آپریشن سندور کیوں روکا؟ راہول گاندھی کا مودی سرکار سے لوک سبھا میں دوٹوک سوال
اشاعت کی تاریخ: 28th, July 2025 GMT
بھارت کے ایوان زیریں (لوک سبھا) میں پیر کو آپریشن سندور پر بحث کے دوران اس وقت گرما گرمی ہوگئی جب اپوزیشن لیڈر راہول گاندھی نے حکومت سے سوال کیا کہ آپریشن سندور کیوں روکا گیا؟۔
بھارتی لوک سبھا کے خصوصی اجلاس کے دوران وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے آپریشن سندور پراظہار خیال کرتے ہوئے کہا ”ہم نے اپنی فوج کو مکمل آزادی دی کہ وہ اہداف کا تعین کریں اور منہ توڑ جواب دے۔
انہوں نے کہا کہ ”10 مئی کی صبح، جب بھارتی فضائیہ نے کئی پاکستانی ایئربیسز کو تباہ کیا تو پاکستان نے شکست تسلیم کرتے ہوئے جنگ بندی کی درخواست کی۔“
انہوں نے دعویٰ کیا کہ “پاکستان کے ڈی جی ایم او نے فون کیا اور کہا، ’مہاراج، اب روک دیجیے؛ بہت ہوگیا۔‘ اور ہم نے ان کی درخواست قبول کر لی، راج ناتھ سنگھ کی تقریر دوران ان کو روکتے ہوئے راہول گاندھی اچانک بول پڑے ”تو آپ نے آپریشن سندور روکا کیوں؟“
راہول گاندھی کی اس مداخلت پر حکومتی ارکان پارلیمان میں بے چینی پھیل گئی۔ راج ناتھ سنگھ نے راہول گاندھی کو بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا، “میں پہلے ہی اس بارے میں تفصیل سے بات کر چکا ہوں۔
راج ناتھ سنگھ نے کہا کہ قائد حزبِ اختلاف کو سوال کرنے کا حق ہے، مگر انہیں میری مکمل تقریر سننی چاہیے۔
بھارتی وزیر دفاع نے کہا کہ بھارت کا مقصد صرف دہشت گردی کے مراکز کو نشانہ بنانا تھا، کسی قسم کی جنگی کشیدگی بڑھانا نہیں تھا۔
ان کے مطابق بھارت کے ڈی جی ایم او نے بھی پاکستانی ہم منصب کو واضح کیا کہ بھارت تصادم بڑھانا نہیں چاہتا، مگر پاکستان نے اس بات کو نظر انداز کیا۔
راہول گاندھی کی طرف سے اٹھایا گیا وہ سوال تھا جس نے سیزفائر کے پس منظر کو دوبارہ بحث کا مرکز بنا دیا، خاص طور پر وہ ٹیلیفون کال جس میں مبینہ طور پر پاکستان نے جنگ بندی کی درخواست کی تھی۔
کانگریس کی جانب سے بعد ازاں یہ موقف اختیار کیا گیا کہ بھارت کو آپریشن مکمل کرنا چاہیے تھا، نہ کہ سیزفائر پر رضامندی ظاہر کرنی چاہیے تھی۔
کانگریس کے ڈپٹی لیڈر گورو گوگوئی نے سوال اٹھایا ”پوری قوم، اپوزیشن بھی، وزیراعظم مودی کے ساتھ کھڑی تھی، پھر 10 مئی کو اچانک سیزفائر کی خبر کیوں آئی؟“
انہوں نے مزید کہا ”اگر پاکستان گھٹنے ٹیکنے کو تیار تھا تو بھارت نے کارروائی کیوں روکی؟ کس کے کہنے پر روکی؟ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خود 26 بار کہا ہے کہ انہوں نے بھارت اور پاکستان کے درمیان سیزفائر کروایا۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
ٹرمپ مودی بھائی بھائی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
نریندر مودی نے شنگھائی کانفرنس میں شرکت اور چینی صدر شی جن پنگ اور روسی صدر ولادیمر پیوٹن کے ساتھ سر جوڑ کر کانا پھونسی کرکے وہ مقاصد حاصل کر لیے جو پہلے ہی طے کر لیے گئے تھے۔ شنگھائی کانفرنس کے چند ہی دن بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے لب ولہجے پر ایک سو ڈگری کی تبدیلی کرکے بھارت اور نریندر مودی کے لیے شیریں بیانی شروع کر دی۔ ایکس پر اپنے پیغام میں صدر ٹرمپ نے ڈرانے دھمکانے کی زبان ترک کرکے بھارت کو امریکا کا دوست قرار دیتے ہوئے کہا وہ مودی سے بات چیت کے لیے تیار ہیں اور وہ دونوں ملکوں کے درمیان مجوزہ تجارتی معاہدے کو پایۂ تکمیل تک پہنچائیں گے۔ جس کے جواب میں نریندر مودی نے بھی ایکس پر لکھا کہ بھارت اور امریکا فطری حلیف ہیں مجھے یقین ہے کہ ہماری تجارتی بات چیت ہند امریکا شراکت کے لامحدود امکانات سے استفادے کی راہ ہموار کرے گی۔ اس کے ساتھ ہی بھارت کے معاشی مشیر وی انتھانا گیشورن نے صاف لفظوں میں بتادیا کہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں متبادل کرنسی بنانے میں بھارت کے ملوث ہونے کی قیاس آرائیاں بے بنیاد ہیں۔ بھارت ایسے کسی منصوبے پر غور نہیں کر رہا۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے نریندر مودی پر مختلف اوقات میں جو فردِ جرم عائد کی تھیں ان میں ایک نکتہ یہ بھی تھا کہ بھارت ڈالر کے متبادل نظام قائم کرنے کی کوششوں کا حصہ ہے۔ یہ امریکی معاشی بالادستی کو چیلنج کرنے کے مترادف تھا۔ اب بھارت نے ایسی کسی منصوبے کا حصہ ہونے کی تردید کر دی۔ بھارت اور امریکا کے درمیان ٹیرف کے معاملے پر مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے اور کسی بھی وقت دونوں کے درمیان بریک تھرو کا امکان موجود ہے۔ اس طرح امریکا اور بھارت کے تعلقات کے درمیان عارضی اور وقتی بحران اب حل ہونے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ جس پر یہی کہا جا سکتا ہے
تھی خبر گرم کہ غالب کے اُڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشا نہ ہوا
امریکا اور بھارت کے درمیان تعلقات کی بحرانی کیفیت پاکستان کے لیے مغرب کی سمت امکانات کی کھلنے والی واحد کھڑکی تھی جو اب ایک بار پھر بند ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ جس طرح پاکستان کے حکمران طبقات امریکا کی طرف سے بھارت کی کلائی مروڑے جانے پر جشن منارہے تھے اس کی کوئی ٹھوس وجہ نہیں تھی سوائے اس کے امریکا ایک بار پھر کچھ عرصہ کے لیے پاکستان پر معاشی اور سیاسی طور پر مہربان رہے۔ معاشی طور پر اس طرح دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر دھول اْڑتی رہے اور اس میں قاتل مقتول جارح ومجروح کے چہرے پہچاننا اور نشاندہی ہونا ناممکن رہے۔ امریکا کے زیر اثر برادر وغیر برادر ملک پاکستان کی معاشی ضرورتوں کو قرض کی صورت میں دیکھتے رہیں۔ سیاسی ضرورت یہ ہے کہ مغربی ممالک اور جمہوری نظام کے لیے واچ ڈاگ کا کردار ادا کرنے والے مغربی ادارے پاکستان کے سیاسی نظام اور یہاں تنگ ہوتی ہوئی آزادیوں سے اسی طرح غافل رہیں جیسے کہ وہ بھارت کے ان معاملات سے قطعی لاتعلق ہیں۔ مصر میں تو ہم نے مغربی جمہوریت کے دعوؤں کا برہنہ اور بے گورو کفن لاش کو دیکھا تھا۔ جہاں تاریخ کے پہلے انتخابات میں پہلا منتخب نظام قائم ہوا مگر خطے میں اسرائیل کی سلامتی کے لیے قائم نظام کے لیے مستقبل بعید میں اْبھرنے والے خطرے کے خوف میں اس جمہوری نظام کا گلہ گھوٹ دیا گیا۔ ایک غیر منتخب نظام قائم ہوا اور نہ جمہوریت کے فروح کے قائم عالمی اداروں نے اس پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا نہ ہی اس پر کوئی اختلافی آواز بلند کی۔ یوں مغربی نظام میں مرسی کا تختہ اْلٹنے کی مہم کے سیاسی پوسٹر بوائے محمد البرادی کی بھی پلٹ کر خبر نہ لی۔ محمد البرادی وہی ذات شریف ہیں جو عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی کے نمائندے کے طور پر عراق میں کیمیائی ہتھیاروں کی تلاش کے نام پر روز بغداد میں دندناتے پھرتے تھے اور کبھی دوٹوک انداز میں یہ نہ کہہ سکے کہ عراق ایٹمی اور کیمیائی ہتھیار نہیں بنا رہا۔
بہرحال بھارت اور امریکا کے درمیان عارضی شنکر رنجی ختم ہونے کا امکان پیدا ہونے لگا ہے۔ اب بھارت کی بہت سی کج ادائیاں ماضی کی طرح ایک بار پھر ادائے دلبرانہ بن جائیں گی۔ لازمی بات ہے کہ پاکستان اس خانے میں ایک مخصوص مقام سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔ صدر ٹرمپ نے بھارت کو اپنا فطری حلیف قرار دے کر نئی بات نہیں کی۔ دنیا میں اسرائیل اور بھارت دو ایسے ممالک ہیں جنہیں امریکا نے نائن الیون کے بعد اپنا اسٹرٹیجک پارٹنر قرار دے رکھا ہے۔ ایک اسٹرٹیجک پارٹنر اسرائیل کے لیے امریکا جس حد تک جا سکتا ہے اس کا مظاہرہ آج کل مشرق وسطیٰ میں ہو رہا ہے۔ اسی طرح چین کے ساتھ امریکا کی مخاصمت میں کمی کا کوئی امکان نہیں۔ آبادی اور رقبے کے لحاظ سے کم یا زیادہ بھارت ہی امریکا کی ضرورت پورا کر سکتا ہے۔ بھارت کا یہ پوٹینشل اسے امریکا کا فطری حلیف بنائے ہوئے ہے۔ بھارت امریکا کے لیے بروئے کار آنے کے لیے تیار ہے مگر وہ چین کے خلاف بے رحمی سے استعمال ہونے اور روس کے ساتھ امریکی ہدایات پر مبنی تعلقات کے قیام سے انکاری ہے۔ ان دونوں معاملات کا تعلق بھارت کے طویل المیعاد مقاصد سے ہے۔ اس عارضی ماحول میں پاکستان کے لیے مغرب میں جو وقتی گنجائش پیدا ہورہی تھی اب یہ سلسلہ رک سکتا ہے۔ پاکستان کے لیے کسی نئے انداز سے ڈومور کی گھنٹیاں بج سکتی ہیں۔ یہ ڈومور قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کی بحالی کے نام پر بھی ہو سکتا ہے اور دہشت گردی کے خلاف آپریشن تیز کرنے کی صورت میں بھی ہو سکتا ہے۔