فلسطینیوں کی نسل کشی پر سینسرشپ کی مغربی تلوار
اشاعت کی تاریخ: 29th, July 2025 GMT
اسلام ٹائمز: محققین اور صحافیوں کا کہنا ہے کہ مغربی ذرائع ابلاغ کی جانب سے غاصب صیہونی رژیم کے جنگی جرائم پر پردہ پوشی کا مطلب فلسطینیوں کی نسل کشی کا انکار اور جنگی جرائم کے ارتکاب پر صیہونی رژیم کو سزا ملنے سے بچانا ہے۔ مڈل ایسٹ آئی کے مطابق 28 جون 2025ء کے دن لندن میں "فلسطین کے لیے انصاف کے بین الاقوامی مرکز" میں ایک اجتماع ہوا جس میں شریک ماہرین نے مین اسٹریم میڈیا پر الزام عائد کیا کہ وہ غزہ میں جاری جنگی جرائم کا انکار کر رہے ہیں اور اس پر پردہ ڈال رہے ہیں۔ میڈیا تجزیہ کار فیصل حنیف نے کہا کہ بی بی سی نے گذشتہ ایک سال کے دوران غزہ سے متعلق اپنی خبروں سے لفظ "نسل کشی" کو سینسر کیا ہے۔ اسی طرح لندن کالج آف اکنامکس کے محقق عمر الغازی نے مغربی میڈیا کی جانب سے غزہ جنگ کے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کو "تاریخ کے خلاف جنگ" قرار دیا ہے۔ تحریر: محمد انیسی تہرانی
"غزہ میں فلسطینی شہریوں کے دکھ اور بھوک ناقابل بیان ہے۔ اگرچہ گذشتہ طویل عرصے سے غزہ کی صورتحال بہت نازک تھی لیکن اب وہ شدید بحرانی صورت اختیار کر چکی ہے اور روز بروز بری ہوتی جا رہی ہے۔ ہم ایک ایسے انسانی المیے کا مشاہدہ کر رہے ہیں جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔" یہ برطانوی وزیراعظم اسٹارمر کے سوشل میڈیا ایکس پر پیغام کا ایک حصہ ہے۔ یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب برطانیہ کے پاس دنیا کے معروف ترین میڈیا ذرائع موجود ہیں لیکن جب ہم 7 اکتوبر 2023ء سے اب تک غزہ جنگ سے متعلق اس کی فعالیت اور سرگرمیوں کا جائزہ لیتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ غزہ میں انجام پانے والے اسرائیلی مجرمانہ اقدامات کی کوریج کے لحاظ سے اس کی کارکردگی نہ فقط انتہائی ناقص ہے بلکہ قابل مذمت ہے۔ برطانوی ذرائع ابلاغ نے نہ صرف غزہ میں صیہونی جرائم فاش نہیں کیے بلکہ ان پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔
اگرچہ غزہ میں اسرائیل کے ہاتھوں بے گناہ فلسطینیوں کی نسل کشی کے واضح اور ناقابل انکار شواہد موجود ہیں اور اس کی تصدیق عالمی اداروں خاص طور پر اقوام متحدہ کی خصوصی کمیٹی کی رپورٹ نیز ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹس میں بھی ہو چکی تھی لیکن اس کے باوجود سابق امریکی صدر جو بائیڈن نے غاصب صیہونی رژیم کو اسلحہ کی فراہمی جاری رکھی۔ اس کے بعد موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی نہ صرف اسرائیل کی غیر مشروط اور بھرپور حمایت اور مدد پر مبنی پالیسی جاری رکھی بلکہ غزہ کی پٹی سے تمام فلسطینیوں کو جبری طور پر نکال باہر کر کے وہاں امریکی تسلط کا مطالبہ بھی کر دیا۔ دوسری طرف مغرب کے مین اسٹریم ذرائع ابلاغ جیسے نیویارک ٹائمز، ایسوسی ایٹڈ پریس، رویٹرز، بی بی سی وغیرہ نے غزہ جنگ کے دوران صرف اور صرف جرائم پیشہ صیہونی حکمرانوں کے گناہ دھونے کی پالیسی پر عمل کیا ہے۔
فلسطینیوں کی نسل کشی میں برطانوی معاونت کو چھپانا
2025ء میں جمی رابرٹز اور یوسف حماش نے مل کر غزہ جنگ کے بارے میں ایک دستاویزی فلم تیار کی ہے جس کا نام ہے "غزہ: ایک جنگ زدہ علاقے میں کس طرح زندہ رہیں؟"۔ یہ فلم بی بی سی کی درخواست پر بنائی گئی ہے اور اس میں غزہ کے چار جوان فلسطینی شہریوں پر فوکس کیا گیا ہے۔ بی بی سی نے یہ بہانہ بنا کر اس دستاویزی فلم کو اپنے پروگرامز سے نکال دیا کہ اس کا مرکزی کردار ایک ایسا فلسطینی جوان ہے جو حماس کی حکومت میں فعالیت انجام دے چکا ہے۔ لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ وہ فلسطینی جوان ایک سائنسدان کا بیٹا ہے جس نے غزہ میں حماس حکومت کی زراعتی پالیسیوں کا اجراء کیا تھا اور اس کا نام ایمن الیازوری تھا۔ اس بارے میں کوئی شواہد نہیں پائے جاتے کہ ایمن الیازوری حماس میں فوجی یا حتی سیاسی فعالیت انجام دیتا تھا۔
دراصل صیہونی رژیم کی حامی لابیز کا دباو اس بات کا باعث بنا کہ بی بی سی اس دستاویزی فلم کو نشر نہ کرے۔ اسی طرح اس دستاویزی فلم کی دوسری قسط کی فلم بندی مکمل ہونے سے پہلے ہی روک دی گئی۔ صیہونی رژیم کے حق میں حقیقت پر پردہ ڈالنے کا یہ واحد واقعہ نہیں ہے بلکہ بی بی سی نے ایک اور دستاویزی فلم "غزہ: حملے کا شکار ڈاکٹرز" بھی نشر کرنے سے انکار کر دیا۔ اس فلم میں غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے غزہ میں طبی مراکز کے 1600 کارکنوں کے قتل عام کی تفصیلات بیان کی گئی تھیں۔ بی بی سی کے اس اقدام پر ردعمل دکھاتے ہوئے خود بی بی سی کے ہی سو کارکنوں نے نام ظاہر نہ کرتے ہوئے ایک احتجاجی خط لکھا جس میں اس دستاویزی فلم کو نشر نہ کرنے کی مذمت کی گئی تھی اور اس اقدام کو "خوف" اور "فلسطین مخالف نسل پرستی" کا شاخسانہ قرار دیا گیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ بی بی سی کی پہلی ترجیح برطانیہ اور امریکہ میں جاری تعاون کو تحفظ فراہم کرنا ہے اور اس کے لیے انسانی حقوق کی کوئی اہمیت نہیں۔
18 مارچ کے قتل عام کی اسرائیل کے حق میں تفسیر
18 مارچ 2024ء کی صبح غاصب صیہونی فوج نے غزہ کے شہری علاقوں کو شدید بمباری کا نشانہ بنایا جس کے ابتدائی لمحات میں ہی 412 فلسطینی شہید اور 500 سے زیادہ فلسطینی زخمی ہو گئے۔ اخبار لوموند کے مطابق اس حملے میں 52 جگہوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ مغربی ذرائع ابلاغ کی اکثریت نے اس حملے کی رپورٹنگ کرتے ہوئے اسرائیل کے حق میں تفسیر کی اور اسرائیلی موقف کو دہرایا کہ یہ حملہ حماس سے وابستہ فوجی کمانڈرز کو نشانہ بنانے کے لیے انجام پایا ہے۔ لیکن کسی بھی مغربی میڈیا نے اس سوال کا جواب نہیں دیا کہ آیا ایک شہری علاقے میں ہزار کے قریب عام شہریوں کو شہید اور زخمی کر دینے کا جواز پیش کرتے ہوئے یہ کہہ دینا کافی ہے ہم نے "فوجی اہداف" کو نشانہ بنایا ہے؟ بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں یہ حملہ جنگی جرم ہے۔ مغربی ذرائع نے "مزید تحقیق" کا بہانہ بنا کر اس واقعے پر مٹی ڈال دی۔
غزہ میں قومی صفایا
محققین اور صحافیوں کا کہنا ہے کہ مغربی ذرائع ابلاغ کی جانب سے غاصب صیہونی رژیم کے جنگی جرائم پر پردہ پوشی کا مطلب فلسطینیوں کی نسل کشی کا انکار اور جنگی جرائم کے ارتکاب پر صیہونی رژیم کو سزا ملنے سے بچانا ہے۔ مڈل ایسٹ آئی کے مطابق 28 جون 2025ء کے دن لندن میں "فلسطین کے لیے انصاف کے بین الاقوامی مرکز" میں ایک اجتماع ہوا جس میں شریک ماہرین نے مین اسٹریم میڈیا پر الزام عائد کیا کہ وہ غزہ میں جاری جنگی جرائم کا انکار کر رہے ہیں اور اس پر پردہ ڈال رہے ہیں۔ میڈیا تجزیہ کار فیصل حنیف نے کہا کہ بی بی سی نے گذشتہ ایک سال کے دوران غزہ سے متعلق اپنی خبروں سے لفظ "نسل کشی" کو سینسر کیا ہے۔ اسی طرح لندن کالج آف اکنامکس کے محقق عمر الغازی نے مغربی میڈیا کی جانب سے غزہ جنگ کے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کو "تاریخ کے خلاف جنگ" قرار دیا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: فلسطینیوں کی نسل کشی غاصب صیہونی رژیم اس دستاویزی فلم ذرائع ابلاغ کہ بی بی سی جنگی جرائم غزہ جنگ کے کی جانب سے کا انکار رہے ہیں کے لیے اور اس
پڑھیں:
حزب الله کو غیرمسلح کرنے کیلئے لبنان کے پاس زیادہ وقت نہیں، امریکی ایلچی
اپنی ایک تقریر میں ٹام باراک کا کہنا تھا کہ جنوبی لبنان میں حزب الله کے پاس ہزاروں میزائل ہیں جنہیں اسرائیل اپنے لئے خطرہ سمجھتا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ آج امریکی ایلچی "ٹام باراک" نے دعویٰ کیا کہ صیہونی رژیم، لبنان کے ساتھ سرحدی معاہدہ کرنے کے لئے تیار ہے۔ ٹام باراک نے ان خیالات کا اظہار منامہ اجلاس میں کیا۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ یہ غیر معقول ہے کہ اسرائیل و لبنان آپس میں بات چیت نہ کریں۔ تاہم ٹام باراک نے جنگ بندی کے معاہدے کے باوجود، روزانہ کی بنیاد پر لبنان کے خلاف صیہونی جارحیت کو مکمل طور پر نظرانداز کرتے ہوئے، حزب الله کے خلاف سخت موقف اپنایا۔ انہوں نے کہا کہ اگر حزب الله، غیر مسلح ہو جائے تو لبنان اور اسرائیل کے درمیان مسائل کا خاتمہ ہو جائے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جنوبی لبنان میں حزب الله کے پاس ہزاروں میزائل ہیں جنہیں اسرائیل اپنے لئے خطرہ سمجھتا ہے۔ لہٰذا سوال یہ ہے کہ ایسا کیا کیا جائے کہ حزب الله ان میزائلوں کو اسرائیل کے خلاف استعمال نہ کرے۔
آخر میں ٹام باراک نے لبنانی حکومت کو دھمکاتے ہوئے کہا کہ لبنان کے پاس زیادہ وقت نہیں ہے، اسے جلد از جلد حزب الله کو غیر مسلح کرنا ہوگا، کیونکہ اسرائیل، حزب الله کے ہتھیاروں کی موجودگی کی وجہ سے روزانہ لبنان پر حملے کر رہا ہے۔ دوسری جانب حزب الله کے سیکرٹری جنرل شیخ "نعیم قاسم" نے اپنے حالیہ خطاب میں زور دے کر کہا کہ لبنان كی جانب سے صیہونی رژیم كے ساتھ مذاكرات كا كوئی بھی نیا دور، اسرائیل كو كلین چِٹ دینے كے مترادف ہوگا۔ شیخ نعیم قاسم کا کہنا ہے کہ اسرائیل پہلے طے شدہ شرائط پر عمل درآمد کرے جس میں لبنانی سرزمین سے صیہونی جارحیت کا خاتمہ اور اسرائیلی افواج کا مکمل انخلاء شامل ہے۔ یاد رہے کہ ابھی تک اسرائیلی فوج، لبنان کے پانچ اہم علاقوں میں موجود ہے اور ان علاقوں سے نکلنے کا ارادہ نہیں رکھتی۔ اس کے برعکس صہیونیوں کا دعویٰ ہے کہ حزب الله کے ہتھیاروں کی موجودگی ہی انہیں لبنان سے نکلنے نہیں دے رہی۔