سب سے زیادہ افزودہ یورینییم رکھنے والی ایرانی ایٹمی تنصیبات پر بنکر بسٹر استعمال نہیں کیے، اعلیٰ امریکی جنرل کے انکشافات WhatsAppFacebookTwitter 0 29 June, 2025 سب نیوز

امریکی فوج نے گزشتہ ہفتے ایران کے بڑے جوہری مرکز اصفہان پر بنکر بسٹر بم استعمال نہیں کیے کیونکہ یہ مقام زمین کے اتنے اندر واقع ہے کہ عام تباہ کن بم بھی مؤثر ثابت نہ ہوتے۔ یہ انکشاف امریکی جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے چیئرمین جنرل ڈین کین نے جمعرات کو سینیٹرز کو دی گئی ایک بریفنگ کے دوران کیا، جس کی تفصیل سی این این نے تین حاضرین اور ایک باخبر ذریعے کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں شائع کی۔

جنرل کین کی یہ وضاحت پہلی بار سامنے آئی ہے کہ امریکی فضائیہ نے اصفہان کے زیرزمین مرکز پر ”Massive Ordnance Penetrator“ بم کیوں استعمال نہیں کیے، حالانکہ یہی مرکز ایران کے 60 فیصد افزودہ یورینیم کے ذخیرے کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔ امریکی حکام کے مطابق یہی افزودہ یورینیم ایران کے ممکنہ جوہری ہتھیاروں کے لیے بنیادی مواد ہے۔

امریکی بی-2 بمبار طیاروں نے ایران کے فردو اور نطنز کے جوہری مراکز پر درجنوں بنکر بسٹر بم برسائے، لیکن اصفہان کو صرف امریکی آبدوز سے داغے گئے ٹوماہاک میزائلوں سے نشانہ بنایا گیا۔

یہ خفیہ بریفنگ امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگسیث، وزیر خارجہ مارکو روبیو، سی آئی اے ڈائریکٹر جان ریٹکلف اور جنرل کین کی جانب سے دی گئی۔ جنرل کین کے ترجمان نے اس پر تبصرہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ خفیہ کانگریسی بریفنگ پر بات نہیں کر سکتے۔

بریفنگ کے دوران سی آئی اے ڈائریکٹر ریٹکلف نے قانون سازوں کو بتایا کہ امریکی انٹیلیجنس کا خیال ہے کہ ایران کے زیادہ تر افزودہ یورینیم کے ذخائر اصفہان اور فردو میں زیرزمین موجود ہیں۔ ڈیموکریٹ سینیٹر کرس مرفی نے بریفنگ کے بعد بتایا کہ ایران کی جوہری تنصیبات اتنی گہرائی میں ہیں کہ امریکا کے موجودہ ہتھیار وہاں تک پہنچنے سے قاصر ہیں۔

ڈیفنس انٹیلیجنس ایجنسی کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق امریکی حملوں کے بعد بھی ایران کے جوہری پروگرام کے بنیادی اجزاء، بشمول افزودہ یورینیم، مکمل طور پر تباہ نہیں ہوئے بلکہ یہ پروگرام صرف چند ماہ کے لیے پیچھے چلا گیا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی اشارہ دیا گیا کہ ممکن ہے ایران نے کچھ افزودہ یورینیم حملے سے قبل ہی دوسری جگہ منتقل کر لیا ہو۔

دوسری جانب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعہ کو ایک بار پھر دعویٰ کیا کہ تینوں جوہری مراکز سے کوئی مواد نہیں نکالا گیا تھا۔ تاہم ریپبلکن ارکان کانگریس نے تسلیم کیا کہ امریکی حملوں میں ایران کا مکمل افزودہ یورینیم ذخیرہ تباہ نہیں کیا گیا، مگر ان کے مطابق یہ مقصد آپریشن کا حصہ ہی نہیں تھا۔

ریپبلکن رکن کانگریس مائیکل مک کول نے کہا کہ ’افزودہ یورینیم کی تنصیبات میں موجودگی کا ہمیں علم ہے، لیکن اس کا خاتمہ اس کارروائی کا مقصد نہیں تھا۔ اصفہان میں جو کچھ بچا ہے، اس کا مکمل حساب کتاب آئی اے ای اے کو دینا ہو گا۔‘

ریپبلکن سینیٹر لنڈسے گراہم نے کہا، ’ہمیں نہیں معلوم کہ 900 پاؤنڈ افزودہ یورینیم کہاں ہے، لیکن وہ حملے کا ہدف نہیں تھا۔ البتہ جن مراکز پر حملے ہوئے، وہ تباہ کر دیے گئے ہیں اور ان کا جلدی استعمال ممکن نہیں۔‘

جوہری ہتھیاروں کے ماہر اور مڈلبری انسٹیٹیوٹ کے پروفیسر جیفری لیوس نے سی این این کو بتایا کہ سیٹلائٹ تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران اسفہان کے سرنگی نظام تک دوبارہ رسائی حاصل کر چکا ہے۔ 26 جون کو وہاں متعدد گاڑیاں دیکھی گئیں اور 27 جون کی صبح تک ایک داخلی راستہ رکاوٹوں سے صاف ہو چکا تھا، جس کا مطلب ہے کہ اگر یورینیم اندر موجود تھا تو اب کہیں اور منتقل کیا جا چکا ہو گا۔

سی این این کی رپورٹ کے مطابق، حملوں سے جوہری مراکز کی سطحی تنصیبات کو خاصا نقصان پہنچا ہے، جو شاید ایران کے لیے زیرزمین یورینیم تک رسائی مشکل بنا دے گا۔ سینیٹر کرس مرفی نے کہا، ’ایران اب بھی جانتا ہے کہ جوہری پروگرام کو کیسے دوبارہ جوڑا جا سکتا ہے۔ اگر ان کے پاس مواد، سنٹری فیوجز اور دوبارہ فعال کرنے کی صلاحیت موجود ہے تو ہم نے صرف مہینوں کا نقصان پہنچایا ہے، سالوں کا نہیں۔‘

جنرل کین اور وزیر دفاع ہیگسیث نے اپنی بریفنگ میں کہا کہ فورڈو پر حملہ مکمل منصوبے کے مطابق ہوا، مگر اسفہان اور نطنز پر اثرات کی تفصیل نہیں دی گئی۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرمعروف بھارتی اداکارہ شیفالی کی موت کی وجہ سامنے آگئی دبئی کے ولی عہد کھانا کھانے ریسٹورنٹ پہنچے اور جاتے ہوئے تمام افراد کا بل ادا کر کے سب کو حیران کر دیا ‘فلسطین کو آزاد کرو’ برطانیہ میں کنسرٹ کے دوران گلوکاروں نے فلسطین کی حمایت اور اسرائیل مخالف نعرے لگادیے محبت کی شادی پھر طلاق، تیونس سے آئی لڑکی کو سفارخانے نے اسلام آباد پہنچا دیا چین، ایک ماہ میں 93 ہزار میگاواٹ کے سولر پینلز لگانے کا نیا ریکارڈ قائم ہائبرڈ نظام نے ملک کی پاسپورٹ اور کریڈٹ رینکنگ بہتر کی: خواجہ آصف نیتن یاہو کو جانے دیں، انہیں بڑے کام کرنے ہیں کرپشن اسکینڈل پر ٹرمپ ایک بار پھر اسرائیلی وزیراعظم کے حق میں بول پڑے TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: استعمال نہیں کیے

پڑھیں:

پہلی بار اسرائیل کو نشانہ بنانے والا ایرانی میزائل

اسلام ٹائمز: قومی سلامتی کونسل کے سیکرٹری علی لاریجانی کے مطابق آج یہ بات واضح ہے کہ ایران کے میزائل پروگرام پر اعتراض کوئی حقیقی سیکیورٹی تشویش نہیں بلکہ ایران کی دفاعی طاقت کو محدود کرنے کا سیاسی حربہ ہے۔ مغرب کو اس سے کیا تعلق کہ ایران کے میزائلوں کی رینج کتنی ہے؟ ایران کے میزائل پروگرام، خصوصاً "شہاب" سیریز نے نہ صرف ایران کی دفاعی خودکفالت کو ثابت کیا ہے بلکہ خطے میں اس کی تزویراتی (strategic) حیثیت کو بھی نئی بلندیوں تک پہنچا دیا ہے۔ خصوصی رپورٹ:

ایران کے میزائل ماہرین نے ملکی وسائل اور تکنیکی ڈھانچے کو بروئے کار لا کر میزائل سازی کے اُس مرحلے میں قدم رکھا جس کے نتیجے میں ایران کا پہلا مقامی میزائل خاندان "شہاب" وجود میں آیا۔ ترجمان سپاہ پاسدارانِ انقلاب اسلامی کی فضائی و خلائی فورس کے مطابق جب ہم شہید حاجی‌زاده اور شہید طہرانی مقدم کی یادداشتیں پڑھتے ہیں تو یاد آتا ہے کہ اُس وقت ہمارے پاس ایک بھی میزائل نہیں تھا، مگر آج ہمارے ہتھیاروں اور دفاعی نظاموں کی اقسام تیس سے زیادہ ہو چکی ہیں، اور ملک کے ہاتھ مضبوط ہیں۔ 

یہ بیان اُس وقت سامنے آیا جب ایرانی مسلح افواج نے بارہ روزہ دفاعی جنگ کے دوران ایک خلاقانہ آپریشن "وعدہ صادق 3" کے ذریعے متعدد میزائل حملوں کی مسلسل لہریں جاری رکھتے ہوئے اسرائیل کی سرزمین کے اندر گہرے اسٹریٹجک اہداف کو نشانہ بنایا۔ ایران نے میزائل ڈیزائن، رہنمائی (گائیڈنس) اور چال بازی (مینُووربیلٹی) کے میدان میں نمایاں پیش رفت حاصل کر کے اپنے دفاعی نظام کو خطے اور اس سے باہر کے خطرات کے مقابلے میں بہت زیادہ مؤثر بنا لیا ہے۔ یہی پیش رفت ایران کے دفاعی و سیکیورٹی مقام کو خطے میں مزید مستحکم کر رہی ہے۔

شہاب، ایران کی میزائل طاقت کی ابتدا:
ایرانی ماہرین، بالخصوص شہید حسن طہرانی مقدم نے وہ بنیادی ڈھانچہ تیار کیا جس کے تحت ایران نے اپنا پہلا میزائل سلسلہ "شہاب" ڈیزائن اور تیار کیا۔ اس رپورٹ میں ان میزائلوں کے بارے میں اہم نکات اور ان کی خصوصیات پیش کی جا رہی ہیں۔

شہاب-1: ایران کی میزائل طاقت کی پہلی کڑی:
مختصر فاصلے تک مار کرنے والا بیلسٹک میزائل "شہاب-1" سن 1990میں روسی اسکڈ-بی (Scud-B) کے نمونے پر تیار کیا گیا۔ اس کا فاصلہ 300 کلومیٹر، لمبائی 11 میٹر سے زائد، قطر ایک میٹر سے کم، وزن تقریباً 6 ہزار کلوگرام، اور وارہیڈ کا وزن 985 کلوگرام ہے۔ یہ میزائل مائع ایندھن سے چلنے والا، ایک مرحلے پر مشتمل اور عمودی انداز میں سڑک سے قابلِ نقل و حرکت لانچنگ پلیٹ فارم سے فائر کیا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس میزائل کی تیاری نے ابتدا ہی سے دشمنوں کے دلوں میں خوف پیدا کیا، کیونکہ اس کے ذریعے ایران اپنی سرحدوں کے قریب دشمن کے اڈوں کو براہِ راست نشانہ بنا سکتا ہے۔

شہاب-2: خطے میں دشمن کے مراکز نشانے پر:
شہاب-2 کو 1990–1994 کے درمیان تیار کیا گیا اور یہ ایران کے درمیانے فاصلے کے میزائلوں میں شمار ہوتا ہے۔ یہ روسی اسکڈ-سی (Scud-C) کے ڈیزائن پر مبنی ہے۔ اس کا فاصلہ 500 کلومیٹر، لمبائی 12 میٹر سے زیادہ، اور وزن 6 ہزار کلوگرام سے اوپر ہے۔ یہ بھی مائع ایندھن پر چلنے والا ایک مرحلے کا عمودی طور پر لانچ ہونیوالا میزائل ہے۔ اس کا وارہیڈ 750 کلوگرام وزنی ہے، جو اہم اور حساس اہداف کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

شہاب-3: دشمن کے اسٹریٹجک اہداف کی تباہی کا ہتھیار
درمیانی فاصلے تک مار کرنے والا میزائل "شہاب-3" 1998 میں پیش کیا گیا۔ اس کی ابتدائی رینج 1150 تا 1350 کلومیٹر، لمبائی 15 میٹر، مجموعی وزن 15 ٹن، اور وارہیڈ 670 کلوگرام ہے۔ جدید تر ماڈل اب 2000 کلومیٹر تک مار کر سکتے ہیں اور مختلف اقسام کے وارہیڈز لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ تازہ ترین نمونوں میں "قابل انتشار ہتھیار" نصب ہیں، جو ایک وقت میں درجنوں چھوٹے بم گرا کر وسیع رقبے پر پھیلے دشمن کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ "شہاب-3" اب نشانے کی اتنی دقیق صلاحیت (Precision) رکھتا ہے کہ وہ اسرائیل کے اندر موجود اہم اور حساس مراکز کو مؤثر طور پر تباہ کر سکتا ہے۔

شہاب کے بعد: ایران کا میزائل نیٹ ورک:
ایران کی طاقت میزائلوں کے صرف "شہاب" خاندان تک محدود نہیں۔ ایران کے پاس اب خرمشہر، ذوالفقار، قدر، عماد، قیام، خیبرشکن، حاج قاسم، سجیل، کروز پاوہ، قدیر، فاتح 110، فاتح 313 جیسے متعدد جدید میزائل موجود ہیں، جو مختلف فاصلے، رفتار اور اہداف کو نشانہ بنانے کے لحاظ سے ایران کی دفاعی صلاحیت میں غیر معمولی تنوع پیدا کرتے ہیں۔

مغرب کو ایران کے میزائلوں سے کیا سروکار؟:
ایران کی قومی سلامتی کونسل کے سیکرٹری علی لاریجانی کے مطابق آج یہ بات واضح ہے کہ ایران کے میزائل پروگرام پر اعتراض کوئی حقیقی سیکیورٹی تشویش نہیں بلکہ ایران کی دفاعی طاقت کو محدود کرنے کا سیاسی حربہ ہے۔ مغرب کو اس سے کیا تعلق کہ ایران کے میزائلوں کی رینج کتنی ہے؟ ایران کے میزائل پروگرام، خصوصاً "شہاب" سیریز نے نہ صرف ایران کی دفاعی خودکفالت کو ثابت کیا ہے بلکہ خطے میں اس کی تزویراتی (strategic) حیثیت کو بھی نئی بلندیوں تک پہنچا دیا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ایران اپنے جوہری پروگرام کو شفاف بنائے، جرمنی کا دعوی
  • امریکی اور اسرائیلی انٹیلیجنس نیٹ ورکز کا اپنے ملک سے صفایا کردیا ہے، ایرانی انقلابی گارڈز
  • مغرب کے پاس کوئی چارہ نہیں کہ وہ اب ایران کی سائنسی ترقی کو تسلیم کرلیں: ایرانی وزیر خارجہ
  • ایران کے جوہری پروگرام پر خطرناک تعطل، اسرائیل کو خدشات
  • ایران اور امریکا کے درمیان مصالحت کیوں ممکن نہیں؟
  • ہم نے ایران کے میزائل اور جوہری خطرے کا خاتمہ کر دیا ہے، نیتن یاہو کا دعوی
  • پہلی بار اسرائیل کو نشانہ بنانے والا ایرانی میزائل
  • ہم نے جوہری توانائی کیلئے جدوجہد کی، ہم اس سے دستبردار نہیں ہونگے، سید عباس عراقچی
  • ’8 کمرے، دیسی مرغی اور شہد‘، عمران خان کو جیل میں ملنے والی سہولیات سے متعلق نئے انکشافات
  • ’ نیوکلیئر توازن عالمی سلامتی کا ایک اہم جزو ‘، روس نے اپنے ایٹمی تجربات کو امریکی اقدام سے مشروط کر دیا