سپریم کورٹ کے فیصلے سے دکھ اور مایوسی ہوئی، چیئرمین پی ٹی آئی
اشاعت کی تاریخ: 28th, June 2025 GMT
چئیرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے دکھ اور مایوسی ہوئی ہے۔
انہوں نے اپوزیشن لیڈر سینیٹ شبلی فراز اور کنول شوزب کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے دکھ اور مایوسی ہوئی ہے، 39 امیدواروں کے نوٹفکیشن کو کسی نے چیلنج نہیں کیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں امید تھی کہ مخصوص نشستیں ہمیں مل جائیں گی، ہمارے سے نشستیں لے کر مینڈیٹ چوروں کو دے دیا گیا، سپریم کورٹ فل بینچ بیٹھ کر ریوو کرتا تو ہمیں اعتراض نہ ہوتا۔
بیرسٹر گوہر نے کہا کہ 26 ویں آئینی ترامیم کا فیصلہ سب سے پہلے ہونا چاہئے تھا، یہ تاریخ اور قانون کی کتابوں کو کبھی نہیں سنا تھا کہ 13 ججز کا فیصلہ 7 ججز ختم کر دیں، پی ٹی آئی 859 حلقوں سے الیکشن لڑا، 15 فروری کو ہمارا آزاد امیدواروں کا نوٹفکیشن ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے فورا سنی اتحاد میں شمولیت والے ڈاکومنٹس الیکشن کمیشن میں جمع کروا دئے تھے، 22 فروری کو الیکشن کمیشن نے 78 سیٹیں جو ہمیں ملنی تھی چھوڑ کر باقی پارٹیوں کو دے دی، یہ سیٹیں خالی بھی رکھی جا سکتی تھی، اس بار جیتی ہوئی سیٹوں سے زیادہ سیٹیں ملی ہیں۔
بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ہم الیکشن کمیشن گئے اور ہمارے ایم این ایز کا نوٹفیکیشن جاری کیا گیا تھا، ہمارا وہ نوٹفکیشن آج بھی انٹکٹ ہے، کوئی یہ نہ سوچے کہ کل کے فیصلے کے بعد پی ٹی آئی کے امیدوار آزاد ہیں، وہ ابھی بھی سنی اتحاد کا حصہ ہیں، سپریم کورٹ کے سٹے کے بعد الیکشن کمیشن نے اپنا پراسس روک لیا تھا۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ الیکشن کمیشن سے مطالبہ کرتے ہیں کہ باقی صوبوں کے نوٹفکیشن جلد جاری کئے جایئیں، ہم ریسروو سیٹیں مانگ رہے ہیں جو ہمیں نہیں ملی،
عدلیہ سے ہمیں مایوسی ہوئی ہے، انصاف کا حصول آج پاکستان میں جتنا مشکل ہے پہلے اتنا مشکل نہیں تھا، لوگوں کو ناانصافی ملی، ہمیں بہت افسوس ہے، پی ٹی آئی کے بغض میں اتنی حدیں کراس مت کریں۔
انہوں نے کہا کہ ہم چیف جسٹس سے پرذور اپیل کرتے ہیں کہ عدالت پر تو نظر رکھیں، یہ دن گزر جاتے ہیں لیکن لوگ لیگسی چھوڑ جاتے ہیں۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سپریم کورٹ کے الیکشن کمیشن مایوسی ہوئی نے کہا کہ پی ٹی آئی کے فیصلے
پڑھیں:
سپریم کورٹ کے اختیارات ختم کرنا غیر آئینی ہے، 27ویں آئینی ترمیم کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر
27ویں آئینی ترمیم کی منظوری سے قبل ہی سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس (ر) جواد ایس خواجہ نے ترمیم کے خلاف درخواست دائر کردی۔
جواد ایس خواجہ نے درخواست 184 تین کے تحت دائر کی ہے، جس میں وفاق اور وزارت قانون انصاف کو فریق بنایا گیا۔
مزید پڑھیں: قومی اسمبلی: 27 ویں آئینی ترمیم 2025 کا بل پیش، دو تہائی اکثریت سے منظوری کا امکان
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے آئینی دائرہ اختیار کو کم نہیں کر سکتی، سپریم کورٹ کا آئینی دائرہ اختیار کسی اور عدالت یا فورم کو منتقل نہیں کیا جا سکتا۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ 27ویں آئینی ترمیم کے ذریعے سپریم کورٹ کے اختیارات ختم کرنا غیر آئینی ہے، عدالت آئین میں ایسی کسی ترمیم کو کالعدم قرار دے جو سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار کم کرے۔
جواد ایس خواجہ نے استدعا کی ہے کہ سپریم کورٹ اعلان کرے کہ وہ خود آئینی ترامیم کی آئینی حیثیت کا فیصلہ کرنے کی مجاز ہے۔ آئینی عدالت یا کسی اور فورم کو سپریم کورٹ کے اختیارات دینا آئین سے متصادم ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ 27ویں آئینی ترمیم کے تحت ہائیکورٹ ججز کی منتقلی سے متعلق شقیں بھی کالعدم کی جائیں، درخواست کے فیصلے تک 27ویں ترمیم کے متنازعہ حصوں پر عملدرآمد روکا جائے۔
مزید پڑھیں: 27ویں آئینی ترمیم پر ریٹائرڈ ججز کیا کہتے ہیں؟
واضح رہے کہ ایوان بالا (سینیٹ) نے دو تہائی اکثریت سے 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری دے دی ہے، جبکہ ترمیم کا ڈرافٹ قومی اسمبلی میں پیش کردیا گیا ہے، اور امکان ہے کہ ترمیم دو تہائی اکثریت سے منظور ہو جائےگی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews آئینی ترمیم اختیارات جواد ایس خواجہ سابق جج سپریم کورٹ غیر آئینی وی نیوز