اسرائیل فلسطین تنازع کے دو ریاستی حل کے لیے دلیرانہ اقدامات ضروری، گوتیرش
اشاعت کی تاریخ: 29th, July 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 29 جولائی 2025ء) اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل فلسطین تنازع نازک موڑ پر پہنچ گیا ہے جس کا دو ریاستی حل نکالنے کے لیے دلیرانہ سیاسی اقدامات کی ضرورت ہے اور امن کوششوں کو منظم طور سے سبوتاژ کرنے کا سلسلہ روکنا ہو گا۔
اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں فلسطینی مسئلے کے پرامن حل سے متعلق اعلیٰ سطحی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ اس تنازع میں لوگوں کی زندگیاں ختم ہو رہی ہیں، ان کے مستقبل تباہ ہو رہے ہیں اور ناصرف خطہ بلکہ پوری دنیا عدم استحکام کا شکار ہو رہی ہے۔
Tweet URLیہ تنازع کئی نسلوں سے چلا آ رہا ہے جس میں امیدوں نے دم توڑا، سفارت کاری ناکام رہی، بے شمار قراردادیں اکارت گئیں اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہوتی رہی۔
(جاری ہے)
لیکن یہ ہمیشہ جاری نہیں رہے گا، اس کا حل ممکن ہے جو سیاسی عزم، دلیرانہ قیادت اور سچائی کا تقاضا کرتا ہے۔ سچائی یہ ہے کہ اس مسئلے کا دو ریاستی حل پہلے سے کہیں مشکل دکھائی دیتا ہے۔سیکرٹری جنرل نے اسرائیل پر 7 اکتوبر کے حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ وہ متواتر کہتے آئے ہیں کہ بے گناہ شہریوں کو قتل اور اغوا کرنے کا کوئی جواز نہیں اور ان واقعات کے بعد غزہ میں جو کچھ ہوا اس کا بھی کوئی جواز پیش نہیں کیا جا سکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ غزہ میں شہری بدترین بھوک کا شکار ہیں، ہزاروں لوگ ہلاک ہو چکے ہیں، علاقے میں بہت بڑے پیمانے پر مسلسل نقل مکانی ہو رہی ہیں اور مغربی کنارے میں فلسطینیوں کو آباد کاروں کے تشدد اور اسرائیل کی جانب سے اپنے علاقوں پر ناجائز قبضے کا سامنا ہے۔
یکطرفہ اقدامات ناقابل قبولانتونیو گوتیرش نے کہا کہ یکطرفہ اقدامات فلسطینی مسئلے کے دو ریاستی حل کے امکانات کو ہمیشہ کے لیے کمزور کر دیں گے۔
ایسے اقدامات ناقابل قبول ہیں اور انہیں روکا جانا چاہیے۔ یہ اکا دکا واقعات نہیں بلکہ مشرق وسطیٰ میں امن کی بنیاد کو ختم کرنے کی منظم کوشش کا حصہ ہیں۔مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کے موضوع پر تین روزہ کانفرنس اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قراردادوں ای ایس۔24/10 اور 81/79 کے تحت ہو رہی ہے جس کے میزبان فرانس اور سعودی عرب ہیں۔ اس میں فلسطینی علاقوں میں سلامتی کے انتظام، امدادی ضروریات، تعمیرنو اور مستقبل کی فلسطینی ریاست کے معاشی طور پر قابل عمل ہونے کے موضوعات پر بات چیت ہو گی۔
انتونیو گوتیرش نے رکن ممالک پر زور دیا کہ وہ اس اجلاس کو محض بات چیت تک ہی محدود نہ رہنے دیں بلکہ اسے ایک ایسا فیصلہ کن موڑ ہونا چاہیے جو فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی قبضے کے خاتمے کی جانب ناقابل واپسی پیش رفت اور مسئلے کے قابل عمل دو ریاستی حل میں مدد دے۔
انہوں نے اس مسئلے پر اقوام متحدہ کے دیرینہ موقف کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ دو ریاستی حل ہی امن کی جانب واحد راستہ ہے جس کے تحت اسرائیل اور فلسطین 1967 سے پہلے کی سرحدوں کی بنیا پر ایک دوسرے کے ساتھ امن و سلامتی سے رہیں اور یروشلم دونوں ریاستوں کا مشترکہ دارالحکومت ہو۔
یہی پورے مشرق وسطیٰ میں امن قائم کرنے کا ناگزیر اور ضروری طریقہ ہے۔اجلاس کے پہلے روز فرانس کے وزیر برائے یورپ و خارجہ امور ژاں نوئل بارو، سعودی عرب کے وزیر خارجہ فیصل بن فرحان اور فلسطینی ریاست کے وزیراعظم محمد مصطفیٰ نے بھی خطاب کیا۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کے دو ریاستی حل اقوام متحدہ کے ہیں اور ہو رہی
پڑھیں:
فلسطین کی آواز ہر فورم پر بلند کریں گے، ترک صدر کا اسرائیلی جارحیت پر اعلان
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
انقرہ: ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوان کاکہنا ہے کہ اسرائیل کے خلاف تنقید دن بدن بڑھ رہی ہے اور بین الاقوامی دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ انقرہ ہر عالمی فورم پر فلسطین کے حق میں آواز بلند کرتا رہے گا۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کےمطابق ترک صدر نے صدارتی محل میں اپنے فلسطینی ہم منصب محمود عباس سے ملاقات کے دوران کہا کہ اسرائیل امن کو سبوتاژ کر رہا ہے اور غزہ میں جاری کارروائی نسل کشی کے ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے، جس سے نہ صرف فلسطین بلکہ خطے کے امن و استحکام کو بھی شدید خطرہ لاحق ہے۔
رجب طیب ایردوان نے واضح کیا کہ ترکیہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سمیت ہر پلیٹ فارم پر فلسطین کی آواز بنے گا، غزہ میں فوری جنگ بندی اور انسانی بحران کے خاتمے کو ہم اپنی اولین ترجیح سمجھتے ہیں۔
انہوں نے قطر کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی جارحیت نے خطے کے دیگر ممالک اور امن عمل کو بھی متاثر کیا ہے، اسلامی دنیا اسرائیل کے خلاف یک آواز ہے اور اس مشکل وقت میں فلسطینی قیادت کو بھی متحد ہونا ہوگا تاکہ دنیا بھر میں ان کا موقف زیادہ مؤثر انداز میں پیش ہو سکے۔
ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے دوطرفہ تعلقات، علاقائی اور عالمی امور پر بھی تبادلہ خیال کیا اور فلسطینی عوام کو درپیش مشکلات کے حل کے لیے مشترکہ اقدامات پر زور دیا۔
خیال رہےکہ ترکیہ ماضی میں بھی فلسطینی عوام کی حمایت میں نمایاں اقدامات کرتا رہا ہے، جن میں 2010ء کا غزہ فلوٹیلا واقعہ بھی شامل ہے جب اسرائیلی فوج نے غزہ کے لیے امداد لے جانے والے قافلے پر حملہ کر کے کئی ترک شہریوں کو شہید کر دیا تھا، اسی طرح ترکیہ نے بارہا انسانی ہمدردی کی بنیاد پر غزہ کو امداد فراہم کی اور اسرائیلی مظالم کے خلاف عالمی برادری میں آواز بلند کی۔
موجودہ صورتحال میں غزہ میں امداد کے نام پر امریکا اور اسرائیل دہشت گردی کر رہے ہیں اور عالمی ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں جبکہ مسلم حکمران بدستور بے حسی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔