بجٹ کے بعد حکومت نے پیٹرول بم گراکر عوام پر ایک اور ظلم کیا‘ لیاقت بلوچ
اشاعت کی تاریخ: 2nd, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
لاہور(نمائندہ جسارت)نائب امیر جماعت اسلامی، سیکرٹری جنرل ملی یکجہتی کونسل نے کہا ہے کہ حکومت نے بجٹ کے فوری بعد رات کی تاریکی میں عوام پر پیٹرول بم گِراکر مہنگائی، لوڈشیڈنگ اور شدید گرمی سے بدحال اور نڈھال عوام پر ایک اور ظلم کیا ہے۔ آئندہ 15 روز کے لیے پیٹرول کی فی لیٹر قیمت میں 8 روپے 36 پیسے اور ڈیزل 10 روپے 39 پیسے فی لیٹر کے بڑے اضافے سے مہنگائی کی نئی لہر آئے گی۔ حسب دستور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ہی ٹرانسپورٹ کرایوں میں بھی اضافہ ہوگا اور ضروریاتِ زندگی کی ہر چیز مہنگی ہوگی جس سے عام آدمی کی زندگی مزید مشکلات کا شکار ہوجائے گی۔ قبل ازیں گزشتہ روز حکومت نے گیس کے گھریلو صارفین کے لیے فکسڈ چارجز اور بقیہ صارفین کے لیے قیمت میں اضافہ کا اعلان کیا تھا،عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمتیں کم ہورہی ہیں لیکن حکومت آئی ایم ایف سے لیے گئے قرضوں پر سُود اور اپنی عیاشیوں کے خرچے پورے کرنے کے لیے عوام کو نچوڑ رہی ہے۔ حکومت نے حال ہی میں ارکانِ اسمبلی کی تنخواہوں میں 300 فیصد تک اضافہ کیا اور پارلیمنٹ کے ذریعے رُول میں ترمیم کرکے وفاقی کابینہ ارکان کو اپنی تنخواہوں میں من پسند اضافے کی کُھلی چھوٹ (بلینک چیک) دے دیا۔ مقتدر اشرافیہ ملکی دولت پر عیاشیاں کررہی ہے جبکہ عام آدمی کی زندگی مشکل سے مشکل تر بنائی جارہی ہے۔ حکومت اور اشرافیہ عوام کو مہنگائی اور ظلم کی چکی میں پیسنا بند کرے اور اپنی عیاشیوں، مراعات، کرپشن اور غیرترقیاتی اخراجات میں کمی کرے۔ عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈالنے سے نہیں، بلکہ زراعت و صنعت کی ترقی، برآمدات میں اضافہ اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کے ذریعے معیشت کی حقیقی بحالی ممکن ہوگی۔لیاقت بلوچ نے ملی یکجہتی کونسل کے مرکزی رہنما ہدیۃالہادی کے رہبر پیر سیّد ہارون گیلانی سے ملاقات کی اور 7 محرم الحرام کو درگاہ حضرت میاں میر کے عوامی ہال میں شہادتِ حسینؓ کانفرنس کے انعقاد کے حوالے سے گفتگو کی۔ ملی یکجہتی کونسل اور ہدیۃالہادی کے زیراہتمام ماہِ محرم کی اہم کانفرنس سے سُنی اور شیعہ علما، قائدین خطاب کریں گے، جو اتحادِ اُمت کے لیے بڑا پیغام ہوگا۔ شہدائے کربلا اور خانوادہ خاتم الانبیاءؐ کی قربانیوں کا اصل پیغام ہی یہ ہے کہ باطل کے مقابلے میں اہل حق استقامت سے پرامن مزاحمت کریں، باطل مٹ جاتا ہے، رُسوا ہوتا ہے اور اہل حق سرخرو اور دائمی عزت پاتے ہیں۔ لیاقت بلوچ نے اہل سنت کے علما کرام کے مشترکہ اجلاس میں شرکت کی، مولانا زاہد الراشدی، مولانا عبدالرؤف فاروقی اور دیگر علما نے شرکت کی۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ملی یکجہتی کونسل کا فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور مختلف مسالک اور ملی مؤقف رکھنے والوں کے مابین اتفاقِ رائے پید اکرنے کے لیے ضابطہ اخلاق بڑا جامع اور ہمہ گیر اور تمام مسالک کی جماعتوں کے اکابرین کی مشترکہ دستاویز ہے۔ اہل سنت کی رابطہ کمیٹی مولانا عبدالرؤٖف فاروقی کی سربراہی میں ضابطہ اخلاق کے نفاذ کے لیے کوشاں رہے گی تاکہ دینی مسالک کی جماعتوں کے درمیان اتفاق، باہمی احترام اور پاکستان کو قیامِ پاکستان کے مقاصد کے تحت اسلامی نظام کا مضبوط قلعہ بنایا جاسکے۔لیاقت بلوچ نے لاہور میں زیرتعلیم فلسطین، کشمیر، بلوچستان اور سندھ کے طلبہ وفود سے ملاقات میں کہا کہ غزہ فلسطین پر امریکا اور صہیونیوں کا ناجائز قبضہ، بیت المقدس سے عالم اسلام کی دستبرداری مسلم ممالک کے لیے بڑا خطرناک ہوگا۔ فلسطین فلسطینیوں کا اور کشمیر کشمیریوں کا ہے۔ 3 کروڑ انسانوں کو حق آزادی سے محروم کرنا اور اُن کے وطن، سرزمین پر ناجائز قبضے کے ہوتے دُنیا میں کبھی امن قائم نہیں ہوگا۔ آزادی کی جدوجہد پوری دُنیا کے ضمیر پر دباؤ بڑھاتی رہے گی۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے پاکستان کی مستقل پالیسی طے کردی کہ ’’کشمیر پاکستان کی شہ رگ‘‘ اور’’اسرائیل یورپ کا ناجائز حرامی بچہ ہے‘‘۔ بھارت کے ناجائز قبضے اور اسرائیل کے ناجائز وجود کے خاتمے سے ہی عالمی امن، انسانی حقوق کے احترام کا راستہ کُھلے گا۔ عالم اسلام غزہ کے مظلوموں کی قربانیوں کو رائیگاں نہ جانے دیں۔ جماعت اسلامی فلسطین میں امریکی اسرائیلی ظلم کے خلاف اور مقبوضہ کشمیر کی جدوجہد آزادی، بلوچستان میں حکومتوں سیکورٹی فورسز کے ناجائز اقدامات اور سندھ میں بدامنی کے راج کے خلاف پرامن عوامی جمہوری مزاحمت جاری رکھے گی۔ لیاقت بلوچ نے نوجوانوں کے سوالات کے جواب میں کہا کہ جماعت اسلامی ملک بھر میں ممبر سازی مہم کے بعد عوامی کمیٹیوں کی تشکیل کی مہم شروع کررہی ہے۔ محب وطن، باکردار، باصلاحیت، خوددار سیاسی کارکنان جماعت اسلامی کا ساتھ دیں، ملک اسلامی اور خوشحال ہوگا۔ معاشی ترقی کے حکومتی دعوے مصنوعی اور اعداد و شمار کا ہیر پھیر جھوٹ پر مبنی اور غبارے میں ہوا کی مانند ہے، جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔ معاشی پالیسی سازوں اور بااختیار حکمرانوں کو جان لینا چاہیے کہ عالمی سطح پر ممالک پر قرضوں کا حجم 102 ٹریلین ڈالر ہوچکا، ترقی پذیر ممالک کے لیے اب بھیک لینے کی گنجائش بھی ختم ہورہی ہیے۔ پاکستان میں معاشی استحکام کے لیے کرپشن کا خاتمہ، مقتدر اشرافیہ کی عیاشیاں روکنے اور قومی خودانحصاری پر مبنی اسلامی معاشی نظام ہی واحد حل ہے۔ نوجوان روایتی سیاسی، تعصباتی، جذباتی، نمائشی نعرہ بازی سے بغاوت کریں اور باوقار سیاست و انقلاب کے لیے جماعت اسلامی کے دست و بازو بنیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ملی یکجہتی کونسل لیاقت بلوچ نے جماعت اسلامی حکومت نے عوام پر کے لیے
پڑھیں:
لیڈر نہیں، مرشد
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
’’آپ مجھ سے کہہ رہے ہیں کہ اگر میں حکم دوں تو آپ نوکری چھوڑ دیں گے۔ اللہ کا حکم تو آپ مانتے نہیں، میرا حکم کیا مانیں گے؟ اللہ کا حکم ماننا ہے تو اللہ کو راضی کرنے کے لیے مانیں، مجھے خوش کرنے کے لیے نہیں‘‘۔ میاں صاحب نے برہمی سے کہا۔ محفل پر سنّاٹا چھا گیا۔ میری حالت یہ کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کہوں۔ کیا کروں… اگر وہاں کوئی ’’بِل‘‘ ہوتا اور میں اس میں سما سکتا تو ضرور اس میں جا گْھستا۔ جا چْھپتا۔ میاں صاحب پھر مجھ سے گویا ہوئے۔ ’’میں آپ کو حکم نہیں دوں گا۔ آپ کے لیے دعا کروں گا۔ اگر آپ کی طلب سچّی ہے تو اللہ آپ کے لیے ضرور راستہ نکالے گا‘‘۔ تب مجھے پتا چلا کہ صحراؤں میں بادِ نسیم کس طرح چلتی ہے۔ ویرانے میں چپکے سے بہار کس طرح آتی ہے اور بیمار کو بے وجہ قرار کیوں آجاتا ہے۔
یہ میری میاں طفیل محمد سے پہلی رو بہ رو گفتگو تھی۔ پھر یوں ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے میاں صاحب کی دعا سن لی اور میری طلب کی سچّائی پر مہر تصدیق ثبت ہو گئی۔ میں نے انشورنس کمپنی چھوڑی۔ وکالت اختیار کی۔ وکالت چھوڑی، ٹیکسٹائل سیکٹر میں مینیجر ایڈمن کی ملازمت کی۔ پھر میاں محمد شوکت نے مجھے جماعت اسلامی کے کاموں میں ہمہ وقت مصروف کر لیا۔ یہاں تک کہ 2001 آگیا اور۔۔۔
میں 1973 کے وسط سے اواخر 1977 تک جمعیت کا رکن رہا ہوں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب میاں طفیل محمد پہلی بار جماعت اسلامی پاکستان کے امیر منتخب ہوئے تھے۔ سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کی زندگی میں جماعت اسلامی کی قیادت سنبھالنا خود ایک بڑا امتحان تھا لیکن اس سے بڑا امتحان یہ تھا کہ 1970 کے انتخابات کی شکست خوردہ جماعت اسلامی نے مشرقی پاکستان میں دفاع پاکستان کے لیے جو بھی اقدامات کیے تھے، 1971 کی فوجی شکست کے نتیجے میں وہ سب الزامات میں تبدیل ہوگئے تھے۔ مالاکنڈ اور وزیرستان میں فوجی آپریشن کی حمایت نہ کرنے پر جماعت سے نالاں عناصر اسے تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں لیکن اسی قبیل کے لوگ 1972 میں اچھل اچھل کر البدر اور الشمس کے بارے میں سوال کرتے اور جماعت اسلامی کو بنگالیوں کے قتل کا مجرم ٹھیراتے تھے۔ (یہ روش آج تک جاری ہے) جماعت اسلامی مشرقی پاکستان، قاتلوں کے نرغے میں تھی۔ بنگالی ارکان چھپتے پھر رہے تھے۔ غیر بنگالی ارکان یا تو مارے جا چکے تھے یا ہجرتوں پر مجبور ہوگئے تھے۔ خرّم مراد جیسا قیمتی آدمی بھارت میں جنگی قیدیوں کے کیمپ میں دشمنوں کے قبضے میں تھا۔ بچے کھچے پاکستان میں صدمات سے دوچار، طعن و تشنیع کا شکار جماعت اسلامی، بھٹو کی فسطائیت کی زد میں تھی۔ اک حشر بپا تھا۔ ایک طوفان ِ بلا خیز مسلّط تھا اور اس منجدھار میں جماعت اسلامی کی نیّا کا کھویّا، ایک فقیر منش، دیہاتی مزاج کا حامل، سادہ دل لیکن اعلیٰ تعلیم یافتہ 1937 کا لا گریجویٹ تھا، جس نے یہ امتحان پہلی پوزیشن کے ساتھ پاس کیا تھا جو اگر چاہتا تو متحدہ ہندوستان میں وکالت کا آغاز کر کے قیام پاکستان تک اپنے آپ کو مستحکم رکھتا۔ پھر جی چاہتا تو وکالت کرتا آئین پاکستان سے اٹکھیلیاں کرتا، سیاسی آمریتوں کو مضبوط کرتا، فوجی حکمرانوں کا پیر مغاں بنتا۔ جہاں پیرزادوں کی پانچوں گھی میں ہوتی رہیں، وہاں یہ پیر مغاں چاہتا تو حلوائی کی آدھی دکان اپنے نام کرالیتا۔ جی چاہتا تو عدالت لگا کر انصاف فروخت کرتا۔ آئین کی وفاداری کا حلف اٹھاتا پھر نظریہ ضرورت ایجاد کرکے باغباں کو بھی خوش کرتا اور صیاد کو بھی راضی کرلیتا لیکن کپور تھلہ کے اس درویش نے 1941 میں نقد ِ جاں کا جو سودا کیا تھا 1972 میں اس سودے کی سچائی کے میزان میں تلنے کا وقت آیا تو یہ درویش اس میزان پر پورا اترا، الحمد للہ۔
1972 سے 1987 تک میاں صاحب بظاہر امیر جماعت اسلامی پاکستان تھے لیکن کوئی ان سے پوچھتا تو وہ کہتے کہ وہ عرصہ محشر میں تھے۔ بھٹو شاہی میں ان کے ساتھ جیلوں میں تشدد ہوا۔ تلاشی کے نام پر ان سے بے ہودگی کی گئی۔ ان کی ڈاڑھی کھینچی گئی۔ رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر نذیر احمد کو شہید کیا گیا۔ ان کے روحانی بیٹے، اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکنان مسلسل پس ِ دیوار زنداں دھکیلے جاتے رہے۔ جماعت اسلامی سے متعلق لوگوں نے ملک بھر میں تعلیمی اداروں کا جال بچھا رکھا تھا، ان تعلیمی اداروں کو قومیالیا گیا۔ جماعت کے لوگ اپنے اثاثوں سے محروم ہو گئے، ان تعلیمی اداروں کے ملازمین جو نظریاتی اثاثہ تھے اچانک سرکاری ملازم بن گئے۔ اور اس طرح جماعت ان کی صلاحیتوں سے محروم ہو گئی۔
1977 میں جماعت اسلامی نے میاں صاحب کی قیادت میں پی این اے کی تشکیل اور تنظیم میں کلیدی کردار ادا کیا۔ 1977 میں ضیاء الحق کے مارشل لا کے نفاذ کے بعد پی این اے نے ضیاء الحق کی کابینہ میں شمولیت اختیار کی۔ اس فیصلے پر جماعت اسلامی میں شروع سے دو رائے پائی جاتی تھیں لیکن یہ بات طے ہے کہ یہ میاں صاحب کا ذاتی فیصلہ نہیں بلکہ جماعت اسلامی کی مرکزی شوریٰ کا فیصلہ تھا جس سے اختلاف کا حق استعمال کرنے والوں کو میاں صاحب نے کبھی صف دشمناں میں نہیں گنا، حالانک ہمارے مروجہ سیاسی نظام میں اختلاف رائے کو قائد سے غداری کہا جاتا ہے اور ایسے لوگوں کو ہر قائد اپنے طریقے سے ٹھکانے لگاتا ہے۔ کوئی علی الاعلان موت کا حق دار قرار دے کر اور کوئی چپ چپاتے کھڈے لائن لگا کر… تنظیم میں رہتے ہوئے عضو معطل بنا کر…
(جاری ہے)