کشمیری ایران کے ساتھ سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑے ہیں، خولہ خان
اشاعت کی تاریخ: 24th, June 2025 GMT
ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کی شکست پر امریکہ کا ایران اسرائیل جنگ میں شامل ہونے کا کوئی جواز نہیں بنتا تھا اس طرح کے حملے عالمی جارحیت کے زمرے میں آتے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ چیئرپرسن خان آف منگ فاؤنڈیشن خولہ خان نے امریکہ کی طرف سے ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ امریکی حملہ عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ حملے اسرائیل کی جانب سے جاری جارحیت کے تسلسل میں کیے گئے ہیں جن پر مجھے نہایت گہری تشویش ہے۔ مجھ سمیت ہر کشمیری ایران کے ساتھ سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑا ہے میری پوری امت مسلمہ سے اپیل ہے کہ وہ ایران کی کامیابی و کامرانی کے لئے خصوصی دعا کریں، ساتھ ہی میں پوری دنیا کے مسلمان ممالک سے کہتی ہوں وہ ایران کے ساتھ کھڑے ہوں اور امریکی اور اسرائیلی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیں۔ انھوں نے کہا کہ ایران کے خلاف جاری جارحیت سے کشیدگی اور تشدد میں اضافہ ہوا ہے، مزید کشیدگی پورے خطے اور دنیا پر سنگین اثرات ڈالے گی، شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانا ناگزیر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کی شکست پر امریکہ کا ایران اسرائیل جنگ میں شامل ہونے کا کوئی جواز نہیں بنتا تھا اس طرح کے حملے عالمی جارحیت کے زمرے میں آتے ہیں جو عالمی امن کے لئے بھی خطرے کا باعث بن سکتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اسرائیل نے ایران پر حملہ کر کے جارحیت کی جس کے جواب میں ایران نے اپنے دفاع کے لئے اسرائیل پر جوابی کارروائی کی۔ انہوں نے امریکی حملوں کو بین الاقوامی امن کے لئے شدید خطرہ قرار دیتے ہوئے اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں سے مطالبہ کیا کہ وہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصولوں کے تحت ایران اسرائیل جنگ کو رکوانے میں اپنا کردار ادا کریں بصورت دیگر اس جنگ کے منفی اثرات بنی نوع انسانیت پر پڑیں گے جس کا بعد میں کوئی مداوا نہیں ہو سکے گا۔
.ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
اسرائیلی حملے کے بعد خلیج تعاون کونسل کا مشترکہ فوجی مشقوں اور میزائل وارننگ سسٹم پر اتفاق
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
قطر کے دارالحکومت دوحا پر اسرائیلی جارحیت کے بعد خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) کے 6 رکن ممالک نے خطے کی سلامتی کو مستحکم بنانے کے لیے اہم اور تاریخی فیصلے کیے ہیں۔
بحرین، کویت، عمان، قطر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پر مشتمل اس اتحاد نے مشترکہ فوجی مشقوں کے انعقاد، انٹیلی جنس کے تبادلے میں وسعت اور ایک نئے میزائل وارننگ سسٹم کے قیام پر اتفاق کیا ہے۔ یہ اقدام نہ صرف اسرائیلی جارحیت کا براہِ راست جواب ہے بلکہ خطے کے اجتماعی دفاع کے ایک نئے دور کی نشاندہی بھی کرتا ہے۔
اماراتی اخبار دی نیشنل کے مطابق یہ فیصلے عرب و اسلامی سربراہی اجلاس کے بعد سامنے آئے جہاں خلیجی وزرائے دفاع نے دوحا پر اسرائیلی حملے کو کھلی جارحیت اور خطے کی سلامتی کے لیے بڑا خطرہ قرار دیا۔
اجلاس میں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ 3 ماہ کے اندر مشترکہ کمانڈ سینٹر کی مشقیں ہوں گی اور اس کے بعد فضائی دفاعی نظام کی عملی مشقیں شروع کی جائیں گی تاکہ بیلسٹک میزائلوں جیسے خطرات سے مؤثر طور پر نمٹا جا سکے۔
یہ پیش رفت ایسے وقت پر ہوئی ہے جب اسرائیل نے دوحا میں حماس کے ایک وفد کو نشانہ بنایا تھا، جس کے نتیجے میں حماس کے 5 ارکان شہید ہوئے، جن میں ایک رہنما کا بیٹا اور ایک قطری سیکورٹی اہلکار بھی شامل تھا۔ قطر نے واضح کیا کہ اسے اس حملے کی پیشگی اطلاع نہیں دی گئی تھی۔ اگرچہ حماس کی اعلیٰ قیادت محفوظ رہی، لیکن یہ حملہ خطے کے لیے ایک سنگین پیغام بن گیا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ماضی میں جی سی سی نے دفاعی انضمام کی کوششیں ضرور کیں لیکن سیاسی اختلافات اور خطرات کے مختلف تصورات کے باعث وہ آگے نہ بڑھ سکیں، تاہم دوحا پر اسرائیلی حملہ اس اتحاد کے لیے ایک موڑ ثابت ہو سکتا ہے، کیونکہ اب تمام رکن ممالک اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اجتماعی سلامتی کے بغیر خطے کو بچانا ممکن نہیں۔
خلیجی وزرائے دفاع نے اس موقع پر اس عزم کا اظہار کیا کہ خطے کو درپیش تمام چیلنجز کا مقابلہ متحد ہوکر کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کی بڑھتی ہوئی جارحیت اور خطے میں امریکا پر کمزور اعتماد کے بعد ایک آزاد اور مشترکہ دفاعی ڈھانچہ وقت کی اہم ضرورت بن چکا ہے۔