ایسا شہابی پتھر جو ہمارے شمسی نظام سے بھی 3 ارب سال پرانا ہے
اشاعت کی تاریخ: 12th, July 2025 GMT
ماہرین نے خبردی ہے کہ رواں ماہ کے اوائل میں ہمارے شمسی نظام میں داخل ہونے والا نیا شہاب ثاقب ہمارے شمسی نظام سے بھی 3 ارب سال پرانا ہوسکتا ہے۔
ماہرینِ فلکیات کے مطابق ممکنہ طور پر یہ پتھر ہمارے شمسی نظام سے تقریباً 3 ارب سال قدیم ہے یعنی اس کی عمر تقریباً 7 ارب سال ہو سکتی ہے، جب کہ شمسی نظام کی عمر 4.
یہ صرف تیسرا انٹر اسٹیلر آبجیکٹ ہے جو ہمارے شمسی نظام میں داخل ہوتا دیکھا گیا، اس سے پہلے 2017 میں پہلا اور دوسرا 2019 میں داخل ہوا تھا۔
یونیورسٹی آف آکسفورڈ کے محققین کے مطابق 3I ATLAS نامی پتھر ہماری کہکشاں کے "thick disk" نامی خطے سے داخل ہوا ہے یعنی وہ حصہ جہاں ستارے نسبتاً پرانے ہیں اور اس بات کا امکان ہے کہ یہ 7 ارب سال پرانا ہو سکتا ہے۔
مطالعہ کرنے والے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ شمسی نظام سے باہر آنے والے کوئی بھی شہابی پتھر انٹر اسٹیلر ہونے کی وجہ سے نسبتاً زیادہ عمر رکھ سکتے ہیں اور 3I ATLAS شاید اب تک دیکھا گیا سب سے پرانا شہابی پتھر ہے۔
سائنسدانوں نے یہ اندازہ کامک-رے ایکسپوژر کی بنیاد پر لگایا گیا ہے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ارب سال
پڑھیں:
پاک افغان امن معاہدہ کتنا دیرپا ہے؟
یہ تو سب نے سن لیا کہ پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان امن معاہدہ ہوگیا۔ خواجہ آصف نے ملا یعقوب کو شکست فاش دی۔ قطر اور ترکیہ ضامن بنے۔ معاہدے کی شقوں پر عمل نہ ہونے کی صورت میں دونوں فریق سہ ماہی جائزہ لیں گے۔ یہ وعدہ کیا گیا کہ افغانستان سے اب دراندازی نہیں ہوگی، مہاجرین کے ساتھ بھی نرمی اختیار کی جائے گی۔
میڈیا کو بھی آگ بھڑکانے سے اجتناب کرنے کی ہدایت کی گئی۔ اب تجارت کے راستے بھی کھل جائیں گے۔ اطراف کے عوام خوشحالی کا منہ دیکھیں گے۔ جنگ و جدل بند ہوگا اور دہشتگردی کو شکست دی جائے گی۔
معاہدے کی سب شقیں خوش آئند ہیں، لیکن بنیادی سوال یہی ہے کہ یہ معاہدہ کتنا دیرپا ہے؟ یا یہ جنگ بندی عارضی ثابت ہوگی؟ امن کی کیفیت کی ضمانت کب تک ہے؟ بم دھماکوں اور دہشتگردی کے واقعات میں وقفہ کب تک رہے گا؟ امن کی خواہش ایک ارفع خواہش ہے مگر کیا اس خواہش پر عمل پیرا ہونا ممکن ہے؟ کیا افغانستان میں دہائیوں سے جاری جنگی صورتِ حال کو بدلا جا سکتا ہے؟ کیا دہشتگردی کے تاجروں کو کوئی اور روزگار فراہم کیا جا سکتا ہے؟ کیا جنگ کے گرد گھومتے افغانوں کا طرزِ زندگی اور طرزِ معاش تبدیل کیا جا سکتا ہے؟
پاکستان نے تقریباً 45 برس افغان مہاجرین کا بوجھ اٹھایا۔ بے سر و سامان حال میں آنے والے ان مہاجرین کو اپنی مملکت میں سر چھپانے کی جگہ دی گئی۔ روس کے استبداد سے بچ کر یہاں آنے والے ان مفلوک الحال لوگوں کے لیے یہ ایک جواب تھا۔
ایران میں بھی مہاجرین گئے مگر وہاں انہیں شہروں میں داخلے کی ممانعت رہی۔ وہاں دور دراز ویرانوں میں کیمپ بنائے گئے اور پھر انہیں ان کیمپوں سے نکلنے نہیں دیا گیا۔ یہ مہاجرین آج بھی انہی کیمپوں میں رہتے ہیں مگر ایرانی طرزِ معاشرت، معیشت اور حکومت کا حصہ نہیں بن سکے۔
دوسری طرف پاکستان نے اپنے سارے دروازے افغان مہاجرین کے لیے کھول دیے۔ انہیں اپنے گھروں میں جگہ دی گئی۔ انہیں جائیداد خریدنے کی اجازت ملی۔ انہیں کاروباروں میں سہولت فراہم کی گئی۔ یہاں تک کہ اسلام آباد کے بہت سے علاقے ان کے ’زیرِقبضہ‘ رہے۔ ان علاقوں سے گزریں تو محسوس ہوتا ہے کہ آپ کابل کے کسی بازار سے گزر رہے ہیں۔ ان کے رشتے ہمارے ساتھ بن گئے۔ ان کی نسلیں یہاں جوان ہوئیں، اور ان کے بچوں نے یہاں کے اسکولوں میں تعلیم حاصل کی۔
45 برس بہت طویل عرصہ ہوتا ہے۔ اس عرصے میں 2 نسلیں آگے بڑھ جاتی ہیں۔ بچہ پیدا ہو کر جوان اور درمیانی عمر کو پہنچ جاتا ہے، اور ایک اور نسل پیدا ہو کر جوان ہو چکی ہوتی ہے۔
اتنے برس کوئی جانور بھی ساتھ رہے تو مکمل وفادار بن جاتا ہے؛ کوئی اپنے محسنوں سے دغا نہیں کرتا۔ اتنے برس میں کمائے گئے احسانات کو ہلکا نہیں سمجھا جاتا۔ جس ملک میں 45 سال گزارے ہوں، اس ملک سے دغا نہیں کرنا چاہیے؛ وہاں کے احسانات اور وہاں کی حرمت کو تسلیم کرنا چاہیے۔
لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے تمام تر احسانات کے باوجود بعض طالبانوں نے ہم سے وفا نہیں کی۔ جہاں جہاں موقع ملا، اس دھرتی کو نقصان پہنچایا گیا۔ کبھی بم دھماکے کیے گئے، کبھی اغوا برائے تاوان میں ملوث پائے گئے، کبھی دہشتگردی میں ان کا نام سامنے آیا۔ کبھی جعفر ایکسپریس واقعے سے ان کے رابطے نکلے، کبھی اسکولوں پر حملوں میں ان کے نام آئے۔ تخریب کاری کے کئی واقعات ان کے نام ہوئے۔ ہماری مساجد اور مدرسوں میں بم نصب کیے گئے؛ ہمارے گھروں کو جلایا گیا۔
اس لیے اس معاہدے پر شک کی وجہ واضح ہے۔ وہ لوگ جو ہمارے احسانات کو بھول گئے، انہوں نے ہمارے بچوں کا قتل کیا، انہوں نے مساجد کو میدانِ کارزار بنایا، انہوں نے ہمارے بازاروں میں خوف پھیلایا اور ان کے ذریعے سرحد پار سے دہشتگرد آتے رہے۔ یہ سب وہی لوگ ہیں جنہیں ہمارا ممنون احسان ہونا چاہیے تھا، انہیں ہمارے ساتھ وفاداری دکھانی چاہیے تھی۔لیکن انہوں نے احسان فراموشی ہے کا مظاہرہ کیا بلکہ اگر اسے زیادہ سخت نہ سمجھا جائے تو یہ نمک حرامی ہے۔
اس معاہدے کی ایک وجہ ہماری جوابی کارروائیاں بھی ہیں۔ پہلی بار ہم نے صرف مذمت نہیں کی بلکہ بدلہ بھی لیا۔ ہمیں سبق سکھایا گیا۔ دہائیوں سے پھیلی بے بسی کو پسِ پشت رکھا گیا اور سرحد پار بھی یہ پیغام دیا گیا کہ ہم دوستوں سے محبت کرتے ہیں مگر جو دوست کے روپ میں دشمن بنے، انہیں بھی پہچانتے ہیں۔ پہلی بار ہمارا ردِ عمل اتنا شدید تھا کہ مذاکراتی میز کے سوا افغانوں کے پاس اور کوئی چارہ نہ رہا۔ امن معاہدے پر دستخط کرنے کے سوا کچھ اور ممکن نہ تھا۔
موجودہ پاک افغان کشیدگی میں پہلی بار یہ بات واضح ہوئی کہ ہارڈ سٹیٹ کیا ہوتی ہے اور اس کی ضرورت کس بنا پر پیش آچکی ہے۔
ہارڈ سٹیٹ سے مراد یہ ہے کہ اگر ہمارے خلاف افغانستان سے دہشتگردی کے حملے ہوں تو ہم صرف تعزیت نہیں کریں گے، صرف ورثاء کے لیے انعامی رقم کا اعلان بھی نہیں کریں گے، بلکہ اس کا بدلہ بھی لیں گے اور آخری حد تک لینے کے حق میں ہوں گے۔ ہم نے صرف تعزیتیں نہیں کرنی بلکہ مجرموں کو کیفرِ کردار تک بھی پہنچانا ہے۔ ہم نے صرف مرنے والوں کے لیے دعائیں نہیں کرنی بلکہ زندہ بچ جانے والوں کی سلامتی کے لیے اقدام بھی کرنا ہے۔
بات اب صرف افغان سرحد تک محدود نہیں ہارڈ سٹیٹ نے ہر اس فرد اور ادارے کو قانون کے دائرے میں لانا ہے جو ان مجرموں کی پشت پناہی کرتا ہے۔ چاہے اس کا تعلق میڈیا سے ہو، کاروباری شخصیات سے ہو، کوئی مذہبی انتہا پسند جماعت ہو، صوبائی حکومت ہو، یا سوشل میڈیا پر ملک کے خلاف صفحات چلانے والے افراد ہوں۔ اب ہارڈ سٹیٹ کسی نرمی کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ اور یہ فیصلہ ہر قسم کی سیاست، مفاہمت اور مصلحت سے بالاتر ہے۔ یہی بات حتمی اور اٹل ہے، اور اسی پر ہمارا محفوظ مستقبل منحصر ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔