Express News:
2025-08-15@12:31:15 GMT

’’آپ کو کیا تکلیف ہے۔۔۔؟‘‘

اشاعت کی تاریخ: 1st, July 2025 GMT

رات کے ساڑھے دس بجے کا وقت تھا۔ فرح باورچی خانے میں بیٹھی چائے کی پیالی تھامے کسی گہری سوچ میں گم تھی۔

اس کی دو سالہ بیٹی سو چکی تھی، گھر کے ماحول میں گہری خاموشی تھی، لیکن اُس کے ذہن میں کچھ سوالات مسلسل شور مچا رہے تھے:

’’کیا یہ سب میرے فیصلے تھے۔۔۔؟‘‘

’’یا میں نے صرف وہ کیا جو لوگ چاہتے تھے؟‘‘

اُسے یاد آیا وہ وقت، جب اُس کی تعلیم مکمل ہوئی تھی اور وہ کیریئر بنانے کے خواب بُن رہی تھی، لیکن رشتہ آیا، اور ساتھ ہی خاندان، محلے داروں اور عزیزوں کا دباؤ ’’اب تو عمر ہو گئی ہے، کہیں اچھا رشتہ ہاتھ سے نہ نکل جائے۔۔۔!‘‘

سو اس دباؤ میں آ کر اُس نے شادی کر لی۔ شادی کے بعد ابھی نئی زندگی کی شروعات  ہوئی ہی تھی کہ لوگوں نے اولاد کے حوالے سے سوالات اور اندازے قائم کرنے شروع کردیے اور جب اس کو اللہ نے بیٹی جیسی خوب صورت رحمت سے نوازا تو اس کو خوشی منانے کا موقع ہی نہ ملا، بلکہ اکثر چہروں پر مایوسی اور زبانوں پر ’دلاسے‘ تھے ’’چلو ان شا  اللہ اگلی بار بیٹا ہو گا۔‘‘  وہ اپنی بیٹی کو دیکھ کر بار بار یہ سوچتی کہ آخر  یہ فیصلہ میرے اختیار میں کب آیا۔۔۔؟ اور کچھ ہی عرصے بعد پھر وہی سوالات شروع ہو گئے ’’اس کا کوئی بہن بھائی ہونا چاہیے۔

بہن بھائی ہوں گے، تو بچے کی شخصیت متوازن ہو گی۔ اکیلی ہے، اسی لیے شرارتی ہے۔‘‘ اگر بچہ خاموش طبیعت ہے، توکہا جاتا ہے کہ کوئی بات کرنے والا نہیں۔ اس لیے سنجیدہ اور تنہائی پسند ہو رہا ہے۔‘‘ اگر بچہ اپنے کھلونے اپنی چیزیں دوسرے بچوں کو نہیں دیتے، جیسے کہ عموماً بچوں کی فطرت ایسی ہوتی ہی ہے، تو کہا جاتا ہے بچے میں مل بانٹنے کی عادت نہیں ہے، کیوں کہ اکیلا رہتا رہتا ہے، کوئی بہن بھائی نہیں، جب کہ در حقیقت بچے میں اپنی چیزیں/ کھلونوں کے حوالے سے ملکیت پسند یا حساس ہوتے ہیں، اس لیے وہ انھیں کسی کو دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔پھر یہ عادت عمر اور وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوجاتی ہے، بڑے ہوتے کے ساتھ ہی بچے مل بانٹنا سیکھ بھی جاتے ہیں۔

’سماجی دباؤ‘ دراصل ایک خاموش اذیت ہے، جو نہ صرف ہمارے ذہنی سکون کو شدید متاثر کرتی ہے، بلکہ ہمارے فیصلوں، رشتوں اور خود اعتمادی کو بھی دیمک کی طرح چاٹتی ہے۔ ہمیں ہر وقت کسی نہ کسی معیار پر پرکھا جاتا ہے۔ اگر آپ نے جلدی شادی کر لی، تو کہا جاتا ہے ’اتنی کیا جلدی تھی۔۔۔؟‘ اگر تاخیر ہو گئی، تو کہا جاتا ہے ’اب تو عمر نکل گئی!‘ اگر اولاد نہیں ہے، تو الگ طرح کے مشورے اور باتیں۔ اگر بیٹی ہو جائے، تو چہروں پر عجیب افسوس نظر آتا ہے، جیسے کوئی کمی رہ گئی ہو۔ گویا ہم جیسے بھی فیصلے کریں، ہمیں ہمیشہ سماج کی کسوٹی پر تولنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

یہ بات سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ نجی زندگی ہر ایک فرد اور ہر ایک جوڑے کا حق ہے۔ اس لیے شادی کرنے نہ کرنے سے لے کر اس کے بعد تک زندگی کا ہر مرحلہ اور فیصلہ سراسر ان کی نجی زندگی کا معاملہ ہے۔ ان میں مداخلت بدتہذیبی اور جہالت والی باتیں ہیں۔ ان کی ذاتی زندگی اور نجی امور میں مداخلت اُن کے ذہنی سکون اور رشتے کی بنیادوں کو ہلا دینے والی بات ہے۔ ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ جو سوالات ہم کسی سے اپنی عادت اور ہنسی مذاق میں کر لیتے ہیں، وہ شاید اُن کے دل پر بوجھ بن جاتے ہیں۔

ہم کسی کی زندگی کے مسائل اور ترجیحات  کے بارے میں بہت تھوڑی سی معلومات رکھتے ہیں، اس لیے ہمیں اپنی محدود معلومات کی بنیاد پر کوئی اندازہ قائم کرنا چاہیے اور نہ ہی کوئی سوالات کھڑے کرنے چاہئیں۔ پھر اولاد ہونا نہ ہونا، بیٹا یا بیٹی ہونا یہ حکم ربی سے جڑی ہوئی چیزیں بھی ہیں۔ اگر کسی کے ہاں بیٹی ہو، تو وہ اللہ کی رحمت ہے، نہ کہ کوئی معاشرتی کمی! ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ نہ تو ہر سوال پوچھنا ہمارا حق ہے، اور نہ ہی ہر خاموشی ہماری اجازت کی منتظر ہے۔

یہ بات بہت اہم ہے کہ شادی ایک انتہائی نجی معاملہ ہے، اور زوجین کے معاملات انھی تک محدود رہنے چاہئیں۔ انھیں اپنے خاندان اور اپنی زندگی کے ہر فیصلے خود کرنے کا حق ہے۔ یہ سب فیصلے اُن کی باہمی سمجھ بوجھ اور ان کے حالات زندگی پر مبنی ہوتے ہیں، مگر بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں ہر دوسرا شخص ہمارے اِن فیصلوں پر اپنی رائے دینے، سوال کرنے اور باقاعدہ دباؤ ڈالنے کو اپنا بنیادی حق سمجھ لیتا ہے۔ حقیقت میں، یہ صرف مداخلت نہیں، بلکہ زوجین کی ذاتی زندگی کی کھلی اور شرم ناک خلاف ورزی کے مترادف ہے۔

ہر انسان کا اس کی زندگی پر مکمل اختیار ہے۔ ہر فرد کو یہ حق ہے کہ وہ اپنی ذہنی، جسمانی، اور جذباتی اور صورت حال کے مطابق فیصلے کرے۔ کسی کو بھی یہ اختیار نہیں ہونا چاہیے کہ وہ آپ کے ذاتی فیصلوں پر کوئی سوال بھی اٹھائے۔ ہمیں اپنی بیٹیوں کو یہ سکھانا ہو گا کہ وہ صرف لوگوں کو خوش کرنے کے لیے فیصلے نہ کریں، بلکہ اپنے دل، دماغ اور حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے زندگی گزاریں۔

اگر کوئی آپ سے ایسے نجی سوالات پوچھے، تو آپ یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہ کریں، کہ ’آخر آپ کو کیا تکلیف ہے؟ یہ میرا ذاتی معاملہ ہے۔‘ اگر کوئی بیٹے یا بیٹی کے درمیان فرق کرے تو اس موقعے پر بھی خاموش نہ رہیں، بلکہ اس کی صنفی تفریق کی سوچ پر سوال اٹھائیں  اور اگر کبھی آپ کسی ایسے شخص کے ساتھ ہوں، جو سماجی دباؤ میں زندگی گزار رہا ہو، تو اُس کا ساتھ دیں، اْس کے فیصلوں کی قدر کریں، نہ کہ اُس پر مزید دباؤ ڈالیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: جاتا ہے اس لیے

پڑھیں:

کسی کو تکلیف پہنچائے بغیر یکجہتی کے ساتھ آزادی کا جشن منائیں، اعجاز اسلم کا نوجوانوں کو مشورہ

پاکستان کے معروف اداکار، ماڈل، فیشن ڈیزائنر اور پروڈیوسر اعجاز اسلم نے انہتائی جوش و خروش سے جشن آزادی منانے کے حوالے سے اپنی بچپن کی یادیں شیئر کرتے ہوئے نوجوانوں پر زور دیا کہ وہ اس عظیم دن کی خوشیاں کسی کو تکلیف پہنچائے بغیر منائیں تاکہ اتحاد کی فضا قائم رکھتے ہوئے ایک زندہ قوم کے طرز عمل کا مظاہرہ ہوسکے۔

یہ بھی پڑھیں: عدنان صدیقی اور اعجاز اسلم کے مداح انہیں پہچان نہ سکے،ویڈیو وائرل

اعجاز اسلم 3 دہائیوں سے شوبز انڈسٹری میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں۔ سنہ 1993 میں ڈرامہ کشکول سے روشو کے کردار میں جلوہ گر ہونے والے اعجاز اسلم نے نہ صرف اداکاری بلکہ فیشن اور کاروبار میں بھی نمایاں مقام حاصل کیا۔

معرکۂ حق: جشن سے زیادہ ایک عہد

اس سال کا جشن آزادی ’معرکۂ حق‘ کے نام سے منایا جا رہا ہے جو حالیہ پاک بھارت کشیدگی میں پاکستانی افواج کی کامیابی اور قومی اتحاد کی علامت ہے۔

جشنِ آزادی 2025: بچپن کی خوشبو

 14اگست کا دن ہمیشہ سے پاکستانیوں کے دلوں میں خاص مقام رکھتا ہے مگر اس سال کا جشن ایک نئے جذبے، ایک نئی پہچان کے ساتھ منایا جا رہا ہے۔ معرکۂ حق کے عنوان سے۔ جہاں ملک بھر میں قومی جوش و خروش اپنے عروج پر ہے وہیں اعجاز اسلم بھی بچپن کی وہ سنہری یادوں کو  شدت سے محسوس کرتے ہیں۔

 محلے کی رونقیں، دلوں کی یکجہتی

اعجاز اسلم  نے اپنے بچپن کی یادیں شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ ’ہم ٹیمز بنا کر محلے میں گھر گھر چندہ اکٹھا کرتے، ہر فرد کو ایک ذمہ داری دی جاتی، ایکسپینس شیٹ باقاعدہ بنتی تھی۔ سب کچھ شفاف ہوتا اور پورا علاقہ دلہن کی طرح سجتا۔ اسٹیج بنتا، گانے، کھیل، ہلا گلا الغرض سب کچھ ہوتا۔ وہ سب اب نظر نہیں آتا‘۔

مزید پڑھیے: معروف اداکار اعجاز اسلم کی والدہ انتقال کرگئیں

ان یادوں میں صرف جشن نہیں بلکہ ایک کمیونٹی کی یکجہتی، شفافیت اور خلوص جھلکتا ہے جو آج کے نوجوانوں کے لیے ایک سبق ہے۔

نوجوانوں کے نام خصوصی پیغام

اعجاز اسلم نے نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’سائلنسر نکال کر موٹر سائیکل  پرسی ویو (کلفٹن، کراچی ساحل) جانا اور واپس آ جانا جشن نہیں۔ اپنے گھر کو سجائیں، اپنی موٹر سائیکلوں پر جھنڈے لگائیں، خوشی منائیں مگر اتحاد کے ساتھ اور بغیر کسی کو نقصان پہنچائے‘۔

اعجاز اسلم کا ماننا ہے کہ اداکاری صرف مکالمے ادا کرنے کا نام نہیں بلکہ کردار میں جذب ہو کر ناظرین کے دلوں پر اثر چھوڑنا اصل کامیابی ہے۔

ماڈلنگ سے اداکاری تک کا سفر

اعجاز اسلم نے ماڈلنگ سے کیریئر کا آغاز کیا۔ گھر سے مشکل سے اداکاری کی اجازت ملی اور طلعت حسین جیسے سینیئر فنکاروں سے سیکھ کر اداکاری میں نکھار پیدا کیا۔ وہ ہر کردار کے لیے ہوم ورک، مشاہدہ اور مسلسل سیکھنے کو کامیابی کی بنیاد مانتے ہیں۔

مزاح، سنجیدہ اور منفی کردار

کامیڈی کو مشکل مگر دل سے ادا کرنے والے اعجاز اسلم ’کس دن میرا ویاہ ہووے گا‘ جیسے ڈراموں میں اپنی ٹائمنگ سے ناظرین کو خوب محظوظ کر چکے ہیں۔

دوسری جانب ’چیخ‘ جیسے ڈراموں میں ان کے منفی کردار نے بھی خوب پذیرائی حاصل کی۔

انہوں نے کہا کہ ’مجھے نیگیٹو رولز بہت پسند ہیں کیونکہ ان میں اداکاری کا مارجن زیادہ ہوتا ہے‘۔

کہانی کا انتخاب

اعجاز اسلم ہر پروجیکٹ میں سبجیکٹ کو بنیادی حیثیت دیتے ہیں۔ وہ اسکرپٹ کے ساتھ ساتھ ٹیم، پروڈکشن اور کہانی کی نوعیت کو بھی اہمیت دیتے ہیں تاکہ ناظرین کی دلچسپی برقرار رہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’جب سوشل میڈیا پر لوگ ریلز بناتے ہیں تب احساس ہوتا ہے کہ آپ کا کام لوگوں تک پہنچا، انہیں متاثر کیا اور یہی خوشی سب سے خاص ہوتی ہے‘۔

فن، فیشن اور فہم کا خوبصورت امتزاج

اعجاز اسلم نے اسکن کیئر، فیشن اور پرفیوم کے شعبوں میں بھی تجربہ کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ سادہ اور صحت مند لائف اسٹائل سمیت پاکستانی  پروڈکٹ کو فروغ دینا ان کی کاروباری سوچ کا ہمیشہ سے حصہ ہے۔ مستقبل میں اداکار عدنان صدیقی کے ساتھ مل کر ایونٹ مینجمنٹ کمپنی قائم کی جس کا کام آخری مراحل میں ہے۔ دیکھیے یہ ویڈیو رپورٹ۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اعجاز اسلم اعجاز اسلم کا پیغام اعجاز اسلم کی اداکاری اعجاز اسلم کے ڈرامے جشن آزادی معرکہ حق

متعلقہ مضامین

  • اپنے سپہ سالار بھائی فیلڈ مارشل کو خراج تحسین، عوام کی زندگی میں بہتری کیلئے کوئی کسر نہیں چھوڑونگی: مریم نواز
  • راضی بہ رضائے الٰہی رہیے۔۔۔ !
  • اترپردیش فتح پور مقبرے میں توڑ پھوڑ کے معاملے میں اب تک کوئی گرفتاری نہیں ہوئی
  • خواتین کا مالی طور پر مستحکم مردوں کی جانب رجحان فطری ہے: ہمایوں اشرف
  • خواتین کا دولت مند مردوں کی طرف رجحان، ہمایوں اشرف نے تلخ سچائی بیان کردی
  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • کسی کو تکلیف پہنچائے بغیر یکجہتی کے ساتھ آزادی کا جشن منائیں، اعجاز اسلم کا نوجوانوں کو مشورہ
  • پی ٹی آئی رہنما اعجاز چوہدری کی طبیعت اچانک بگڑ گئی، ہسپتال منتقل
  • عمران خان سے ملاقات اور مذاکرات کو ایک ساتھ جوڑنا درست نہیں،رانا ثنا ء اللہ
  • ایسی فائنڈنگ نہیں دینگے جس سے کوئی کیس متاثر ہو، چیف جسٹس: بانی کی  8 اپیلوں پر نوٹس