امریکی محکمہ دفاع (پینٹاگون) نے اعتراف کیا ہے کہ حالیہ امریکی فضائی حملوں نے ایران کے جوہری پروگرام کو صرف 1 سے 2 سال تک پیچھے دھکیلا ہے۔

یہ بیان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس دعوے کے برعکس ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ امریکی حملوں نے ایران کے ایٹمی پروگرام کو “کئی دہائیوں” تک روک دیا ہے۔

پینٹاگون کے ترجمان شان پارنیل نے ایک پریس بریفنگ میں بتایا: ’’ہم نے کم از کم ایک سے دو سال تک ان کے پروگرام کو بڑھنے سے روکا ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’’ہماری انٹیلی جنس کے مطابق ایران کی کئی تنصیبات مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہیں۔‘‘

22 جون کو امریکہ نے بی ٹو بمبار طیاروں کے ذریعے ایران کی تین بڑی جوہری تنصیبات پر حملے کیے تھے۔ ان حملوں میں بنکر بسٹر بم اور 20 سے زائد ٹام ہاک کروز میزائل استعمال کیے گئے۔

اس کے باوجود امریکی خفیہ ادارے کی ابتدائی رپورٹس کے مطابق یہ حملے پروگرام کو صرف چند مہینوں یا ایک سے دو سال پیچھے لے گئے ہیں۔

دوسری جانب امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگزیتھ کا کہنا ہے کہ فی الحال ایسا کوئی اشارہ نہیں ملا کہ ایران نے افزودہ یورینیم کو ان حملوں سے قبل کسی اور مقام پر منتقل کیا ہو۔

صدر ٹرمپ بدستور اپنے مؤقف پر قائم ہیں کہ: ’’یہ حملے تباہ کن تھے، ایران کا ایٹمی ڈھانچہ مکمل تباہ ہوچکا ہے۔‘‘

Post Views: 4.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: پروگرام کو

پڑھیں:

اسلام آباد میں تعینات سابق ایرانی سفیر ڈاکٹر ماشاءاللہ شاکری کے انٹرویو سے اقتباس (دوسری قسط)

سابق ایرانی سفیر ڈاکٹر ماشاء اللہ شاکری نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ ہم نے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی بالادستی کی پالیسیوں کے بارے میں اپنے موقف کی وضاحت کی ہے۔ اگر آپ کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے ملک کو امریکی ایجنسی کو قبول کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کرنا چاہیئے۔ میں ضرور کہوں گا، نہیں، ایسا نہیں ہوگا اور پاکستانیوں کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہوگیا ہے اور وہ جانتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت ایک بااختیار اور خودمختار ریاست و اتھارٹی ہے اور مذہب اسلام کی صحیح تعلیمات پر مبنی ایک اسلامی جمہوریہ۔ اس لیے پاکستان اسلامی جمہوریہ ایران کے عزائم کو درست طریقے سے امریکیوں تک پہنچا سکتا ہے، کچھ دوسرے ممالک بھی ایسا کرنا چاہتے تھے۔ ترجمہ: علی واحدی

سوال: حالیہ برسوں میں، ہم نے دیکھا ہے کہ پاکستان اقتصادی، سیاسی اور سلامتی کے شعبوں میں چین کے نمایاں شراکت داروں میں سے ایک کے طور پر ابھرا ہے۔ آپ کے خیال میں پاک چین تعلقات ایران کے لیے کیا فائدے رکھتے ہیں؟
آپ نے دیکھا کہ چین کی خارجہ پالیسی کا ایک حصہ جنوبی ایشیا کی طرف ہے جو پاکستان کے داخلی راستے سے گزرتا ہے اور گوادر بندرگاہ کے ذریعے مغربی چین کو بحیرہ عمان کے گرم پانیوں سے ملاتا ہے۔ چین کی خارجہ پالیسی کی دوسری جہت، جس کا تعلق خلیج فارس اور وسطی ایشیا کے حصے سے ہے، ایران کے ساتھ تعلق کے بغیر محسوس نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ چین پاکستان ایران مثلث ایک بہت ہی بامعنی مثلث ہوگی اور اقتصادی راہداریوں کی تشکیل کے ذریعے چین کے سٹریٹیجک منصوبوں کو پاکستان سے مزید  جوڑ سکے گی۔ اس سلسلے میں ہم نے اپنی قومی صلاحیتیں قائم کی ہیں۔ پاکستان کے برعکس، جو چین کا وہاں صلاحیت بڑھانے کا انتظار کر رہا ہے، ہم نے پہلے ہی صلاحیت تیار کر لی ہے۔ یعنی ہمارے پاس تقریباً 280 ملین ٹن بندرگاہ کی گنجائش ہے۔

ہماری ریلوے مکمل طور پر ملک گیر ہے، یعنی یہ جنوب کو شمال سے ملاتی ہے، اور ہماری مشرقی مغربی ریلوے بھی زیر تعمیر ہے۔ اس کے علاوہ چابہار سے زاہدان کو ملانے والی ریلوے اس لنک کو مکمل طور پر مکمل کر دے گی۔ کوئٹہ سے زاہدان کو ملانے والی ریلوے ایک سو سال پرانی ہے۔ اس لیے ہمارے ملک میں مواصلاتی نیٹ ورک یا تو تیار ہیں یا ان کا ایک چھوٹا سا حصہ زیر تعمیر ہے، جو انشاء اللہ ہماری مقامی صلاحیتوں سے تعمیر کیا جائے گا۔ یقیناً ان صلاحیتوں کو مضبوط کرنے کے لیے چینی حکومت سرمایہ کاری کر سکتی ہے اور اس مسئلے کو ایران اور چین کے درمیان طویل المدتی تزویراتی تعاون کی دستاویز میں بیان کیا جا سکتا ہے۔

سوال: پاکستان کے امریکہ کے ساتھ ملٹری، سیکورٹی اور سیاسی ڈپلومیسی کے حوالے سے جو دیرینہ تعلقات ہیں، کیا ہم ایران اور امریکہ کے درمیان تعلقات کو سہل بنانے میں اسلام آباد کے کردار پر اعتماد کر سکتے ہیں؟
دیکھیں ہم نے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی بالادستی کی پالیسیوں کے بارے میں اپنے موقف کی وضاحت کی ہے۔ اگر آپ کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے ملک کو امریکی ایجنسی کو قبول کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کرنا چاہیئے۔ میں ضرور کہوں گا، نہیں، ایسا نہیں ہوگا اور پاکستانیوں کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہوگیا ہے اور وہ جانتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت ایک بااختیار اور خودمختار ریاست و اتھارٹی ہے اور مذہب اسلام کی صحیح تعلیمات پر مبنی ایک اسلامی جمہوریہ۔ اس لیے پاکستان اسلامی جمہوریہ ایران کے عزائم کو درست طریقے سے امریکیوں تک پہنچا سکتا ہے، کچھ دوسرے ممالک بھی ایسا کرنا چاہتے تھے۔

اگر پاکستان تعمیری کردار ادا کرنا چاہتا ہے تو وہ سفارتی تقاضوں کو اس طرح پہنچا سکتا ہے جس سے ایران اور امریکہ کے درمیان تبادلے کی صورت پیدا ہوسکتی ہے۔ البتہ اس سلسلے میں ہمیں کوئی خاص مسئلہ نہیں ہے۔ اس سے قبل پاکستانی بھی خطے کے بعض ممالک کے حوالے سے ثالثی کے لیے تیار تھا۔ اب ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ امریکی اس کام کے لیے پاکستان کی صلاحیت کو استعمال کرنا چاہیں گے، لیکن میرے خیال میں اگر پاکستان اس سلسلے میں قابل قدر کردار ادا کرنا چاہتا ہے تو اسے اسلامی جمہوریہ ایران کی آزادی اور خودمختاری کے نظرئے کو درست طریقے سے امریکیوں تک پہنچانا چاہیے۔

سوال: ایک طویل تاریخ کے ساتھ ایک سفارت کار کے طور پر، اس خطے (برصغیر اور وسطی ایشیا) میں ایک طرف ایران اور افغانستان کے درمیان اور دوسری طرف پاکستان اور ہندوستان کے درمیان پانی کی کشیدگی کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے، اور یہ بھی کہ اس علاقے میں چین کے اقدامات کیا ہیں؟
آپ نے دیکھا ہے کہ آجکل آبی وسائل کو بانٹنے والے ممالک کے درمیان آبی سفارت کاری  ایک سنگین مسئلہ بن چکی ہے۔ اب بھارت اور پاکستان کے درمیان دریائے سندھ ہے۔ چین اور بھارت کے درمیان ہم دیکھتے ہیں کہ بھارت میں آنے والے کچھ دریا چین سے نکلتے ہیں اور ہمارے ہاں دریائے ہلمند کا مسئلہ  افغانستان کے ساتھ چل رہا ہے جس پر ماضی میں کسی نہ کسی طرح اتفاق ہوا اور پھر مختلف ادوار میں اس کے وعدے پورے نہیں ہوئے۔ میرے خیال میں جن ممالک کو ہائیڈرو پولیٹکس سے شدید خطرہ ہے ان میں سے ایک پاکستان ہے، کیونکہ ہندوستانیوں نے کہا  ہے کہ ہم دریائے سندھ کے معاہدے کو معطل کر رہے ہیں اور یہ مسئلہ پاکستان کے 80 فیصد آبی وسائل کو متاثر اور محدود کر دے گا۔ اس مسئلے کا ہمارے اور افغانستان کے درمیان پانی کے تناؤ سے بالکل بھی موازنہ نہیں نہیں کی سکتا ہے (تقریباً 500 ملین کیوبک میٹر کے اعداد و شمار کے ساتھ)۔

سندھ طاس یا سندھ آبی معاہدے میں بہت وسیع بحث شامل ہے، اس طرح کہ پاکستان کے تقریباً 80% لوگوں کی روزی روٹی ان دریاؤں سے وابستہ ہے۔ اس لیے میری رائے میں پانی کے مسئلے کو کبھی بھی دوسرے تنازعات کا یرغمال نہیں بنانا چاہیئے۔ کیونکہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر اتفاق کیا گیا ہے اور کسی کو بھی ان آبی وسائل کو یرغمال نہیں بنانا چاہیئے جو دونوں ممالک کے شہریوں کے درمیان مشترک ہیں۔ یہ اس مسئلے سے متعلق تمام بین الاقوامی قانونی قواعد اور انسانی ہمدردی کے تحفظات کی تحریف کو ظاہر کرتا ہے۔ ان وسائل میں سمندر کی طرح پانی کے وسائل بھی شامل ہیں جو ملکوں کے درمیان مشترک ہیں اور یہ مسئلہ ہندوستان اور پاکستان اور ایران اور افغانستان دونوں کے درمیان حل ہونا چاہیئے۔

سوال: اگر آپ آخر میں کسی خاص نکتہ کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں تو ہم استفادہ کریں گے؟
میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے اور پاکستان کے درمیان تعلقات کے تناظر میں علمی اور سائنسی تعلقات بہت کمزور ہیں، آخر میں یہ ضرور کہوں گا کہ پاکستان میں متعلقہ تعلیمی اداروں کے درمیان باہمی تعاون کی راہیں تلاش کرنی چاہیں، ہم ایران اور پاکستان کے درمیان اس رابطہ کو بہت قوی و مضبوط کرسکتے ہیں۔

اصل لنک:
https://ana.ir/fa/news/991353/

متعلقہ مضامین

  • اسلام آباد میں تعینات سابق ایرانی سفیر ڈاکٹر ماشاءاللہ شاکری کے انٹرویو سے اقتباس (دوسری قسط)
  • عنوان: موجودہ عالمی حالات
  • ایران کی پاکستان کو سیلاب کی تباہ کاریوں پر امدادی سرگرمیوں میں مدد کی پیشکش
  • ایران میں مسلح افراد سے جھڑپ میں ایک پولیس اہلکار ہلاک
  • پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریاں؛ ’’ایران اس مشکل گھڑی ہر طرح کے تعاون، امداد کیلئے تیار ہے‘‘
  • ٹرمپ کی کنفیوژن
  • امریکا کے کہنے پر ہمیں غیر مسلح کیا تو لبنان تباہ ہوجائے گا؛ سربراہ حزب اللہ
  • پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکی رپورٹ مسترد کر دی
  • خیبر پختونخوا: بارشوں اور فلش فلڈ سے 43 افراد جاں بحق، درجنوں زخمی، مکانات تباہ
  • بھارتی وزیراعظم کے ایٹمی دھمکیوں اور جھکنے سے انکار کے بیان پر وزیردفاع خواجہ آصف کا ردعمل بھی آگیا