اپنی پردیسن بیٹی کو ائیرپورٹ سے وداع کر کے واپسی کا سفر بڑا مشکل تھا۔ مینہ اس روز چھاجوں برس رہا تھا، اس کی جس پرواز نے کینیڈا جانا تھا، وہ آئی بھی دیر سے اور روانہ بھی دیر سے ہوئی۔ اتنی بارش تھی کہ دل وسوسوں میں پھنس گیا… ’’ اللہ اسے خیر سے لے جائے!!‘‘ دل سے دعا نکلی۔
علی الصبح کا وقت تھا، نیند کے جھونکے آ رہے تھے تو میں نے فون پر فیس بک کھول لی تا کہ نیند نہ آئے۔ بعد میں پچھتائی کہ کاش میں فیس بک نہ کھولتی، اس وقت کی نیند کو بھگانے کے لیے فیس بک کھولی تھی مگر اس پر نظرآنے والی وڈیو اور اس کے ساتھ خبر نے میری کئی راتوں کی نیند اڑا دی۔
ہر روز کئی کئی درجن اور سیکڑوں اموات کی خبریں سنتے اور دیکھتے ہیں، دکھ ہوتا ہے، کئی کاش اور ifs and buts دماغ میں گھومتے رہتے ہیں، کاش یوں ہوتا تو بچت ہو جاتی مگر یہ بھی یقین ہے کہ اس لمحے کو کوئی ٹال کہاں سکتا ہے، جہاں اور جس وقت پر مقرر ہے، ہم خود ہی وہاں پہنچ جاتے ہیں اور موت سے ہمکنار ہوجاتے ہیں۔ یہ وڈیو اتنی جلدی دنیا بھر میں پھیل گئی کہ ممکن ہے آپ نے بھی اسے دیکھا ہو۔ بائیس جولائی کی صبح، ایک ریٹائرڈ فوجی افسر، میجر اسحق اپنے معمول کے مطابق اپنی بیٹی کو گھر سے بس اسٹاپ تک چھوڑنے کے لیے نکلے، بارش موسلا دھار ہو رہی تھی اور کافی پانی اس وقت تک ہو چکا تھا۔ اپنی گاڑی میں سوار ہو کر انھوں نے گاڑی اسٹارٹ کی۔
گاڑی چند لمحے کے لیے حرکت میں آ کر رک جاتی ہے۔ قیاس ہے کہ پانی زیادہ ہو جانے کی وجہ سے گاڑی بند ہو گئی تھی، ممکن ہے کہ کوئی اور فنی خرابی پیدا ہو گئی ہو۔ ذرا فاصلے پر اوپر کھڑے ہوئے لوگوں میں سے کوئی اس منظر کی وڈیو بنا رہا ہے، اس نے گاڑی بند ہوتے اور پھر پانی کے ساتھ بہتے دیکھ کر وڈیو بنانا شروع کی یا وہ بلندی سے تیزی کے ساتھ نشیب میں آتے ہوئے پانی کے بڑے سیلابی ریلے کی وڈیو بنا رہا تھا کہ وہ گاڑی اس کے فوکس میں آئی اور اس نے اس کی وڈیو بنانا شروع کر دی۔
اسی اثنا میں ایک اور آدمی اسی جگہ سے جو کہ کسی بینک کے اے ٹی ایم کی پارکنگ ہے، اس نے بھی اپنے فون سے وڈیو بنانا شروع کر دی۔وڈیوجب شروع ہوئی تو اس وقت تک پانی گاڑی کے نچلے حصے کو چھو رہا تھا۔ پھر نظر آتا ہے کہ گاڑی پر چلانے والے کا کوئی اختیارنہیں رہا تھا، وہ سٹیئرنگ سے گاڑی کا رخ نہیں موڑ سکتا تھا۔ پھر کھڑکی کا شیشہ اتارا گیا اور اس کے بعد پچھلی سیٹ سے بھی کھڑکی کا شیشہ اتارا گیا۔ جہاں سے گاڑی پانی کے ایک گول گھومنے والے بگولے میں پھنسی، وہاں نظر آتا ہے کہ دونوں مسافر… اپنے ہاتھ باہر نکال کر اشارے کر رہے ہیں، ظاہر ہے کہ انھیں لوگ نظر آتے ہیں اور وہ مدد مانگتے ہیں۔ ان لوگوں کے لیے بھی مدد فراہم کرنا ممکن نہ تھا کیونکہ وہ اونچائی پر تھے اور اس اونچائی کے عین نیچے وہ نالہ تھا جس کی سمت وہ گاڑی بے قابو ہو کر کھنچ رہی تھی۔
جہاں سے گاڑی حرکت کرتی ہوئی نالے کی سمت آ رہی تھی، ان گھروں کے پاس سے بھی ایک آدمی بھاگ کر باہر نکلتا ہے اور بے بسی سے کھڑا دیکھتا رہ جاتا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے گاڑی نالے کے اندر گر کر گم ہو گئی اور اس سے کچھ فٹ کے فاصلے پر نالہ غائب ہو جاتا ہے یعنی اس کے اوپر چھت ڈال دی گئی ہے۔اس وڈیوکو دیکھ کر دل اتنے دکھ سے بھر گیا کہ کسے قصور وار کہیں، کس طرح ان باپ بیٹی نے آخری لمحات بے بسی، خوف اور کرب میں گزارے ہوں گے، ان کے گھر والوں پر کیا بیتی ہو گی…چوبیس جولائی کو مرحوم میجر صاحب کی لاش ملی اور ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی اور ان کی بیٹی کی لاش اس وقت تک نہیں ملی جب تک کہ میں اس کے بارے میں لکھ رہی ہوں۔دیکھنے میں آ رہا ہے کہ بڑے بڑے پلازے اور دیگر تعمیرات نالوں کے اوپر بنا دی جاتی ہیں ، انھیں بنانے کی اجازت کون دیتا ہے اور اس کے نتیجے میں کل کو کسی نوعیت کا کوئی بڑا حادثہ ہو جائے تو اس کا ذمے دار کون ہوگا ۔
اللہ کا قانون ہے کہ ہم جب بھی اس کی بنائی ہوئی کسی بھی چیز میں ردو بدل کرنا چاہیں تو اس میں خراب ہونے کے امکانات بہت واضح ہوتے ہیں۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال میں دیتی ہوں کہ لوگوں میں کچھ عرصے سے اپنے چہرے کے نقوش اور جسمانی ساخت میں تبدیلی کے لیے کاسمیٹک جراحی کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔
آپ نے بھی اس کے نتیجے میں ہونے والے منفی اثرات کی وڈیو دیکھی ہوں گی اور لوگوں کے نقوش کی ستیا ناس ہوجاتی ہے اور انھیں پچھتاتے ہوئے بھی دیکھتے ہوں گے۔ اللہ تعالی نے رات آرام کے لیے اور دن کام کرنے کے لیے بنایا ہے، یہ قدرت کا اصول ہے اور ہمارے اندرونی اعضاء رات کو آرام کرتے ہیں اور جسم کی توڑ پھوڑ کی مرمت کا کام کرتے ہیں۔ جب ہم اس اصول کی خلاف ورزی کریں اور راتوں کو دیر تک جاگیں، دن کو دیر تک سوئیں تو ہم کتنی ہی نعمتوں سے محروم ہو جاتے ہیں جو کہ ہماری صحت کے لیے ضروری ہیں۔ نتیجے میں ہمارا جسم اور ذہن کئی بیماریوں کا شکار ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سے گاڑی رہا تھا کی وڈیو کے لیے اور اس ہے اور
پڑھیں:
ایران سنگین آبی بحران کے دہانے پر ہے، ایرانی صدر
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 01 اگست 2025ء) وسائل کے ناقص انتظام اور حد سے زیادہ استعمال کی وجہ سے ایران کو بجلی، گیس اور پانی کی، خاص طور پر زیادہ طلب والے مہینوں میں، قلت کا بار بار سامنا رہتا ہے۔
نیم سرکاری خبر رساں ایجنسی تسنیم نے جمعرات کو اپنی ایک رپورٹ میں بتایا کہ صدر پزشکیان نے ایک بیان میں کہا کہ '’’اگر ہم تہران میں پانی کے استعمال کو قابو میں نہ رکھ سکے اور عوام نے تعاون نہ کیا تو ستمبر یا اکتوبر تک ڈیموں میں پانی نہیں بچے گا۔
‘‘ماحولیاتی تحفظ کی تنظیم کی سربراہ، شینہ انصاری کے مطابق، ملک گزشتہ پانچ سالوں سے خشک سالی کا سامنا کر رہا ہے، جبکہ محکمہ موسمیات کے مطابق گزشتہ چار ماہ میں اوسطاً بارشوں میں 40 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔
(جاری ہے)
انصاری نے جمعرات کو سرکاری میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’پائیدار ترقی کو نظر انداز کرنے کے نتیجے میں ہم آج کئی ماحولیاتی مسائل، جیسے کہ پانی کی قلت کا سامنا کر رہے ہیں۔
‘‘ قدرتی وسائل کا انتظام ایران میں ایک مستقل مسئلہپانی کا حد سے زیادہ استعمال ایران میں پانی کے انتظام کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ تہران صوبے کی واٹر اینڈ ویسٹ واٹر کمپنی کے سربراہ، محسن اردکانی نے مہر نیوز ایجنسی کو بتایا کہ تہران کے 70 فیصد شہری روزانہ 130 لیٹر سے زیادہ پانی استعمال کرتے ہیں، جو مقررہ معیار سے زیادہ ہے۔
قدرتی وسائل کا انتظام ایران میں ایک مستقل مسئلہ رہا ہے، چاہے وہ قدرتی گیس ہو یا پانی کا استعمال، کیونکہ ان کے حل کے لیے بڑے پیمانے پر اصلاحات کی ضرورت ہے، خاص طور پر زرعی شعبے میں، جو کہ ملک میں 80 فیصد پانی استعمال کرتا ہے۔
پزیشکیان نے حکومت کی اس تجویز کو مسترد کر دیا جس میں بدھ کے دن چھٹی یا گرمیوں میں ایک ہفتے کی تعطیل کی تجویز دی گئی تھی۔
انہوں نے کہا، ’’اداروں کو بند کرنا صرف پردہ ڈالنا ہے، پانی کی قلت کا حل نہیں۔‘‘سن 2021 کی گرمیوں میں، جنوب مغربی ایران میں پانی کی قلت کے خلاف مظاہرے بھی ہو چکے ہیں۔
درجہ حرارت 51 ڈگری سینٹی گریڈ تکجنوب مغربی ایرانی شہر امیدیہ میں درجہ حرارت 51 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا ہے۔ ملک کے دیگر شہروں میں بھی زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 45 ڈگری سے تجاوز کر گیا ہے۔
محکمہ موسمیات کی وارننگ کا حوالہ دیتے ہوئے،ایران کے سرکاری نشریاتی ادارے نے بتایا کہ آئندہ دنوں میں ایران کے کچھ حصوں میں ریت کے طوفان اور خراب ہوا کے معیار کی توقع ہے۔
یہ شدید گرمی کی لہر ملک میں جاری پانی کے بحران کو مزید بدتر بنا رہی ہے، ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ 80 فیصد ذخائر تقریباً خالی ہو چکے ہیں۔
متعدد شہروں میں حکام نے پانی کی فراہمی جبراً بند کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔
دارالحکومت تہران میں حالیہ دنوں میں کئی گھنٹوں تک نلکوں سے پانی نہیں آیا۔تیل سے مالا مال صوبہ خوزستان، جو زمین پر سب سے زیادہ گرم رہنے والے علاقوں میں سے ایک ہے، بڑھتی ہوئی بجلی کی بندش اور پانی کی قلت کا سامنا کر رہا ہے، جس سے رہائشیوں کی زندگی مشکل ہو گئی ہے، خاص طور پر جب ایئر کنڈیشنر کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔
ادارت: صلاح الدین زین