واقعی ایک ایسی جدوجہد کی ضرورت ہے
اشاعت کی تاریخ: 25th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
میاں منیر احمد
پاکستان سمیت دنیا بھر میں چند روز قبل پناہ گزینوں کا عالمی دن منایا گیا، یہ دن ہر سال منایا جاتا ہے اور اتفاق دیکھیے کہ اس سال اس کا موضوع تھا ’یک جہتی‘ یعنی پناہ گزینوں کے ساتھ یک جہتی، یہ دن منانے کا مقصد اُن لاکھوں افراد کو خراجِ تحسین پیش کرنا تھا جو جنگ، تنازعات، یا ظلم و ستم کے باعث اپنا گھربار چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔ ہماری سیاسی جماعتیں، ہمارے جید سیاسی راہنمائوں کی اکثریت بھی پناہ گزین ہے، انہیں جمہوریت کے لیے ’’کام اور جدوجہد‘‘ کرتے ہوئے بڑے ’’ظلم‘‘ سہنے پڑے، ان بے چاروں نے بھی پناہ گزین بننے کا فیصلہ کیا اور چند راہنمائوں کو ہی استثنیٰ حاصل رہا۔ جناب بانی پاکستان محمد علی جناح اور اقبال اور ان کے گنتی کے چند ساتھی بچ گئے باقی اکثریت سیدھے گوری آمریت کو گود میں جا بیٹھی اور قیام پاکستان تک یہ سیاسی خاندان گوری آمریت کی گود میں پناہ لیے رہے۔ ہائے کیسی مجبوری تھی ان بے چاروں کے لیے! پاکستان بن گیا تو ان خاندانوں نے گوری آمریت سے محرومی دیکھی اور پھر انہیں گندمی اور کالی آمریت میسر آگئی۔ اس کی ابتداء ایوب خان دور سے ہوئی، ایسی سیاسی جماعتوں اور جید سیاسی راہنمائوں کے لیے آمریت کی گود میں پناہ لینے کے علاوہ کوئی راستہ ہی نہیں بچا تھا کیا کرتے بے چارے۔ آج ان سیاسی راہنمائوں کی تیسری نسل بھی آمریت کی گود میں پناہ گزین ہے اور چوتھی نسل اس کی تیاری کر رہی ہے۔ ان جمہوری اور سیاسی جماعتوں اور شخصیات کو آمرانہ گود اس قدر پسند آگئی ہے اور انہیں ہمدردی، سخاوت اور مہمان نوازی ایسی ملی اور مل رہی ہے کہ یہ جب بھی عوام کو دیکھے ہیں تو ان کے منہ سے لاہور سے تعلق رکھنے والے برصغیر کے ایک مسلمان گلورکار محمد رفیع کے گائے ہوئے گانے کے یہ بول بے اختیار نکلتے ہیں۔ یہ دنیایہ محفل میرے کام کی نہیں۔
آمریت کی گد میں پناہ لینے والوں کو ایسی ہمدردی ملتی ہے کہ انتہاء ہے جو کونسلر منتخب ہونے کا اہل نہیں، وہ نگران وزیر اعظم تک بن جاتا ہے اور سخاوت ایسی کہ آمریت نے کہا کہ ہماری پناہ میں آجائو جس کے سر پر ہاتھ رکھو گے وہی اسمبلی میں پہنچے گا اور مہمان نوازی ایسی کہ اس کے مقابلے میں گڈ ٹو سی یو کے الفاظ بھی کم اہمیت کے ہیں اور کم تر درجے کے ہیں۔ پناہ گزینوں کے عالمی دن کے موقع پر وزیر اعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز نے بیان جاری کیا کہ ہجرت کوئی جرم نہیں یہ بہت بڑی اذیت ہے۔ ان کی بات سے سو فی صد اتفاق ہے کہ جب کوئی سیاسی جماعت یہ فیصلہ ہی کرلے کہ اس کو کسی کی گود میں بیٹھ کر ہی اقتدار میں آنا ہے تو پھر یہ فعل جرم کیسا؟ ہاں اذیت ناک تو ہے۔ جب اقتدار لیا ہے تو ہر بات تو ماننا پڑے گی۔ جناب نوکر کی تے نخرہ کی۔
بلاشبہ دنیا بھر میں پناہ گزینوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے لیکن پاکستان میں یہ عمل سیاسی جماعتوں کی حد تک ہے یا بہت بڑے سیاسی خاندانوں تک محدود ہے۔ عوام تو بے چارے، غربت کے مارے ہیں، تنگ دستی کا شکار ہیں، انہیں اسپتالوں میں ادویات تک میسر نہیں اس کے باوجود یہ پاکستان کی ہی گود میں پناہ لیے ہوئے ہیں اور کسی نجات دہندہ کی تلاش میں ہیں، کسی محمد بن قاسم کے منتظر ہیں ان بے چاروں کا حال یہ ہے کہ ان کا کوئی پرسان حال بھی نہیں ہے۔ سات سمندر پار پاکستان آنے والے شوکت عزیز جنہیں اسلام آباد کا حدود اربع تک معلوم نہیں تھا نہ ان کے پاس پاکستان کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ، مگر آمرنہ سخاوت دیکھیے انہیں وزیر خزانہ بنایا گیا۔ سینیٹر بنایا گیا اور وزیر اعظم بنایا گیا۔ تو مٹھی اور اٹک سے انتخابات میں کامیاب کرایا گیا ان کے لیے اٹک سے ایمان طاہر نے اپنی نشست خالی کی، مٹھی سے ارباب فیملی نے اپنی نشست چھوڑی۔ دونوں حلقوں سے کامیاب ہوگئے۔ واہ کیسی آمرانہ سخاوت؟ لاجواب! دوسری جانب عوام ہیں جن کے لیے بے شمار فلاحی منصوبے۔ مگر پھر بھی محرومی کا شکار، ان کے نام پر ملنے والی رقم نہ جانے کہاں جارہی ہے۔ انہیں کچھ معلوم نہیں کہ بے نظیر انکم سپورٹ کی رقم کہاں جارہی ہے؟ پاکستان بیت المال کن پاکستانیوں کی مدد کرتا ہے؟ اگر یہ ادارے کام کر رہے ہیں تو پھر پاکستان میں غربت کی لکیر کے نیچے بسنے والے پاکستانیوں کی تعداد مسلسل کیوں بڑھ رہی ہے؟ لیکن آمریت کی گود میں بیٹھی سیاسی جماعتوں کو اس بات کیا پروا ہوسکتی ہے۔ عوام تو ہمیشہ ہر انتخابات میں ہنی ٹریپ کا شکار ہوجاتے ہیں۔ انہیں سراب دکھایا جاتا ہے اور یہ فریب میں آجاتے ہیں عوام کو فریب سے باہر نکالنے کے لیے اس ملک میں اسلامی نظریاتی سیاسی جدوجہد کی ضرورت ہے ایک ایسی ریاست کی ضرورت ہے جس میں یہ احساس ذمے داری ہو کہ اگر کوئی کتا بھی بھوکا مرگیا تو پکڑ ہوگی۔ اس ملک میں ایک ایسی سیاسی جدوجہد کی ضرورت ہے جو اس ملک کے ہر فرد کو زندہ رہنے کے بنیادی حقوق فراہم کرے۔ ہر ادارے میں خواہ وہ نجی کاروباری ادارہ ہو یا سرکاری، اس میں کام کرنے والے ملازمین کے معاشی حقوق کا خیال رکھا جاتا ہو، کوئی انا پرست شخص کسی ادارے کا سربراہ یا ذمے دار نہ بنایا جائے۔ جو تشدد اور طاقت کے ذریعے اپنی بات منوائے اور ملازمین کو بلیک میل کرے، واقعی ایک ایسی جدوجہد کی ضرورت ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: جدوجہد کی ضرورت ہے آمریت کی گود میں سیاسی جماعتوں گود میں پناہ پناہ گزینوں ایک ایسی ہے اور کے لیے رہی ہے
پڑھیں:
بھارت کی سفارت کاری میں سیاسی تنہائی
پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی کے بعد کی صورتحال کے بعد بھارت عالمی سیاست میں نہ صرف سیاسی مشکلات کا شکار ہوا ہے بلکہ اسے کئی محاذ پر سیاسی تنہائی کا سامنا ہے۔اس کی ایک بڑی وجہ بھارت کے بارے میں موجود ایک عالمی تصور جو اس کی علاقائی سیاست میں برتری کے پہلو کے طور پر موجود تھا وہ کمزور ثابت ہوا ہے۔
اسی طرح خطے کی سیاست میں تن تنہا بھارت کی برتری بھی ٹوٹی اور پاکستان نے خود کو علاقائی سیاست میں نہ صرف اپنی سیاسی بلکہ دفاعی اہمیت کو بھی منوایا ہے۔
عالمی دنیا کے میڈیا، تھنک ٹینک یا بڑے سیاسی طاقت ور ممالک میں بھی پاکستان کی اہمیت اور بھارت کے مقابلے میں برتری کے پہلو نے بھارت کو سیاسی پسپائی پر مجبور کیا ہوا ہے۔کیونکہ اب بڑی طاقتیں پاکستان اور بھارت کو مشترکہ طور پر خطہ کی سیاست کے بڑے فریق کے طور پر دیکھ رہی ہے اور یہ بات بھارت کے لیے قبول کرنا آسان کام نہیں ہے۔
بھارت کی سفارت کاری میں پاکستان کو عالمی دنیا میں سیاسی تنہائی میں مبتلا کرنا، دہشت گردوں کے سیاسی سرپرست کے طور پر پیش کرنا، فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ میں شامل رکھ کر دباؤ کو بڑھانا، بلوچستان میں عدم استحکام پیدا کرنا یا پراکسی جنگ کو برقرار رکھنا،افغانستان اور کالعدم ٹی ٹی پی کو پاکستان مخالف سرگرمیوں کے لیے استعمال کرنا، پاکستان سے بات چیت کے تمام دروازے بند رکھنا اس کی سیاسی اور سفارت کاری کی حکمت عملی کا حصہ تھا۔بھارت اس خطہ میں اپنی بالادستی کو قبول کرانے کے لیے دباؤ ڈالتا رہا ہے مگر حالیہ پاک بھارت کشیدگی اور اس سے جڑے نتائج نے بھارت کی تمام حکمت عملیوں کو ناکامیوں سے دوچار کیا ہے اور اب وہ سر جوڑ کر بیٹھ گیا ہے کہ اس سیاسی اور سفارتی تنہائی سے باہر نکلنے کے لیے وہ کیا نئی حکمت عملی اختیار کرے۔
بھارت کی حالیہ مشکلات میں ایک اضافہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی کیا ہے ۔اول، ڈونلڈ ٹرمپ کے بقول حالیہ پاکستان و بھارت جنگ بندی میں ان کا کلیدی کردار تھا اور ایسا انھوں نے بھارت کے کہنے پر کیا اور تجارت کو بطور ہتھیار استعمال کیا، اگرچہ اس پر بھارت مسلسل انکاری ہے۔
دوئم ، امریکی صدر نے کشمیر کو دونوں ملکوں کے درمیان اہم مسئلہ قرار دیا اور کہا کہ اس کے حل کے بغیر دونوں ممالک میں تعلقات بہتر نہیں ہوسکیں گے۔امریکی صدر نے کشمیر کے مسئلہ کے حل میں خود کو ایک بڑے ثالث کے طور پر پیش کیا ۔امریکا کا یہ طرز عمل بھارت کے لیے ایک بڑا سیاسی دھچکہ ہے اور اسی وجہ سے وہ مسلسل کشمیر کے مسئلہ پر امریکی مداخلت یا ثالثی سے انکاری ہے۔امریکی صدر کے اس طرز عمل نے جہاں ایک طرف کشمیر کی اہمیت کو نئی عالمی حیثیت دی ہے وہیں پاکستان کے لیے سفارت کاری کے محاذ پر نئے امکانات پیدا کیے ہیں۔
اسی طرح حالیہ دنوں میں بھارت نے ایک بار پھر پاکستان کو دہشت گردی اور مالیاتی مدد کے تناظرمیں گرے لسٹ میں شامل کرنے کی جو عملی طور پر کوشش کی اس پر بھی اس کو سیاسی پسپائی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ بھارت نے پہلگام واقعہ کو بنیاد بنا کر پاکستان کو اس دہشت گردی میں ملوث کرنے کی جو کوشش کی اسے بھی عالمی سطح پر کوئی قبولیت نہیں مل سکی۔
نریندر مودی کی اس جنگی مہم جو شکست کا سامنا کرنا پڑا اس پر ان کو اپنی داخلی سیاست اور حزب اختلاف سے سخت تنقید کا سامنا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ بھارت کو نریندر مودی کی وجہ سے دنیا میں سیاسی تنہائی اور شکست کے احساس کا سامنا ہے۔
ان کے بقول نریندر مودی کا یہ عمل دہلی کی برسوں سے جو جاری سفارتی کوششیں تھیں اسے الٹ دیا ہے جس کی مدد سے بھارت نے حالیہ کچھ دہائیوں میں خود کو پاکستان سے مختلف اور بہتر طور پر خود کو دکھانے کی کوشش کی تھی۔بھارت میں نریندر مودی کے مخالفین کے بقول مودی اور ٹرمپ کی مشہور قربت یا کیمسٹری کے باوجود پاکستان اور بھارت کو مشترکہ طورپر جوڑنا نئی دہلی کے لیے ایک بڑا سفارتی جھٹکا ہے۔کیونکہ بھارت نے خود کو پاکستان سے ایک بڑی طاقت کے طور پر عالمی دنیا میں پیش کیا تھا وہ بری طرح اسکرپٹ ناکام ہوا ہے۔
پاکستان کے فوجی سربراہ اور فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کا حالیہ دورہ اور وہاں ان کی امریکی صدر سے ون ٹو ون اہم ملاقات اور پاکستان کی سیاسی پزیرائی کے ساتھ ساتھ امریکی صدر کی پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت اور ان کے حالیہ کردار کی تعریف نے بھی بھارت کو کافی پریشانی میں مبتلا کردیا ہے۔
بھارت کے میڈیا میں پاکستان کی بڑھتی ہوئی اہمیت اور بھارت کے سیاسی بیانیہ کی زیادہ پزیرائی کا نہ ہونا اور امریکی صدر کی طرف سے بھارت کو نظر انداز کرنے کی پالیسی نے بھارت کی پریشانی میں مسلسل اضافہ کردیا ہے اور اب بھارت یہ سوچنے پر مجبور ہوا ہے کہ وہ ایسا کیا کچھ نیا کرے جو اس کے پرانے اور طاقت ور تشخص کو بحال کرنے میں مدد دے۔
کیونکہ ایسے لگتا ہے کہ نریندر مودی نے جو سیاسی توقعات پاکستان کے تناظر میں بھارت کے حق میں امریکی صدر ٹرمپ سے لگائی تھیں اس پر ان کو بڑی ناکامی کا سامنا ہے اور اب بھارت کے سیاسی پنڈت مودی کو مشورہ دے رہے ہیں کہ اب ان کو امریکی صدر سے زیادہ توقعات نہیں لگانی چاہیے کیونکہ مودی کا مقدمہ ہار چکا ہے۔
بھارت پر اب امریکا سمیت عالمی دنیا کی طرف سے یہ دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کی بحالی میں موجودہ ڈیڈ لاک کو ختم کرے ،مذاکرات کا راستہ اختیارکرے اور کشمیر کا بھی پرامن حل تلاش کیا جائے۔ یہ سب کچھ بھارت کے اس ایجنڈے کے خلاف ہے جو وہ پاکستان کو خطہ کی سیاست میں تنہا کرنے کو اپنی ترجیحات کا حصہ سمجھتا تھا۔
بھارت نے اپنی سفارتی بحالی اور اپنے پاکستان مخالف بیانیہ کی کامیابی کے لیے جو مختلف پارلیمانی سمیت دیگر وفود عالمی دنیا میں بھیجے اس کا بھی ابھی تک کوئی بہتر نتیجہ نہیں نکل سکا۔کیونکہ جس طرح سے بھارت نے پاکستان کے خلاف جنگ کا آغاز کیا اور جنگی جارحیت میں جو پہل کی اسے عالمی دنیا میں قبول نہیں کیا گیا۔
بھارت کے لوگوں میں یہ احساس نمایاں ہوا ہے کہ پاکستان کے خلاف بھارت کی برتری کا سیاسی نعرہ اپنی افادیت کھوچکا ہے اور پاکستان ایک نئی طاقت کے طور پر سامنے آیا ہے۔اب بھارت کا سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ پاکستان کو ایک بار پھر کیسے بیک فٹ پر لے جاکر خود کو دوبارہ فرنٹ فٹ پر لاسکے۔
اگر بھارت نے عالمی دنیا میں اپنی ساکھ کو دوبارہ بحال کرنا ہے تو اسے پاکستان سے اپنے تعلقات کی بحالی پر بھی زور دینا ہوگا اور اس کے لیے اس کے پاس مذاکرات کے سوا کوئی اور سیاسی آپشن نہیں ہے۔ بھارت کو اب یہ سمجھنا ہوگا کہ پاکستان بھی ایک سیاسی اور دفاعی حقیقت ہے ۔ جنگوں پر سرمایہ کاری کرنے کے بجائے دونوں ممالک کی یہ ذمے داری بنتی ہے کہ وہ حقیقی مسائل پر توجہ دیں اور ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات کو بہتر کریں، اسی میں دونوں ممالک کا مفاد وابستہ ہے۔