مہنگائی میں آئی ایم ایف اور حکومتی اندازوں سے بھی زیادہ کمی۔ 4.49 فی صد پر آ گئی
اشاعت کی تاریخ: 2nd, July 2025 GMT
اسلام آباد:
وفاقی حکومت نے مالی سال 25۔2024 کے لیے مقرر کردہ مہنگائی کا ہدف حاصل کر لیا لیکن اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی طرف سے شرح سود ڈبل ڈیجٹ پر رکھنے سے ملک کی معاشی شرح نمو متاثر ہوئی، کاروباری اخراجات بڑھ گئے اور ملکی برآمدات علاقائی ممالک کے ساتھ مقابلے کے قابل نہ رہیں۔
وفاقی ادارہ شماریات کی جانب سے جاری کردہ ماہانہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ مالی سال کے دوران افراط زر کی اوسط شرح 4.
جون 2025ء میں مہنگائی کی شرح 3.23 فیصد رہی جو مئی 2025کے مقابلے میں 0.23 فیصد معمولی زیادہ ہے۔ شہری علاقوں میں جون کے دوران مہنگائی میں ماہانہ بنیادوں پر 0.08 فیصد اضافہ ہوا جبکہ دیہی علاقوں میں یہ اضافہ 0.47 فیصد رہا۔ ماہانہ بنیادوں پر جون 2025ء میں شہری علاقوں میں مہنگائی کی شرح 3 فیصد جبکہ دیہی علاقوں میں 3.58فیصد رہی۔
وزارت خزانہ نے جون کے لیے مہنگائی کا تخمینہ 3 سے4 فیصد کے درمیان لگایا تھا جو اعداد و شمار کے مطابق درست ثابت ہوا۔مہنگائی کی حد تک حکومت چینی کی قیمت پر کنٹرول نہیں رکھ سکی،اس کی بنیادی وجہ سٹاک چیک کیے بغیر اس کی برآمد ہے ۔چینی کی قیمت میں گزشتہ سال کے مقابلے میں صرف گزشتہ ایک ماہ میں ایک چوتھائی اضافہ ہوا ہے۔
چینی کی قیمت میں اضافہ کی ایک وجہ اس پر18 فیصد ٹیکس بھی ہے۔ چینی کے علاوہ گزشتہ سال کے مقابلے میں انڈوں کی قیمتوں میں 25 فیصد،خشک دودھ کی قیمت میں 22 فیصد،گوشت کی قیمت میں گیارہ فیصد اضافہ ہوا ہے۔
البتہ پیاز کی قیمتیں گزشتہ سال کے مقابلے میں 56 فیصد کم رہی ہیں۔اسی طرح ٹماٹر اور گندم کی قیمتوں میں بھی 17 فیصد کمی ہوئی ہے۔
گزشتہ ماہ بجلی کے نرخوں میں بھی گزشتہ سال کے مقابلے میں 30 فیصد تک کمی ہوئی ہے۔پٹرول پر مزید ٹیکس لگانے کے باوجود اب بھی یہ گزشتہ سال کے مقابلے میں دو فیصد سستا ہے۔مہنگائی کے حوالے سے حکومت اور آئی ایم ایف دونوں کے تخمینوں کی بدولت سٹیٹ بینک آف پاکستان نے دباؤمیں آکر شرح سود کو ڈبل ڈیجٹ میں رکھا جس کا معاشی نمو پر برا اثر پڑا۔
اس وقت سٹیٹ بینک کی شرح سود گیارہ فیصد ہے جو مالی سال کے اختتام تک مہنگائی کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔زیادہ شرح سود کا فائدہ صرف کمرشل بینکو ں کو ہوا ہے ،لیکن ملک میں کاروباری اخراجات بڑھ گئے ہیں ،وفاقی حکومت کوقرضوں پر سود کی مد میں آدھا بجٹ خرچ کرنا پڑا ہے۔
اس وقت بھی گیارہ فیصد شرح سود کی صورت میں حکومت کو سات ہزار 200 ارب روپے صرف قرضوں پر سود کی مد میں خرچ کرنا پڑیں گے۔آزاد تھنک ٹینک اکنامک پالیسی اور بزنس ڈویلپمنٹ کے مطابق اتنی بلند شرح سود سے معیشت جمود کا شکا ر رہے گی،ہمارے مقابلے میں علاقائی ممالک اپنی صنعتی بنیاد اور برآمدی صلاحیت کو بڑھاتے چلے جائیں گے۔
اس سال کے بجٹ میں بھی حکومت نے قرضوں پر سودکی مد میں8 ہزار200 ارب روپے مختص کیے ہیں جو مجموعی بجٹ کا 46 فیصد ہیں۔ان حالات میں حکومت کو شرح سود 6 فیصد پر لانی چاہیے۔یوں وہ اپنے لیے تین ہزار ارب روپے بھاری رقوم بچا سکتی ہے۔
ان بچتوں سے حکومت کاروباری اخراجات میں کمی کرکے ملک میں ملازمتیں پیدا کرسکتی ہے۔اس وقت بھی افراط زر اور سٹیٹ بینک کی شرح سود میں فرق 7.8 فیصد ہے۔
ادارہ شماریات نے یہ رپورٹ 35 شہروں سے356 اشیائے صرف کا ڈیٹا اکٹھا کرکے مرتب کی ہے۔دیہات میں اس رپورٹ کیلیے 27 مراکز سے 244 اشیائے صرف کا ڈیٹا لیا گیا۔اشیائے خوراک کی قیمتوں میں شہروں کی حد تک معمولی اضافہ ہوا ہے جو 4.2 فیصد سے بڑھ کر 2.4تک پہنچ گئی ہیں۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: گزشتہ سال کے مقابلے میں کی قیمت میں علاقوں میں اضافہ ہوا مالی سال ہوا ہے کی شرح
پڑھیں:
ملائیشیا کتابوں پر پابندیاں کیوں لگا رہا ہے؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 03 اکتوبر 2025ء) اس سال کتابوں پر پابندی میں اضافے کو کچھ ناشرین، ماہرینِ تعلیم اور حقوق کی تنظیمیں ''خطرناک جبر‘‘ اور ''قدامت پسند اسلامی نظریات‘‘ کی جانب بڑھتی ہوئی راہ قرار دے رہی ہیں۔
وزارتِ داخلہ نے اکتوبر 2025 تک 24 کتابوں پر پابندی عائد کر دی ہے، جو گزشتہ چھ برسوں میں بین کی گئی تمام کتابوں سے زیادہ ہے اور 2017 کے بعد کسی ایک سال میں سب سے زیادہ تعداد ہے۔
اس سال پابندی عائد کی گئی کتابوں میں جاسوسی اور رومانی ناول، 'مشت زنی‘ کے عنوان سے شاعری کا مجموعہ، اسلام سے متعلق غیر افسانوی کتب، اور نو عمر بچوں کے لیے بلوغت کے حوالے سے رہنما کتابیں شامل ہیں۔
تقریباً نصف بلیک لسٹ کی گئی کتابیں ایل جی بی ٹی کیو پلس موضوعات پر ہیں، جن میں 'کال می بائی یور نیم‘ جیسی بین الاقوامی شہرت یافتہ ناول بھی شامل ہے، جس پر 2017 میں ایک آسکر ایوارڈ یافتہ فلم بنائی گئی تھی اور جس میں ٹیموتھی شالامیٹ نے اداکاری کی تھی۔
(جاری ہے)
ملائیشیا میں ہم جنس پرستی غیر قانونی ہے، جہاں نسلی طور پر مالے باشندے قانوناً مسلمان ہوتے ہیں اور اسلام ترک کرنے پر مذہبی عدالتوں کی جانب سے قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔
وزارت داخلہ نے کہا کہ کتابوں پر پابندی اس لیے لگائی گئی ہے تاکہ ایسے ''عناصر، نظریات یا تحریکوں کی ترویج کو روکا جا سکے جو قومی سلامتی اور عوامی نظم و ضبط کے لیے نقصان دہ ہوں۔
‘‘’پین ملائشیا‘، جو آزادی اظہار کی بین الاقوامی تنظیم کی مقامی شاخ ہے، نے کتابوں پر بڑھتی ہوئی پابندیوں کو ''چونکا دینے والی‘‘ قرار دیا اور کہا کہ یہ ملائیشیائی عوام کے کھل کر لکھنے اور اہم مسائل پر ایمانداری سے بولنے کے حق پر قدغن ہے، خاص طور پر ان موضوعات پر جو نسل، مذہب اور جنسی رجحان سے جڑے ہیں۔
’پین ملائشیا‘، کی صدر ماہی رام کرشنن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ صرف یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہم کس قدر پیچھے جا رہے ہیں اور ہماری جمہوری گنجائش کس طرح سکڑ رہی ہے۔
‘‘انہوں نے مزید کہا، ''ہم مکالمہ نہیں کر سکتے۔ ہمیں صرف بتایا جاتا ہے کہ کیا کرنا ہے، اور کتابیں شیلف سے ہٹا دی جاتی ہیں۔ ہم یا تو خاموشی سے دیکھتے ہیں یا احتجاج کرتے ہیں۔ اور اگر ہم احتجاج کریں تو مزید مصیبت میں پڑ سکتے ہیں۔‘‘
حکومت کا قدامت پسندی کی طرف جھکاؤکتابوں پر بڑھتی پابندیاں وزیرِاعظم انور ابراہیم کی حکومت کے تیسرے سال میں سامنے آئی ہیں۔
یہ تجربہ کار سیاستدان 2022 کے آخر میں، کئی دہائیوں تک ایک ایسے برانڈ کو تشکیل دینے کے بعد، برسراقتدار آئے تھے جو تمام ملائیشیائی عوام کے لیے زیادہ جمہوری، شفاف اور منصفانہ حکومت کے وعدے پر مبنی تھا، نہ کہ صرف ملک کی اکثریتی نسلی مالے مسلم آبادی کے لیے۔
انور کی اتحادی حکومت ایک پالیسی فریم ورک کے تحت کام کرتی ہے جسے، ''ملائیشیا مدنی‘‘ کہا جاتا ہے۔
اس میں احترام اور ہمدردی جیسے چھ ''بنیادی اقدار‘‘ شامل ہیں۔تاہم، عملی طور پر یہ انتظامیہ کہیں زیادہ قدامت پسند اور مسلم نواز ثابت ہوئی ہے، ماہرِ سیاسیات اور ملائیشیا کی سن وے یونیورسٹی کے پروفیسر وونگ چِن ہُوَت نے کہا، ''کتابوں پر پابندیوں میں اضافہ ریاستی بیوروکریسی میں کئی برسوں سے بڑھتی ہوئی قدامت پسندی کو ظاہر کر سکتا ہے، جو لازمی طور پر انور کے اقتدار میں آنے سے شروع نہیں ہوئی، جس میں منحرف یا مبینہ بدعتی خیالات کا فکری طور پر جواب دینے کے بجائے انہیں قانونی طور پر دبایا جاتا ہے۔
‘‘وونگ نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ انور کی حکومت ان قدامت پسند رویوں کو یا تو عقیدے کی بنیاد پر یا پھر سیاسی فائدے کے لیے بڑھاوا دے رہی ہو۔
انہوں نے کہا، ''جو بات یقین کے ساتھ کہ جاسکتی ہے وہ یہ کہ مدنی حکومت کے تحت ملائیشیا زیادہ کھلے ذہن والا ملک نہیں بنا۔‘‘
سلامک رینیساں فرنٹ کے ڈائریکٹر احمد فاروق موسیٰ، جو اسلام کی آزاد خیال تشریح کو فروغ دینے والا ایک مقامی گروپ ہے، نے کہا کہ حکومت کی کتابوں پر پابندی کی پالیسی دراصل مدنی کے برخلاف ہے۔
یہ گروپ خود بھی کتابیں شائع کرتا ہے، اور وزارتِ داخلہ نے ان کی تین کتابوں پر 2017 میں پابندی لگائی تھی۔ فی الحال وزارت یہ فیصلہ کر رہی ہے کہ مزید دو کتابوں پر بھی پابندی عائد کی جائے یا نہیں۔
فاروق موسیٰ نے کہا، ''وہ خود کو مدنی کہتے ہیں، یعنی انہیں زیادہ کشادہ ذہن ہونا چاہیے، مختلف خیالات کو قبول کرنے والا ہونا چاہیے۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے بالکل برعکس راستہ اختیار کیا ہے۔‘‘انہوں نے مزید کہا کہ انور کی حکومت کی یہ کریک ڈاؤن پالیسی دراصل مسلم ووٹ حاصل کرنے کی ایک سوچی سمجھی حکمتِ عملی ہے۔
ملائیشیائی سیاست میں اسلام کا کرداراگرچہ انور کی اتحادی جماعت نے 2022 کے انتخابات جیتے، لیکن یہ بڑی حد تک غیر مالے مسلم ووٹروں کی مدد سے ممکن ہوا۔
دوسری طرف اسلام پسند جماعت پارٹی 'اسلام سے ملیشیا‘ (پی اے ایس) نے سب سے زیادہ پارلیمانی نشستیں حاصل کیں، جو چار برس پہلے کے عام انتخابات کے مقابلے میں دوگنی تھیں۔فاروق موسیٰ نے کہا کہ کتابوں پر اچانک بڑھتی ہوئی پابندیاں انور کی اتحادی حکومت کے لیے زیادہ مسلم ووٹ حاصل کرنے یا کم از کم اپنے موجودہ مسلم ووٹروں کو برقرار رکھنے کا ایک طریقہ ہیں۔
ان کے مطابق، ''یہی اصل وجہ ہے، ورنہ وہ اپنی حمایت کھو دیں گے۔‘‘
آزاد کتب فروش اور ناشر عامر محمد نے کہا کہ کتابوں پر پابندیاں عائد کرنا ووٹروں کو خوش کرنے کا ایک حربہ ہے، تاکہ یہ تاثر دیا جا سکے کہ حکومت ''اخلاقیات کی حفاظت کر رہی ہے‘‘۔
جون میں وزارتِ داخلہ کے اہلکار نیون پیلی جیکٹیں پہنے اچانک کوالالمپور میں عامر محمد کی چھوٹی سی کتابوں کی دکان پر پہنچے اور تین کتابوں کی تلاش کی۔
عامر محمد کے مطابق، یہ کتابیں دو نفسیاتی ہارر ناول اور ایک رومانوی ناول تھیں، سب مقامی مصنفین کی لکھی ہوئی۔ اہلکار ہر کتاب کی ایک ایک کاپی لے گئے لیکن یہ وضاحت نہیں کی کہ وہ شک کے دائرے میں کیوں ہیں۔
عامر محمد نے بتایا کہ یہ کم از کم چوتھی بار تھا کہ وزارت کے اہلکار اس کی دکان پر چھاپہ مار چکے ہیں، اور انہوں نے اسے ملائیشیا میں کتب فروشی کے لیے ایک "پیشہ ورانہ خطرہ" قرار دیا۔
ان کے مطابق، ''یہ اس کاروبار میں آنے کے خطرات میں سے ایک ہے۔‘‘
وزارتِ داخلہ نے ڈی ڈبلیو کی جانب سے تبصرے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
دنیا بھر میں مزید کتابوں پر پابندیاںکچھ رپورٹس کے مطابق دنیا بھر میں کتابوں پر پابندیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
’پین انٹرنیشنل‘ نے گزشتہ اپریل کو عالمی یومِ کتاب کے موقع پر، کہا کہ اس نے دنیا بھر میں کتابوں پر پابندیوں میں "ڈرامائی اضافہ" ریکارڈ کیا ہے۔
لیکن اس نے اس سال جن درجن بھر ممالک کو اجاگر کیا، ان میں خاص طور پر ملائیشیا کو نمایاں کیا، کیونکہ وہاں توجہ ان اشاعتوں کو روکنے پر ہے جن میں ایل بی جی ٹی کیو پلس کردار یا موضوعات شامل ہوں۔’پین ملائشیا‘ کی رام کرشنن کے مطابق، حالیہ برسوں میں لائیشیا نے اپنے زیادہ آزاد خیال پڑوسیوں جیسے انڈونیشیا اور فلپائن کے مقابلے میں زیادہ کتابوں پر پابندیاں لگائی ہیں، لیکن اب بھی یہاں کمبوڈیا، میانمار یا ویتنام جیسے ممالک جتنا سخت سنسر نہیں ہے، یہ وہ ممالک ہیں جو آمرانہ، کمیونسٹ یا فوجی حکومتوں کے تحت چل رہے ہیں۔
رام کرشنن نے کہا، ''ان تمام پابندیوں کا نتیجہ بالآخر اختلافی خیالات کے لیے جگہ کو تنگ کرنے کی صورت میں نکلتا ہے، اور … لکھنے والوں، ناشرین، تقسیم کرنے والوں اور قارئین کے درمیان 'سیلف سنسرشپ‘ کو خطرناک حد تک مضبوط کرتا ہے۔‘‘
ادارت: صلاح الدین زین