اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 28 جون2025ء) نائب صدر پیپلز پارٹی سینیٹر شیری رحمان نے کہا ہے کہ پرمننٹ کورٹ آف آربیٹریشن کا فیصلہ پاکستان کے مؤقف کی جیت ہے ، بھارت سندھ طاس معاہدے کو معطل نہیں کر سکتا، عالمی عدالت کے فیصلے نےمودی سرکار کوآئینہ دکھا دیا ، ثالثی عدالت کا کردار محدود کرنے کی بھارتی کوشش ناکام ہو گئی ۔

ہفتہ کو اپنے بیان میں نائب صدر پیپلز پارٹی سینیٹر شیری رحمان نےسندھ طاس معاہدے کے حوالے سے پرمننٹ کورٹ آف آربٹریشن کا فیصلہ خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ پرمننٹ کورٹ آف آربیٹریشن کا فیصلہ پاکستان کے مؤقف کی جیت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بھارت سندھ طاس معاہدے کو معطل نہیں کر سکتا، عالمی عدالت کے فیصلے نےمودی سرکار کوآئینہ دکھاتے ہوئے بھارت کی یکطرفہ ہٹ دھرمی کو غیرقانونی قرار دے دیا ہے۔

(جاری ہے)

شیری رحمان نے مزید کہا کہ ثالثی عدالت کا کردار محدود کرنے کی بھارتی کوشش ناکام ہو گئی ، عالمی عدالت کے فیصلے میں واضح کہا گیا کہ بھارت کو معاہدہ اکیلے ختم کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ انہوں نے کہا کہ سندھ طاس معاہدہ قائم رہے گا ۔ شیری رحمان نے کہا کہ عالمی عدالت کے فیصلے نے ثابت کر دیا کہ بھارت طاقت کے زور پر بین الاقوامی معاہدوں کو روند نہیں سکتا، ثالثی عدالت کا تسلسل پاکستان کے حق میں انصاف کی علامت ہے، بھارت کو اب عالمی قوانین کا احترام کرنا ہوگا۔.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے عالمی عدالت کے فیصلے نے سندھ طاس معاہدے پرمننٹ کورٹ پاکستان کے کا فیصلہ کہا کہ نے کہا

پڑھیں:

عالمی سطح پر پاکستان کے حق میں دو اہم فیصلے

عالمی مستقل ثالثی عدالت نے پاکستان کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے کہا ہے، بھارت مغربی دریاؤں کا پانی پاکستان کے بلا روک ٹوک استعمال کے لیے چھوڑ دے، بھارت نے حال ہی میں سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کا اعلان کیا تھا اور اس سے قبل ثالثی عدالت کی کارروائی کا بائیکاٹ بھی کیا تھا۔ یہ فیصلہ پاکستانی موقف کی فتح ہے۔

 پاکستان اور بھارت کے درمیان سندھ طاس معاہدہ جنوبی ایشیاء میں آبی وسائل کی تقسیم کا ایک نادر اور دیرپا بین الاقوامی معاہدہ رہا ہے جس نے عشروں سے دونوں ممالک کے درمیان پانی کے حوالے سے تنازعات کو کسی حد تک روک کر رکھا ہے۔ تاہم، وقتاً فوقتاً اس معاہدے کی روح اور اس کے اطلاق کے حوالے سے مختلف نوعیت کے اختلافات جنم لیتے رہے ہیں۔

حال ہی میں عالمی مستقل ثالثی عدالت کی جانب سے پاکستان کے حق میں سنایا گیا فیصلہ، ایک اہم سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے جو نہ صرف پاکستان کے قانونی موقف کی توثیق کرتا ہے بلکہ بین الاقوامی قانون اور معاہدات کی پاسداری کے اصولوں کو بھی اجاگر کرتا ہے۔

اس فیصلے کی جڑیں انیس اگست دو ہزار سولہ میں اس وقت پیوست ہیں جب پاکستان نے بھارت کے خلاف عالمی عدالت سے رجوع کیا تھا۔ پاکستان کا مؤقف تھا کہ بھارت مغربی دریاؤں پر ایسے منصوبے تعمیر کررہا ہے جو سندھ طاس معاہدے کی روح کے منافی ہیں اور پاکستان کے آبی حقوق پر کاری ضرب ہیں۔

پاکستان کی طرف سے عدالت سے یہ استدعا کی گئی کہ بھارت کو اس بات کا پابند بنایا جائے کہ وہ معاہدے کی مکمل پاسداری کرے اور مغربی دریاؤں جن میں دریائے سندھ، جہلم اور چناب شامل ہیں، کے پانی کو پاکستان کے بلا روک ٹوک استعمال کے لیے چھوڑ دے۔ آٹھ اگست دو ہزار پچیس کو عالمی مستقل ثالثی عدالت کی طرف سے سنایا گیا فیصلہ، پاکستان کے اس مؤقف کی تصدیق کرتا ہے کہ بھارت نے معاہدے کی خلاف ورزی کی کوشش کی اور پاکستان کے قانونی حقوق کو پامال کرنے کے اقدامات کیے۔

عدالت نے واضح الفاظ میں کہا کہ بھارت ان دریاؤں کے پانی کو نہیں روک سکتا اور اسے معاہدے کے مطابق پاکستان کو یہ پانی مہیا کرنا ہوگا۔ یہ فیصلہ نہ صرف پاکستان کی قانونی، اخلاقی اور سفارتی کامیابی ہے بلکہ یہ اس امر کا بھی اظہار ہے کہ عالمی برادری بھارت کی جانب سے معاہدوں کی خلاف ورزی پر خاموش نہیں رہے گی۔

اس فیصلے کی اہمیت اس وقت مزید بڑھ جاتی ہے جب اسے بھارت کی حالیہ حرکات و سکنات کے تناظر میں دیکھا جائے۔ حال ہی میں بھارت نے سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کا اعلان کر کے نہ صرف بین الاقوامی معاہدے کی خلاف ورزی کی کوشش کی بلکہ اس نے عالمی ثالثی عدالت کی کارروائی کا بائیکاٹ بھی کیا۔

اس بائیکاٹ کا مقصد شاید یہ تھا کہ وہ عدالت کی قانونی حیثیت کو چیلنج کرے یا کارروائی کو غیر مؤثر بنا سکے، لیکن عدالت نے اس رویے کو نظر انداز کرتے ہوئے میرٹ پر فیصلہ سنایا، جو بھارت کے لیے ایک بین الاقوامی تنبیہ بھی ہے کہ قانون سے بالاتر کوئی ریاست نہیں ہوتی۔

اس فیصلے کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ ایک جانب تو یہ فیصلہ جنوبی ایشیائی خطے میں پانی کے مسئلے پر موجود غیر یقینی صورتحال کو کسی حد تک واضح سمت دے گا، اور دوسری جانب بین الاقوامی برادری کو بھی یہ پیغام دے گا کہ پانی جیسے قیمتی اور حساس وسائل کے تحفظ کے لیے بین الاقوامی معاہدات کا احترام لازم ہے۔ بھارت کے لیے بھی یہ لمحہ فکریہ ہے کہ وہ اپنی داخلی سیاست یا علاقائی بالادستی کے جنون میں بین الاقوامی اصولوں کو پامال نہ کرے کیونکہ ایسا طرزِ عمل نہ صرف خطے کے امن کے لیے خطرہ بن سکتا ہے بلکہ خود بھارت کے عالمی تشخص کو بھی نقصان پہنچا سکتا ہے۔ایک اور اہم پہلو جس پر غور کیا جانا چاہیے وہ ماحولیاتی تبدیلی اور پانی کے بڑھتے ہوئے عالمی بحران کا ہے۔

دنیا بھر میں آبی ذخائر پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے، گلیشیئرز پگھل رہے ہیں اور بارشوں کے نظام میں بے ترتیبی پیدا ہو چکی ہے۔ ایسے میں دریاؤں کا بہاؤ روکنا، ان پر بند باندھنا یا ان کے قدرتی نظام میں مداخلت عالمی ماحولیاتی نظام پر بھی منفی اثر ڈال سکتی ہے۔ سندھ طاس معاہدہ نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان پانی کی تقسیم کا ایک فریم ورک ہے بلکہ یہ ایک ماحولیاتی توازن قائم رکھنے کا ذریعہ بھی ہے۔

بھارت کے منصوبے نہ صرف پاکستان کے لیے خطرناک ہیں بلکہ پورے خطے کے ماحول اور زراعت پر منفی اثر ڈال سکتے ہیں۔پاکستان کو بھی اس کامیابی کے بعد اپنی سفارتی کوششوں کو مزید مؤثر بنانا ہوگا تاکہ یہ عدالتی فیصلہ نہ صرف کاغذی حد تک محدود رہے بلکہ اس پر مکمل عملدرآمد بھی یقینی بنایا جا سکے۔

دوسری جانب امریکا کی جانب سے بی ایل اے (بلوچ لبریشن آرمی) اور مجید بریگیڈ کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کر کے دہشت گرد قرار دینا، ایک پیش رفت ہے ۔ یہ فیصلہ پاکستان سمیت ان خطوں میں استحکام، امن اور قانون کی حکمرانی کے قیام کے لیے ایک مثبت پیش رفت ہے۔

بی ایل اے ایک مسلح دہشت گرد گروپ ہے، جو بلوچستان میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث ہے ۔ دوسری جانب، مجید بریگیڈ نے اپنے آپریشنز میں جہاں حکومتی تنصیبات کو نشانہ بنایا، وہاں سیکیورٹی فورسز، عام شہریوں اور سرکاری اہلکاروں کے خلاف کارروائیاں بھی کیں، جس سے انسانی جانوں کا نقصان ہوا اور ملک کے اندرونی امن کو دھچکا لگا۔

دہشت گردی ایک عالمگیر مسئلہ ہے۔ جب ایک ریاست خود اپنی داخلی سیکیورٹی کے لیے کارروائی کرتی ہے، تو اسے کبھی کبھی بین الاقوامی سطح پر الجھنوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے، جب ایک بین الاقوامی طاقت جیسے امریکا اس معاملے میں واضح موقف اختیار کرتی ہے، تو اس سے پاکستان کو نہ صرف قانونی اور اخلاقی حمایت ملتی ہے بلکہ اسٹرٹیجک اعتبار سے بھی ایک مضبوط موقف پر قائم رہنے کی قوت ملتی ہے۔

یہ فیصلہ اُن حکومتوں اور انھیں گروہوں کی پالیسیوں کو ایک عالمی سطح پر جھٹکا دیتا ہے جو دہشت گردی کو ایک سیاسی اوزار کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں بعض حلقے ان گروہوں کو آزادی پسند تحریکیں قرار دیتے آئے ہیں، لیکن امریکی موقف نے ایک واضح لکیر کھینچ دی ہے کہ یہ گروہ دہشت گرد تنظیموں کی ہی شاخ ہیں، اور ان کے اہداف میں عوام کی حفاظت شامل نہیں، بلکہ انتشار، نفرت اور تشدد کو فروغ دینا شامل ہے۔

یہ حقیقت عوام کے شعور کو بیدار کرنے میں مددگار ہے، اور انھیں سمجھنے میں معاون ہے کہ معاشرتی ترقی، امن اور خوشحالی دہشت گردی کے خاتمے سے ممکن ہے، دہشت گردی کے پھیلاؤ سے نہیں۔یہاں ایک اور پہلو قابلِ ذکر ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ صرف عسکری محاذ پر محدود نہیں رہنی چاہیے۔ اس میں سوشل میڈیا پر پروپیگنڈہ، نوجوانوں میں نظریاتی تربیت، تعلیم اور معاشرتی شعور میں اضافہ، معاشی مواقع کی فراہمی، اور سیاسی شمولیت کے راستوں کو بھی مستحکم کرنا ضروری ہے۔ دہشت گردی کے خلاف مقابلہ اگر تمام جہتوں سے کیا جائے۔

عسکری، معاشی، نظریاتی، تعلیمی اور سیاسی تو اس سے نہ صرف وہ گروہ جو تشدد کا راستہ اختیار کرتے ہیں ختم ہو سکتے ہیں، بلکہ اس کا اثر دیگر ریاست دشمن رجحانات پر بھی پڑے گا۔ دنیا کو محفوظ بنانے کے لیے ہمیں اپنے گھروں اور معاشروں کو پہلے محفوظ بنانا ہوگا۔ پاکستان کا مضبوط ہونا، معاشرتی انصاف کی بنیاد پر، ہی عالمی امن کی ضمانت ہے۔

امریکا کا فیصلہ ایک با معنی پیغام بھی دیتا ہے کہ دہشت گردی ایک ایسی وبا ہے جو صرف علاقائی یا مخصوص ریاستی مسئلے کا نام نہیں، بلکہ یہ بین الاقوامی سطح پر ایک مشترکہ جرم ہے۔ اس کا مقابلہ صرف اپنے عسکری یا سیاسی نقطہ نظر سے نہیں کیا جا سکتا۔ ہمیں اس جنگ میں علاقے کے امن، قانون کی حکمرانی، معاشرتی شمولیت اور بین الاقوامی اتحاد کو بطور اساسی اوزار اختیار کرنا ہوگا۔

بلاشبہ یہ فیصلہ پاکستان کی قربانیوں، عسکری و سیاسی جدوجہد اور مسلسل کوششوں کا اعتراف ہے۔ اب وقت ہے کہ پاکستان اس اعتراف کو عملی اقدامات میں ڈھالے۔ بلوچستان میں تعمیری ترقیاتی پروگرام، نوجوانوں کی شمولیت، سیاسی شفافیت، انسانی حقوق کی پاسداری اور بین الاقوامی تعاون کو بنیاد بنا کر اس تشدد آمیز تاریخ کو تبدیل کیا جائے۔ ایک ایسا پاکستان جس کا ہر حصہ امن، ترقی، انصاف اور شمولیت کا پیامبر ہو، ہی دنیا کو زیادہ محفوظ اور خوشحال بنانے میں مددگار ثابت ہوگا۔

متعلقہ مضامین

  • عالمی سطح پر پاکستان کے حق میں دو اہم فیصلے
  • شیری رحمان کی تقریر کے دوران اپوزیشن کا احتجاج
  • سندھ طاس تنازع: پاکستان کی طرف سے عدالتی فیصلے کا خیرمقدم
  • پانی کی تقسیم کامعاملہ،عالمی ثالثی عدالت نے پاکستان کے حق میں بڑافیصلہ سنادیا
  • بھارت مغربی دریا پاکستان کیلیے بلا رکاوٹ بہنے دے، عالمی ثالثی عدالت
  • عالمی عدالت کا بھارت کو مغربی دریاؤں کا پانی بلا روک ٹوک بہنے دینے کا حکم
  • عالمی عدالت کا بھارت کو پاکستان کا پانی نہ روکنے کا حکم، حکومت کا خیرمقدم
  • پاکستان کا سندھ طاس معاہدے کی عمومی تشریح پر ثالثی عدالت کے فیصلے کا خیرمقدم
  • پاکستان کا سندھ طاس معاہدے کی تشریح پر ثالثی عدالت کے فیصلے کا خیرمقدم
  • پاکستان کا سندھ طاس معاہدہ کی عمومی تشریح سے متعلق ثالثی عدالت کے فیصلے کا خیرمقدم