غزہ میں صہیونی مظالم کی انتہا(140نہتے مسلم شہید)
اشاعت کی تاریخ: 1st, July 2025 GMT
درندگی کا شکار فلسطینیوں میں بیشتر کی نعش شناخت کے قابل نہ رہی ،زخمیوں کی حالت نازک
جنگی طیاروں کی امدادی مراکز اور رہائشی عمارتوں پر بمباری ،شہادتوں میں اضافے کا خدشہ
غزہ کی پٹی پر اسرائیلی بمباری نے ایک بار پھر انسانیت کو شرما دیا۔ گزشتہ48گھنٹوں کے دوران صیہونی افواج کے وحشیانہ فضائی حملوں میں کم از کم140فلسطینی شہری شہید ہو چکے ہیں، جن میں بڑی تعداد خواتین، بچے اور بزرگوں کی ہے۔29 جون2025 ء کو اسرائیلی جنگی طیاروں نے مختلف علاقوں میں امدادی مراکز، خوراک کے حصول کے لیے جمع شہریوں، اور رہائشی عمارتوں کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں72فلسطینی شہید ہوئے۔ عینی شاہدین کے مطابق کئی لاشیں شناخت کے قابل نہ رہیں۔30جون کو درندگی کا سلسلہ نہ رکا۔ غزہ شہر اور شمالی غزہ میں تازہ بمباری سے مزید 68شہری شہید ہو گئے۔ اسپتال ذرائع کے مطابق کئی زخمیوں کی حالت نازک ہے، جس سے شہادتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔بچوں اور خواتین کا قتل عام طبی ذرائع کے مطابق دونوں دنوں کی مجموعی واقعات میں درجنوں افراد زخمی ہوچکے ہیں ۔
.ذریعہ: Juraat
پڑھیں:
ایران اسرائیل جنگ: 935 ایرانی شہری شہید، خواتین اور بچوں کی بھی بڑی تعداد شامل
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
تہران سے موصولہ اطلاعات کے مطابق ایران اور اسرائیل کے درمیان 12 روزہ جنگ کے دوران اسرائیلی حملوں میں شہید ہونے والے ایرانی شہریوں کی تعداد 900 سے تجاوز کر گئی ہے۔
ایرانی سرکاری میڈیا کے مطابق اب تک مجموعی طور پر 935 ایرانی شہری شہید ہو چکے ہیں، جن میں 132 خواتین اور 38 بچے بھی شامل ہیں۔ یہ اعداد و شمار ایرانی وزارت انصاف کے ترجمان نے جاری کیے۔
اسرائیل نے 13 جون کو ایران پر حملوں کا آغاز کیا تھا۔ ابتدائی حملوں میں ایرانی فوج کے اعلیٰ افسران اور جوہری سائنسدانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ جواباً ایران نے بھی اسرائیلی علاقوں پر شدید میزائل حملے کیے، جن میں 28 اسرائیلی شہری ہلاک ہوئے۔
ذرائع کے مطابق جنگ کے دوران امریکا نے بھی مداخلت کرتے ہوئے فردو، اصفہان اور نطنز میں واقع ایران کی جوہری تنصیبات پر فضائی حملے کیے، جنہیں مکمل طور پر تباہ کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان یہ شدید تنازع 24 جون کو جنگ بندی کے اعلان کے بعد وقتی طور پر تھم گیا ہے۔ تاہم خطے میں کشیدگی اب بھی برقرار ہے۔