Juraat:
2025-09-22@19:10:25 GMT

(سندھ بلڈنگ )لیاقت آباد میں کھوڑ سسٹم کا کالا راج

اشاعت کی تاریخ: 24th, June 2025 GMT

(سندھ بلڈنگ )لیاقت آباد میں کھوڑ سسٹم کا کالا راج

ڈائریکٹر ضیاء اور ضیاء کالا نے رہائشی علاقوں میں کمرشل تعمیرات کی دھوم مچا دی
بی ایریا کے پلاٹ نمبر15/5 اور18/8 پر بلند عمارتوں کی خلاف ضابطہ تعمیرات
تنگ گلیوں میں ناجائز تعمیرات سے مکینوں کو مشکلات ،ڈی جی کی پراسرار چشم پوشی

سندھ بلڈنگ کھوڑو سسٹم بدعنوان افسران کی مضبوط ڈھال ڈائریکٹر سید ضیا ء کی سرپرستی میں وسطی میں ناجائز تعمیرات کی چھوٹ ضیا کالا کے حفاظتی پیکج میں لیاقت آباد بی ایریا پلاٹ نمبر 18/5 اور 18/8 پر بلند عمارتیں انہدام سے محفوظ رکھنے کی ضمانت کے ساتھ تعمیر علاقہ مکین مشکلات سے دوچار،جرأت سروے کے مطابق سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں رائج کھوڑو سسٹم بدعنوان افسران کے لئے مضبوط ڈھال ثابت ہو رہا ہے ڈائریکٹر سید ضیا کی سرپرستی میں وسطی میں ناجائز تعمیرات کی مکمل چھوٹ دی جارہی ہے اسوقت بھی لیاقت آباد بی ایریا کے پلاٹ نمبر 15/5 اور 18/8 کے رہائشی پلاٹوں پر کمرشل تعمیرات بدنام زمانہ بھتہ خوری کے مقدمے میں نامزد ملزم ضیا کالا کے حفاظتی پیکج میں انہدام سے محفوظ رکھنے کی ضمانت کے ساتھ جاری ہیں جرآت سروے میں یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ تنگ گلیوں میں بلند عمارتوں کی تعمیر سے علاقہ مکین مشکلات سے دوچار ہیںسروے پر موجود نمائندہ سے گفتگو کرتے ہوئے دانش نامی شخص کا کہنا ہے کہ خلاف ضابطہ تعمیرات کی روک تھام کو ممکن بنانے کے لئے ٹھوس اقدامات کیے جائیں کراچی میں جاری ناجائز تعمیرات پر موقف لینے کے لئے جرآت سروے ٹیم کی جانب سے ڈی جی اسحاق کھوڑو سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی مگر رابطہ ممکن نہ ہو سکا۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: ناجائز تعمیرات تعمیرات کی

پڑھیں:

بلند پایہ شاعر جلیل عالیؔ

اچھی شاعری وہ ہے جو قاری یا سامع کے دل کو چھو جائے، اُسے متاثرکرے اور اُسے سوچنے پر مجبورکرے۔ اس میں الفاظ کا خوبصورت استعمال، خیال کی گہرائی اور احساسات کی سچائی ہونی چاہیے۔ ایک اچھی شاعری میں وزن اور بحر کی پابندی بھی ضروری ہے، لیکن اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اس میں تخلیقی صلاحیت اور فنکارانہ مہارت کا اظہار بھی ہو۔ ایسی تمام خوبیاں ہمارے عہد کے ماہرِ اقبالیات، ترقی پسند،کثیرالجہتی شاعر جلیل عالیؔ کے شعری اسلوب میں موجود پائی جاتی ہیں۔ شخصیت کے اعتبار سے عالیؔ صاحب ایک وضع دار، ملنسار، خوش گفتار اور عجزو انکسار کے پیکر بھی ہیں۔

ان کے شعور و ادراک کی حیات وکائنات دلکش اور مشاہدات کی دنیا بہت وسیع ہے۔ انھوں نے اپنے کلام کو مشاہدات کی روشنی میں جذبے اور احساس کی رنگینی عطا کی ہے۔ اسی طرح ان کے فکری حدود میں تنقید، تحقیق، حمد و نعت، نظم اور غزل شامل ہیں۔ عالیؔ صاحب مشرقی و مغربی فکری علوم و ادبیات پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں۔ وہ ایک باریک بین آدمی ہے۔ جس طرح مرصع نگینوں کو جوڑ کو حسن پیدا کرتا ہے اُسی طرح شاعر الفاظ کی بندش سے نگینوں کو جڑنے کا کام لیتا ہے۔

عالیؔ صاحب کے کلام بھی ترشے ہوئے الفاظ، موتیوں کی طرح تسبیح کی مانند پروئے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔کیوں کہ اچھی شاعری ہر قدم پر نیا درد مانگتی ہے اور عالیؔ صاحب کے مشاہدات اور تجربات اتنے ہیں کہ اظہار کے سلیقے کے ساتھ فن کا یہ فکری مطالبہ پورا کر سکتے ہیں۔ یقینا وہ زندگی کی دھوپ چھاؤں، سدا بہار موسموں کی کیفیتوں سے خوب واقف ہیں۔ ان کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے۔

یہ کس رُخ پر سواری دل کی چلتی جا رہی ہے
ہوس دنیا کی بڑھتی، عمر ڈھلتی جا رہی ہے
……
بے برکت اظہار اسی کو کہتے ہیں 
لفظ الجھنے لگ جاتے ہیں معانی سے
……

اس کے سخن سے ہم نے نکالے ہیں جو نکات
اس سے بھی کچھ زیادہ لطافت کی بات ہے

ایسے بے شمار اشعار ان کے تازہ مجموعہ غزل ’’آگے ہمارا خوابیہ ہے‘‘ میں پڑھنے کو ملتے ہیں۔ عالیؔ صاحب کی غزل اپنے اندر انسانی جذبات اور احساسات کی عکاسی کرتی ہے۔ عشق، محبت، ہجر، وصل، غم، خوشی اور دیگر جذبات کو غزل میں بڑی عمدگی اور صاف گوئی کے ساتھ بیان کیا ہے۔ ان کے غزل کے اشعار مختصر لیکن ان میں گہرا مفہوم پایا جاتا ہے۔ ان کی غزل کی زبان شستہ اور رواں ہے جس میں الفاظ کا چناؤ بڑا ناپ تول کرکے کیا گیا ہے، تاکہ اسے پڑھنے والے کو آسانی سے سمجھ آ جائے۔ انھوں نے غزل کہتے ہوئے زبردستی کی مشکل ردیفوں، دقیق زمینوں اور بلاوجہ کی ترکیبوں سے اجتناب کیا ہے۔

ان کے ہاں ردیف کیسی بھی ہو قوافی کیسے بھی ہوں۔ زمین کیسی بھی سخت اور پتھریلی ہو، اُن کی طویل ریاضتِ فن کا ثمر ہے کہ زرخیز ہو جاتی ہے۔ اس حوالے سے توقیر عباس اپنے دیباچہ میں لکھتے ہیں کہ’’جلیل عالی میں ایک اہم اختصاص یہ بھی ہے کہ بہت عام اور پامال لفظ کو یوں استعمال کرتے ہیں کہ اس کے معانی بدل جاتے ہیں۔ یہ کام زبان و بیان کے گہرے شعور کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

مجازِ مرسل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں تشبیہ کا کوئی علاقہ نہیں ہوتا، لیکن ایسی مثال اردو ادب میں کبھی زیرِ مطالعہ نہیں آئی کہ ایک لفظ بطور مجازِ مرسل معنوی کفالت کی ذیل میں جو مثالیں دی جائیں گی، ترقی پسند فکر کی عکاس ہوں گی جو درج بالا مذکورہ تمام بیانات کا اثبات بھی کرتی ہیں۔ جلیل عالی کی پاکستان کی سماجی، سیاسی، اسلامی تہذیبی تشکیل، تاریخ، ماضی و حال پر بہت گہری نظر ہے، اس لیے ان کے اشعار میں معاصر صورتِ حال کی بھی بھرپور جھلک ڈلک موجود ہے۔‘‘

قرض کیسے تھے جو اس طور ادا ہونے تھے
جیسے ہونی نے لیے چھین ہنر بستی کے

جلیل عالیؔ اپنے عہد کے جلیل القدر خوبیوں کے حامل شاعر ہی نہیں، بلکہ بیدار مغز آدمی بھی ہے۔ انھوں نے ندرتِ خیالات سے الفاظ کو نئے نئے معانی کا نہ صرف جامہ پہنایا ہے بلکہ نئے نئے استعارات، تشبیہات، علامات، محاورات، تلمیحات اور تراکیب کا استعمال کر کے غزل کو عظمت و رفعت بخشی ہے۔ ایک مرتبہ پھر توقیر عباس کے بقول’’جلیل عالیؔ کے لیے غزل اور نظم دونوں لسانیاتی، سماجی، تاریخی، علمی اور شعری دانش کے اظہار کا منبع ہیں لیکن کہیں بھی فن سے دستبردار ہو کر محض اپنی بات کی ترسیل نہیں کرتے۔ یہی ان کی فنی قدرت کا ثبوت ہے۔‘‘ ان کے نزدیک شاعری ایک بہت کٹھن کام ہے، اس کی ترسیل ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ اس شعرکے مصداق۔

شاعری صرف خیالات کی ترسیل نہیں 
ایک تخلیقِ طلسمات ہے الفاظ کے ساتھ

اس دھرتی میں ظلم و استبداد، بربریت، سفاکیت کے ہوتے ہوئے ایسے عظیم لوگ بھی پیدا ہوئے ہیں، جو دکھی انسانیت کے لیے اپنی زندگیاں وقف کرتے ہوئے اُن کے چہروں پر تبسم کے پھول کھلانے، نوکِ قلم سے انقلاب لانے کا عزم، سچے ادب کے خدمت گار، اُخوت، اتحاد و یگانگت اور امن آشتی کی خوشبو، رہبر کے لیے شعور و نظم و ضبط اپنانے کی نصیحت، شعورِ ذات کا احساس، دل کی روشنی سے حکمت و دانش کا نور پھیلانے کا مقصدِ حیات، وقت کے ظالم فرعونوں، شدادوں اور یزیدوں سے بغاوت کا اعلان، مفلسی کے مارے ہوئے غریبوں اور ناانصافیوں کے خلاف احتجاج، انسانی معاشرتی رویوں پر گہرا طنز جیسے دیگر موضوعات کو جلیل عالیؔ جیسے درد ِ دل رکھنے والے شاعر کی غزل کا خاص موضوع ٹھہرا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ان کی غزلوں کے اشعار میں زندگی کے حقائق بھی ہیں اور وارداتوں کی تصویریں بھی، تخیل کی بلند پروازی بھی اور عمیق مشاہدات کی روشنی بھی، نازک احساسات کی بھرمار بھی اور معنی آفرینی بھی اور مفاہیم کی کہکشائیں بھی شامل ہیں۔ وہ جو کچھ آنکھوں سے دیکھتے ہیں اُس کی تصویر لفظوں کی صورت میں کچھ اس طرح سے اُتار لیتے ہیں۔

کچھ اپنی بھی سوچ سموتے لفظوں میں 
تم نے تو بس اک تصویر اُتاری ہے
عالیؔ صاحب نے اپنے عہد کے مسائل کا بیان اپنی غزلوں میں نہایت سلیقہ مندی اور درد آمیزی سے کیا ہے۔ یہ درد ان کا اپنا پالا ہُوا نہیں بلکہ ان کے آس پاس رہنے والے لوگوں کا درد ہے جن کے چہروں پر وہ تبسم کے پھول کھلا کر اُن کے سب درد اپنے دامن میں ڈال لاتے ہیں۔

عالی ؔ کیسا درد سخن میں بھرتے ہو
برچھی سی سینے میں گڑتی جاتی ہے
’’آگے ہمارا خوابیہ ہے‘‘ میں جلیل عالیؔ نے جدید اُردو غزل کے جو تقاضے تھے وہ تمام انھوں نے نبھائے ہیں اور تمام لوازم پورے کیے ہیں۔
 

متعلقہ مضامین

  • موجودہ آمدن میں گزارا ہورہا ہے، سروے میں اخراجات پورا ہونے کا کہنے والے افراد کی شرح دگنی ہوگئی
  • موجودہ آمدن میں گزارا ہورہا ہے، 51 فیصد پاکستانیوں کاموقف
  • سروے رپورٹ: موجودہ آمدن میں اخراجات پورے کرنے والوں کی شرح میں نمایاں اضافہ
  • کینسر، مالی مشکلات اور زندگی کی جنگ
  • کراچی: ڈی جی سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی شاہ میر بھٹو کو عہدے سے ہٹادیا گیا
  • سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں نقصانات کا تخمینہ لگانے کیلئے سروے ایک ماہ میں مکمل کرنے کا حکم
  • لاہور پولیس کی ہوائی فائرنگ اور ناجائز اسلحہ کے خلاف سخت کارروائیاں، سینکڑوں گرفتار
  • بلند پایہ شاعر جلیل عالیؔ
  • جدہ سے واپس لاہور آنے کے منتظر عمرہ زائرین مشکلات کا شکار
  • صحافیوں کو ہراساں کرنا جمہوری کلچر پر کاری ضرب ہے، عطا اللہ تارڑ