اسلام آباد:
سابق خاتون سینیٹر 17 لاکھ روپے کے بجلی و گیس کے بل ادا کرکے نہیں گئیں، آدھی روٹی ہم کھاتے ہیں آدھی چوہے، پارلیمنٹ لاجز کی حالت زار پر سینیٹرز کمیٹی میں پھٹ پڑے۔

تفصیلات کے مطابق سینٹ ہاؤس کمیٹی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی ڈپٹی چیئرمین سینٹ سیدال خان ناصرکی زیر صدارت منعقد ہوا۔ وزیرمملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے کمیٹی میں اراکین سینیٹ کے سوالوں کے جوابات دیئے۔

اجلاس شروع ہوا تو وفاقی ترقیاتی ادارے سی ڈی اے کے افسران نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ پارلیمنٹ لاجز میں اراکین پارلیمنٹ کی رہائش گاہوں کی مرمت، اے سی لگوانے اور دیگر کاموں کیلئے 48درخواستیں موصول ہوئی ہیں، ہم ان پر کام کررہے ہیں، بارہ تیرہ سینیٹرز کے سویٹس کو رہنے کے قابل بنا دیا ہے، سی ڈی اے تمام کام پیپرا رولز کے مطابق کررہا ہے۔

سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ سی ڈی اے کی جانب سے دی گئی پریذنٹیشن بالکل جھوٹی ہے، سی ڈی اے کا ایک اے ڈی آکر کہتا ہے مجھے صاحب سے ملوائیں، سی ڈی اے کی طرف سے کوئی عملی کام نہیں ہورہا۔

چیئرمین کمیٹی سیدال خان ناصر نے کہا جن لوگوں نے 16 ماہ سے کام نہیں کیا ان کے خلاف آج ایکشن بھی ہوگا۔

سینیٹر پونجھومل بھیل نے کہا پارلیمنٹ لاجز میں صفائی کا نظام بالکل نہ ہونے کے برابر ہے ہر طرف گندگی نظر آتی ہے، سی ڈی اے ڈی جی کا اخلاق بہت اچھا ہے لیکن عملی بالکل صفر ہے۔

وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے کہا کہ وزیر داخلہ نے اسپیکر قومی اسمبلی سے کہا ہے اگر آپ سی ڈی اے سے کام نہیں کروانا چاہتے تو ہم کسی اور ادارے کو دے دیں، 104لاجز پر کام شروع ہونے والا ہے، اگر پیسے مل گئے تو 6 ماہ میں کام مکمل کرکے دیں گے، دو دو سال سے ٹھیکے داروں کو پیسے نہیں ملے، اسپیکر صاحب کی ہدایت کے مطابق تمام سینیٹرز کے لاجز ایک ہی مرتبہ مرمت کروالیں، 104 لاجز کا ٹینڈر اگلے دو دن میں ہوجائے گا، چار مہینوں کیلئے لاجز خالی کرکے دیں۔

سینیٹر خلیل طاہر سندھونے کہا کہ ڈپٹی چئیرمین سینیٹ کی درخواست پر میرا لاج ایک سینیٹر صاحبہ کو دیا گیا، وہ سینیٹر صاحبہ 17 لاکھ کے بل دئیے بغیر سامان اٹھا کر راتوں رات چلی گئیں، 13لاکھ بجلی جبکہ 4 لاکھ 70 ہزار گیس کا بل ہے، میں تو یہ بل جمع نہیں کروا سکتا۔

چیئرمین کمیٹی سیدال خان ناصرنے کہا کہ وہ سابق ڈپٹی چئیرمین سینٹ کی بیٹی ہیں، میں نے خود انہیں فون کرکے کہا تھا کہ بل ادا کریں، خلیل طاہر سندھونے صفائی کے معاملے پر بات کرتے ہوئے کہاکہ میرے لاج میں آدھی روٹی میں کھاتا ہوں، آدھی چوہے کھاتے ہیں۔

اراکین کمیٹی کی شکایتیں اور گلے سننے کے دوران وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے کہا میں وزیر مملکت داخلہ ہوں، میں نے اپنا لاج (رہائش گاہ) خود ٹھیک کروایا ہے، میرے پیسے سی ڈی اے نے ابھی تک نہیں ادا نہیں کیے، وزیر داخلہ سی ڈی اے میں بڑے پیمانے پر اصلاحات لانے جارہے ہیں، سی ڈی اے کو کسی بھی کارپوریٹ ادارے کی طرح فعال اور جدید خطوط پر استوار کیا جائے گا، ماضی میں سی ڈی اے میں ایسے مستری بھرتی ہوئے پڑے ہیں جن کو کیل بھی لگانا نہیں آتی۔

طلال چوہدری نے کہا کہ میرے لاج کے اوپر ایک رکن پارلیمنٹ رہتی ہیں، اس خاتون نے سیڑھیوں میں پانی کی ٹونٹیاں لگوا رکھی ہیں، وہ جب وہاں کپڑے دھوتی ہیں تو پانی سارا نیچے گرتا ہے، سی ڈی اے والے ٹونٹیاں اتارنے جاتے ہیں تو یہ خاتون ویڈیو بناتی ہیں اور دھمکیاں دیتی ہیں، سر! مہربانی فرمائیں یہ ٹونٹیاں اتروا دیں۔

چیئرمین کمیٹی نے سی ڈی اے حکام کو ہدایت کی کہ اراکین پارلیمنٹ کی شکایات کا ازالہ کیا جائے اور نئے 140 لاجز کے تعمیراتی منصوبے کو جلد مکمل کیا جائے

Post Views: 4.

ذریعہ: Daily Mumtaz

پڑھیں:

پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، جج سپریم کورٹ

سپریم کورٹ کے جج جسٹس جمال خان مندوخیل نے  سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کے تحت پابند ہوتا ہے۔

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت جاری ہے، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ سماعت کر رہا ہے۔

وکیل ایف بی آر حافظ احسان نے مؤقف اپنایا کہ سیکشن 14 میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، صرف اس کا مقصد تبدیل ہوا ہے، 63 اے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سمیت کئی کیسز ہیں جہاں سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کی قانون سازی کی اہلیت کو تسلیم کیا ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا قومی اسمبلی مالی سال سے ہٹ کر ٹیکس سے متعلق بل پاس کر سکتی ہے، کیا آئین میں پارلیمنٹ کو یہ مخصوص پاور دی گئی ہے۔

حافظ احسان کھوکھر نے دلیل دی کہ عدالت کے سامنے جو کیس ہے اس میں قانون سازی کی اہلیت کا کوئی سوال نہیں ہے، جسٹس منصور علی شاہ کا ایک فیصلہ اس بارے میں موجود ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ وہ صورتحال علیحدہ تھی، یہ صورت حال علیحدہ ہے۔

حافظ احسان نے مؤقف اپنایا کہ ٹیکس پیرز نے ٹیکس ریٹرنز فائل نہیں کیے اور فائدے کا سوال کر رہے ہیں، یہ ایک اکیلے ٹیکس پیرز کا مسئلہ نہیں ہے، یہ آئینی معاملہ ہے،  ٹیکس لگانے کے مقصد کے حوالے سے تو یہ عدالت کا دائرہ اختیار نہیں ہے، عدالتی فیصلے کا جائزہ لینا عدالت کا کام ہے۔

انہوں نے اپنے دلائل میں کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ  قانونی طور پر پائیدار نہیں ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ ایک متضاد فیصلہ ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کے تحت پابند ہوتا ہے، حافظ احسان  نے مؤقف اپنایا کہ اگر سپریم کورٹ کا کوئی فیصلہ موجود ہے تو ہائیکورٹ اس پر عملدرآمد کرنے کی پابند ہے۔

اس کے ساتھ ہی ایف بی آر کے وکیل حافظ احسان کے دلائل مکمل ہوگئے اور اشتر اوصاف نے دلائل شروع کردیے۔

متعلقہ مضامین

  • برطانوی حکمران جماعت کے اراکین پارلیمنٹ کا اسرائیل میں داخلہ بند
  • قائمہ کمیٹی اجلاس میں محکمہ موسمیات کی پیشگوئی سے متعلق سوالات
  • قائمہ کمیٹی نے غلط پیش گوئیوں پر محکمہ موسمیات کے حکام کو آڑے ہاتھوں لے لیا
  • پی ٹی آئی کے 17 سینیٹرز نے قائمہ کمیٹیوں سے استعفیٰ
  • سیاسی ماحول میں ہلچل، سینیٹر علی ظفر استعفے جمع کرانے پارلیمنٹ پہنچ گئے
  • سیلاب کی تباہ کاریاں : پنجاب و سندھ کی سینکڑوں بستیاں اجڑ گئیں، فصلیں تباہ 
  • پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، جج سپریم کورٹ
  • قائمہ کمیٹی کا جنگلات کی کٹائی کا جائزہ،سیٹلائٹ نگرانی کی سفارش
  • قائمہ کمیٹی : گلگت بلستان کے وزیر کا جنگلات کی کٹائی میں ملوث ہونے کا انکشاف
  • غزہ میں ایک دن میں 53 فلسطینی شہید، 16 بلند عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن گئیں