— فائل فوٹو 

سینئر سیاستدان جاوید ہاشمی کا کہنا ہے کہ بانیٔ پی ٹی آئی کو کوئی مائنس کر ہی نہیں سکتا۔

 جاوید ہاشمی نے اڈیالا جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں بانی پی ٹی آئی سے اظہار یکجہتی کیلئے اڈیالہ جیل آیا ہوں، یہاں آیا تو آگے پولیس کھڑی کردی گئی ہے۔

اُنہوں نے کہا کہ بانیٔ پی ٹی آئی کے مؤقف کو درست سمجھتا ہوں، ملک میں آئین کی بالادستی ہوگی تو ملک چلے گا، عمران خان رہائی نہیں مانگ رہا وہ رول آف لاء مانگ رہا ہے۔

میرا خیال ہے عمران مائنس ہو گئے: علیمہ خان

بانیٔ پی ٹی آئی کی منظوری کے بغیر خیبر پختونخوا اسمبلی سے بجٹ منظور ہونے پر علیمہ خان کا ردِعمل سامنے آ گیا۔

جاوید ہاشمی نے مزید کہا کہ بانیٔ پی ٹی آئی کو اس وقت چھوڑا تھا جب وہ جرنیلوں کے قریب ہوگئے تھے۔

اُنہوں نے کہا کہ ملک میں کوئی سیاسی بندہ رہ ہی نہیں گیا، کون سی پارٹی ہے جس کو سیاسی پارٹی کہا جائے، جو آئین اور جمہوریت کی بات نہیں کرتا وہ سیاست نہیں کر رہا۔ 

جاوید ہاشمی نے یہ بھی کہا کہ میں نہ پی ٹی آئی کے ساتھ ہوں نہ پی ٹی آئی میں ہوں۔

.

ذریعہ: Jang News

کلیدی لفظ: جاوید ہاشمی پی ٹی آئی کہا کہ

پڑھیں:

ذرا سنبھل کے

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251110-03-5

 

روزینہ خورشید

اُفففف… خدایا سڑکوں کا کیا حال ہو گیا ہے۔ جگہ جگہ بڑے بڑے گڑھے، کہیں مٹی کے چھوٹے چھوٹے تودے، کہیں پتھروں کے چھوٹے ٹیلے، کہیں اُبلتے گٹر، کہیں کچرے کے انبار۔ کوئی پوچھنے والا نہیں ہے دل نہیں کرتا ہے گھر سے نکلنے کو۔ کب ٹھیک ہوگا سب کچھ؟ ہم جو خوشی خوشی تیار ہو کر میاں کے ساتھ موٹر سائیکل پر پارک جانے کے لیے نکلے تھے سڑکوں کی حالت زار دیکھ کر حسرت سے پوچھا؟؟ انہوں نے جیسے ہی جواب دینے کے لیے توجہ ہماری جانب مبذول کی سامنے پھرچھوٹا سا گڑھا موجود تھا۔ موٹر سائیکل ہوا میں اچھلی، ہلکی سی ڈگمگائی لیکن شکر ہے گری نہیں۔ ہماری ساری خوشی ویسے ہی ہوا ہو گئی تھی سروائیکل پین شروع ہو چکا تھا لہٰذا ہم نے ان سے واپس چلنے کو کہا لیکن جواب سن کر دوبارہ کچھ بولنے کا یارا نہ رہا کہنے لگے ’’ارے آپ اتنے سے سفر میں پریشان ہو گئیں!! ہم سے پوچھیں جو روزانہ غم روزگار کے لیے انہی سڑکوں پر کئی کئی کلو میٹر کا سفر طے کرتے ہیں ہمارے جوڑ و بند کا کیا حال ہوتا ہوگا۔ شکر کریں آپ گرے بغیر گھر واپس جا رہی ہیں ورنہ آج کل موٹر سائیکل والوں کی اکثریت ان گڑھوں کا شکار ہو کر اسپتال پہنچ رہی ہے۔ یہ صرف ایک گھر کی کہانی نہیں ہے کراچی میں بسنے والا ہر شخص کہیں نہ کہیں اس صورتحال سے دو چار ہے۔ خاص کر وہ لوگ جن کا گھر ان کے دفتروں سے فاصلے پر ہے اور جنہیں خود ڈرائیو کر کے جانا پڑتا ہے وہ دوہری اذیت کا شکار ہوتے ہیں ایک تو ٹوٹی پھوٹی سڑکیں جن پہ ہچکولے کھا کے سفر کرنا اور دوسرے ٹریفک جام کی اذیت میں مبتلا ہونا کہ جہاں ایک گھنٹے کا سفر چار گھنٹوں میں طے کرنا پڑتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کراچی کی موجودہ صورتحال نے لوگوں کو ڈپریشن کا مریض بنا دیا ہے۔

چند دہائیاں پہلے تک شہر کراچی ایسا نہیں تھا۔ یہ تو روشنیوں کا شہر ہوا کرتا تھا۔ یہاں کی ہوائیں بھی زہریلی نہیں تھیں اب تو ایک رپورٹ کے مطابق آلودہ شہروں میں کراچی دسویں نمبر پر آگیا ہے۔ پہلے بارشوں میں سڑکیں تالاب کا منظر پیش نہیں کیا کرتی تھیں، نہ نالوں میں ڈوبنے کے حادثات رونما ہوا کرتے تھے، مائیں بے خطر بچوں کو چیزیں لینے محلے کی دکان بھیج دیا کرتی تھیں، خواتین اپنے سونے گہنے بھی آرام سے پہن کر گھر سے باہر نکلتی تھیں، نہ چھننے کا خوف نہ لٹنے کا ڈر، مرد حضرات بے خوف و خطر دفتر سے اپنی تنخواہ وصول کر کے با آسانی گھر لے آتے تھے۔ اب تو حال یکسر مختلف ہے ہر شہری ایک انجانے خوف میں مبتلا ہے۔ گھر سے نکلنے سے پہلے مائیں قرآنی آیات کا دم کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہدایات کرتی ہیں کہ بیٹا کوئی موبائل چھیننے آئے تو بحث مت کرنا بلکہ فوراً نکال کر حوالے کر دینا موبائل کا کیا ہے دوسرا آجائے گا۔ اسی طرح اے ٹی ایم سے رقم نکالنے جائیں تو ہدایات دیتی نظر آتی ہیں بیٹا دیکھ کر اندر جانا کوئی مشکوک بندہ باہر نظر آئے تو واپس آ جانا۔ اگر کوئی پیچھا کرتا ہوا دروازے تک آ جائے تو فوراً ساری رقم اس کے ہاتھ پر رکھ دینا کیونکہ جان ہے تو جہان ہے اور اب تو ایک اور ہدایت کا اضافہ ہو گیا ہے کہ بیٹا گڑھے پر بائیک آرام سے نکالنا خود بھی بچنا دوسروں کو بھی بچانا۔ اگر کہیں سڑک پر کوئی مٹی کا تودہ ہو تو رانگ سائیڈ سے بالکل نہ آنا ورنہ ای چالان بھیج دیا جائے گا اور وہ بھی سیکڑوں میں نہیں بلکہ ہزاروں میں۔

آج کل شہر کراچی کے باسی ای چالان کے زد میں ہیں کیونکہ کیمرے کی آنکھ ان سب لوگوں کو دیکھ رہی ہے جو ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ اسے دن دہاڑے ڈکیتی کرنے والے لوگ نظر نہیں آتے، موبائل چھیننے والے نظر نہیں آتے لوگوں کو لوٹنے کے دوران جان سے مار دینے والے نظر نہیں آتے، رشوت لیتے ہوئے پولیس اہلکار نظر نہیں آتے، بچوں کو اغوا کرنے والے افراد نظر نہیں آتے، گاڑی چور نظر نہیں آتے ہاں اگر کوئی سیٹ بیلٹ نہ باندھے تو کیمرے کی آنکھ اسے دیکھ لیتی ہے لہٰذا پیارے لوگو ’’زرا سنبھل کر رہنا‘‘۔

روزینہ خورشید

متعلقہ مضامین

  • عدالتی حکم کے باوجود وزیراعلیٰ کے پی کی بانی پی ٹی آئی سے ملاقات نہ کرانے پرتوہین عدالت کی درخواست دائر
  • ڈاکٹر عارفہ سیدہ زہرہ انتقال کر گئیں
  • ذرا سنبھل کے
  • 17 سیٹ والے حکومت نہیں کرسکتے، فیصل جاوید
  • دہشت گردوں کو پناہ دینے والا پاکستان کا خیرخواہ نہیں ہو سکتا؛ دفتر خارجہ 
  • پاکستان کو منشیات کیخلاف جنگ میں اکیلا نہیں چھوڑا جا سکتا: اقوام متحدہ
  • اجتماع عام کی تیاریاں تیزی سے مکمل کی جارہی ہیں ، جاوید قصوری
  • پاکستان کو منشیات کے خلاف جنگ میں اکیلا نہیں چھوڑا جا سکتا: اقوام متحدہ
  • آئینی عدالت بننی چاہئے، صوبوں کا حصہ بڑھ سکتا، کم نہیں ہو گا بلاول: سب کچھ اتفاق رائے سے کرینگے، رانا ثناء
  • وزيرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا کو بانی کی رہائی کے علاوہ کسی چیز کی فکر نہیں: ایمل ولی