غزہ میں مزید 7 افراد غذائی قلت سے جاں بحق، مجموعی تعداد 154 ہو گئی
اشاعت کی تاریخ: 31st, July 2025 GMT
غزہ:
فلسطین کے علاقے غزہ میں انسانی بحران مزید سنگین ہو گیا ہے، جہاں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران غذائی قلت کے باعث مزید 7 افراد جاں بحق ہو گئے ہیں۔
حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے مطابق 2023ء میں اسرائیل-حماس جنگ کے آغاز سے اب تک 154 افراد قحط اور غذائی قلت کے باعث اپنی جانیں گنوا چکے ہیں، جن میں 89 بچے شامل ہیں۔
گزشتہ روز اقوام متحدہ کے تعاون سے کام کرنے والے عالمی ماہرینِ غذائی تحفظ نے خبردار کیا کہ غزہ میں قحط کا بدترین منظرنامہ اب عملی طور پر رونما ہو رہا ہے۔
دوسری جانب اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ وہ غزہ میں امدادی سامان کے داخلے پر کوئی پابندی عائد نہیں کر رہا، تاہم اس بیان کو یورپی اتحادیوں، اقوام متحدہ اور غزہ میں سرگرم امدادی تنظیموں نے مسترد کر دیا ہے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
غزہ: قحط نما کیفیت میں ہلاکتوں اور بیماریوں میں اضافہ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 30 جولائی 2025ء) غذائی تحفظ کے ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ غزہ کے لوگوں کو قحط کے بدترین خطرے کا سامنا ہے جہاں بڑے پیمانے پر خوراک کی قلت اور بیماریوں کے نتیجے میں بھوک سے متعلقہ اموات بڑھتی جا رہی ہیں۔
اقوام متحدہ کی سرپرستی میں غذائی تحفظ کے مراحل کی مربوط درجہ بندی (آئی پی سی) کے مطابق، حالیہ عرصہ کے دوران علاقے میں خوراک کے استعمال میں کمی آئی ہے اور تمام آبادی کو شدید غذائی قلت کا سامنا ہے جو قحط کی تین میں سے دو علامات ہیں۔
Tweet URLعالمی پروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) میں شعبہ ہنگامی اقدامات کے ڈائریکٹر راس سمتھ نے جنیوا میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ لوگ اپنی آنکھوں سے اور اپنی ٹیلی ویژن سکرینوں پر یہ تباہی برپا ہوتے دیکھ رہے ہیں۔
(جاری ہے)
یہ انتباہ نہیں بلکہ عملی اقدامات کی پکار ہے اور رواں صدی میں ایسے حالات پہلے کبھی نہیں دیکھے گئے۔بھوک سے بچوں کی ہلاکتیں'آئی پی سی' کے مطابق، غزہ میں ایک تہائی آبادی کئی روز فاقے کرنے پر مجبور ہے۔ ہسپتالوں پر بوجھ بڑھ گیا ہے جہاں اپریل کے بعد شدید غذائی قلت کا شکار 20 ہزار سے زیادہ بچوں کا علاج کیا گیا۔ وسط جولائی سے اب تک پانچ سال سے کم عمر کے کم از کم 16 بچے بھوک سے متعلقہ وجوہات کی بنا پر ہلاک ہو چکے ہیں۔
قبل ازیں، 'آئی پی سی' کے تجزیے میں کہا گیا تھا کہ ستمبر تک غزہ کی تمام آبادی کو تباہ کن درجے کے غذائی عدم تحفظ کا سامنا ہو سکتا ہے۔ ماہرین نے بتایا ہے کہ کم از کم پانچ لاکھ لوگ اس درجے کی بھوک کا شکار ہو سکتے ہیں جس کے نتائج لاچاری اور پھر موت کی صورت میں سامنے آتے ہیں۔
غزہ میں جنگ، بمباری، تباہی اور نقل مکانی بدستور جاری ہے جہاں اب تک تقریباً 60 ہزار شہری ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ 70 فیصد عمارتیں تباہ ہو گئی ہیں۔
'آئی پی سی' نے تصدیق کی ہے کہ لوگ بڑے پیمانے پر نقل مکانی کر رہے ہیں اور 88 فیصد علاقے پر لوگوں کو انخلا کے احکامات دیے جا چکے ہیں۔نقل مکانی کا بحرانغزہ کی 21 لاکھ آبادی میں 90 فیصد لوگ ایک یا اس سے زیادہ مرتبہ نقل مکانی کر چکے ہیں۔ 18 مارچ کو جنگ بندی ختم ہونے کے بعد 762,500 افراد نے اپنے علاقوں سے انخلا کیا ہے۔
علاقے بھر میں امداد کی رسائی میں بہت سی رکاوٹیں حائل ہیں جہاں امدادی قافلوں کو مسلسل روکا اور لوٹا جا رہا ہے۔
اتوار کو اسرائیل نے اعلان کیا تھا کہ وہ غزہ میں امدادی سرگرمیوں کے لیے جنگ میں روزانہ وقفہ دے گا۔ اطلاعات کے مطابق، اتوار کو 100 سے زیادہ ٹرک امداد لے کر غزہ آئے تاہم اقوام متحدہ کے اداروں کا کہنا ہے کہ بے پایاں ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بہت بڑی تعداد میں امداد کی متواتر آمد ضروری ہے۔جنگ بندی کا مطالبہ'آئی پی سی' نے غزہ میں غیرمشروط اور فوری جنگ بندی، انسانی امداد کی بلارکاوٹ رسائی اور ضروری خدمات کی بحالی پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہنگامی اقدامات کے بغیر بڑے پیمانے پر اموات کا خدشہ ہے۔
غذائی تحفظ کے ماہرین نے شہریوں، امدادی کارکنوں اور پانی، نکاسی آب، سڑکوں اور ٹیلی مواصلات کے نظام کو تحفظ دینے کی اپیل بھی کی ہے۔
'ڈبلیو ایف پی' اور عالمی ادارہ اطفال (یونیسف) نے ایک مشترکہ انتباہ میں کہا ہے کہ علاقے میں شدید غذائی قلت اور متعلقہ اموات کے حوالے سے موثر معلومات کا حصول آسان نہیں کیونکہ غزہ کا طبی نظام تباہ ہو چکا ہے۔