Islam Times:
2025-09-17@23:21:13 GMT

فلسطینیوں کی نسل کشی پر سینسرشپ کی مغربی تلوار

اشاعت کی تاریخ: 29th, July 2025 GMT

فلسطینیوں کی نسل کشی پر سینسرشپ کی مغربی تلوار

اسلام ٹائمز: محققین اور صحافیوں کا کہنا ہے کہ مغربی ذرائع ابلاغ کی جانب سے غاصب صیہونی رژیم کے جنگی جرائم پر پردہ پوشی کا مطلب فلسطینیوں کی نسل کشی کا انکار اور جنگی جرائم کے ارتکاب پر صیہونی رژیم کو سزا ملنے سے بچانا ہے۔ مڈل ایسٹ آئی کے مطابق 28 جون 2025ء کے دن لندن میں "فلسطین کے لیے انصاف کے بین الاقوامی مرکز" میں ایک اجتماع ہوا جس میں شریک ماہرین نے مین اسٹریم میڈیا پر الزام عائد کیا کہ وہ غزہ میں جاری جنگی جرائم کا انکار کر رہے ہیں اور اس پر پردہ ڈال رہے ہیں۔ میڈیا تجزیہ کار فیصل حنیف نے کہا کہ بی بی سی نے گذشتہ ایک سال کے دوران غزہ سے متعلق اپنی خبروں سے لفظ "نسل کشی" کو سینسر کیا ہے۔ اسی طرح لندن کالج آف اکنامکس کے محقق عمر الغازی نے مغربی میڈیا کی جانب سے غزہ جنگ کے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کو "تاریخ کے خلاف جنگ" قرار دیا ہے۔ تحریر: محمد انیسی تہرانی
 
"غزہ میں فلسطینی شہریوں کے دکھ اور بھوک ناقابل بیان ہے۔ اگرچہ گذشتہ طویل عرصے سے غزہ کی صورتحال بہت نازک تھی لیکن اب وہ شدید بحرانی صورت اختیار کر چکی ہے اور روز بروز بری ہوتی جا رہی ہے۔ ہم ایک ایسے انسانی المیے کا مشاہدہ کر رہے ہیں جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔" یہ برطانوی وزیراعظم اسٹارمر کے سوشل میڈیا ایکس پر پیغام کا ایک حصہ ہے۔ یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب برطانیہ کے پاس دنیا کے معروف ترین میڈیا ذرائع موجود ہیں لیکن جب ہم 7 اکتوبر 2023ء سے اب تک غزہ جنگ سے متعلق اس کی فعالیت اور سرگرمیوں کا جائزہ لیتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ غزہ میں انجام پانے والے اسرائیلی مجرمانہ اقدامات کی کوریج کے لحاظ سے اس کی کارکردگی نہ فقط انتہائی ناقص ہے بلکہ قابل مذمت ہے۔ برطانوی ذرائع ابلاغ نے نہ صرف غزہ میں صیہونی جرائم فاش نہیں کیے بلکہ ان پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔
 
اگرچہ غزہ میں اسرائیل کے ہاتھوں بے گناہ فلسطینیوں کی نسل کشی کے واضح اور ناقابل انکار شواہد موجود ہیں اور اس کی تصدیق عالمی اداروں خاص طور پر اقوام متحدہ کی خصوصی کمیٹی کی رپورٹ نیز ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹس میں بھی ہو چکی تھی لیکن اس کے باوجود سابق امریکی صدر جو بائیڈن نے غاصب صیہونی رژیم کو اسلحہ کی فراہمی جاری رکھی۔ اس کے بعد موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی نہ صرف اسرائیل کی غیر مشروط اور بھرپور حمایت اور مدد پر مبنی پالیسی جاری رکھی بلکہ غزہ کی پٹی سے تمام فلسطینیوں کو جبری طور پر نکال باہر کر کے وہاں امریکی تسلط کا مطالبہ بھی کر دیا۔ دوسری طرف مغرب کے مین اسٹریم ذرائع ابلاغ جیسے نیویارک ٹائمز، ایسوسی ایٹڈ پریس، رویٹرز، بی بی سی وغیرہ نے غزہ جنگ کے دوران صرف اور صرف جرائم پیشہ صیہونی حکمرانوں کے گناہ دھونے کی پالیسی پر عمل کیا ہے۔
 
فلسطینیوں کی نسل کشی میں برطانوی معاونت کو چھپانا
2025ء میں جمی رابرٹز اور یوسف حماش نے مل کر غزہ جنگ کے بارے میں ایک دستاویزی فلم تیار کی ہے جس کا نام ہے "غزہ: ایک جنگ زدہ علاقے میں کس طرح زندہ رہیں؟"۔ یہ فلم بی بی سی کی درخواست پر بنائی گئی ہے اور اس میں غزہ کے چار جوان فلسطینی شہریوں پر فوکس کیا گیا ہے۔ بی بی سی نے یہ بہانہ بنا کر اس دستاویزی فلم کو اپنے پروگرامز سے نکال دیا کہ اس کا مرکزی کردار ایک ایسا فلسطینی جوان ہے جو حماس کی حکومت میں فعالیت انجام دے چکا ہے۔ لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ وہ فلسطینی جوان ایک سائنسدان کا بیٹا ہے جس نے غزہ میں حماس حکومت کی زراعتی پالیسیوں کا اجراء کیا تھا اور اس کا نام ایمن الیازوری تھا۔ اس بارے میں کوئی شواہد نہیں پائے جاتے کہ ایمن الیازوری حماس میں فوجی یا حتی سیاسی فعالیت انجام دیتا تھا۔
 
دراصل صیہونی رژیم کی حامی لابیز کا دباو اس بات کا باعث بنا کہ بی بی سی اس دستاویزی فلم کو نشر نہ کرے۔ اسی طرح اس دستاویزی فلم کی دوسری قسط کی فلم بندی مکمل ہونے سے پہلے ہی روک دی گئی۔ صیہونی رژیم کے حق میں حقیقت پر پردہ ڈالنے کا یہ واحد واقعہ نہیں ہے بلکہ بی بی سی نے ایک اور دستاویزی فلم "غزہ: حملے کا شکار ڈاکٹرز" بھی نشر کرنے سے انکار کر دیا۔ اس فلم میں غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے غزہ میں طبی مراکز کے 1600 کارکنوں کے قتل عام کی تفصیلات بیان کی گئی تھیں۔ بی بی سی کے اس اقدام پر ردعمل دکھاتے ہوئے خود بی بی سی کے ہی سو کارکنوں نے نام ظاہر نہ کرتے ہوئے ایک احتجاجی خط لکھا جس میں اس دستاویزی فلم کو نشر نہ کرنے کی مذمت کی گئی تھی اور اس اقدام کو "خوف" اور "فلسطین مخالف نسل پرستی" کا شاخسانہ قرار دیا گیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ بی بی سی کی پہلی ترجیح برطانیہ اور امریکہ میں جاری تعاون کو تحفظ فراہم کرنا ہے اور اس کے لیے انسانی حقوق کی کوئی اہمیت نہیں۔
 
18 مارچ کے قتل عام کی اسرائیل کے حق میں تفسیر
18 مارچ 2024ء کی صبح غاصب صیہونی فوج نے غزہ کے شہری علاقوں کو شدید بمباری کا نشانہ بنایا جس کے ابتدائی لمحات میں ہی 412 فلسطینی شہید اور 500 سے زیادہ فلسطینی زخمی ہو گئے۔ اخبار لوموند کے مطابق اس حملے میں 52 جگہوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ مغربی ذرائع ابلاغ کی اکثریت نے اس حملے کی رپورٹنگ کرتے ہوئے اسرائیل کے حق میں تفسیر کی اور اسرائیلی موقف کو دہرایا کہ یہ حملہ حماس سے وابستہ فوجی کمانڈرز کو نشانہ بنانے کے لیے انجام پایا ہے۔ لیکن کسی بھی مغربی میڈیا نے اس سوال کا جواب نہیں دیا کہ آیا ایک شہری علاقے میں ہزار کے قریب عام شہریوں کو شہید اور زخمی کر دینے کا جواز پیش کرتے ہوئے یہ کہہ دینا کافی ہے ہم نے "فوجی اہداف" کو نشانہ بنایا ہے؟ بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں یہ حملہ جنگی جرم ہے۔ مغربی ذرائع نے "مزید تحقیق" کا بہانہ بنا کر اس واقعے پر مٹی ڈال دی۔
 
غزہ میں قومی صفایا
محققین اور صحافیوں کا کہنا ہے کہ مغربی ذرائع ابلاغ کی جانب سے غاصب صیہونی رژیم کے جنگی جرائم پر پردہ پوشی کا مطلب فلسطینیوں کی نسل کشی کا انکار اور جنگی جرائم کے ارتکاب پر صیہونی رژیم کو سزا ملنے سے بچانا ہے۔ مڈل ایسٹ آئی کے مطابق 28 جون 2025ء کے دن لندن میں "فلسطین کے لیے انصاف کے بین الاقوامی مرکز" میں ایک اجتماع ہوا جس میں شریک ماہرین نے مین اسٹریم میڈیا پر الزام عائد کیا کہ وہ غزہ میں جاری جنگی جرائم کا انکار کر رہے ہیں اور اس پر پردہ ڈال رہے ہیں۔ میڈیا تجزیہ کار فیصل حنیف نے کہا کہ بی بی سی نے گذشتہ ایک سال کے دوران غزہ سے متعلق اپنی خبروں سے لفظ "نسل کشی" کو سینسر کیا ہے۔ اسی طرح لندن کالج آف اکنامکس کے محقق عمر الغازی نے مغربی میڈیا کی جانب سے غزہ جنگ کے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کو "تاریخ کے خلاف جنگ" قرار دیا ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: فلسطینیوں کی نسل کشی غاصب صیہونی رژیم اس دستاویزی فلم ذرائع ابلاغ کہ بی بی سی جنگی جرائم غزہ جنگ کے کی جانب سے کا انکار رہے ہیں کے لیے اور اس

پڑھیں:

پنجاب اسمبلی: سکولوں میں موبائل فونز پر پابندی، فلسطینیوں سے یکہجہتی سمیت 7 قراردادیں منظور

لاہور (خصوصی نامہ نگار) پنجاب اسمبلی میں کسانوں کو گنے کی قیمت کی عدم ادائیگی پر سپیکر اسمبلی نے برہمی کا اظہارکرتے ہوئے کین کمشنر کو فوری طلب کر لیا ہے۔ فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی سمیت مفاد عامہ سے متعلقہ 7 قراردادیں بھی اسمبلی نے منظور کر لی ہیں۔ پبلک اور پرائیویٹ سکولز میں موبائل فونز کے استعمال پر پابندی، ضلع ساہیوال میں کمیروالا کو تحصیل کا درجہ دینے اور ریسکیو 1122 کے ملازمین کے الاؤنس میں اضافہ کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کر لی گئی ہیں۔ اجلاس کے دوران مختلف یونیورسٹیوں کے چھ بلوں کی منظوری ہوئی جبکہ10بل ایوان میں پیش کئے گئے جنہیں کمیٹیوں کے سپرد کرکے دو ماہ میں رپورٹ طلب کر لی گئی۔ ایجنڈا مکمل ہونے پر سپیکر نے اجلاس غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کر دیا۔ پنجاب اسمبلی کا اجلاس 2 گھنٹے 26 منٹ کی تاخیر سے سپیکر مک محمد احمد خان کی صدارت میں شروع ہوا۔ اپوزیشن کی ریکوزیشن پر بلائے گئے اجلاس میں اپوزیشن نے ہی عدم دلچسپی کا مظاہرہ کیا اور پورے اجلاس میں صرف چار سے چھ ارکان موجود رہے۔ حکومتی رکن رائو کاشف رحیم کی نشاندہی پر سپیکر ملک محمد احمد خان گنے کی قیمت کی اب تک عدم عدائیگی پر شوگر مل مالکان پر برس پڑے اورفوری طور پر کین کمشنر کو طلب کر لیا۔ سپیکر کا کہنا تھا کہ شوگر ملز مالکان کی ابھی تک زمینداروں کو ادائیگیاں نہ کرنے کی وجہ کیا ہے، نیا کرشنگ سیزن شروع ہونے کی تیاریاں ہیں اور ابھی تک شوگر ملز مالکان نے ادائیگیاں کیوں نہ کیں، کین کمشنر جواب دیں۔ رائو کاشف رحیم نے انکشاف کیا کہ فیصل آباد میں شوگر ملز مالکان زمینداروں کے پیسے نہیں دے رہے، شوگر ملز مالکان تو چینی کی قیمت بڑھنے کے باوجود بات کرنے سے بھی انکاری ہیں۔ سیلاب کی بدترین صورتحال ہے، محکمہ امداد باہمی کے متعلق وقفہ سوالات کے دوران حکومتی رکن امجد علی جاوید نے محکمہ پنجاب پراونشل کوآپریٹو بنک کو سفید ہاتھی قرار دیا، صوبائی وزیر ذیشان رفیق نے جواب میں کہا کہ نئی ہاؤسنگ سوسائٹیز 2001ء میں منظور ہوئی حکومت نے اس محکمہ کی ری سٹرکچرنگ کیلئے کوآپریٹو بنک کیلئے ایک لائق شخص لایا گیا تاکہ محکمہ بہتر ہو سکے، سٹیٹ بنک آف پاکستان کے کارپوریٹ گورننس فریم ورک کے تقاضوں کے مطابق پورا نہ ہونے کی وجہ سے بورڈ آف ڈائریکٹرز کو تحلیل کر دیا گیا۔ قانون سازی کے بعد پنجاب پراونشل کوآپریٹو بنک میں نیا نظام لایا گیا اور جو کچھ ہوا وہ آئین کے مطابق ہوا، اپوزیشن رکن رانا شہباز نے کسانوں کی جانب سے گندم سٹاک کرنے پر انکے گھروں میں چھاپوںکا معاملہ ایوان میں اٹھایا، پارلیمانی سیکرٹری خالد رانجھا نے جواب میں کہا کہ پنجاب کے کسانوں کے گھروں میں کوئی چھاپہ نہیں مارا جا رہا، سپیکر ملک محمد احمد خان کا کہنا تھا کہ گندم تو زندگی کا راستہ ہے اسے حکومتی کسی عمل سے ختم نہیں ہونا چاہیے، گندم کی قیمت کو مستحکم کریں تاکہ روٹی اور آٹا سستا ملے۔ خالد محمود رانجھا نے گندم سٹاک کرنے والے کسانوں کے گھروں پر چھاپہ نہ مارنے کی یقین دہانی کروا دی۔ ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ میں سرکاری میڈیکل کالج کے قیام کی قرارداد کثرت رائے سے منظور کر لی گئی۔ قرارداد حکومتی رکن اسمبلی امجد علی جاوید نے پیش کی۔ پنجاب اسمبلی میں فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی اور اسرائیلی دہشت گردی کے خلاف قرارداد متفقہ طور پر منظور کر لی گئی۔ قرارداد حکومتی رکن اسمبلی رانا محمد ارشد نے پیش کی۔ پنجاب اسمبلی میں لاوارث بچوں کی دیکھ بھال کیلئے ادارہ قائم کرنے کی قرارداد منظور کر لی گئی۔ قرارداد حکومتی رکن اسمبلی سارہ احمد نے ایوان میں پیش کی، پنجاب اسمبلی میں پاکستانی مصنف حسن بن شہزاد کو سرکاری اعزاز اور مالی انعام کیلئے قرارداد منظور کر لی گئی، قرارداد اپوزیشن رکن احمر بھٹی نے ایوان میں پیش کی۔ پنجاب اسمبلی نے ضلع ساہیوال میں کمیر والا کو تحصیل کا درجہ دینے کے مطالبے کی قرارداد منظور کر لی گئی۔ پنجاب اسمبلی میں ریسکیو 1122 کے ملازمین کے الاؤنس میں اضافہ کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کر لی گء۔ قرارداد اپوزیشن رکن نادیہ کھر نے ایوان میں پیش کی، سپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان نے ایجنڈا مکمل ہونے پر پنجاب اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کر دیا۔

متعلقہ مضامین

  • فلسطینیوں کی نسل کشی اور جبری بیدخلی
  • اسرائیل کیجانب سے غزہ میں زمینی کارروائی کا مقصد فلسطینیوں کی جبری مہاجرت ہے، اردن
  • اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کُشی کا مرتکب، تحقیقاتی کمیشن
  • پنجاب اسمبلی میں فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی اور اسرائیلی دہشتگردی کیخلاف قرارداد منظور
  • پنجاب اسمبلی: سکولوں میں موبائل فونز پر پابندی، فلسطینیوں سے یکہجہتی سمیت 7 قراردادیں منظور
  • اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کو مٹانے کے لیے نسل کشی کر رہا ہے، اقوام متحدہ
  • مغربی یورپ سے ہمیں چیلنج درپیش ہے، قطر اور دیگر ممالک نے اسرائیل کو تنہاء کر دیا ہے، نیتن یاہو
  • فلسطینیوں کی نسل کشی میں کردار ادا کرنیوالی بین الاقوامی کمپنیاں (2)
  • برلن،فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف ہزاروں افراد کا احتجاج
  • روس نے مغربی پابندیوں سے بچنے کے لیے لین دین بارٹر ڈیل پر کرنا شروع کردیا