پاکپتن ڈسٹرکٹ اسپتال میں ایک ہفتے کے دوران 20 بچے جاں بحق
اشاعت کی تاریخ: 25th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پاکپتن: ڈسٹرکٹ اسپتال کے چلڈرن وارڈ میں ایک ہفتے کے دوران20 بچوں کی جانیں چلی گئیں۔ ان میں 15 نومولود بھی شامل تھے، 7 بچوں کی ہلاکت پر بنائی گئی انکوائری کمیٹی نے نیا پنڈورا باکس کھول دیا، اسپتال کے ڈاکٹرز اور نرس پر مشتمل کمیٹی نے اموات کو طبعی قرار دے دیا۔
پاکپتن ڈسٹرکٹ اسپتال کے چلڈرن وارڈ میں ایک ہفتے کے دوران 20 معصوم بچوں کی ہلاکت نے علاقے میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔ ان میں سے 15 نومولود بچے تھے، جن کی موت پر اہلِ خانہ اور مقامی کمیونٹی شدید غم و غصے کا شکار ہے۔
ذرائع کے مطابق حکومت نے 7 بچوں کی ہلاکتوں کے بعد ان واقعات کی تحقیقات کے لیے ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دی تھی، جس میں اسپتال کے ڈاکٹرز اور نرسز شامل تھے۔
کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں ان اموات کو طبی وجوہات سے منسوب کرتے ہوئے ’طبی نوعیت‘ کا قرار دیا ہے، لیکن اس فیصلے نے مزید سوالات کو جنم دیا ہے اور نیا ’پنڈورا باکس‘ کھول دیا ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
پولیس اہلکار نے میرے گریبان میری عزت پر ہاتھ ڈالا
پاکپتن (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 08 اگست2025ء) پاکپتن میں پنجاب پولیس کے مرد اہلکار کے تشدد کا نشانہ بننے والی خاتون منظر عام پر آ گئی، اردو پوائنٹ کے تمام معاملے کی حقیقت بتا دی۔ پاکستان کے سب سے بڑے ڈیجیٹل میڈیا گروپ اردو پوائنٹ سے گفتگو کرتے ہوئے خاتون نے ہوشربا انکشافات کیے۔ متاثرہ خاتون نے بتایا کہ پولیس اہلکار نے میرے گریبان میری عزت پر ہاتھ ڈالا، سیڑھیوں سے گھسیٹ کر تھپڑ اور ٹھڈے مارے گئے، وہاں خاتون پولیس اہلکار بھی موجود تھی لیکن اس نے کچھ نہیں کیا۔ واضح رہے کہ پنجاب پولیس کے ہاتھوں خاتون کو تشدد کا نشانہ بنانے کا ایک اور واقعہ سامنے آیا ہے۔ اے آر وائی نیوز کے مطابق پاکپتن میں ایک پولیس اہلکار کی جانب سے گھر میں گھس پر خاتون کو تشدد کا نشانہ بنا دیا گیا۔(جاری ہے)
تشدد کا نشانہ بنانے والے پولیس اہلکار کے ساتھ مزید پولیس اہلکار بھی تھے۔ پنجاب پولیس کے مرد اہلکار نے خاتون کو سرعام تھپڑ مارے، اس تمام واقعے کی ویڈیو ریکارڈ کر لی گئی۔
واقعے کی مزید تفصیلات سے متعلق بتایا گیا ہے کہ پاکپتن کے فرید کوٹ چوکی اِنچارج اسسٹنٹ سب اِنسپکٹر نے نفری کے ہمراہ چک 39 میں ایک پر دھاوا بولا اور وہاں موجود خاتون کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ خاتون کو لاتوں، مکوں سے مارا اور گھسیٹا گیا، بدتمیزی اور گالم گلوچ بھی کی گئی۔ خاتون نے الزام عائد کیا ہے کہ سسرال والوں نے گھر سے بے دخلی کے لیے پولیس سے تشدد کروایا۔ مزید بتایا گیا ہے کہ واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد ڈی پی او پاکپتن نے نوٹس لے لیا۔ ڈی پی او پاکپتن کی ہدایت پر خاتون کو تشدد کا نشانہ بنانے والے پولیس اہلکار کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ تاہم پولیس اہلکار کیخلاف کسی قسم کی ایف آئی آر درج کرنے سے متعلق تصدیق نہیں کی جا سکی۔ گرفتار پولیس افسر کی شناخت اے ایس آئی اعجاز کے طور پر ہوئی ہے۔ اے ایس آئی اعجاز فرید کوٹ چوکی میں تعینات ہے اور خاتون سے گھر خالی کرانے کیلئے گیا تھا۔ڈی پی او جاوید اقبال نے کہا کہ قانون کو ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دیں گے، اختیارات سے تجاوز کرنے والوں کی پولیس میں کوئی جگہ نہیں۔