چنگ چی رکشوں پر پابندی کے خلاف درخواست پر سندھ حکومت و کمشنر کراچی کو نوٹسز
اشاعت کی تاریخ: 2nd, July 2025 GMT
ویب ڈیسک: سندھ ہائیکورٹ نے شہر کی مرکزی شاہراہوں پر چنگ چی رکشوں پر پابندی کیخلاف درخواست پر سندھ حکومت، کمشنر کراچی، سیکریٹری ٹرانسپورٹ و دیگر کو نوٹس جاری کردیے۔
ہائیکورٹ میں شہر کی مرکزی شاہراہوں پر چنگ چی رکشوں پر پابندی کیخلاف درخواست کی سماعت ہوئی۔ درخواستگزار کے وکیل صلاح الدین گنڈا پور ایڈووکیٹ نے موقف دیا کہ سندھ حکومت نے کمشنر کراچی کے ذریعے ابتدائی طور پر 12 روٹس پر چنگ چی رکشوں پر پابندی عائد کی اور بعد ازاں نوٹیفکیشن میں ترمیم کرکے 30 روٹس کو بند کردیا گیا۔
جوڈیشل کمیشن کا اجلاس: پشاورہائیکورٹ کےچیف جسٹس کیلئے جسٹس عتیق شاہ کا نام منظور
درخواست گزار کے مطابق پابندی عائد کرنے سے قبل متاثرہ فریق سے مشاورت نہیں کی گئی۔ شہر بھر میں 60 ہزار چنگ چی رکشے چلتے ہیں۔ 80 فیصد چنگ چی رکشے پابندی والے روٹس پر چلتے تھے۔ پابندی سے چنگ چی رکشہ چلانے والے غریب شہری متاثر ہورہے ہیں۔
عدالت میں سماعت کے دوران درخوست گزار نے مؤقف اختیار کیا کہ قوانین میں ترمیم کے بعد پابندی کا اختیار کمشنر کراچی کے بجائے بلدیاتی نمائندوں کا ہے۔
بعد ازاں عدالت نے سندھ حکومت، کمشنر کراچی، سیکریٹری ٹرانسپورٹ و دیگر کو نوٹس جاری کرتے ہوئے فریقین سے 16 جولائی تک جواب طلب کرلیا۔
سکولوں کے فنڈز میں گھپلوں کا انکشاف
Ansa Awais Content Writer.ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: چنگ چی رکشوں پر پابندی کمشنر کراچی سندھ حکومت
پڑھیں:
27ویں ترمیم کیخلاف سندھ ہائیکورٹ میں ایک اور درخواست دائر کردی گئی
درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ 27 ویں ترمیم کو آئین سے متصادم قرار دیکر غیر آئینی قرار دیا جائے، 27 ویں ترمیم اور اسکے تحت ہونے والی کارروائیاں کالعدم قرار دی جائیں۔ درخواست کے حتمی فیصلے تک 27 ویں ترمیم پر عملدرآمد روکا جائے۔ اسلام ٹائمز۔ 27ویں ترمیم کیخلاف سندھ ہائیکورٹ میں ایک اور درخواست دائر کردی گئی۔ بیرسٹر علی طاہر نے 27 ویں آئینی ترمیم کو چیلنج کیا ہے۔ درخواست میں موقف اپنایا گیا ہے کہ 27ویں آئینی ترمیم جلد بازی میں منظور اور نوٹفائی کی گئی۔ نوٹیفیکیشن کے اجراء کے اگلے ہی روز وفاقی آئینی عدالت کے ججز نے حلف اٹھا لیا۔ 27ویں آئینی ترمیم قانونی طور پر منظور نہیں ہوسکتی۔ واضح ہے کہ انتظامیہ اپنے فائدے کے لئے عدالتیں قائم کرنا چاہتی تھی۔ وفاقی آئینی عدالت میں ججز کی تقرری میں سینارٹی کو مدنظر نہیں رکھا گیا۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے سینیئر ججز کو نظر انداز کیا گیا۔ وفاقی آئینی عدالت کے ججز کی تقرری جوڈیشنل کمیشن کے ذریعے عمل میں نہیں لائی گئی۔ وفاقی آئینی عدالت کا قیام عدلیہ کی مضبوطی نہیں بلکہ من پسند فیصلے حاصل کرنے کے لئے کیا گیا۔ سندھ میں آئینی بینچز کا قیام عدلیہ کی آزادی کو ختم کرنے کے مترادف ہے۔
درخواست میں موقف اپنایا گیا کہ ہائی کورٹس آئین کے بنیادی ڈھانچے کا حصہ ہے، کسی بھی عمومی قانون سازی سے ہائی کورٹ کو آئین سے علیحدہ نہین کیا جاسکتا، آرٹیکل 202A کے ذریعے آرٹیکل 199 کے تحت درخواستیں آئینی بینچز کا دائرہ اختیار قرار دیا گیا ہے، 26 ویں ترمیم سے قبل چیف جسٹس آف پاکستان کی تقرری میں ایگزیکیٹیو کا کوئی کردار نہین ہوتا تھا، 27 ویں ترمیم کے ذریعے تاحیات استثنیٰ غیر قانونی ہے۔ درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ 27 ویں ترمیم کو آئین سے متصادم قرار دیکر غیر آئینی قرار دیا جائے، 27 ویں ترمیم اور اسکے تحت ہونے والی کارروائیاں کالعدم قرار دی جائیں۔ درخواست کے حتمی فیصلے تک 27 ویں ترمیم پر عملدرآمد روکا جائے اور درخواست کو ریگولر فل بینچ کے روبرو سماعت کے لئے مقرر کیا جائے۔