ڈونلڈ ٹرمپ وہ خوش نصیب شخص ہیں جنھیں امریکی قوم نے اُن کی قابلیت اور ذہانت کے برعکس مظلومیت کے ووٹ سے نوازا ہے۔ 2024کے انتخابات میں ہمارے یہاں کی طرح امریکا میں بھی مظلومیت کے فیکٹر نے بڑا کام کیا اور ڈونلڈ ٹرمپ جن پر وہاں کیپٹل ہلز پر حملہ کرنے کا الزام بھی تھا اور وہ اس سے متعلق ایک مقدمے میں نامزد بھی تھے کہ عوامی حمایت کا یہ کرشمہ رونما ہوگیا اور وہ اپنے آپے میں نہ رہے۔
وہ سمجھ بیٹھے کہ وہ صرف امریکا کے ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کے صدر منتخب ہوچکے ہیں۔ روس، جرمنی، فرانس اور جاپان سمیت سارے ممالک اب اُن کے حکم اور فرمان امروز کے تابع دار بن چکے ہیں، وہ جو فیصلہ کریں گے اور جو حکم بھی دیں گے، ساری دنیا ان کے حکم کے آگے سرنگوں ہوجائے گی اور بلا چوں وچرا اس پر عمل پیرا ہوجائے گی۔
اقتدار سنبھالتے ہی انھوں نے بہت جلد بازی میں بڑے بڑے عاجلانہ فیصلے کر ڈالے جن پر انھیں فوراً ہی یوٹرن بھی لینا پڑا لیکن وہ پھر بھی اپنی اس جذباتی عادت اور فطرت سے باز نہیں آئے۔ سب سے پہلا فیصلہ انھوں نے تارکین وطن کے حوالے سے کیا اور اپنے ملک سے اُن تمام غیر ملکی افراد کو ملک بدرکرنے کا حکم جاری کر ڈالا جو وہاں برسوں سے آباد تھے اور جنھیں وہاں کی پچھلی حکومتوں نے اپنے یہاں رہنے اورکام کرنے کی اجازت بھی دے رکھی تھی۔
اعلیٰ تعلیم کی غرض سے آنے والے غیر ملکی طلبا کو بھی اپنے اس فیصلے کے تحت نکال باہرکرنے کا عندیہ دے ڈالا۔ یہ ایک ایسا بے تکا فیصلہ تھا جس پر مکمل عمل درآمد ممکن ہی نہیں تھا، لیکن بہرحال اسے واپس لینے میں ٹرمپ کو پشیمانی اور سبکی اٹھانے کا سامنا ہے، لٰہذا اسے وہ اعلانیہ واپس لینے میں پس و پیش سے کام لے رہے ہیں۔ اسی طرح انھوں نے اپنی جذباتی اور جلد باز فطرت کی وجہ سے تمام ممالک پر ٹیرف عائد کرنے کا ایک بہت ہی بڑا فیصلہ کر ڈالا جس کے نتائج کے بارے میں انھوں نے پہلے سے ہوم ورک ہی نہیں کیا اور ساری دنیا سے دشمنی مول لی۔
حالانکہ بعد ازاں انھوں نے اس پر بات چیت کرنے اور ٹیرف کو کم کرنے پر رضا مندی بھی ظاہرکر دی، مگر اس غیر ذمے دارانہ فیصلے نے اُن کی قابلیت پر شک و شبہات ضرور پیدا کردیے۔ وہ اب اس مجوزہ ٹیرف کو کسی نہ کسی بہانے سے واپس لینے کے طریقے ڈھونڈ رہے ہیں۔ انھیں معلوم ہوگیا کہ یہ یکطرفہ ٹیرف اس طرح زبردستی لاگوکیا ہی نہیں جاسکتا ہے۔ ایسا کرنے سے وہ ساری دنیا میں اکیلے رہ جائیں گے اور کوئی ملک اُن سے تجارت نہیں کرے گا۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ انھیں دنیا کی ضرورت نہیں ہے بلکہ دنیا کو امریکا کی ضرورت ہے، مگر بہت جلد اُن کی یہ خام خیالی بھی دور ہوگئی، وہ اب تجارت اور بات چیت کے نام پر اپنی غلطیاں سدھارنے میں لگے ہوئے ہیں۔
اسی طرح انھوں نے عہدہِ صدارت سنبھالتے ہی دنیا کو یہ تاثر دیا کہ وہ ساری دنیا میں امن قائم کرنا چاہتے ہیں اور خود کو امن کا پیامبر ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ روس اور یوکرین کی جنگ میں جب انھوں نے دیکھا کہ وہاں کامیابی کے امکانات بہت ہی کم رہ گئے ہیں اور ایسا نہ ہوکہ روس یوکرین پر قابض ہوجائے انھوں نے یوکرینی صدر زیلنسکی کو جنگ نہ بند کرنے پر اپنے یہاں بلا کر خوب عزت افزائی بھی کر ڈالی۔ یوکرین کو روس سے بھڑانے اور اسے ہر طرح کی مدد اور امداد کرنے کے دعوے کرنے والے امریکا اور اس کے حواری اس طرح اچانک نظریں پھیر لیں گے، یوکرین نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ ہم اور ہماری قوم ہمیشہ سمجھا کرتی تھی اور اب بھی سمجھا کرتی ہے کہ امریکا انتہائی بے اعتبار ملک ہے۔ یوکرینی قوم کو بھی اب شاید سمجھ آگیا ہے کہ امریکا پر اعتبار کر کے کسی دوسرے ملک سے لڑائی مول نہیں لی جا سکتی ہے، امریکا اس وقت تک کسی کی مدد نہیں کرتا جب تک اس کے اپنے مفادات خطروں میں نہ گھر جائیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کا انداز حکومت عاجلانہ اور بچکانہ فیصلوں سے عبارت ہے، اس نے اپنے پہلے دور میں بھی کچھ ایسے ہی فیصلے کیے تھے جس کے بعد ہم سمجھ رہے تھے کہ امریکی قوم اسے دوبارہ حق حکمرانی عطا نہیں کرے گی۔ مگر سابقہ امریکی صدرکی کچھ کمزوریوں اور ٹرمپ کے لیے ہمدردی کے فیکٹر نے اسے ایک بار پھر یہ کامیابی دلا دی۔ انھیں معلوم ہے یہ ان کا آخری موقعہ ہے، وہ ایسے فیصلے کر کے جانا چاہتے ہیں کہ دنیا انھیں کسی طرح یاد کرتی رہے چاہے اچھے نام سے یا برے نام سے۔ غزہ کے معاملے میں انھوں نے اپنی امن پسندی بھی نہ صرف بھلا دی بلکہ جھٹک کے رکھ دی۔
یہ شخص غزہ کو نیست و نابود کر دینے پر تلا ہوا ہے۔ اس مقصد کے لیے اس نے اسرائیل کی پشت پناہی میں کوئی کثرت اٹھا نہ رکھی۔ اسے یہاںسیز فائر کی اپنی پالیسی بھی یاد نہ رہی۔ کہنے کو دنیا وہ بھر میں سیز فائرکرواتا پھر رہا ہے مگر غزہ اور فلسطین کے معاملے میں اس کا طریقہ اور طرز عمل بہت ہی افسوس ناک ہے، وہ وہاں اسرائیل کا قبضہ دیکھنا چاہتا ہے اور یہاں تک کہہ چکا ہے کہ فلسطینی ریاست اگر بنانی ہے تو کسی اور عرب ملک میں بنا لی جائے مگر یہاں نہیں۔ گریٹر اسرائیل کی خواہش میں وہ پوری طرح نیتن یاہو کے ساتھ کھڑا ہے۔
غزہ میں فلسطینی قوم کے ساتھ کوئی اور اسلامی ملک بھی لڑ نہیں رہا، وہ قوم اکیلی تنہا اسرائیلی زیادتیوں کو جھیل رہی ہے ۔ وہاں اسرائیل فوج کا سامنا کسی اور فوج سے نہیں ہے بلکہ بے آسرا نہتے فلسطینیوں سے ہے، جن کے تمام افراد یا تو مارے جاچکے ہیں یا زخمی ہو کر اسپتالوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ کوئی دوسرا اسلامی ملک بھی اُن کی مدد کو نہیں آرہا، ساری دنیا بے حس ہوچکی ہے۔ یو این او میں مذمتی قرارداد بھی اس لیے پاس نہیں ہوسکتی کہ امریکا اسے ویٹو کر دیتا ہے۔
ٹرمپ کی امن پسندی کا بھانڈا تو اسی وقت پھوٹ چکا تھا جب اس کی طرف سے غزہ میں اسرائیلی زیادتیوں کی قرارداد ویٹو کر دی گئی تھی۔ ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ اس نے پاک بھارت جنگ اور ایران اسرائیل جنگ بند کروائی ہے، حالانکہ دنیا کے اخبارات گواہ ہیں کہ پاک بھارت جنگ جب شروع ہوئی تو ٹرمپ نے یہ کہہ کر اس میں کوئی کردار ادا کرنے سے معذرت کر لی تھی کہ میرا اس جنگ سے کوئی تعلق نہیں ہے اور یہاں تک کہدیا کہ امریکا اس جنگ میں کوئی کردار ادا نہیں کرتا جس میں اس کے اپنے مفادات شامل نہ ہوں، مگر جب اس نے دیکھا کہ اس کا بہت بڑا قریبی دوست ملک اور اسٹرٹیجک پارٹنر بھارت مار کھانے لگا ہے تو اس نے سیز فائر کا حکم صادر فرما دیا۔
اسی طرح جب ایران کے ہاتھوں اسرائیل کی ٹھکائی ہونے لگی تو وہاں بھی سیز فائر کروا دیا گیا۔ڈونلڈ ٹرمپ کے اس چھ ماہ کے دور میں ہم نے عالمی میڈیا میں صرف اسی کی خبریں دیکھی بھی ہیں اور سنی بھی ہیں۔ اس نے خود کو دنیا کی خبروں کا محور بنایا ہوا ہے۔ اس نے ابھی تک تدبر اور اعلیٰ حکمت عملی والا کوئی بڑا فیصلہ نہیں کیا ہے۔ اسے دنیا کے ایک بہت ہی پاروفل ملک کے صدر ہونے کا زعم ہے، وہ چاہتا ہے کہ روس اور چین سمیت سارے ممالک بھی اس کے تابعدار بن جائیں، اس کی یہی خوش فہمی اسے تباہ بھی کرسکتی ہے، وہ اگر چاہتے ہیں کہ دنیا انھیں اچھے نام سے یاد کرے یا انھیں امن کے نوبل انعام سے نوازا جائے تو انھیں اپنا طرز عمل بدلنا ہوگا۔ سوچ سمجھ کر آگے بڑھنا ہوگا۔ دانش مندانہ اور بصیرت افروز مستحکم فیصلے کرنا ہونگے، تبھی جا کر وہ ایک مقبول عالمی رہنما کے طور پر یاد کیے جاسکتے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
ڈونلڈ ٹرمپ نے سیمی کنڈیکٹرز پر بھاری ٹیرف عدائد کرنے کا اعلان کردیا
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سیمی کنڈکٹرز پر بھاری ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کردیا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعے کے روز اعلان کیا کہ وہ آئندہ 2 ہفتوں میں اسٹیل اور سیمی کنڈکٹرز (چِپس) پر بھاری درآمدی ٹیرف عائد کرنے جارہے ہیں، جس کا مقصد کلیدی صنعتوں کی پیداوار کو امریکا منتقل کرنا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سیمی کنڈکٹرز : چھوٹی سی چپ جو پاکستان کو آئی ٹی شعبے میں ہارڈ ویئر پاور ہاؤس بنا سکتی ہے
ایئر فورس ون میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے، جب وہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے ساتھ الاسکا میں ایک سربراہی اجلاس کے لیے روانہ تھے، ٹرمپ نے کہا کہ وہ اگلے ہفتے اور اس کے بعد والے ہفتے میں اسٹیل اور سیمی کنڈکٹرز پر ٹیرف کا اعلان کریں گے۔ ان کے بقول یہ شرح ابتدائی طور پر نسبتاً کم ہوگی لیکن کچھ عرصے بعد بہت زیادہ کر دی جائے گی۔ انہوں نے وضاحت کی کہ اس پالیسی کا مقصد کمپنیوں کو دباؤ میں لا کر اپنی فیکٹریاں اور پیداوار امریکا منتقل کرانا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آٹوموبائل، مصنوعی ذہانت (AI) اور دیگر ہائی ٹیک شعبوں سے منسلک کمپنیاں اس پالیسی کے تحت اپنی پیداوار امریکا لانے پر مجبور ہوں گی، کیونکہ ٹیرف 200 سے 300 فیصد تک بڑھ سکتا ہے۔ ٹرمپ نے مزید کہا کہ وہ یہی حکمت عملی دواسازی (Pharmaceuticals) کی صنعت پر بھی لاگو کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ اس شعبے میں بھی اندرونِ ملک سرمایہ کاری بڑھے۔
یہ بھی پڑھیں: مائیکروچپس کیا ہیں اور ان پر ٹرمپ 100 فیصد ٹیکس کیوں لگا رہے ہیں؟
صدر ٹرمپ اس سے قبل 6 اگست کو ان سیمی کنڈکٹر کمپنیوں پر 100 فیصد ٹیرف لگا چکے ہیں جو امریکا میں سرمایہ کاری نہیں کرتیں۔ اس سے پہلے وہ اسٹیل کی درآمد پر بھی پابندیاں لگا چکے ہیں، جس میں ابتدائی طور پر 25 فیصد ٹیرف شامل تھا، جو بعد میں بڑھا کر 50 فیصد کردیا گیا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر یہ نئے ٹیرف نافذ ہو گئے تو اس کے عالمی سپلائی چین پر گہرے اثرات پڑسکتے ہیں، خاص طور پر سیمی کنڈکٹر انڈسٹری میں، جہاں امریکا، چین، تائیوان، جنوبی کوریا اور جاپان جیسے ممالک بڑے کھلاڑی ہیں۔ سیمی کنڈکٹر چپس جدید گاڑیوں، اسمارٹ فونز، کمپیوٹرز، AI سسٹمز اور دفاعی آلات میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، جبکہ اسٹیل تعمیرات، بنیادی ڈھانچے، دفاعی صنعت اور بھاری مشینری میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: صدر ٹرمپ نے کمپیوٹر چپس پر 100 فیصد ٹیرف لگانے کا اعلان کر دیا
ماہرین کا خیال ہے کہ اس پالیسی سے مہنگائی میں اضافہ ہوسکتا ہے، لیکن طویل مدتی میں یہ امریکی مینوفیکچرنگ کے لیے ایک بڑا بوسٹ ثابت ہوسکتی ہے۔ تاہم، ناقدین کا کہنا ہے کہ اتنے زیادہ ٹیرف سے عالمی تجارتی تعلقات میں تناؤ پیدا ہوگا، خاص طور پر چین اور یورپی یونین کے ساتھ جو امریکا کی درآمدات میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news اسٹیل امریکا ٹیرف سیمی کنڈیکٹر صدر ڈولڈ ٹرمپ مہنگائی