ٹیکساس میں ہلاکتوں کی تعداد 24 تک پہنچ گئی
اشاعت کی تاریخ: 5th, July 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 05 جولائی 2025ء) امریکی حکام کے مطابق ریاست ٹیکساس میں طوفانی بارشوں کے نتیجے میں آنے والے تباہ کن سیلاب کے بعد امدادی کارکن دریائی کنارے کے ایک سمر کیمپ سے لاپتا کم از کم 20 بچیوں کی تلاش میں مصروف ہیں۔
ٹیکساس کی کیر کاؤنٹی کے شیرف لیری لیتھا نے مقامی وقت کے مطابق جمعے کی شام ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ سیلاب کی وجہ سے تب تک ہلاکتوں کی تعداد چوبیس ہو چکی تھی، جب کہ امدادی ٹیمیں سان انتونیو کے شمال مغرب میں واقع علاقے میں پھنسے ہوئے افراد تک پہنچنے اور انہیں ریسکیو کرنے کی کوششوں میں تھیں۔
ٹیکساس کے نائب گورنر ڈین پیٹرک نے اس سے قبل ایک نیوز کانفرنس میں کہا تھا کہ ہلاک ہونے والوں میں کچھ بچے بھی شامل ہیں۔
(جاری ہے)
کاؤنٹی شیرف نے بتایا کہ کچھ بچے اب بھی لاپتا ہیں اور تقریباً 23 سے 25 تک افراد کا تاحال کوئی سراغ نہیں ملا۔
یہ بچیاں کیمپ مسٹک نامی لڑکیوں کے ایک سمر کیمپ کا حصہ تھیں، جو گواڈیلوپ دریا کے کنارے لگایا گیا تھا۔
رات بھر ہونے والیشدید بارش کے باعث دریا کا پانی صرف 45 منٹ میں 26 فٹ (آٹھ میٹر) بلند ہو گیا تھا۔ڈین پیٹرک کا تاہم کہنا تھا کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ سب بچیاں ہلاک ہو چکی ہیں اور ہو سکتا ہے کہ وہ کسی درخت پر پناہ لیے ہوئے ہوں اور ان سے رابطہ منقطع ہو۔
ٹیکساس کے گورنر گریگ ایبٹ نے کہا کہ وہ اس خطے کی متاثرہ کاؤنٹیوں میں وسائل بڑھانے کے لیے ''ڈیزاسٹر ڈیکلیریشن‘‘ پر دستخط کر رہے ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعے کی شب صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ''سیلاب خوفناک ہے، یہ واقعی چونکا دینے والا ہے۔‘‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ریاست ٹیکساس کو کوئی وفاقی امداد ملے گی، تو صدر ٹرمپ نے کہا: ''جی ہاں، یقیناً، ہم خیال رکھیں گے۔ ہم گورنر کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔‘‘
متاثرہ علاقے میں بڑے پیمانے پر امدادی کارروائیاں جاری ہیں، جن میں تقریباً 500 اہلکار اور 14 ہیلی کاپٹر امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔
ٹیکساس کے ملٹری اہلکار میجر جنرل ٹامس سُوئلزَر نے صحافیوں کو بتایا کہ ہنگامی امدادی اہلکاروں نے کم از کم 237 افراد کو بچایا اور محفوظ مقام پر منتقل کیا، جن میں سے 167 کو ہیلی کاپٹروں کی مدد سے ریسکیو کیا گیا۔
ریاستی پبلک سیفٹی ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر فری مین مارٹن نے شام کی کانفرنس میں کہا کہ صبح کے وقت خراب موسم کی وجہ سے امدادی کارکنوں کو متاثرہ علاقے میں داخل ہونے میں مشکل پیش آئی۔
ان کا کہنا تھا کہ جوں جوں دن گزرا اور موسم بہتر ہوا، مزید افراد کو بچایا گیا۔ریاستی و مقامی حکام نے عوام کو اس علاقے کا سفر کرنے سے خبردار کیا ہے، جہاں کیمپ گراؤنڈز دریا کے ساتھ ساتھ موجود ہیں اور درجنوں سڑکیں ناقابل استعمال ہو چکی ہیں۔
سوشل میڈیا پر جاری کردہ ویڈیوز میں گھروں اور درختوں کو شدید سیلابی ریلے میں بہتے دیکھا جا سکتا ہے۔
رات بھر میں 12 انچ تک بارش ہوئی، جو کیر کاؤنٹی کی سالانہ اوسط بارش کا تقریباً ایک تہائی حصہ بنتی ہے۔گورنر ایبٹ نے مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ایکس پر ایک ویڈیو شیئر کی، جس میں ایک متاثرہ شخص کو ایک درخت کی چوٹی سے ریسکیو کیا جا رہا تھا، جب کہ نیچے سیلابی پانی بہہ رہا تھا۔ ریاستی گورنر نے لکھا، ''ایسی ایئر ریسکیو کارروائیاں چوبیس گھنٹے جاری ہیں۔ جب تک ہر ایک فرد کا سراغ نہ مل جائے، ہم نہیں رکیں گے۔‘‘
واضح رہے کہ جون کے وسط میں بھی سان انتونیو میں اچانک سیلاب کے نتیجے میں کم از کم 10 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
عاطف توقیر، اے پی اور اے ایف پی کے ساتھ
ادارت: مقبول ملک
For tweets & pictures: https://p.
dw.com/p/4wz1q
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے تھا کہ
پڑھیں:
طلباء کے مقابلے میں اساتذہ کی تعداد زیادہ ضلعی افسر سے وضاحت طلب
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251103-2-15
بدین (نمائندہ جسارت)طلباء کے مقابلے میں اساتذہ کی غیر متناسب تعداد ، ضلعی تعلیم افسر سے وضاحت طلب۔سیکریٹری اسکول ایجوکیشن اینڈ لٹریسی ڈیپارٹمنٹ سندھ کی جانب سے ضلعی تعلیم افسر (سیکنڈری و ہائی اسکولز) بدین احمد خان زئنور سے وضاحت طلب کی گئی ہے محکمے کی جانب سے جاری کردہ خط میں کہا گیا ہے کہ گورنمنٹ گرلز لوئر سیکنڈری اسکول احمد نوح سومرو، بدین میں صرف 90 طالبات داخل ہیں، جب کہ اس اسکول میں 18 اساتذہ تعینات ہیں، جو اسکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی ایس ٹی آر (اسٹوڈنٹ-ٹیچر ریشو) پالیسی کی کھلی خلاف ورزی ہے خط میں مزید کہا گیا ہے کہ پالیسی کے تحت سندھ بھر میں 10 ہزار سے زائد اساتذہ کو ایک اسکول سے دوسرے اسکول میں منتقل کیا گیا تاکہ طلباء اور اساتذہ کا تناسب متوازن رکھا جا سکے، لیکن ضلعی تعلیم افسر بدین کی جانب سے اضافی اساتذہ کی منتقلی کے لیے کوئی تجویز کمیٹی کو پیش نہیں کی گئی نوٹس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ضلعی سطح پر گریوینس کمیٹی میں بھی اس صورتحال کی درستگی کے لیے موقع دیا گیا، لیکن اساتذہ کی منتقلی کے لیے کوئی تجویز نہیں دی گئی، جو محکمے کی پالیسی اور قواعد کی خلاف ورزی اور غفلت کی علامت ہے، جو کہ بدانتظامی کے زمرے میں آتی ہے سیکریٹری آفس کراچی کی جانب سے جاری کردہ خط میں ضلعی تعلیم افسر کو تین دن کے اندر تحریری وضاحت پیش کرنے کی ہدایت کی گئی ہے، بصورت دیگر ان کے خلاف ای اینڈ ڈی رولز کے تحت کارروائی شروع کی جائے گی یاد رہے کہ ایسی صورتحال بدین کے کئی اسکولوں میں پائی جاتی ہے، جہاں طلباء کم مگر سفارش یا بھاری رشوت کے عوض اساتذہ زیادہ مقرر کیے گئے ہیں۔تازہ مثال بدین شہر کے گورنمنٹ بوائز لوئر سیکنڈری اسکول بیراج کالونی (سیمز کوڈ 401010891) کی ہے، جہاں ضرورت سے زیادہ اساتذہ تعینات کیے گئے ہیں میڈیا پر خبریں نشر ہونے کے باوجود محکمہ تعلیم کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ دوسری جانب، پابندی سے ڈیوٹی کرنے والے اساتذہ کو مختلف بہانوں سے ہراساں بھی کیا جا رہا ہے محکمہ تعلیم بدین بدعنوانی، اقربا پروری اور ناانصافیوں کی داستانوں سے بھرا ہوا ہے شہر کے مشہور بوائز ہائی اسکول بدین میں، جہاں گریڈ 20 کے 4، گریڈ 19 کے 6 اور گریڈ 18 و 17 کے متعدد اساتذہ موجود ہیں، وہاں گریڈ 16 کی ایچ ایس ٹی شہنیلا احمد میمن کو اسکول کا ہیڈ مقرر کیا گیا ہے، جس پر شہریوں نے شدید تشویش کا اظہار کیا ہے ۔