ایسا زبردست ناشتہ جو وزن گھٹائے اور توانائی بھی بھر دے
اشاعت کی تاریخ: 26th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ناشتہ دن کی شروعات میں جسم کو درکار توانائی فراہم کرتا ہے اور دماغی کارکردگی میں بہتری لاتا ہے۔ بغیر ناشتے کے دن کا آغاز کرنا نہ صرف تھکاوٹ اور سستی کا سبب بن سکتا ہے بلکہ طویل مدتی صحت پر بھی منفی اثر ڈال سکتا ہے۔
ماہرینِ غذائیت بارہا اس بات پر زور دیتے ہیں کہ متوازن اور غذائیت سے بھرپور ناشتہ جسم کے افعال کو بہتر بنانے میں مددگار ہوتا ہے۔
ڈاکٹر اریج کے مطابق ناشتے میں پروٹین کا شامل ہونا ضروری ہے کیونکہ یہ دن بھر جسمانی طاقت اور ذہنی توجہ کو برقرار رکھنے میں مدد دیتا ہے۔ نشاستہ یا کاربوہائیڈریٹ سے بھرپور غذا توانائی کا مستقل ذریعہ بنتی ہے لیکن چکنائی کی مقدار کم ہونی چاہیے تاکہ نظامِ انہضام پر بوجھ نہ پڑے۔ گندم کی روٹی، انڈہ، دہی، دودھ، پھل اور ان کا تازہ جوس مثالی ناشتے میں شمار ہوتے ہیں۔
جو اور گندم کا دلیہ خاص طور پر ہضم میں آسان اور صحت بخش سمجھا جاتا ہے، خواتین کے لیے جو کا دلیہ بہت فائدہ مند قرار دیا گیا ہے کیونکہ یہ نہ صرف توانائی بخشتا ہے بلکہ وزن اور ہارمونی توازن میں بھی معاون ثابت ہو سکتا ہے۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ جو لوگ ناشتہ چھوڑ دیتے ہیں وہ بعد میں دن کے دوران بے وقت اور غیر صحت بخش کھانے کی طرف مائل ہوتے ہیں جس سے وزن بڑھنے اور شوگر، بلڈ پریشر جیسے مسائل کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ناشتہ کو دن کی سب سے اہم خوراک کہا جاتا ہے اور اسے نظرانداز کرنا صحت کے ساتھ ناانصافی کے مترادف ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
ٹرین ڈرائیور سے وزیر بننے تک کے سفر کی غیر معمولی کہانی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
دنیا میں سیاست اور طاقت کے ایوانوں میں عموماً وہی افراد نظر آتے ہیں جو برسوں تک بیوروکریسی، سیاست یا اعلیٰ تعلیمی اداروں سے وابستہ رہے ہوں،مگر جنوبی کوریا نے حال ہی میں ایک ایسا حیران کن فیصلہ کیا ہے جو اس تاثر کو چیلنج کرتا ہے۔
جنوبی کوریا میں 57 سالہ ایک عام ٹرین ڈرائیور، جو بوسان سے گِم چیون کے درمیان ریل گاڑی چلا رہا تھا، اچانک حکومت کی کابینہ کا حصہ بن گیا اور اُسے ملک کا وزیر محنت مقرر کر دیا گیا۔
یہ انوکھا واقعہ 23 جون کو اس وقت پیش آیا جب جنوبی کوریا کے نو منتخب صدر لی جے میونگ نے اپنی کابینہ کے نئے اراکین کے ناموں کا اعلان کیا۔ اس فہرست میں ایک ایسا نام بھی شامل تھا جس کی توقع نہ صرف عوام بلکہ سیاسی حلقے بھی نہیں کر رہے تھے۔
کم یونگ ہون، اس وقت بھی اپنی ٹرین کی ڈیوٹی پر مامور تھے اور موبائل فون بند ہونے کی وجہ سے انہیں اپنی تقرری کا علم بھی نہ ہو سکا۔جب ان کی ڈیوٹی مکمل ہوئی اور وہ ٹرین سے اترے تو انہیں یہ جان کر شدید حیرت ہوئی کہ وہ اب ملک کے وزیر محنت و روزگار بن چکے ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق وہ اس فیصلے پر نہایت جذباتی اور پرعزم دکھائی دیے۔
ان کی تعیناتی اس لیے بھی خاص ہے کیونکہ جنوبی کوریا جیسے ترقی یافتہ ملک میں عام طور پر وزارتوں کے لیے یونیورسٹی پروفیسرز، سابق بیوروکریٹس یا تجربہ کار سیاست دانوں کا انتخاب کیا جاتا ہے، مگر کم یونگ ہون کا پس منظر سراسر مختلف ہے۔
کم یونگ ہون نے ڈونگ اے یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی اور پھر عملی زندگی میں قدم رکھتے ہوئے ٹرین ڈرائیور بن گئے، لیکن وہ محض ایک ملازم نہیں تھے۔ انہوں نے مزدور یونینوں میں بھرپور کردار ادا کیا اور 2010 سے 2012 کے درمیان کورین کنفیڈریشن آف ٹریڈ یونینز (KCTU) کی قیادت بھی سنبھالی۔
ان کی محنت، استقامت اور مزدور طبقے کے حقوق کے لیے جدوجہد کو دیکھتے ہوئے نئی حکومت نے انہیں ایسا فرد قرار دیا جو لیبر مسائل کو بہتر انداز میں سمجھ اور حل کر سکتا ہے۔
بطور وزیر اب ان پر بھاری ذمہ داری عائد ہو چکی ہے۔ انہیں نہ صرف مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے بلکہ صنعتی حادثات، تنخواہوں کے نظام، کام کے اوقات اور ساڑھے 4دن کے کاروباری ہفتے جیسے اہم معاملات پر بھی قانون سازی کرنی ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ زمین سے جُڑے مسائل کو جانتے ہیں، کیونکہ وہ خود ایک محنت کش رہے ہیں اور اسی بنیاد پر وہ ایک ایسا نظام بنانا چاہتے ہیں جو حقیقت کے قریب ہو، نہ کہ صرف فائلوں اور رپورٹوں پر مبنی۔
ان کی تعیناتی نے جنوبی کوریا میں کئی حلقوں کو حیران کر دیا ہے، مگر ساتھ ہی یہ مثال بھی قائم کی ہے کہ عام پس منظر سے تعلق رکھنے والا فرد بھی اگر خلوص، دیانت اور صلاحیت کے ساتھ آگے بڑھے تو وہ بڑے فیصلوں کا مرکز بن سکتا ہے۔ ان کا وزیر بننا لاکھوں مزدوروں کے لیے ایک نئی امید اور طاقت کا پیغام ہے کہ ان کی آواز اب کسی ایسے شخص تک پہنچے گی جو ان جیسا ہی رہا ہے۔