UrduPoint:
2025-07-05@15:49:17 GMT

ٹرمپ نے ٹیکسوں اور اخراجات میں کمی کے بل پر دستخط کر دیے

اشاعت کی تاریخ: 5th, July 2025 GMT

ٹرمپ نے ٹیکسوں اور اخراجات میں کمی کے بل پر دستخط کر دیے

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 05 جولائی 2025ء) صدر ٹرمپ کے لیے سیاسی طور پر یہ مالیاتی پیکج اتنا اہم تھا کہ انہوں نے اسے امریکی کانگریس سے منظور کروانے کی بھرپور کوشش کی اور اس میں کامیاب بھی رہے۔ ان کوششوں کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلا کہ امریکی ایوان نمائندگان اور سینیٹ پر مشتمل کانگریس میں ریپبلکن پارٹی کے اراکین نے تقریباﹰ متفقہ طور پر اس قانونی بل کی حمایت کی تھی اور مستقبل میں یہ اقدام ڈونلڈ ٹرمپ کی دوسری مدت صدارت کے دوران کیے گئے اہم ترین سیاسی مالیاتی فیصلوں میں شمار کیا جائے گا۔

یوکرین جنگ: پوٹن کے ساتھ بات چیت میں پیشرفت نہ ہو سکی، ٹرمپ

صدر ٹرمپ، جنھوں نے اس بل کو ''ایک بڑا اور خوبصورت بل‘‘ قرار دے رکھا ہے، نے وائٹ ہاؤس میں جب اس مسودہ قانون پر دستخط کیے، تو ان کی کابینہ اکے اراکین ورکانگریس میں ریپبلکن نمائندگان بھی ان کے ارد گرد کھڑے تھے۔

(جاری ہے)

کئی ٹریلین ڈالر کا مالیاتی پیکج

ٹیکسوں اور اخراجات میں کمی کے اس پیکج کی مالیت کئی ٹریلین ڈالر بنتی ہے۔

صدر ٹرمپ اس پیکج کو ملکی کانگریس سے ایک ایسے وقت پر منظور کروانے میں کامیاب رہے، جب قانون سازی کی اس کوشش کے دوران کئی مرتبہ اس بل کی منظوری تقریباﹰ ناممکن نظر آتی تھی۔

ٹرمپ کی پیش کردہ جنگ بندی کی ’حتمی‘ تجاویز کا جائزہ لے رہے ہیں، حماس

اس کے علاوہ اپنی پارلیمانی منظوری اور پھر باقاعدہ قانون بننے سے پہلے اس مسودہ قانون نے امریکہ کو سیاسی حوالے سے واضح طور پر تقسیم بھی کر دیا تھا اور بہت سے ماہرین اسے واضح طور پر متنازعہ اور غیر منصفانہ بھی قرار دے رہے تھے۔

لیکن ڈونلڈ ٹرمپ نے، جنہوں نے اس بل پر دستخطوں کے لیے خود ہی اپنے لیے چار جولائی کی ڈیڈ لائن مقرر کر رکھی تھی، ابھی جمعرات تین جولائی کے روز ہی اس بل کو کانگریس سے حتمی طور پر منظور کروایا تھا۔

پھر کانگریس سے منظوری کے اگلے ہی روز صدر ٹرمپ کے دستخطوں سے یہ بل امریکی یوم آزادی کے موقع پر باقاعدہ قانون بھی بن گیا۔

دستخطوں کے بعد صدر ٹرمپ نے کیا کہا؟

ٹیکسوں اور ریاستی اخراجات میں کمی کے اس بہت بڑے مالیاتی پیکج کے مسودہ قانون پر اپنے دستخطوں کے بعد امریکی صدر نے کہا، ''امریکہ جیت رہا ہے، اور ایسے جیت رہا ہے، جیسے آج سے پہلے امریکہ کبھی نہیں جیتا تھا۔

‘‘

امریکی غیر ملکی امداد میں کٹوتی سے 14 ملین اموات کا خطرہ، رپورٹ

ساتھ ہی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مزید کہا، ''وعدے کیے گئے، وعدے پورے کیے گئے، ہم نے اپنے وعدے پورے کر دیے۔‘‘

مختلف خبر رساں اداروں نے اس بارے میں اپنی رپورٹوں میں لکھا ہے کہ امریکی بجٹ سے متعلق اس انتہائی کلیدی نوعیت کی قانون سازی کو ڈونلڈ ٹرمپ کی بطور صدر آج تک کی اہم ترین سیاسی کامیابیوں میں سے ایک قرار دیا جا سکتا ہے۔

مالیاتی پیکج میں ہے کیا؟

اس پیکج میں صدر ٹرمپ نے عملی طور پر جو کچھ کر دکھایا ہے، اس میں ان کے وہ انتخابی وعدے بھی شامل ہیں، جو انہوں نے اپنی گزشتہ صدارتی مہم کے دوران امریکی ووٹروں سے کیے تھے۔

نیویارک میئر الیکشن: ٹرمپ نوجوان مسلم امیدوار پر برہم کیوں؟

ان میں مثال کے طور پر یہ بھی شامل ہے کہ ہوٹلوں اور ریستورانوں میں کارکنوں کو ملنے والی ٹپ پر کوئی ٹیکس ادا نہیں کرنا پڑے گا۔

اسی طرح سوشل سکیورٹی کی مد میں عام شہریوں یا قانونی طور پر امریکہ میں مقیم غیر ملکیوں کو ہونے والی آمدنی پر بھی کوئی ٹیکس ادا کرنا ضروری نہیں ہو گا۔

اس بل پر دستخطوں کے بعد صدر ٹرمپ نے ریپبلکن اراکین کانگریس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا، ''اس قانون سازی کی وجہ سے ہمارا ملک اب اقتصادی طور پر ایک راکٹ شپ بن جائے گا۔‘‘

ناقدین کا موقف

اس نئے قانون کے تحت امریکہ میں بہت سے باشندو‌ں کو ملنے والی طبی امداد یا Medicaid اور ضرورت مند افراد کو اشیائے خوراک کی خریداری کے لیے دی جانے والی فوڈ اسٹیمپس میں کمی بھی کر دی جائے گی۔

امریکہ: ڈونلڈ ٹرمپ کی ’تباہ کُن پالیسیوں‘ کے خلاف ہزاروں مظاہرین سڑکوں پر

یہی وجہ ہے کہ بل کے ناقدین کے مطابق اس نئے قانون سے زیادہ فائدہ امراء کو ہو گا جبکہ کم آمدنی والے کئی ملین امریکی باشندوں کو اپنی ہیلتھ انشورنس، خوراک کی صورت میں ریاستی امداد اور مالیاتی استحکام کے حوالے سے تنزلی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

قطر میں امریکی ایئر بیس پر ایران کا حملہ ’علامتی‘، دفاعی ماہر

امریکی کانگریس کے غیر جانبدار 'اسکور کیپر‘ کے مطابق صرف اس نئے قانون کی وجہ سے امریکہ میں 17 ملین کارکنوں کو دستیاب طبی دیکھ بھال کی سہولیات ختم یا بہت کم ہو جائیں گی۔ دوسری طرف بہت امیر افراد اور بڑی بڑی کاروباری کارپوریشنوں کو ٹیکسوں میں ملنے والی چھوٹ اور زیادہ ہو جائے گی۔

اس بل پر ووٹنگ کے دوران کسی بھی ڈیموکریٹ رکن کانگریس نے اس مسودہ قانون کے حق میں ووٹ نہیں دیا تھا۔

امریکی کانگریس کے بجٹ آفس کے اندازوں کے مطابق صرف اس ایک پیکج کے باعث اگلی ایک دہائی میں امریکی بجٹ کے خسارے میں 3.

3 ٹریلین ڈالر کا اضافہ ہو جائے گا۔

ادارت: شکور رحیم

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے مالیاتی پیکج کانگریس سے دستخطوں کے ڈونلڈ ٹرمپ کے دوران ٹرمپ کی

پڑھیں:

صدر ٹرمپ کی تباہ کن پالیسیاں

امریکی صدر ٹرمپ کی پالیسیاں دنیا کو روز ایک نئے بحران کی طرف دھکیل رہی ہیں۔ صدر ٹرمپ اور ان کے مخصوص ساتھی فیصلہ کرتے ہوئے امریکی آئین کا بھی خیال نہیں کرتے۔

امریکی نظام سے منحرف دانشور نوم چومسکی کا کہنا ہے کہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد ہر آنے والے امریکی صدر نے کانگریس کی منظوری کے بغیر دیگر ممالک پر حملے کیے ہیں مگر صدر ٹرمپ ان سب سے آگے نکل گئے ہیں۔ صدر ٹرمپ ایران کی ایٹمی تنصیبات کو مکمل تباہ کرنے کے بیانیے پر قائم ہیں۔ ایرانی حکومت کا علیحدہ مؤقف ہے مگر اگر امریکی حملہ کے نتیجے میں تابکاری کے اثرات پھیلتے تو صرف ایران ہی نہیں بلکہ پاکستان اور افغانستان کے علاوہ ترکی اور مشرقِ وسطیٰ کے ممالک بھی اس سے متاثر ہوتے۔

صدر ٹرمپ جب اقتدار میں آئے تو غزہ میں حماس کی مزاحمت جاری تھی۔ اسرائیل اپنی مسلسل فوجی کارروائیوں کے باوجود غزہ پر قبضہ نہیں کر پا رہا تھا۔ صدر ٹرمپ کے لیے اسرائیل کی ناکامی ناقابلِ برداشت تھی۔

صدر ٹرمپ نے ایک طرف تو اسرائیل کو دی جانے والی فوجی امداد میں اضافہ کیا اور جب سلامتی کونسل میں اسرائیل کی مذمت اور جنگ بندی کی قراردادیں پیش ہوئیں تو امریکا نے اسے ویٹو کردیا۔ صدر ٹرمپ نے اقتدار میں آتے ہی امریکی یونیورسٹیوں میں ایک آپریشن شروع کیا۔ اس آپریشن کا مقصد امریکا کی یونیورسٹیوں میں فلسطین کے حق میں مظاہروں کو ختم کرنا اور غزہ کے لیے آواز اٹھانے والے طلبہ اور اساتذہ کو عبرت کا نشان بنانا تھا۔

امریکا کے آئین میں کی گئی پہلی ترمیم کے تحت امریکا کے شہریوں کے آزادئ اظہار اور آزادئ صحافت کے تحفظ کی یقین دہانی کرائی گئی تھی۔ امریکی آئین کی اسی شق کے تحت امریکا کی یونیورسٹیوں میں علمی آزادی Academic Freedom کا ادارہ انتہائی مستحکم ہوا تھا مگر صدر ٹرمپ نے علمی آزادی کے ادارے کو ختم کرنے کے لیے دنیا کی مشہور ہارورڈ اور کولمبیا یونیورسٹی میں دی جانے ولی گرانٹ کو معطل کردیا۔ امریکی حکومت نے دیگر یونیورسٹیوں پر دباؤ ڈالا کہ فلسطین کی حمایت کرنے والے اساتذہ اور طلبہ کو یونیورسٹی سے نکال دیا جائے، پھر ان تمام غیر ملکی طلبہ کی گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوا۔

ان طلبہ کو امریکی پولیس نے ہراساں کیا اور انھیں جلاوطن کرنے کی کوشش کی گئی۔ ان میں سے ایک فلسطینی نژاد محمد خلیل بھی تھے۔ محمد خلیل نے امریکا کی مختلف یونیورسٹیوں میں غزہ پر اسرائیل کے حملہ کے خلاف مظاہروں اور دھرنوں کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

محمد خلیل کولمبیا یونیورسٹی کے طالب علم ہیں، وہ امریکا میں Parmenent Resident ہیں۔ محمد خلیل کی شادی امریکی شہری سے ہوئی ہے مگر محمد خلیل کو فیڈرل پولیس نے گرفتار کیا اور 104 دن انھیں کنسنٹریشن کیمپ میں رکھا گیا۔ محمد خلیل نے ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ اس کو انفورسمنٹ کنسنٹریشن کیمپ میں رکھا گیا۔ اس کیمپ میں ایک بیرک میں 70افراد قید تھے۔ اس میں لائٹیں دن را ت جلتی رہتی تھیں اورکسی شخص کی پرائیویسی کا تصور نہیں تھا۔ جب فیڈرل کورٹ نے محمد خلیل کی نظربندی کو غیر قانونی قرار دیا تو محمد خلیل کو رہائی ملی۔

 صدر ٹرمپ نے برسوں سے آباد غیر ملکی امیگرنٹس کو گرفتار کر کے ملک بدر کرنے کے احکامات دیے۔ امریکا سے آنے والی رپورٹوں کے مطابق امریکا کی فیڈرل پولیس نے سڑکوں پر چلنے والے افراد تک کو گرفتار کرکے کنسنٹریشن کیمپوں میں بھیج دیا۔ امریکا دراصل غیر ملکی آبادکاروں کا ملک ہے۔

جب ایک چرچ کی خاتون پادری نے ان غیر ملکی شہریوں کے ملک بدری کے نقصانات بیان کیے اور امریکی حکومت کے اقدامات کو غیر انسانی قرار دیا تو صدر ٹرمپ نے اس پادری کی سب کے سامنے توہین کی۔ جنوبی افریقہ نے اسرائیل کی غزہ میں جارحیت اور فلسطینی عوام کی نسل کشی کے خلاف بین الاقوامی عدالت انصاف میں مقدمہ دائر کیا۔ عدالت نے طویل سماعت کے بعد اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو کو جنگی جرائم کے قوانین کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیا اور نیتن یاہو کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے گئے۔ اسرائیل اور امریکا نے عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کو ماننے سے انکار کیا، صدر ٹرمپ کا غصہ ٹھنڈا نہ ہوا۔ انھوں نے عالمی عدالت انصاف کی تین خاتون ججوں کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کر دیے۔

 صدر ٹرمپ نے اقتدار میں آنے کے بعد یہ منصوبہ پیش کیا تھا کہ فلسطینی شہری غزہ کو خالی کردیں اور اس خوبصورت مقام پر ہاؤسنگ سوسائٹی اور ٹورسٹ ریزورٹ قائم کیے جائیں۔ صدر ٹرمپ کے اس خیال کو عملی شکل دی جائے تو فلسطینی ایک دفعہ پھر اپنے وطن کو چھوڑنے کے بعد بے گھر ہوجائیں گے، وہ ملکوں ملکوں پناہ کی تلاش میں مارے مارے پھریں گے۔ امریکی اخبارات نے لکھا تھا کہ صدر ٹرمپ کے داماد رئیل اسٹیٹ کے کاروبار سے منسلک ہیں۔

انھوں نے چند سال قبل غزہ کا دورہ کیا تھا۔ صدر ٹرمپ اپنے داماد کے اس آئیڈیے کو عملی شکل دینے کے لیے لاکھوں انسانوں کو قربان کرنا چاہتے ہیں۔ اسرائیل کے ایک اخبار نے صدر ٹرمپ اور اسرائیلی وزیراعظم کے مابین ہونے والے معاہدے کی تفصیلات بھی ظاہرکر دی ہیں۔ اس معاہدے کے تحت غزہ کو تین عرب ممالک کی نگرانی میں دے دیا جائے گا۔ حماس کے حامیوں کو غزہ سے نکال دیا جائے گا۔ دنیا میں اس سے زیادہ غیر انسانی منصوبہ اورکیا ہوسکتا ہے۔ صدر ٹرمپ کے اقتدار میں آتے ہی مختلف امریکی اداروں کو بند کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس میں یو ایس ایڈ کا ادارہ بھی شامل ہے۔ یو ایس ایڈ کا ادارہ دنیا کے بہت سے ممالک میں تعلیم ، صحت، صاف پانی اور کلائیمیٹ چینج جیسے منصوبوں کے لیے فنڈنگ فراہم کرتا تھا۔ یو ایس ایڈ کے تحت پاکستان میں 30 کے قریب پروجیکٹ پر کام ہو رہا تھا۔

ان پروجیکٹ کے بند ہونے سے جیکب آباد سمیت کئی شہروں میں صاف پانی کے پلانٹ بند ہوگئے۔ کئی تعلیمی اداروں اور اسپتالوں کو دی جانے والی امداد بند ہوگئی۔ اب اسلام آباد میں قائم امریکی سفارت خانہ نے امریکا میں تعلیم کے حصول کے لیے ویزے حاصل کرنے والے طلبہ کو ہدایت کی ہے کہ اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس اوپن کردیں، اگر کسی طالب علم کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس میں ایسی پوسٹ وائرل ہوئی جس میں غزہ میں امریکی یا اسرائیلی مظالم کا ذکر ہو تو پھر متعلقہ طالب علم کے لیے ویزے کا حصول مشکل ہوجائے گا۔ صدر ٹرمپ نے نیویارک میئر کے لیے ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار ظہرانی کو کمیونسٹ پاگل قرار دیتے ہوئے ایشیائی اور افریقی افراد سے ایک دفعہ پھر نفرت کا اظہارکیا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق یو ایس ایڈ کے تحت دنیا بھر کے مختلف علاقوں میں ٹی بی کے خاتمہ کے پروجیکٹ چل رہے تھے جو اب بند ہوگئے۔

امریکی صدر ٹرمپ نے تجارتی جنگ کو ایک نئی شکل دیدی۔ مختلف ممالک کی برآمدات پر ٹیرف بڑھا دیا گیا۔ امریکی حکومت کے اس فیصلے سے پاکستان، بنگلہ دیش اور سری لنکا جیسے ممالک زیادہ متاثر ہوئے جو امریکا سے بارگیننگ کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ چین اور بھارت جن کا شمار دنیا کے چند بڑے صنعتی ممالک میں ہونے لگا ہے، ان ممالک نے امریکا کو ان کی شرائط پر ٹیرف کم کرنے پر مجبور کیا۔ صدر ٹرمپ کا اعلان تھا کہ وہ روس اور یوکرین کے درمیان جنگ کو ختم کرائیں گے۔ یوکرین نے اسی بناء پر صدر ٹرمپ کو اس نوبل پرائز کے لیے نامزد کیا تھا۔

اسی طرح صدر ٹرمپ نے بھارت اور پاکستان کے درمیان کئی روزہ جنگ کو رکوانے کا سہرا بھی لیا مگر صدر ٹرمپ وزیراعظم مودی کو واشنگٹن میں پاکستان سے مذاکرات کے لیے تیار نہیں کرسکے۔ اب بھی پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں ایسا ہی تناؤ ہے جیسا مئی کے مہینے میں تھا۔ صدر ٹرمپ نیو لبرل ازم کا سیاہ چہرہ ہیں۔ نیو لبرل ازم کا مطلب ہی سرمایہ دار ممالک کی دنیا بھر پر بالادستی ہے جو اس صدی میں سامراج کی نئی قسم ہے۔ حکومت پاکستان کو نئی صورتحال میں دوبارہ اپنے فیصلے پر غور کرنا چاہیے۔

متعلقہ مضامین

  • ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹیکس و اخراجات سے متعلق بگ بیوٹی فل بل پر دستخط کر دیئے ، غزہ معاہدے کیلئے پرامید
  • فوجی اخراجات اور امیگریشن اداروں کے بجٹ میں اضافہ،ٹرمپ نے بگ بیوٹی فل بل پر دستخط کر دیئے
  • ٹرمپ کا بڑا قدم: امریکا کی تاریخ کا سب سے بڑا ٹیکس کٹ، اخراجاتی کمی اور سرحدی سیکیورٹی منصوبہ قانون بن گیا
  • ٹرمپ نے بگ بیوٹی فل بل پر دستخط کر دیے، غزہ میں جنگ بندی کا عزم
  • ٹرمپ نے بگ بیوٹی فل بل پر دستخط کر دیئے، غزہ میں جنگ بندی کا عزم
  • امریکی صدر ٹرمپ نے ٹیکس و اخراجات کے ’’بگ بیوٹی فل بل‘‘ پر دستخط کر دیے
  • ٹرمپ کا ٹیکس بل کانگریس سے منظور، امریکی مالیاتی پالیسی میں بڑی تبدیلی
  • امریکہ میں غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث افراد کا گرین کارڈ منسوخ کرنے کا فیصلہ ، وارننگ جاری
  • صدر ٹرمپ کی تباہ کن پالیسیاں