Jasarat News:
2025-08-11@19:29:48 GMT

ایسا زبردست ناشتہ جو وزن گھٹائے اور توانائی بھی بھر دے

اشاعت کی تاریخ: 26th, June 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

ناشتہ دن کی شروعات میں جسم کو درکار توانائی فراہم کرتا ہے اور دماغی کارکردگی میں بہتری لاتا ہے۔ بغیر ناشتے کے دن کا آغاز کرنا نہ صرف تھکاوٹ اور سستی کا سبب بن سکتا ہے بلکہ طویل مدتی صحت پر بھی منفی اثر ڈال سکتا ہے۔

ماہرینِ غذائیت بارہا اس بات پر زور دیتے ہیں کہ متوازن اور غذائیت سے بھرپور ناشتہ جسم کے افعال کو بہتر بنانے میں مددگار ہوتا ہے۔

ڈاکٹر اریج کے مطابق ناشتے میں پروٹین کا شامل ہونا ضروری ہے کیونکہ یہ دن بھر جسمانی طاقت اور ذہنی توجہ کو برقرار رکھنے میں مدد دیتا ہے۔ نشاستہ یا کاربوہائیڈریٹ سے بھرپور غذا توانائی کا مستقل ذریعہ بنتی ہے لیکن چکنائی کی مقدار کم ہونی چاہیے تاکہ نظامِ انہضام پر بوجھ نہ پڑے۔ گندم کی روٹی، انڈہ، دہی، دودھ، پھل اور ان کا تازہ جوس مثالی ناشتے میں شمار ہوتے ہیں۔

جو اور گندم کا دلیہ خاص طور پر ہضم میں آسان اور صحت بخش سمجھا جاتا ہے، خواتین کے لیے جو کا دلیہ بہت فائدہ مند قرار دیا گیا ہے کیونکہ یہ نہ صرف توانائی بخشتا ہے بلکہ وزن اور ہارمونی توازن میں بھی معاون ثابت ہو سکتا ہے۔

ماہرین کا ماننا ہے کہ جو لوگ ناشتہ چھوڑ دیتے ہیں وہ بعد میں دن کے دوران بے وقت اور غیر صحت بخش کھانے کی طرف مائل ہوتے ہیں جس سے وزن بڑھنے اور شوگر، بلڈ پریشر جیسے مسائل کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ناشتہ کو دن کی سب سے اہم خوراک کہا جاتا ہے اور اسے نظرانداز کرنا صحت کے ساتھ ناانصافی کے مترادف ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

پڑھیں:

زبانی تاریخ: کیا اس پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 10 اگست 2025ء) زبانی تاریخ کا تعلق فرد کی یادداشت اور حافظے سے ہوتا ہے۔ انسان کے ذہن میں دور اور نزدیک کے واقعات اور اشخاص کی یادیں ہوتی ہیں۔ ہمارا ذہن طویل عرصے میں ہونے والے واقعات میں یا تو کوئی اضافہ کرتا ہے یا اس کے کچھ حصوں کو یادداشت سے نکال دیتا ہے۔ دوسری وہ زبانی تاریخ ہوتی ہے جس کو بیان کرنے والا شخص اس کا عینی شاہد ہوتا ہے۔

ایسے کسی فرد سے لیے گئے انٹرویو میں دیکھا جاتا ہے کہ اس کے بیان میں کوئی تضاد ہے یا نہیں۔ اس کا تعلق انٹرویو لینے والے پر بھی ہوتا ہے کہ اس سے وہ سوالات کرے جن کا تعلق اس کی ذات اور واقعات سے ہو۔

زبانی تاریخ کو ہم دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ پہلا حصہ تاریخی شخصیات کے بارے میں ہے۔

(جاری ہے)

ان کے بارے میں ان کے اپنے عہد اور بعد میں جو زبانی بیانات مشہور ہوئے وہ لوک کہانیوں کے ذریعے ہم تک پہنچے ہیں۔

مثلاً مغل بادشاہ اکبر کے بارے میں ایسی بہت سی روایتیں ہیں جن کا تعلق مستند تاریخ سے نہیں ہے۔ ان روایتوں کے ذریعے اکبر کی رواداری کو بیان کیا گیا ہے۔ ایک روایت میں کہا گیا ہے کہ ایک بار جب وہ پیدل معین الدین چشتی کے مزار کی زیارت کے لیے جا رہا تھا تو راستے میں اسے ایک مندر سے گانے کی آواز سنائی دی۔ وہ اس آواز سے متاثر ہو کر مندر میں گیا جہاں میرا بائی بھجن گا رہی تھی۔

وہ اسے سنتا رہا۔ جب اس کا بھجن ختم ہوا تو اکبر نے اپنا ہیروں کا ہار اتار کر اس کے گلے میں ڈال دیا اور خاموشی سے مندر سے باہر آ گیا۔ میرا بائی کو بعد میں پتہ چلا کہ یہ ہار اکبر نے اس کے گلے میں ڈالا تھا۔

ڈاکٹر مبارک علی کی مزید تحاریر:
کیا تاریخ اپنے آپ کو دُہراتی ہے؟

خاموشی – ڈاکٹر مبارک علی کی تحریر

اکبر سے ایسی دیگر کئی کہانیاں منصوب ہیں۔

اس کے دربار میں بیربل اور ملا دوپیازہ کا ذکر ہے جن کے لطیفے مشہور ہیں مگر ان کا تاریخ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ زبانی تاریخ میں اولیاء اور پیروں کی شفقت کے بارے میں ان کے مریدوں نے ان کی کرامات فیاضی اور رواداری کی روایت کے ذریعے ان کو عام لوگوں میں مقبول بنا دیا ہے۔ اس کا فائدہ سجادہ نشینوں کو بھی ہے جو کئی نسلوں سے مریدوں سے عطیات وصول کرتے ہیں۔

سیاست میں حصہ لے کر لیڈر بن جاتے ہیں اور اپنے پیر یا ولی کا عرس منا کر اس کی یاد کو باقی رکھتے ہیں۔

زبانی تاریخ کے ذریعے سیاسی شخصیتوں کو بھی اہمیت دی جاتی ہے۔ ہندوستان میں سبھاش چندر بوس جو برطانوی حکومت کے سخت مخالف تھے۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران یہ فرار ہو کر جرمنی چلے گئے۔ وہاں سے ریڈیو پر برطانوی حکومت کی مخالفت میں تقریریں کرتے رہے۔

وہاں سے یہ جاپان چلے گئے اور آزاد ہند فوج کی بنیاد رکھی۔ یہ ہوائی جہاز کے ایک حادثے میں مر گئے مگر ہندوستان میں ان کے چاہنے والوں نے ان پر یقین نہیں کیا اور یہ مشہور کر دیا کہ وہ زندہ ہیں اور بنگال کے ایک دور دراز گاؤں میں بحیثیت سنیاسی کے زندگی گزار رہے ہیں۔ عقیدت مند لوگ اپنے ہیرو کی موت کا یقین نہیں کرتے۔ دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد ہندوستان میں یہ بھی مشہور ہو گیا تھا کہ ہٹلر مرا نہیں ہے بلکہ روپوش ہو گیا ہے اور دوبارہ آ کر انگریزوں سے جنگ کرے گا۔

سیموئل رافیل نے اپنی کتاب ’ہسٹری اینڈ پولیٹکس‘ میں کئی مؤرخین کے مضامین زبانی تاریخ کے سلسلے بھی شامل کیے ہیں۔ ان میں ایک مضمون گیلی پولی کی جنگ پر ہے۔ اس میں آسٹریلیا کے فوجی پہلی مرتبہ یورپی ملکوں کے ساتھ جنگ میں شریک ہوئے تھے۔ آسٹریلیا اس بات پر خوش تھا کہ یورپی ملکوں نے اس کی سیاسی حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے اسے مساوی مقام دیا۔

اس جنگ میں ترکوں کے راہمنا مصطفی کمال نے یورپی فوجوں کو شکست دی۔ شکست کے بعد جب آسٹریلیا کے فوجی واپس آئے اور ان سے جنگ کے بارے میں انٹرویو لیے گئے تو فوجیوں کے بیانات مختلف تھے۔ ان میں سے کچھ نے جنگ میں ہونے والی سختیوں اور مسائل کا ذکر کیا۔ کچھ نے یہ کہا کہ وہ زندہ واپس آ گئے، ان کے لیے یہی بہت ہے لیکن ان میں سے کچھ فوجی ایسے تھے جنہوں نے انٹرویو دینے سے انکار کر دیا کیونکہ اس جنگ کی تلخ یادیں ان کے ذہن میں تھیں اور وہ ان یادوں کے ذریعے دوبارہ سے جنگ کی خونریزی اور مصائب کو بیان کرنا نہیں چاہتے تھے۔

ایک ایسی جنگ جس میں ان کے دوست مارے گئے تھے اور وہ مشکل سے اپنی جان بچا کر آئے تھے۔

یہی یادیں بنگلہ دیش اور پاکستان کے ان افراد کے ذہنوں میں ہیں جن کے رشتے دار اور دوست بنگلہ دیش میں مارے گئے تھے۔ میرے ایک جاننے والے تھے جن کا نام شبیر کاظمی تھا۔ ان کے پانچ بیٹوں کو مکتی باہنی نے قتل کر دیا تھا۔ میرے ساتھ ہونے والی کئی ملاقاتوں میں انہوں نے کبھی بنگلہ دیش کے بارے میں کوئی ذکر نہیں کیا۔

میری ملاقات جب ایک بنگلہ دیشی صحافی سے ہوئی جس کے والد اور بھائی کو پاکستانی فوج نے گولی ماری تھی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو ضرور آئے مگر اس نے فوجی ایکشن کے بارے میں کوئی ذکر نہیں کیا۔

یہی صورتحال تقسیم کے دوران ہندو مسلم فسادات کی تھی۔ ان فسادات پر لوگوں کے انٹرویوز لیے گئے ہیں لیکن ان میں جذبات کا اس قدر غلبہ ہے کہ پوری صورتحال کو نہیں سمجھا جا سکتا ہے۔

اگرچہ زبانی تاریخ کو تاریخ نویسی میں اہمیت دی جاتی ہے لیکن زبانی تاریخ کے ذریعے جب زبانی بیانات کو تعصب، نفرت، تعریف اور مدح سرائی کے ذریعے تشکیل دیا جائے تو یہ تاریخ کے بیانیے کو مسخ کرتی ہے۔ زبانی تاریخ سے جھوٹ اور فریب کو نکالنا مشکل عمل ہے اس لیے اس پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔

متعلقہ مضامین

  • دماغی سکون اور توانائی بڑھانے والے مشروبات، حقیقت یا محض تشہیر؟
  • غزہ پر قبضے کا منصوبہ‘جرمنی نے اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی روکنے کا اعلان کردیا
  • عامر لیاقت سے آخری ملاقات تکلیف دہ تھی، وہ ڈپریشن میں تھے: ساحر لودھی
  • بھارت خود کو بطور ’وشوا گرو‘ پیش کرنا چاہتا ہے، عملی طور پر ایسا کچھ نہیں: فیلڈ مارشل عاصم منیر
  • امریکا میں فیلڈ مارشل عاصم منیر کو بطور طاقتور شخصیت دیکھا جاتا ہے: بلوم برگ
  • ‎بھارت اپنے آپ کو ’’وشوا گرو‘‘ کے طور پر پیش کرنا چاہتا ہے، لیکن عملی طور پر ایسا کچھ بھی نہیں: فیلڈ مارشل سید عاصم منیر
  • زبانی تاریخ: کیا اس پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے؟
  • صدرِ مملکت کا ژوب میں 14 بھارتی حمایت یافتہ خوارج کے خاتمے پر سیکیورٹی فورسز کو زبردست خراجِ تحسین
  • پاکستان کو توانائی بحران سے نکالنے کا واحد حل تھرپارکر کا کوئلہ ہے: گورنر پنجاب
  • پیپلزپارٹی نے تھرمیں کوئلہ سے توانائی حاصل کرکے ملکی معیشت میں انقلاب برپا کیا ‘ سردارسلیم حیدر