Express News:
2025-07-01@04:22:29 GMT

’’آپ کو کیا تکلیف ہے۔۔۔؟‘‘

اشاعت کی تاریخ: 1st, July 2025 GMT

رات کے ساڑھے دس بجے کا وقت تھا۔ فرح باورچی خانے میں بیٹھی چائے کی پیالی تھامے کسی گہری سوچ میں گم تھی۔

اس کی دو سالہ بیٹی سو چکی تھی، گھر کے ماحول میں گہری خاموشی تھی، لیکن اُس کے ذہن میں کچھ سوالات مسلسل شور مچا رہے تھے:

’’کیا یہ سب میرے فیصلے تھے۔۔۔؟‘‘

’’یا میں نے صرف وہ کیا جو لوگ چاہتے تھے؟‘‘

اُسے یاد آیا وہ وقت، جب اُس کی تعلیم مکمل ہوئی تھی اور وہ کیریئر بنانے کے خواب بُن رہی تھی، لیکن رشتہ آیا، اور ساتھ ہی خاندان، محلے داروں اور عزیزوں کا دباؤ ’’اب تو عمر ہو گئی ہے، کہیں اچھا رشتہ ہاتھ سے نہ نکل جائے۔۔۔!‘‘

سو اس دباؤ میں آ کر اُس نے شادی کر لی۔ شادی کے بعد ابھی نئی زندگی کی شروعات  ہوئی ہی تھی کہ لوگوں نے اولاد کے حوالے سے سوالات اور اندازے قائم کرنے شروع کردیے اور جب اس کو اللہ نے بیٹی جیسی خوب صورت رحمت سے نوازا تو اس کو خوشی منانے کا موقع ہی نہ ملا، بلکہ اکثر چہروں پر مایوسی اور زبانوں پر ’دلاسے‘ تھے ’’چلو ان شا  اللہ اگلی بار بیٹا ہو گا۔‘‘  وہ اپنی بیٹی کو دیکھ کر بار بار یہ سوچتی کہ آخر  یہ فیصلہ میرے اختیار میں کب آیا۔۔۔؟ اور کچھ ہی عرصے بعد پھر وہی سوالات شروع ہو گئے ’’اس کا کوئی بہن بھائی ہونا چاہیے۔

بہن بھائی ہوں گے، تو بچے کی شخصیت متوازن ہو گی۔ اکیلی ہے، اسی لیے شرارتی ہے۔‘‘ اگر بچہ خاموش طبیعت ہے، توکہا جاتا ہے کہ کوئی بات کرنے والا نہیں۔ اس لیے سنجیدہ اور تنہائی پسند ہو رہا ہے۔‘‘ اگر بچہ اپنے کھلونے اپنی چیزیں دوسرے بچوں کو نہیں دیتے، جیسے کہ عموماً بچوں کی فطرت ایسی ہوتی ہی ہے، تو کہا جاتا ہے بچے میں مل بانٹنے کی عادت نہیں ہے، کیوں کہ اکیلا رہتا رہتا ہے، کوئی بہن بھائی نہیں، جب کہ در حقیقت بچے میں اپنی چیزیں/ کھلونوں کے حوالے سے ملکیت پسند یا حساس ہوتے ہیں، اس لیے وہ انھیں کسی کو دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔پھر یہ عادت عمر اور وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوجاتی ہے، بڑے ہوتے کے ساتھ ہی بچے مل بانٹنا سیکھ بھی جاتے ہیں۔

’سماجی دباؤ‘ دراصل ایک خاموش اذیت ہے، جو نہ صرف ہمارے ذہنی سکون کو شدید متاثر کرتی ہے، بلکہ ہمارے فیصلوں، رشتوں اور خود اعتمادی کو بھی دیمک کی طرح چاٹتی ہے۔ ہمیں ہر وقت کسی نہ کسی معیار پر پرکھا جاتا ہے۔ اگر آپ نے جلدی شادی کر لی، تو کہا جاتا ہے ’اتنی کیا جلدی تھی۔۔۔؟‘ اگر تاخیر ہو گئی، تو کہا جاتا ہے ’اب تو عمر نکل گئی!‘ اگر اولاد نہیں ہے، تو الگ طرح کے مشورے اور باتیں۔ اگر بیٹی ہو جائے، تو چہروں پر عجیب افسوس نظر آتا ہے، جیسے کوئی کمی رہ گئی ہو۔ گویا ہم جیسے بھی فیصلے کریں، ہمیں ہمیشہ سماج کی کسوٹی پر تولنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

یہ بات سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ نجی زندگی ہر ایک فرد اور ہر ایک جوڑے کا حق ہے۔ اس لیے شادی کرنے نہ کرنے سے لے کر اس کے بعد تک زندگی کا ہر مرحلہ اور فیصلہ سراسر ان کی نجی زندگی کا معاملہ ہے۔ ان میں مداخلت بدتہذیبی اور جہالت والی باتیں ہیں۔ ان کی ذاتی زندگی اور نجی امور میں مداخلت اُن کے ذہنی سکون اور رشتے کی بنیادوں کو ہلا دینے والی بات ہے۔ ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ جو سوالات ہم کسی سے اپنی عادت اور ہنسی مذاق میں کر لیتے ہیں، وہ شاید اُن کے دل پر بوجھ بن جاتے ہیں۔

ہم کسی کی زندگی کے مسائل اور ترجیحات  کے بارے میں بہت تھوڑی سی معلومات رکھتے ہیں، اس لیے ہمیں اپنی محدود معلومات کی بنیاد پر کوئی اندازہ قائم کرنا چاہیے اور نہ ہی کوئی سوالات کھڑے کرنے چاہئیں۔ پھر اولاد ہونا نہ ہونا، بیٹا یا بیٹی ہونا یہ حکم ربی سے جڑی ہوئی چیزیں بھی ہیں۔ اگر کسی کے ہاں بیٹی ہو، تو وہ اللہ کی رحمت ہے، نہ کہ کوئی معاشرتی کمی! ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ نہ تو ہر سوال پوچھنا ہمارا حق ہے، اور نہ ہی ہر خاموشی ہماری اجازت کی منتظر ہے۔

یہ بات بہت اہم ہے کہ شادی ایک انتہائی نجی معاملہ ہے، اور زوجین کے معاملات انھی تک محدود رہنے چاہئیں۔ انھیں اپنے خاندان اور اپنی زندگی کے ہر فیصلے خود کرنے کا حق ہے۔ یہ سب فیصلے اُن کی باہمی سمجھ بوجھ اور ان کے حالات زندگی پر مبنی ہوتے ہیں، مگر بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں ہر دوسرا شخص ہمارے اِن فیصلوں پر اپنی رائے دینے، سوال کرنے اور باقاعدہ دباؤ ڈالنے کو اپنا بنیادی حق سمجھ لیتا ہے۔ حقیقت میں، یہ صرف مداخلت نہیں، بلکہ زوجین کی ذاتی زندگی کی کھلی اور شرم ناک خلاف ورزی کے مترادف ہے۔

ہر انسان کا اس کی زندگی پر مکمل اختیار ہے۔ ہر فرد کو یہ حق ہے کہ وہ اپنی ذہنی، جسمانی، اور جذباتی اور صورت حال کے مطابق فیصلے کرے۔ کسی کو بھی یہ اختیار نہیں ہونا چاہیے کہ وہ آپ کے ذاتی فیصلوں پر کوئی سوال بھی اٹھائے۔ ہمیں اپنی بیٹیوں کو یہ سکھانا ہو گا کہ وہ صرف لوگوں کو خوش کرنے کے لیے فیصلے نہ کریں، بلکہ اپنے دل، دماغ اور حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے زندگی گزاریں۔

اگر کوئی آپ سے ایسے نجی سوالات پوچھے، تو آپ یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہ کریں، کہ ’آخر آپ کو کیا تکلیف ہے؟ یہ میرا ذاتی معاملہ ہے۔‘ اگر کوئی بیٹے یا بیٹی کے درمیان فرق کرے تو اس موقعے پر بھی خاموش نہ رہیں، بلکہ اس کی صنفی تفریق کی سوچ پر سوال اٹھائیں  اور اگر کبھی آپ کسی ایسے شخص کے ساتھ ہوں، جو سماجی دباؤ میں زندگی گزار رہا ہو، تو اُس کا ساتھ دیں، اْس کے فیصلوں کی قدر کریں، نہ کہ اُس پر مزید دباؤ ڈالیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: جاتا ہے اس لیے

پڑھیں:

صحت اَن مول ہے۔۔۔!

اللہ تعالیٰ کی بیش بہا نعمتوں میں سے صحت ایک بہت بڑی اور اَن مول نعمت ہے۔ اس نعمت کی قدر اسی وقت ہوتی ہے جب انسان بیمار ہوتا ہے اور پھروہ اٹھتے بیٹھتے اللہ تعالیٰ صرف صحت کی دعا مانگتا ہے۔

ہوا یوں کہ گزشتہ دنوں ہمیں صحت کے کچھ مسائل نے آگھیرا، 2022ء کے وسط میں پہلے تو ہمیں شدید ترین ’ہیٹ اسٹروک‘ ہوا جس کی وجہ سے بہت کمزوری ہوگئی تھی پھر اگلے برس کمر کے مہروں کی تکلیف ہو گئی جس نے کافی پریشان کیا۔ اپنی تکلیف دیکھ کر دل سے یہی دعا نکلتی رہی ’’یا اللّٰہ! ایسی تکلیف کسی کو نہ دے!‘‘ اس وقت اپنی بے بسی کا شدت سے احساس ہوا اور یہ بھی حقیقت آشکار ہوئی کہ صحت کے بغیر زندگی، زندگی ہی نہیں ہے۔

اس وقت سب سے زیادہ احساس نماز کی ادائی میں مشکل کا تھا۔ کافی دنوں تک زمین پر سجدہ کرنے سے محروم رہی، تو زمین پرسجدہ کرنے کی لذت کا احساس ہوا، لہٰذا اپنے رب کے آگے گڑگڑا کر صحت اور زمین پر سجدہ ریز ہونے کی دعا مانگی۔ آخر میرے رب نے مجھ گناہ کار پر اپنا کرم کر دیا اور میری تکلیف میں کمی آتی گئی۔ اور پھر وہ وقت بھی آگیا، جب میں زمین پر سجدہ کرنے کے قابل ہوگئی، تو سب سے پہلے اپنے رب کا شکرادا کیا۔اس سارے عرصے کے دوران صرف اور صرف صحت کی قدر کا اندازہ ہوتا رہا۔ اور یہ سب بتانے کا مقصد صحت کی قدر اور اہمیت کا احساس دلانا مقصود ہے۔

ہم سب کی ہر دل عزیز شخصیت حکیم محمد سعید شہید کامشہور قول ہے ’’اپنی صحت کی حفاظت کرنا بھی عبادت ہے۔‘‘ اگر اسی قول کو بنیاد بنالیا جائے، تو تمام پاکستانی صحت مند زندگی گزار سکتے ہیں۔ دیکھا جائے تو ہمیں صرف اور صرف اپنی غذا کومتوازن رکھنے اور مثبت طرزِ زندگی اپنانے کی ضرورت ہے۔ اپنی روز مرہ کی غذا میں صحت بخش کھانوں کو شامل رکھنا اور مضر صحت غذاؤں سے بچنے کا طریقہ اپنانا ہوگا۔ غذاکا اصل مقصد متوازن غذا کھانا ہے کہ متوازن غذا ہی تن درستی کی ضامن ہے۔ یوں ہم زیادہ عرصے تک صحت مند، مطمئن اور خوش رہ سکتے ہیں۔

اگر ہم واقعی صحت مند زندگی گزارنا چاہتے ہیں، تو اس کے لیے ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ اقوام متحدہ کے مطابق پروسیسڈ غذا بیماریوں کی وجہ بن رہی ہے۔ جو ترقی یافتہ ممالک کے لوگوں کو بہت مرغوب ہے۔ تاہم اب ان کے اثرات کم ترقی یافتہ اور غریب ممالک میں بھی عام ہو گئے ہیں اور مزید ہورہے ہیں۔ ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ ناقص یا مضر صحت غذا کے استعمال سے صحت کے بہت سے پیچیدہ اور طویل المدتی مسائل جنم لے سکتے ہیں۔

مُضر صحت غذا کے باعث قوتِ مدافعت کمزور پڑ جاتی ہے اور بعض اوقات تو ختم بھی ہو جاتی ہے۔ ہمارے ’آئی کیو‘ لیول میں نمایاں کمی ہوتی ہے اور دیگر بہت سے مسائل بھی لاحق ہو سکتے ہیں۔ افسوس پاکستانیوں کی اکثریت اپنی لاعلمی کے باعث یہی مُضرصحت غذا استعمال کرتی ہے۔ حالاں کہ انسانی صحت سب سے اہم ہے ، اس لیے غذا کاانتخاب کرتے وقت صحت بخش غذا کو ترجیح دینی چاہیے۔

اس ضمن میں خواتین کا کردار بڑی اہمیت کا حامل ہے، کیوں کہ گھر میں اشیائے خورونوش لانا اور کھانا پکانا خواتین کی ذمہ داری سمجھی جاتی ہے، اس لیے خواتین اپنی اس اہم ذمہ داری کو نبھاتے ہوئے نہ صرف اپنی بلکہ گھر کے تمام افراد کی صحت و تن درستی کے لیے صرف متوازن غذا کو ہی ترجیح دیں۔ یہ بات بھی جاننے کی ضرورت ہے کہ غذا کا انتخاب کرتے ہوئے صحت  بخش غذا کا ہی انتخاب کریں کیوں کہ متوازن غذا اور صحت بخش غذا کا استعمال ہماری صحت کی اولین ضرورت ہے اور اس کی اہمیت سے تو انکار ممکن ہی نہیں ہے۔

متوازن غذا کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اس کی بدولت ہمیں تمام اہم ترین غذائی اجزا حاصل ہو جاتے ہیں جو ہماری صحت کے لیے بہت ضروری ہوتے ہیں۔ دراصل ہمارے جسم کو تمام غذائی اجزا، کے حصول کے لیے تمام اہم معدنیات، لحمیات، دالیں، سبزیاں اور پھلوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ سبزی خور افراد جو بعض وجوہ سے کسی قسم کا گوشت نہیں کھاتے ان کے لیے صرف دودھ، دہی اور پنیر ہی کیلشیم و لحمیات کا ذریعہ ہیں، جو ان کو مناسب مقدار میں ملنا چاہیے، یعنی وہ روز ایک پیالی دودھ پیئں اور دہی بھی کم از کم ایک دفعہ روزانہ کھائیں۔ سفید چاول کی بہ نسبت براؤن چاول ہمارے ہاں پسند نہیں کیے جاتے، حالاں کہ غذائی طور پر وہ بہترہوتے ہیں۔

جب چاولوں کو ابال کر ان کا پانی پھینک دیا جاتا ہے، تو تقریباً پچاس فی صد غذائیت ضائع ہو جاتی ہے۔ اسی طرح بغیر چھنے ہوئے آٹے کی روٹی کے بہ جائے چھنے ہوئے آٹے کی روٹی کو ہمارے ہاں پسند کیاجاتا ہے۔ حالاں کہ آٹے کی بھوسی میں وافر مقدار میں ریشہ موجود ہوتا ہے، جو ہماری جسمانی صفائی کے لیے بڑی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اگر دالیں اور پھلیاں مناسب مقدار میں کھائی جائیں تو لحمیات کی کمی کچھ نہ کچھ تو پوری ہو سکتی ہے۔ سردیوں میں خشک میوہ جات سے بھی کچھ مقدار میں لحمیات مل سکتے ہیں، جب کہ پتوں والی ترکاریاں حیاتین اور معدنیات کے حصول کا اہم ذریعہ ہیں۔ جو افراد چاول خور ہیں، انھیں اپنی غذائی حیثیت درست کرنے کے لیے روزانہ کم از کم ایک وقت گندم کی روٹی کھانی چاہیے۔

تاکہ حیاتین ’ب‘ کا مجموعی طور پر ذخیرہ بہتر ہو جائے۔ جو لوگ سبزی خور ہیں ان کو اپنی خوراک میں دودھ، دہی، پنیر، اور انڈے شامل رکھنا چاہیے، تاکہ، لحمیات، کیلشیم اور حیاتین ’الف‘ کی کمی پوری کی جا سکے۔ غذا میں حیاتین ’ب‘ کی کمی صرف کلیجی اور انڈے کی زردی کھانے سے پوری ہوسکتی ہے۔ جو افراد دودھ، دہی اور گوشت بالکل نہیں کھاتے، انھیں لحمیات کی کمی پوری کرنے کے لیے دو انڈے روزانہ کھانے چاہئیں۔ جو لوگ گوشت اور انڈے نہیں کھاتے، انھیں دودھ استعمال کرنا چاہیے۔ سرخ گوشت کھانے والوں کو زیادہ مقدار میں دودھ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ غذا میں کیلشیم، فولک ایسڈ اور فولاد کے حصول کے لیے گہرے سبز رنگ کی سبزیاں، مثلاً پالک، میتھی، کرم کلا، پھول گوبھی اور سلاد کے پتے کھانے چاہئیں۔ حیاتین ’ج‘ سلاد، کچی سبزیاں اور سبز مرچوں سے حاصل کی جا سکتی ہے۔

ہمارے ہاں مروجہ کھانے پکانے کے طریقوں میں رائج ہے کہ انھیں زیادہ دیر تک پکایا جاتا ہے اور پکنے کے درمیان غذاؤں سے پانی نکلتا ہے اس کو پھینک دیا جاتا ہے۔ جب کھانا بہت دیر تک اور آہستہ آہستہ پکایا جائے تو حیاتین اور فولک ایسڈ ضائع ہو جاتے ہیں۔ فولک ایسڈ کی کمی سے خون کی کمی اور منہ میں چھالے ہوتے ہیں، جو خواتین میں عام ہیں۔ اندازاً 80 فی صد ضروری حیاتین ہمارے اس طرح کھانے پکانے سے ضائع ہو جاتے ہیں۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ ہم میں سے اکثریت کے علم میں یہ بات نہیں ہے کہ حرارے اور حیاتین کیا ہیں۔ روایتی طور پر ہمارے گھروں کے دسترخوان پر زیادہ تر افراد صرف اسی چیز کے لیے ہاتھ بڑھاتے ہیں، جو ان کو پسند ہوتی ہے۔ یعنی وہ غذا نہیں کھاتے، جو ان کی صحت کے لیے بہتر ہوتی ہے۔ اس کا سیدھا سادھا مطلب یہ ہے کہ وہ اچھی صحت کے لیے نہیں بلکہ صرف زبان کے چٹخارے کے لیے کھاتے ہیں۔ دراصل ہمیں اس بات کا علم ہی نہیں کہ صحت بخش غذا کیا ہے۔۔۔؟ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہمیں غذا، بالخصوص صحت بخش غذا کے حصول کے ذرائع کے بارے میں علم ہو، تاکہ ہر فرد اپنی استطاعت یا وسائل میں رہتے ہوئے بھی صحت بخش اور توانائی سے بھر پور غذا کا انتخاب کر سکے۔

امیر ہو یا غریب ہو ، زندہ رہنے کے لیے ہر آدمی اپنی حیثیت کے مطابق خوراک کا اہتمام تو کرتا ہی ہے تو پھر کیوں نہ صحت بخش غذا اپنے دستر خوان کی زینت بنائیں۔ عموماً سادہ غذا، مرغن غذاؤں سے زیادہ  توانائی سے بھر پور ہوتی ہیں، کیوں کہ سادہ غذا میں ہی قدرتی غذائیت اور قدرتی اجزاشامل ہوتے ہیں۔ اس لیے سادہ غذائیں صحت بخش سمجھی جاتی ہیں۔ سادہ غذائیں ہی

تن درستی کی ضامن ہیں۔ اس کے علاوہ اپنے طرزِ زندگی کو درست انداز میں گزارنا، جیسے صبح جلدی

اٹھنا، رات کو جلدی سونا، صبح یا شام کو چہل قدمی کرنا، روز غسل کرنا، ہر قسم کے نشے سے دور رہنا، سیروتفریح کرنا اور مناسب آرام کرنا، ان طریقوں سے نہ صرف صحت میں اضافہ ہوتا ہے، بلکہ مسرت بھی حاصل ہوتی ہے۔ صحیح اسلوب زندگی اختیار کرنا اورایسی عادتیں ترک کرنا، جن سے فربہی، عارضہ قلب، بلند فشار خون اور دیگر موذی بیماریاں ہوتی ہیں۔

صحت مند طرزِ زندگی اختیار کرنا ہمارے اپنے اختیار میں ہے۔یادرکھیں ہمارے جسم سے زہریلا مواد اسی وقت خارج ہوگا جب کہ ہماری غذا میں 70 فی صد پانی ہو، اچھی جسمانی کارکردگی کے لیے روزانہ کم از کم 8 گلاس پانی پینا چاہیے۔

متعلقہ مضامین

  • گیس قیمتوں میں فکسڈ چارجز قابل مذمت ہے ،پروفیسرمحبوب
  • وہ مشاغل جو کہیں پیچھے رہ گئے ۔۔۔
  • صحت اَن مول ہے۔۔۔!
  • عالمی شہرت یافتہ اسٹار فٹبالر رونالڈوکا اپنی زندگی سعودی عرب میں گزارنے کا فیصلہ
  •  نریندر مودی کی سیاسی زندگی کے دن پورے ہو چکے ہیں، بھارت ایس سی او میں اپنا جھوٹا موقف نہیں منوا سکا:دفاع خواجہ آصف 
  • شدید تنقید کے بعد بھی ماہرہ خان اپنی اصل عمر راز کیوں نہیں رکھتیں؟ انٹرویو وائرل
  • ٹرمپ کوئی معاہدہ چاہتے ہیں تو خامنہ ای کے لیے توہین آمیز لہجہ ترک کردیں‘ ایرانی وزیر خارجہ
  • بھارتی قیادت اپنی ساکھ بحال کرنے کیلئے کچھ نہ کچھ کرے گی، خواجہ آصف
  • ایام عزاء میں کوئی ناانصافی منظور نہیں، حکومت شرپسند عناصر کو اپنی گرفت میں رکھے، علامہ علی انور جعفری