ایران کی قائدانہ صلاحیت اور امتِ مسلمہ
اشاعت کی تاریخ: 27th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
دیکھیے، یہ ’’امت‘‘ کی آواز کہاں سے بلند ہو رہی ہے؟ ذرا کان لگائیے۔ خلافت کے خاتمے کے بعد مسلم امت قومی ریاستوں میں تقسیم ہوگئی تھی، اور اس کی پکار دب گئی تھی۔ کسی قومی رہنما یا فوجی سربراہ نے امت ِ مسلمہ کو کبھی متحدہ طور پر مخاطب نہیں کیا۔ یہ اصطلاح صرف علما اور عوام تک محدود رہی۔ قومی لیڈروں نے اپنے وطن کی جغرافیائی حدود سے باہر کے مسلمانوں یا مظلوموں کی بات نہیں کی، اور اگر کی بھی تو صرف زبانی جمع خرچ۔ صرف خلافت کے دور میں ہی ’’امت‘‘ کا عملی تصور موجود تھا، جب خلیفہ وقت تمام مسلمانوں کا نمائندہ سمجھا جاتا تھا۔ اب مسلم امت کی دبی ہوئی آواز پھر سے بلند ہو رہی ہے۔
نسیمِ سحر کا تازہ جھونکا ایران سے آیا ہے۔ رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے حال ہی میں مسلم امت کے نام خطاب میں سورۂ آل عمران کی آیت 126 کا حوالہ دیا: ’’اور فتح صرف اللہ کی طرف سے ہے، جو غالب اور حکمت والا ہے‘‘۔ انہوں نے قرآنی آیات کی روشنی میں امت سے اتحاد، استقامت، اور اللہ کی مدد پر بھروسا رکھنے کی اپیل کی، تاکہ ظلم کے خلاف ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے۔
علامہ محمد اقبال جنہیں مغربی سیاست و تہذیب کی چالاکیوں کا گہرا ادراک تھا، نے 1938 (انتقال کا سال) سے قبل ایران میں اسلامی انقلاب کی پیش گوئی کر دی تھی:
’’تہران ہو گر عالمِ مشرق کا جینوا
شاید کرۂ ارض کی تقدیر بدل جائے!‘‘
اقبالؔ نے جنیوا (اقوام متحدہ) سے کوئی امید نہیں رکھی، بلکہ مشرق میں ایک نئے جنیوا کی توقع مسلم ایران سے کی۔ کیا آج کا ایران امت ِ مسلمہ کی قیادت کا اہل ہے؟ جواب ہے: ہاں، بدرجہ اتم۔ افسوس کہ پاکستانی علماء نے ایران کے اسلامی انقلاب کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ یہ انقلاب علماء اور عوام کی پرامن جدوجہد سے آیا تھا۔ اگرچہ پاکستان کا اسلامی انقلاب سنی رنگ کا ہوتا، لیکن ایران کے انقلاب کو مسلکی تعصب کی نظر سے دیکھا گیا۔ مشرق وسطیٰ کے ملوک نے اسے اپنے اقتدار کے لیے خطرہ سمجھا اور شیعہ سنی منافرت کو ہوا دی۔ مغرب نے ایران کے خوف کو استعمال کرتے ہوئے عرب عصبیت کو ابھارا، عراق کے ذریعے ایران پر حملہ کرایا، اور مسلکی علما کی ایک کھیپ تیار کی گئی، جس کے پیچھے پیٹرو ڈالرز تھے۔
پاکستان میں شیعہ سنی تشدد عالمی ایجنسیوں کے ذریعے کرایا گیا۔ مساجد اور امام بارگاہوں پر حملے ہوئے، دیواریں ’’شیعہ کافر‘‘ کے نعروں سے بھر گئیں۔ تاہم پاکستانی دینی و سیاسی قیادت کی بیداری کی وجہ سے یہ خون خرابہ زیادہ نہ بڑھا۔ خصوصاً قاضی حسین احمد اور مولانا طارق جمیل کی کوششیں بہت نمایاں رہی ہیں۔
پاکستان کی دینی قیادت میں اتحاد و اتفاق کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ 1951ء میں 31 جید علماء نے پاکستان میں اسلامی نظام کے قیام کے لیے 22 نکاتی متفقہ پروگرام پیش کیا تھا، جس میں تمام مکاتب ِ فکر، بشمول شیعہ، شامل تھے۔ یہ پروگرام فرقہ پرستی کے خلاف اور پاکستان کے ان حکمرانوں کے منہ پر ایک طمانچہ تھا، جو علما کو یہ چیلنج کر رہے تھے کہ مسلکی اور مذہبی اختلافات کے باعث یہاں اسلام کا سیاسی نظام قائم نہیں ہو سکتا۔ اس کے بعد بھی تاریخ کے ہر موڑ پر، ہر نئے فتنے کے بعد علمائے پاکستان کے تمام گروہوں نے متفقہ فیصلے کیے، متفقہ قراردادیں پاس کیں۔ تازہ ترین چند ماہ قبل کا اسرائیل کے خلاف جہاد کا فتویٰ اس کی مثال ہے، جس پر تمام سنی اور شیعہ، اور تمام مکاتب ِ فکر کے علما کے دستخط موجود ہیں۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، امام خمینیؒ کے ساتھ رابطے میں تھے اور ان کی بھرپور حمایت کرتے تھے۔ ایران کے انقلاب کے بعد وہ چند ماہ ہی حیات رہے۔ اگر وہ ایرانی انقلاب کے بعد مزید زندہ ہوتے تو مغربی چیلنجز کا موثر جواب دے سکتے تھے۔ ایران نے اپنے مذہبی نظریات میں اصلاحات بھی کیں، لیکن تعصب کی وجہ سے اسے نظر انداز کیا گیا۔
1980 کی ایران عراق جنگ کے بعد ایران نے براہ ِراست کوئی جنگ نہیں لڑی، بلکہ اپنے حمایت یافتہ گروہوں کے ذریعے فلسطینیوں کی مدد کی۔ جون 2025 کی 12 روزہ جنگ نے ثابت کیا کہ ایران عالم ِ اسلام کی قیادت کے لیے تیار ہے۔ اس کے پاس ایمان، نظریاتی و فوجی اسلحہ، ٹیکنالوجی، معیشت، اور تربیت کی صلاحیت موجود ہے۔ اسرائیلی حملوں سے سپاہِ پاسداران اور جوہری تنصیبات کو نقصان پہنچا، لیکن ایران نے تزویراتی صبر اور حکمت ِ عملی کے ساتھ 550 بیلسٹک میزائل اور 1000 ڈرونز سے جوابی حملے کیے، جنہوں نے اسرائیل کی کمرتوڑ دی۔ قطر میں امریکی اڈے پر حملے نے امریکا کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا۔ آیت اللہ خامنہ ای کی سیاسی گرفت مضبوط ہوئی، اور ایران نے عالمی سطح پر اپنی عسکری صلاحیت کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے ناٹو اجلاس میں ایران کی صلاحیت کا اعتراف کیا، جو اس کی قائدانہ قوت کا ثبوت ہے۔
.
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ایران کے ایران نے کے بعد
پڑھیں:
شہادت جہاد کا ثمر اور ملی ارتقا کا ذریعہ ہے، حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای
اس پیغام کو شہدا و ایثار گران کی فاونڈیشن میں رہبر انقلاب کے نمائندہ حجت الاسلام موسوی مقدم نے گلزار شہدا، بہشت زہراؑ تہران میں پڑھ کر سنایا۔ اسلام ٹائمز۔ رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے ہفتہ دفاع مقدس کی مناسبت سے اپنے پیام میں فرمایا ہے کہ شہادت جہاد کا ثمر ہے، چاہے آٹھ سالہ دفاع ہو، چاہے 12 روزہ دلیرانہ جنگ، چاہے لبنان، غزہ ہو یا فلسطین، جہاد ملی ارتقا کا ذریعہ ہے۔ ہفتہ دفاع مقدس کی مانسبت سے روز «مهمانی لالهها» یعنی جنت کے پھول یا پھولوں کی دعوت کے عنوان سے دن منایا گیا۔ اس دن کی مناسبت سے رہبر انقلاب نے فرمایا کہ یہ جہاد اور شہادت کا جلوہ ہے، جس سے اقوام کو جلا ملی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی کا پیغام جو ملک بھر میں شہداء کی قبروں کی صفائی، عطر چھڑکنے اور پھولوں کی پتیاں نچھاور کرنے کی تقاریب میں"جنت کے پھول" کے عنوان سے جاری کیا گیا۔ اس پیغام کو شہدا و ایثار گران کی فاونڈیشن میں رہبر انقلاب کے نمائندہ حجت الاسلام موسوی مقدم نے گلزار شہدا، بہشت زہراؑ تہران میں پڑھ کر سنایا۔
بسم الله الرّحمن الرّحیم
اس سال مختلف مقامات پر اسلامی مزاحمت کی راہ پر چلنے والی سرکردہ شخصیات اور بہادر جوانوں کی شہادت کی بدولت ہفتہ دفاع مقدس ایک نئی جہت اختیار کر چکا ہے۔ شہادت جہادکا صلہ و ثمر ہے، چاہے 8 سالہ دفاع میں، 12 روزہ جنگ ہو یا لبنان، غزہ اور فلسطین میں جدوجہد، قومیں انہی کاوشوں سے ارتقا پاتی اور انہی شہادتوں سے جلا حاصل کرتی ہیں۔ لازم ہے کہ حق کی فتح اور باطل کے زوال کے بارے میں خدائی وعدے پر یقین رکھیں اور خدا کے دین کی نصرت کے لئے اپنے فریضے کا انجام دیتے رہیں۔
سید علی خامنہ ای
2 مہر 1404