امریکی سپریم کورٹ نے پیدائشی حق شہریت کو محدود کرنے کے حق میں فیصلہ دے دیا
اشاعت کی تاریخ: 28th, June 2025 GMT
واشنگٹن : ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے “پیدائشی حق شہریت” کو محدود کرنے کے ردعمل میں شروع کی گئی قانونی چارہ جوئی کے جواب میں، امریکی سپریم کورٹ نے ٹرمپ انتظامیہ کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ سپریم کورٹ کا ماننا ہے کہ فیڈرل ڈسٹرکٹ ججوں کو اس اقدام کےملک بھر نفاذ کو روکنےکا کوئی حق نہیں ہے۔ امریکی سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اس ایگزیکٹو آرڈر کو روکنا کانگریس کی طرف سے فیڈرل ڈسٹرکٹ کورٹس کو دیئے گئے اختیارات سے باہر ہے۔قدامت پسندوں کے زیر کنٹرول امریکی سپریم کورٹ نے ٹرمپ انتظامیہ کی درخواست کو 3 کے مقابلے میں 6 ووٹوں سے منظور کر لیا، جس سے فیڈرل ڈسٹرکٹ جج کا دائرہ اختیار صرف ان ریاستوں، گروہوں اور افراد پر لاگو کرنے تک محدود کر دیا گیا جنہوں نے مقدمہ دائر کیا تھا۔ تاہم، اس فیصلے میں یہ شامل نہیں کہ آیا ٹرمپ انتظامیہ کا “پیدائشی حق شہریت” کو محدود کرنے کا ایگزیکٹو آرڈر خود غیر آئینی ہے۔ امریکی سپریم کورٹ کے تین ججوں نے اس فیصلے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ کے اقدامات غیر آئینی ہیں۔ امریکی میڈیا کا خیال ہے کہ یہ فیصلہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے “پیدائشی حق شہریت” کو ختم کرنے کے لیے بتدریج اقدامات کرنے کے لیے سازگار ہے۔
Post Views: 2.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: امریکی سپریم کورٹ نے پیدائشی حق شہریت ٹرمپ انتظامیہ
پڑھیں:
سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سرفراز ڈوگر ٹرانسفر کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا
سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سرفراز ڈوگر ٹرانسفر کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا اور ہائی کورٹ کے ججوں کا ٹرانسفر آئین اور قانون کے مطابق قرار دے دیا۔
سپریم کورٹ کے جسٹس محمد علی مظہر نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججوں سینیارٹی اور تبادلے کے کیس کا 55 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ تحریر کیا، جس میں کہاگیا ہے کہ اصل نکتہ یا بنیادی شرط یہ ہے کہ جج کو ایک ہائی کورٹ سے دوسری ہائی کورٹ میں منتقل کرنے سے پہلے صدر مملکت کو متعلقہ جج کی رضامندی لینا ضروری ہے۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ سب سے اہم دوسرا پہلو مشاورت کا عمل ہے، مشاورت کے عمل میں صدر مملکت چیف جسٹس آف پاکستان اور دونوں ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان سے مشاورت کے پابند ہیں۔
فیصلے میں کہا گیا کہ صدرمملکت کو آئین کے تحت ججوں کے ٹرانسفر کا اختیار حاصل ہے، آئین کے آرٹیکل 175 اے اور 200 میں کوئی تضاد نہیں ہے، دونوں آرٹیکلز کے مطابق مختلف مواقع سے نمٹنے کے لیے موقف مختلف تھا۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ جج کی منتقلی جج کی رضامندی اور مشاورت کے بغیر ممکن نہیں، ججوں کی منتقلی کا فیصلہ عدلیہ کے دائرہ اختیار میں ہے، منتقلی کے عمل میں عدلیہ کی رائے کو اولیت حاصل ہے۔
عدالتی فیصلے میں واضح کیا گیا کہ ججوں کی منتقلی سے عدلیہ کی آزادی متاثر نہیں ہوتی، ججوں کی منتقلی میں بدنیتی یا انتقامی کارروائی ثابت نہیں ہوئی، ججوں کی منتقلی آئین اور قانون کے مطابق ہوئی ہے۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ ایکٹ 2010 کا سیکشن 3 منتقلی پر قدغن نہیں لگاتا اور صوبائی نمائندگی کے اصول کی خلاف ورزی نہیں ہوئی، معاملہ سینیارٹی کے تعین کے لیے صدر کو واپس بھجوایا جاتا ہے۔
Post Views: 1