اسلام آباد سفر کیلئے 5600روپے دینے پر ہاکی ٹیم کے کپتان نے اسپورٹس بورڈ کی دعوت ٹھکرادی
اشاعت کی تاریخ: 24th, June 2025 GMT
اسلام آباد سفر کیلئے 5600روپے دینے پر ہاکی ٹیم کے کپتان نے اسپورٹس بورڈ کی دعوت ٹھکرادی WhatsAppFacebookTwitter 0 24 June, 2025 سب نیوز
لاہور(سب نیوز) پاکستان ہاکی ٹیم کے کپتان عماد شکیل بٹ نے پاکستان اسپورٹس بورڈ کے ظہرانے کی دعوت ٹھکرا دی۔
اسپورٹس بورڈ نے عماد شکیل کو اسلام آباد آنے کے لیے سفر کے 5600 روپے ادا کیے جس پر عماد شکیل نے شکریہ کے ساتھ دعوت مسترد کردی۔عماد شکیل نے دعوت کو مسترد کرتے ہوئے جواب دیا کہ اتنے پیسے تو ٹول کی ادائیگی پر لگ جاتے ہیں۔
خیال رہے کہ پاکستان اسپورٹس بورڈ نے ظہرانے کے لیے قومی ہاکی ٹیم کے 6 کھلاڑیوں کو مدعو کیا جن میں سفیان خان، رانا وحید ،عبداللہ، منیب الرحمان اور حنان شاہد بھی شامل ہیں۔اس کے علاوہ ظہرانے کے لیے دیگر کھیلوں کے کھلاڑیوں کو بھی مدعو کیا گیا ہے جس میں اولمپک گولڈ میڈلسٹ ارشد ندیم اور نوح دستگیر بھی شامل ہیں۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرمخصوص نشستیں نظر ثانی کیس،حامد خان نے التوا کی درخواست دائر کردی مخصوص نشستیں نظر ثانی کیس،حامد خان نے التوا کی درخواست دائر کردی بھارتی آبی جارحیت، گنگا معاہدہ معطل کرکے بنگلا دیش کا پانی روکنے کی تیاری ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کیسے ہوئی؟ تفصیلات سامنے آگئیں محرم الحرام کا چاند 26جون کو نظر آنے کا امکان، سپارکو کی پیشگوئی کے پی حکومت نے بجٹ پاس کرنے کیلئے عمران خان کا دو دن بھی انتظار نہیں کیا، علیمہ خان اسرائیل اور ایران دونوں نے جنگ بندی کی خلاف ورزی کی،مجھے یہ پسند نہیں آیا، اسرائیل سے بہت ناخوش ہوں،ٹرمپCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: اسپورٹس بورڈ ہاکی ٹیم کے
پڑھیں:
حزب اللہ کی سعودی عرب کو رابطوں اور تعلقات کی اعلانیہ دعوت
اسلام ٹائمز: شیخ نعیم قاسم نے جمعہ کے روز ایک تقریر میں کہا کہ عرب خلیجی ملک قطر پر صیہونی دشمن کے حملے کے بعد کا مرحلہ اب پہلے کے مقابلے مختلف ہے، اس حملے کے بعد مزاحمت، حکومتیں، قومیں اور ہر وہ جغرافیائی اور سیاسی رکاوٹ جو "گریٹر اسرائیل" نامی منصوبے کی راہ میں حائل ہے، اب صیہونی حکومت کے ہدف بن چکا ہے اور اب اسرائیلی اھداف میں فلسطین، لبنان، اردن، مصر، شام، عراق، سعودی عرب، یمن اور ایران سب شامل ہیں۔ اسرائیلی حکومت مرحلہ بہ مرحلہ پر قدم بڑھا رہی ہے۔ عرب میڈیا کی رپورٹ:
لندن سے اپ ڈیٹ ہونے والے الیکٹرانک عربی زبان اخبار رائے الیووم نے پیر کے روز خالد الجیوسی کی ایک تجزیاتی رپورٹ شائع کی ہے، جس میں وہ کہتے ہیں کہ شاید وقت ہی کلیدی عامل ہے جس کی وجہ سے حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل شیخ نعیم قاسم نے سعودی عرب کو اپنے ایک عمومی خطاب میں آشکار طور پر "مفاہمت" کی دعوت دی، کیونکہ سعودی عرب اسرائیل کے خلاف نئے اتحاد بنانے کی کوشش کر رہا ہے، اور اسرائیل کے حماس کے رہنماؤں کو قتل کرنے کی کوشش کے طور پر دوحہ پر ہونیوالے حالیہ حملوں کے بعد اسلام آباد اور ریاض کے درمیان دفاعی معاہدہ اس کا ثبوت ہے۔
شیخ نعیم قاسم نے جمعہ کے روز ایک تقریر میں کہا کہ عرب خلیجی ملک قطر پر صیہونی دشمن کے حملے کے بعد کا مرحلہ اب پہلے کے مقابلے مختلف ہے، اس حملے کے بعد مزاحمت، حکومتیں، قومیں اور ہر وہ جغرافیائی اور سیاسی رکاوٹ جو "گریٹر اسرائیل" نامی منصوبے کی راہ میں حائل ہے، اب صیہونی حکومت کے ہدف بن چکا ہے اور اب اسرائیلی اھداف میں فلسطین، لبنان، اردن، مصر، شام، عراق، سعودی عرب، یمن اور ایران سب شامل ہیں۔ اسرائیلی حکومت مرحلہ بہ مرحلہ پر قدم بڑھا رہی ہے۔
شیخ نعیم قاسم نے پس پردہ چینلز کے بجائے اپنی تقریر میں سعودی عرب سے حزب اللہ کے ساتھ تعلقات میں ایک نئے باب کا آغاز کرنے کو ترجیح دی۔ انہوں نے سعودی عرب کے ساتھ بات چیت پر زور دیا جس سے مسائل حل ہوں، خدشات رفع ہونگے اور باہمی مفادات بھی ملحوظ رہیں۔ حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل نے واضح طور پر کہا کہ یہ عوامی سطح پر دی گئی دعوت اور بیانیہ ایک ایسی تجویز ہے، جس کی ماضی میں مثال موجود نہیں۔ شیخ نعیم قاسم نے اس بات پر زور دیا کہ اس کا مقصد امت اسلامیہ کے روشن مستقبل کے لیے جدوجہد کرنا اور خطے میں تقسیم اور تسلط کے صیہونی منصوبوں کا مقابلے کرنے کے لئے اپنی آزادی اور وقار کا تحفظ کرنا ہے۔
شیخ نعیم قاسم نے سعودی عرب سے اختلافات کو پس پشت ڈالنے کے لیے نہیں کہا، بلکہ اس غیر معمولی مرحلے پر "اسرائیل" کا مقابلہ کرنے اور اس چیلنج پر قابو پانے کے لیے ان اختلافات کو "منجمد" کرنے کا کہا۔ حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کے لیے اسرائیلی دباؤ کے درمیان شیخ نعیم قاسم کی یقین دہانی قابل ذکر تھی کیونکہ انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ مزاحمت کے ہتھیار اسرائیلی دشمن کے خلاف ہیں اور ان کا ہدف صیہونی حکومت ہے، نہ کہ لبنان، سعودی عرب یا دنیا کا کوئی ادارہ یا ملک۔
سعودی عرب فلسطینی ریاست کو بین الاقوامی طور پر تسلیم کرنے کی مہم کی قیادت کر رہا ہے اور اسے اپنے ایجنڈے میں شامل کر رہا ہے، لیکن ساتھ ہی وہ غزہ کی پٹی میں مزاحمت کو غیر مسلح کرنے اور اقتدار سویلین اتھارٹی کو منتقل کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ اسی دوران شیخ نعیم قاسم نے اپنی تقریر میں یاد دلایا کہ مزاحمت پر دباؤ مکمل طور پر اسرائیل کے مفاد میں ہے اور مزاحمت کی عدم موجودگی کا مطلب یہ ہے کہ باری دوسرے ممالک کی ہوگی جنہیں اسرائیلی حکومت کی طرف سے حملوں کا نشانہ بنایا جائیگا۔
حزب اللہ کے سکریٹری جنرل نے سعودی عرب کے ساتھ مذاکرات کی دعوت کے دوران اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا کہ مذاکرات کی بنیاد مشترکہ دشمن "اسرائیل" کیخلاف مزاحمت ہے۔
شیخ نعیم قاسم نے یاد دلایا کہ فلسطین میں مزاحمت اس (خطے میں) مزاحمت کا حصہ ہے اور اسرائیلی توسیع پسندی کے خلاف ایک اعلیٰ رکاوٹ ہے۔ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں حماس کے رہنماؤں پر اسرائیلی حملے کے حوالے سے حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ قطر پر صیہونی حملے کے بعد کا مرحلہ اس سے مختلف ہے جو صورتحال پہلے تھی۔ شاید شیخ نعیم قاسم کا اندازہ کسی حد تک سعودی عرب کے وژن سے متصادم ہو، کیونکہ سعودی عرب نئے اسلامی اتحاد کے ذریعے اپنی پوزیشن بہتر بنانا چاہتا ہے۔
سعودی عرب کے ساتھ بات چیت کے لیے شیخ نعیم قاسم کی کال سعودیہ ایران تعلقات میں ہونے والی مثبت پیش رفت سے جدا نہیں ، جس میں ایرانی صدر مسعود پیزشکیان اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے درمیان ملاقات اور اس کے بعد ایران کی سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل کے سیکریٹری علی لاریجانی کا دورہ ریاض شامل ہے۔ قابل ذکر ہے کہ لاریجانی نے کہا ہے کہ ریاض کے دورے کے دوران ایران اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی تعاون پر تبادلہ خیال کیا گیا اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ ان سرگرمیوں کو پہلے مرحلے میں وفود اور گروہوں کی سطح پر اور بعد میں انشاء اللہ اداروں اور محکموں کی سطح پر جاری رکھا جائیگا۔
اس سوال کے جواب میں کہ آیا قطر پر اسرائیل کے حملے کے بعد عرب ممالک اور ان کے حکام کے نقطہ نظر اور حکمت عملی میں کوئی تبدیلی آئی ہے، لاریجانی نے کہا کہ ہاں، یقیناً ہمارے سعودی دوست پہلے ہی اس پیش رفت کے بارے میں نسبتاً واضح نظریہ رکھتے تھے، اور اب یہ مزید واضح ہو گیا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ خطے کے مختلف ممالک محسوس کرتے ہیں کہ ایران جس راستے پر پہلے یقین کیساتھ گامزن تھا، اب ایک زیادہ ٹھوس شکل میں خطے میں یہ راستہ طے ہوگا اور کسی کو عدم استحکام پیدا کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
ہر صورت میں یہ عرب اور اسلامی ممالک کے درمیان اتحاد کی تشکیل میں ایک غیر معمولی پیش رفت ہے، جن میں سے سبھی مشترکہ طور پر "گریٹر اسرائیل" کے خطرے کو محسوس کرتے ہیں۔ یہ اتحاد اور معاہدے، عرب اور اسلامی ممالک کے درمیان سیاسی اور فرقہ وارانہ تنازعات سے فائدہ اٹھانے والے اسرائیل کے لئے مایوسی کا باعث ہیں۔ تاہم، جب عملی طور پر ان اتحادوں اور معاہدوں کی کامیابی اور انکے نتیجے میں ڈیٹرنس کےاندازے لگانے کیساتھ یہ ذہن میں رہنا چاہیے کہ ابھی تو آغاز ہے، اور ایک مشہور چینی کہاوت ہے کہ ہزار میل کا سفر ایک قدم سے شروع ہوتا ہے۔