

انہیں شہر کے متوسط طبقے کی خاموش حمایت ملی ہے۔ اگرچہ بڑے سرمایہ دار طبقے نے مخالفت کی مگر استاد، نرسز، سرکاری ملازمین، ٹیک کارکنان، اربن مڈل کلاس ممدانی کے ساتھ تھی۔ یہ طبقہ تبدیلی چاہتا ہے مگر انارکی نہیں اور ممدانی نے یہی توازن پیش کیا۔

ظہران ممدانی کے حامی ووٹر بلاکس

نوجوان ووٹرز (18 سے 35 سال): یہ ان کا سب سے بڑا حمایتی طبقہ ہے۔ جو رینٹ فریز، فری بس اور کلائمٹ جابز جیسے نعروں سے متاثر ہوا۔ ان کو متوجہ کرنے کے لیے ٹک ٹاک اور انسٹا گرام پر موثر مہم چلائی گئی۔

جنوبی ایشیائی ووٹرز: ممدانی کا تعلق انڈیا سے ہے، ان کی والدہ معروف بھارتی فلمساز ہیں۔ وہ مسلمان ہونے کے ناتے پاکستانیوں اور بنگلہ دیشیوں کے لیے بھی کشش رکھتے ہیں۔ ظہران ممدانی کا یہ بھی خاص وصف رہا کہ انہوں نے اپنی شناخت کبھی نہیں چھپائی، وہ خود کو فخر سے ایک مسلمان اور جنوبی ایشیائی پس منظر کا کہتے ہیں۔ ان کے شناختی فخر، امیگرنٹ نمائندگی اور معاشی مساوات کے بیانیے سے یہ لوگ جڑے رہے۔ تاہم بھارتی ووٹرز میں بی جے پی کے حامی عناصر ظہران ممدانی کے مخالف رہے کیونکہ یہ نریندر مودی کا بھی سخت ناقد ہے۔

افریقی نژاد امریکی ووٹرز: یہ بھی اہم ووٹر بلاک ہے، نیویارک میں ان کی خاصی تعداد ہے۔ یہ لوگ ممدانی کے شہری انصاف، پولیس ریفارمز اور سوشل ویل فیئر کے وعدوں کی وجہ سے حامی ہوئے۔ نیویارک کے اہم علاقوں برانکس اور بروکلین کے اندرونی علاقوں سے ممدانی کو بڑی لیڈ انہی کے باعث ملی۔

ترقی پسند یہودی ووٹرز: اس ووٹربلاک کی حمایت ملنا حیران کن ہے کیونکہ ظہران ممدانی اعلانیہ اسرائیلی پالیسیوں کا ناقد ہے، وہ آزاد فلسطین کا بھی حامی ہے۔ تاہم وہ نوجوان یہودی جو اسرائیل، فلسطین کے مسئلے پر بائیں بازو کی پوزیشن رکھتے ہیں اور جو سوشل جسٹس اور کم کرایہ والے گھروں کے نعرے کی وجہ سے ممدانی کے حامی بنے۔ سروے کے مطابق ان میں ممدانی کو 17 پوائنٹس کی برتری حاصل تھی۔ ممدانی کی جیت سے وہ متھ بھی ٹوٹ گئی ہے کہ ممدانی کے فلسطین مؤقف سے یہودی ووٹ کھو جائیں گے۔

کن ووٹر بلاکس نے ممدانی کی مخالفت کی؟

روایتی یا ارتھوڈوکس یہودی ووٹرز: یہ اسرائیل، فلسطین کے حوالے سے ممدانی کے سخت موقف سے ناخوش تھے، زیادہ تر نے اینڈریو کومو یا کرٹس سلیوا کی حمایت کی۔

کاروباری طبقہ اور مالکانِ مکان: یہ ممدانی کے کرایہ منجمند کرنے، ٹیکس بڑھانے اور بزنس ریگولیشن کے خلاف تھے۔ تجارتی لابیوں اور ریئل اسٹیٹ بورڈ آف نیویارک نے کھل کر ممدانی کی مخالفت کی۔

قدامت پسند سفید فام ووٹرز: یہ سب پولیس، قانون اور نظم و ضبط کے مسائل پر ‘بائیں بازو’ کی پالیسیوں سے خوفزدہ تھے۔ ویسے بھی یہ ری پبلکن امیدواروں کے زیادہ قریب ہیں اور انہیں ٹرمپ حامی سمجھا جاتا ہے۔

اس فتح کے نتائج اور چیلنجز

نیویارک سٹی امریکا کا سب سے بڑا اور سب سے اہم شہر ہے۔ یہ دونوں حوالوں سے (آبادی + معاشی و سیاسی اہمیت) نمبر ون پر آتا ہے۔ نیویارک سٹی دنیا کا سب سے بڑا مالیاتی مرکز ہے۔ دنیا کا سب سے بڑا معاشی مرکز وال اسٹریٹ اور نیویارک اسٹاک ایکسچینج بھی یہیں ہے۔ صرف نیویارک سٹی کی معیشت کا حجم 2 ٹریلین ڈالر سے زیادہ ہے، جو دنیا کے بے شمار مالک سے بڑی ہے۔ اقوامِ متحدہ کا ہیڈکوارٹر نیویارک میں ہے۔ عالمی سفارتکاری اور بین الاقوامی میڈیا کے بیشتر اداروں کے دفاتر یہی موجود ہیں۔ نیویارک دنیا کا بہت اہم ثقافتی وابلاغی مرکز بھی ہے۔ دنیا کے سب سے بڑے میڈیا ہاؤسز نیویارک ٹائمز، بلومبرگ، این بی سی وغیرہ یہیں ہیں۔ برانڈ، فیشن، براڈوے تھیٹر اور آرٹ کا عالمی مرکز بھی یہی شہر ہے۔

ایسے اہم شہر میں وہ میئر بنا ہے جو خود کو فخریہ ڈیموکریٹ سوشلسٹ کہتا ہے جو ترقی پسند اصلاحات کا ایجنڈا رکھتا ہے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں۔ کہا جارہا ہے کہ ترقی پسند سیاست کی امریکا میں واپسی ہوئی ہے۔ یہ کامیابی صرف ایک شخص یا جماعت کی جیت نہیں بلکہ اُس نئے شہری شعور کا ظہور ہے جو معیشت، انصاف اور برابری کو بیانیے کے مرکز میں رکھتا ہے۔ جو سیاسی نظام کو نیچے سے اوپر کی سمت بدلنے کا خواہاں ہے۔

ٹرمپ نے اس پر طنزیہ ٹوئٹ کیا اور پھر ایک اور ٹوئٹ میں کہا کہ چونکہ بیلٹ پیپر پر ٹرمپ کا نام نہیں تھا، اس لیے ری پبلکنز ہار گئے ہیں۔ یہ بات غلط ہے کیونکہ ٹرمپ نے شدید ترین مخالفت کی۔ نیویارک کے ہر ٹرمپ حامی ووٹر کو علم تھا کہ ٹرمپ ظہران ممدانی کو ہرانا چاہتے ہیں، مگر اس کے باوجود اگر ظہران ممدانی جیت گئے تو یہ ٹرمپ کی براہ راست شکست ہے۔ ایلون مسک بھی اپنی بے پناہ دولت اور ڈیجیٹل اثرورسوخ کے باوجود ناکام ہوگئے۔ وہ ممدانی کے خلاف طنزیہ ٹوئیٹ کرتے رہے، ان کے نام کے ہجے بگاڑتے رہے، نتائج نے ایلون مسک کو بھی شرمسار کیا ہے۔

اس نتیجے نے یہ پیغام دیا ہے کہ نیویارک اب صرف وال اسٹریٹ کا شہر نہیں رہا بلکہ ورکنگ کلاس، طلبہ، اساتذہ اور امیگرنٹ کمیونٹیز کا بھی شہر ہے۔ ممدانی کی کامیابی امریکی بائیں بازو کے لیے ایک نظریاتی سنگِ میل ہے۔ یہ جیت بتاتی ہے کہ ‘پالیسی بیسڈ’ اور ‘ایماندارانہ ترقی پسند’ سیاست اب صرف نعرہ نہیں رہی بلکہ قابلِ عمل حقیقت بنتی جا رہی ہے۔

جیت بڑی ہوئی ہے مگر چیلنجز بھی بڑے ہیں۔ انہیں 50 فیصد سے زیادہ کامیابی ملی ہے، مگر بہرحال ووٹرز کی بڑی تعداد نے انہیں ووٹ نہیں دیا۔ ضروری ہوجائے گا کہ وہ اب ایک جامع حکومت بنائیں۔ معیشت، رہائش اور خدمات کے مسائل کو بروقت حل کریں اور ان امیدوں پر پورا اتریں جو انہوں نے اپنی مہم میں جگائی تھیں

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عامر خاکوانی

نیچرل سائنسز میں گریجویشن، قانون کی تعلیم اور پھر کالم لکھنے کا شوق صحافت میں لے آیا۔ میگزین ایڈیٹر، کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ 4 کتابوں کے مصنف ہیں۔ مختلف پلیٹ فارمز پر اب تک ان گنت تحریریں چھپ چکی ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • کراچی ہو یا نیویارک، روٹی، کپڑا اور مکان سب کا منشور، بلاول بھٹو کی ظہران ممدانی کو مبارکباد
  • میئر نیویارک ظہران ممدانی نے کیسے کرشمہ تخلیق کیا؟
  • کراچی کے بعد نیویارک نے بھی نوجوان میئر چنا، کراچی کی تبدیلی نیویارک تک پہنچ گئی ہے: مراد علی شاہ
  • وزیراعلیٰ مراد علی شاہ سے رومانیہ کے سفیر ڈاکٹر ڈین سٹینیکو وفد کے ہمراہ وزیراعلیٰ ہائوس میں ملاقات کررہے ہیں
  • میئر نیویارک کا انتخاب: بیلٹ پر ممدانی کا نام 2 مرتبہ آنے پر ایلون مسک کی تنازع کھڑا کرنیکی کوشش
  • ہم تاریخ رقم کرنے جارہے ہیں: ظہران ممدانی، میئر منتخب ہوئے تو فنڈز نہیں دوں گا: ٹرمپ
  • نیویارک کے میئر کا انتخاب: ظہران ممدانی کی سبقت برقرار، ووٹنگ آج متوقع
  • سندھ میں شکار کا موسم 15 نومبر سے شروع ہوگا
  • وزیراعلیٰ نے تعاون کا یقین دلایا، گرین لائن فیز2 پر کام جلد شروع ہوگا، احسن اقبال