رام گوپال کا قد تو تقریباً چھے فٹ تھا مگر بدن پر گوشت برائے نام ہی تھا۔ کچھ ہڈیاں چوڑی تھیں جس کی وجہ سے زیادہ دبلے معلوم نہ ہوتے تھے۔ چوڑے چکلے شانوں پر اتنا بڑا سر جو کاندھوں کی تقریباً تمام چوڑائی گھیرتا تھا۔ جبڑے کافی اٹھے ہوئے تھے جن کے درمیان پھولی پھولی موٹی سی نازک، جس کے نتھنے دور ہی سے کھلے ہوئے نظر آتے تھے۔

ہونٹ کافی موٹے، جن میں بالائی، جوانی کے کسی ہنگامے کی یادگار کے طور پر کٹا ہوا اور نچلا تقریباً ٹھوڑی تک لٹکتا ہوا۔ رہی سہی کسر دو لمبے لمبے کان پوری کرتے تھے جن کی لویں بدن کی ذرا سی حرکت پر گوشواروں کی طرح لرزنے لگتی تھیں۔ میں ناروال ریلوے اسٹیشن پر پھاٹک کی طرف سے داخل ہوا تو مئی کے اُس گرم اتوار تقریباً ستر سالہ مکمل سفید بالوں اور داڑھی والے بزرگ برف کے گولے بنا کر بیچ رہے تھے۔

برف کے گولے تو نہ بنا رہے تھے بلکہ شاید اب گولے کوئی بناتا بھی نہیں۔ ہمارے بچپن میں تو صورت حال کچھ یوں تھی کہ گولے والا ایک برف کی سِیل رگڑتا تو برف روئی کی طرح نیچے گرنے لگتی۔ گولے والے اس روئی نما برف کو ایک تیلے پر لگاتا، اوپر ملاوٹ شدہ روح افزا اور ایک دوسرا سبز رنگ ڈالتا اور ایک روپے میں گولا تیار ہو جاتا۔ ہم تو بچپن میں اسے توتا گولا کہا کرتے تھے۔ اب صورت حال کچھ یوں ہے کہ مشین بدل گئی ہے۔ جدید مشین میں ذرا سہولت ہے۔ اس کے ہینڈل کو گھما کر گولے والا برف کی روئی بناتا ہے، اسے کٹوری میں ڈالتا ہے۔

ساتھ میں کچھ لچھے اور وہی دو نمبر رنگ۔ مجھے اس ستر سالہ گولا فروش کی صفائی پر بہت شبہات تھے، اس لیے گولا کھانے سے مکمل پرہیز کیا۔ اگرچہ کہ نارووال شہر میں تقسیم کی بہت سی کہانیاں موجود تھیں مگر میں ان کہانیوں کی کھوج میں بالکل بھی گھر سے نہ نکلا تھا۔ نارووال جانے کا مقصد کچھ اور تھا مگر وہاں پہنچ کر ایسا لگا جیسے کہانی خود میری منتظر تھی۔ میں اپنے موضوع سے ہٹنا نہیں چاہتا تھا مگر ہوا کچھ یوں کہ نارووال ریلوے اسٹیشن کے قریب پھاٹک سے ایک ٹرین ریلوے اسٹیشن پر کھڑی نظر آئی۔ ایک ریڑھی بان سے ریلوے اسٹیشن کا راستہ پوچھا تو بتانے لگا کہ دروازے سے جانا ہے تو گھوم کر جانا پڑے گا اور اگر اندر سے جانا ہے تو لائن کے ساتھ ساتھ چل پڑو۔ میں نے ٹرین کی لالچ کی کہیں یہ چل نہ پڑے، اندر سے لائن کے ساتھ ساتھ چل پڑا۔

پلیٹ فارم پر پہنچ کر معلوم ہوا کہ ٹرین کا انجن بند ہے اور ٹرین شام پانچ بجے لاہور کے لیے نکلے گی۔ دائیں جانب ستر سالہ ایک توتا گولا فروش تھا بلکہ یوں کہہ لیں کہ ایک کہانی تھی۔ میں بابا جی گپ شپ کرنے لگا۔ عمر تقریباً ستر سال تھی۔ دو لڑکے تھے جو یقیناً نکمے ہی ہوں گئے ورنہ بابا جی اس عمر اور سخت گرمی میں محنت مشقت نہ کر رہے ہوتے۔ میں نے اس بارے بابا جی سے کوئی سوال نہ کیا مبادا ان کی طبعیت پر ناگوار گزرے۔ نہ چاہتے ہوئے بھی میں تقسیم کا موضوع ان سے چھیڑ بیٹھا۔ بابا جی بتانے لگے کہ یہیں نارووال شہر میں تقسیم کے وقت مسلمان تقریباً پینسٹھ فی صد تھے اور باقی ہندو اور سکھ تھے۔

ہندو اگرچہ کم تھے مگر اکثریت خوش حال تھی۔ ان ہی میں سے ایک گھرانہ رام گوپال کا تھا جن کی شہر میں ایک بڑی حویلی تھی۔ کاروبار وسیع تھا۔ روپے پیسے کی کسی صورت بھی کمی نہ تھی۔ ایک دوسرا ہندو گھرانہ بھی تھا جن کے بڑوں کے نام اب ان گولے والے بابا جی کو یاد نہ تھے۔ سہولت کے لیے ہم اس گھرانے کے سربراہ کو دلیپ کا نام دے دیتے ہیں۔ دلیپ کی بیٹی اور رام گوپال کے لڑکے کی آپس میں بات پکی ہو گئی اور کچھ ہی دنوں میں شادی بھی ہونا تھی۔ اس زمانے میں یہاں لڑکے کی مونچھیں ہلکی ہلکی سی نکلیں اور وہیں اس کے سر پر سہرا باندھ دیا جاتا تھا۔ لڑکیوں کا بھی یہی عالم تھا۔ تیرہ چودہ سال کی عمر میں لڑکی بیاہ دی جاتی تھی۔ بڑی بھی کوئی مجبوری ہوئی تو پندرہ۔ سولہ سالہ لڑکی کی گود میں ایک آدھ بچہ ضرور ہوتا تھا۔ رام گوپال اور دلیپ دونوں کے گھرانے ہی کھاتے پیتے تھے۔ علاقہ مکمل طور پر پُر امن تھا کہ پھر تقسیم کی باتیں ہونے لگیں۔ پہلے پہل تو سب اچھا رہا مگر پھر فسادات کی خبریں آنے لگیں۔ رام گوپال کا کاروبار یہاں اچھا تھا، وہ اپنی زمین جائیداد چھوڑ کر بھارت جانے کے لئے تیار نہ ہوا۔ ویسے بھی رام گوپال طبعیت کا سخت آدمی تھا۔ کسی میں ذرا برابر بھی جرأت نہ تھی کہ وہ اس کی جانب آنکھ اٹھا کر بھی دیکھ سکے۔

رام گوپال نے دلیپ سمیت باقی ہندوؤں کو بہت سمجھایا کہ اپنی زمین جائیداد چھوڑ کر ہجرت نہ کریں یا کم از کم حالات کے بہتر ہونے کا انتظار کریں مگر دلیپ نے نہ سنی۔ اس نے اپنا سامان اکٹھا کیا اور بھارت چلا گیا۔ رام گوپال نے کوشش کی کہ دلیپ کی لڑکی کی شادی، اس کے لڑکے سے ہو جائے مگر دلیپ کا کہنا تھا کہ وہ اب ہندوستان جائے گا۔ اگر حالات مناسب رہے تو پھر بعد میں دونوں کی شادی کردی جائے گی۔ دلیپ نے سارا سرمایہ رام گوپال کے حوالے کیا اور خود آزادی کی ریل پر بیٹھ کر شاہ درہ باغ سے ہوتا ہوا لاہور چلا گیا جہاں سے اسے واہگہ کے راستے بھارت چلے جانا تھا۔

دلیپ کا سارا سرمایہ رام گوپال کے پاس تھا۔ کوئی نہیں جانتا کہ رام گوپال نے ساری رقم اور امانتیں دلیپ تک پہنچائیں بھی یا نہیں مگر ناروال کے پرانے بزرگ کہتے ہیں کہ دلیپ کے بھارت چلے جانے کے بعد رام گوپال کا کاروبار مزید بڑھ گیا۔ رام گوپال کے کاروباری قد میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ رام گوپال نے پہلے نارووال چھوڑا اور پھر ملک چھوڑ کر پردیس چلا گیا۔ نارووال سے ہی ایک برانچ لائن چک امرو کی طرف چلی جاتی ہے جو کہ اس طرف کا پاکستان کا آخری ریلوے اسٹیشن ہے۔ نارووال کے ساتھ ہی ایک قصبہ جسڑ ہے۔ یہیں مہاجر کیمپ بھی لگا تھا۔ کیمپ والی جگہ کو جسڑ کیمپ کا نام دیا گیا تھا۔ آج بھی اگر آپ جسڑ یا کرتار پور جائیں تو آپ کو دائیں جانب ایک بڑا سا نیلا بورڈ نظر آئے گا جہاں جلی حروف میں جسڑ کیمپ لکھا ہے۔ جسڑ سے ایک ریلوے لائن ڈیرہ بابا نانک کی طرف جاتی تھی۔

دونوں ریلوے سٹیشنز کے درمیان دریائے راوی بہتا تھا جس پر لوہے کا برج بنا تھا۔ تقسیم کے بعد یہ ریلوے سیکشن غیرفعال ہو گیا تھا۔ 1980کی دہائی میں کسی وقت یہ پٹری اور دریائے راوی پر موجود یہ لوہے کا پل دونوں اکھاڑ دیے گئے۔ نارووال کے پرانے بزرگ کہتے ہیں کہ تقسیم چوں کہ برسات کے دنوں میں ہوئی تو اس چھوٹی سی دریائی گزر گاہ پر بھی اکثر پانی چڑھا رہتا تھا۔ ان ہی دنوں میں بھارت کی طرف بہت سی لاشیں دریائے راوی میں بہتے ہیں جسڑ کے مقام سے گزریں تو جسڑ کیمپ میں فسادات پھوٹ پڑے۔ بھارت سے نقل مکانی کر کے ایک مسلم خاندان جسڑ کیمپ میں کچھ دن کے لیے رکا۔ خاندان کے ایک چھوٹے سے بچے نے ان فسادات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور بہت کچھ دماغ میں محفوظ ہوگیا۔

آج وہی بچہ ایک بزرگ بن چکا ہے اور کینیڈا مقیم ہے۔ ان بزرگوں کا بڑا پن کہ بہت پہلے انھوں نے مجھ سے رابطہ کیا تھا اور جسڑ کیمپ اور تقسیم سے جڑے بہت سے واقعات سنائے تھے جنھیں میں پہلے ہی قلم بند کر چکا ہوں۔ جیسا کہ پہلے ہی بات ہو چکی کہ میرا نارووال آنے کا مقصد اس بار تقسیم کی کہانیاں اکٹھی کرنا ہرگز نہ تھا بلکہ میں تو اس برانچ لائن پر سفر کرنا چاہتا تھا جو بقول میرے نارووال کے دوستوں کے نارووال سے شروع ہوتی ہے اور وزیرآباد میں ختم ہوجاتی ہے۔ جرنیلی سڑک کو لے کر جو جھگڑا پشاور اور کلکتہ والوں کے درمیان ہے، اسی نوعیت کا جھگڑا نارووال وزیر آباد برانچ لائن کو لے کر وزیرآباد اور نارووال کے درمیان ہے۔ پشاور والوں کا موقف ہے کہ جرنیلی سڑک پشاور سے شروع ہوتی ہے اور کلکتہ میں ختم ہوتی ہے۔ کلکتہ والے بھی اسی موقف پر ہیں کہ جرنیلی سڑک ان ہی کے یہاں سے شروع ہوکر پشاور اختتام پذیر ہوتی ہے۔

اب معلوم نہیں کہ وزیرآباد نارووال برانچ لائن وزیرآباد سے شروع ہوتی ہے یا پھر نارووال سے مگر ایک بات تو تہہ ہے کہ اس برانچ لائن نے بڑے بڑے دکھ بھی دیکھے ہیں اور حادثات بھی۔ پنجاب کی تقسیم کی ریل بھی اس پٹری پر چلی ہے، قتلِ عام بھی اس پٹری نے دیکھا اور پھر پینسٹھ کی جنگ میں چونڈہ کے قریب اسی برانچ لائن کا کچھ حصہ پاکستان اور بھارت کے درمیان وقتی طور پر ایک عارضی سرحد کا کام کر رہا تھا جب کہ دونوں طرف سے بھاری گولہ باری جاری تھی۔ گمان کہ اس لائن کا نقطہ آغاز وزیرآباد ہے کیوں کہ پہلے وزیرآباد سے جموں تک ریلوے لائن 1888میں شروع ہوئی پھر اسی لائن میں سیالکوٹ سے ایک لائن نارووال تک 1915 میں بچھائی گئی۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ ابتدائی طور پر 1915 میں ٹرین سیالکوٹ سے قلعہ سوبھا سنگھ تک چلی جسے دوسرے مرحلے میں چند ماہ بعد 1916 میں نارووال تک توسیع دی گئی۔ نارووال ریلوے اسٹیشن کی جدید اور خوب صورت عمارت اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ نارووال کے سپوت احسن اقبال نے اپنے شہر نارووال پر بہت کام کیا ہے۔

یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور کے نارووال کیمپس سے شروع ہونے والا ترقی کا یہ سفر آج بھی جاری ہے۔ نارووال ریلوے اسٹیشن کی عمارت تو پہلے بھی دیکھ رکھی تھی مگر مجھے یہ جان کر خوش گوار حیرت ہوئی کہ نارووال سے لاہور کے لیے چار ٹرینیں جاتی ہیں۔ دو تو میرے علم میں تھیں۔ ایک لاثانی ایکسپریس ہے جو صبح پانچ بجے سیال کوٹ سے چلتی ہے اور نارووال سے ہوتے ہوئے لاہور جاتی ہے۔ اسی وقت یعنی صبح پانچ بجے ہی ایک پیسنجر ٹرین نارووال سے چلتی ہے اور تقریباً اڑھائی گھنٹے کے بعد لاہور پہنچ جاتی ہے۔ تیسری ٹرین علامہ اقبال ایکسپریس ہے جو سیال کوٹ سے ہی بذریعہ نارووال لاہور سے ہوتے ہوئے کراچی جاتی ہے اور ایک چوتھی ٹرین جو شام پانچ بجے لاہور جاتی ہے۔

ریلوے اسٹیشن کی کینٹین والے چاچے سے معلوم پڑا کہ نارووال سے لاہور کے لیے لاری اڈا سے جتنے پیسے گاڑی لیتی ہے، اس سے آدھی ٹرین کی ٹکٹ ہے۔ اس لیے نارووال سے لاہور ریل گاڑی کام یاب ہے۔ لوگ ٹرین کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔ سیال کوٹ سے چوں کہ موٹر وے کی وجہ سے آپ نوے منٹ میں لاہور پہنچ جاتے ہیں، اس لیے سیال کوٹ سے لاہور ٹرین روٹ زیادہ کام یاب نہیں۔ پسرور سے اطہر نظامی صاحب بتانے لگے کہ انھوں نے بچپن میں سیالکوٹ پسرور ریل پر بہت سفر کیا۔ مزید بتانے لگے کہ سیالکوٹ نارووال کے درمیان آٹھ یعنی سولہ اپ ڈاؤن ٹرینیں چلا کرتی تھیں۔ سبھی پسنجر کہلاتی۔ سیالکوٹ تا لاہور اور نارووال تا راولپنڈی چلنے والی ٹرین ایکسپریس ہوا کرتی تھی۔ نارووال تا راولپنڈی ریل کار چلتی تھی۔ اس کے تین ڈبے ہوتے تھے۔ پنڈی سے سیالکوٹ تک تین ڈبوں کی ٹرین آتی تھی۔ پھر دو ڈبے سیالکوٹ چھوڑ کر اکیلا ڈبہ پسرور تک آتا۔ کچھ عرصہ بعد اسے نارووال تک بڑھا دیا گیا۔ یہ اصل ریل کار تھی جس کے آگے انجن نہیں لگتا تھا۔

self propelled  بوگی جس کے اندر ہی انجن ہوتا ہے اور مسافروں کے بیٹھنے کی جگہ بھی۔ یہ ریل کار 1986-87 تک چلتی رہی۔ پھر روایتی ٹرین ریل کار کے نام سے پنڈی نارووال کے درمیان چلتی رہی اور کبھی پنڈی تا سیالکوٹ تک۔ ایک ٹرین (بہاولپور ایکسپریس) نارووال تا سمہ سٹہ براستہ سیالکوٹ فیصل آباد چلتی رہی۔ ہمارے بچپن میں ایک پسنجر ٹرین جو دوپہر کے وقت پسرور سے سیالکوٹ کی طرف جاتی تھی اسے ٹیڈی گڈی بولتے تھے کیوںکہ اس کی صرف تین بوگیاں ہوتی تھیں۔ بچپن میں مجھے یاد ہے کہ اسٹیم انجن بھی آیا کرتے تھے۔

اب سیال کوٹ راول پنڈی ٹرانسپورٹ کا یہ عالم ہے کہ ہر ایک گھنٹے کے بعد بڑی گاڑی نکلتی ہے مگر ایک واحد ٹرین جو سیال کوٹ/ نارووال تا راول پنڈی ٹریک پر چلتی تھی، وہ بند ہے۔ میں ڈومالہ ریلوے اسٹیشن سے باہر نکلنے لگا تو بند ٹکٹ گھر کے پاس اس پیارے سے، کیوٹ سے لڑکے کو دیکھا جو درمیان میں وکٹری کا نشان بنائے کھڑا ہے۔ موصوف اپنے ٹک ٹاک کے لیے اشاروں سے کوئی ویڈیو بنا رہے تھے۔ پہلے تو سوچا کہ بھائی صاحب اپنی ویڈیو مکمل کرلیں، پھر ان کے ساتھ فوٹو بنواتا ہوں مگر جب ان کی ویڈیو کچھ زیادہ ہی طویل ہوگئی تو پھر مجبوراً مداخلت کرکے ویڈیو رکوانا پڑی کیوں کہ میرا سفر ابھی باقی تھا۔ ان لوگوں کی بھی ایک الگ دنیا ہے۔

علی پور سیداں ریلوے

اسٹیشن ریل اور ریل کی پٹری، دونوں کبھی بھی ایک جیسی نہیں رہتیں۔ ان پر وقت کی دھول تو چڑھتی ہی رہتی ہے۔ وقت کی ریل جب چلتی ہے تو اس پر کئی ایک رنگ چڑھتے رہتے ہیں۔ بھاگتی ہوئی ریل کے پیچھے بعض اوقات کچھ بھی باقی نہیں بچتا۔ خوب صورت وقت، نظارے یہاں تک کہ ہیرے جیسے لوگ بھی اجڑ جاتے ہیں۔ وقت کی ریل جو ایک بار کہیں سے گزر جائے تو پیچھے رہ جانے والے لوگ، ریل کی پٹری سب دھیرے دھیرے متروک ہونے لگتا ہے۔ اگر آپ نارووال سے آتے ہوئے ڈومالہ ریلوے اسٹیشن سے آگے چلیں تو آپ کی ملاقات ایک ترک شدہ ریلوے اسٹیشن علی پور سیداں سے ہوگی جہاں سے علامہ اقبال ایکسپریس اور لاثانی ایکسپریس چپ چاپ بنا سیٹی بجائے گزر جاتی ہیں، مبادا قریبی مہمان خانے میں رہتی کسی روح پر یہ ریل کی سیٹی ناگوار نہ گزرے۔ ترک شدہ علی پور سیداں ریلوے اسٹیشن کا نام یہاں کے پیر حضرت جماعت علی شاہ لاثانی کے نام پر ہے اور ان ہی کے نام پر سیال کوٹ سے لاہور جانے والی ریل کو لاثانی ایکسپریس کا نام دیا گیا تھا، وہ لاثانی ایکسپریس جو ان ہی پیر صاحب کے ریلوے اسٹیشن پر نہیں رکتی بس چپ چاپ، ذرا شرماتی ہوئی، لجا دکھا کر آگے کو بڑھ جاتی ہے۔

وہ الگ بات ہے کہ یہاں سے گزرنے والی اس لاثانی ایکسپریس میں کج روی بہت ہوتی ہے۔ ریلوے ٹریک کی حالت اچھی نہیں، اسی لیے یہاں چلتی کم اور ہلتی زیادہ ہے۔ میں علی پور سیداں ریلوے اسٹیشن پہنچا تو میرے پیچھے پیچھے تین لڑکے بھی وہاں پہنچ گئے جن میں سب سے بڑا ''پی کے'' تھا جو اپنا ریڈیو اپنے ساتھ ساتھ لیے گھوم رہا تھا۔ ایک چھوٹا سا اسپیکر اس کے ہاتھ میں تھا جسے اس نے بلیو ٹوتھ کے ذریعے اپنے موبائل سے جوڑ رکھا تھا۔ تینوں کی عمریں ہی کچھ زیادہ تو نہیں تھیں مگر تینوں ہی اسکول نہیں جاتے تھے بلکہ کسی نہ کسی کام سے وابستگی اختیار کیے ہوئے تھے۔

تینوں ایک ہی گاؤں سے تھے اور ہر اتوار مٹر گشت کرتے ہوئے یہاں اس ترک شدہ ریلوے اسٹیشن پر آ جاتے ہیں، اپنے دل کی باتیں کرتے ہیں اور یاروں کی محفل سے لطف اندوز ہونے کے بعد اپنے گاؤں کی راہ لیتے ہیں۔ اس کچی عمر کا یہی تو فائدہ ہے۔ یاروں کی یہ محفل ہی آپ کی اصل اور واحد انٹرٹینمنٹ ہوتی ہے جو بعد میں کسی صورت بھی میسر نہیں آتی۔ بڑا لڑکا جس کے ہاتھ میں اسپیکر تھا، بتانے لگا کہ اس نے بہت بار یہاں سے ریل گاڑی کو گزرتے ہوئے دیکھا ہے مگر رکتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا۔ اس کی خواہش ہے کہ کاش کبھی علی پور سیداں شریف ریلوے اسٹیشن پر بھی ریل گاڑی رکے۔ علی پور سیداں کا ریلوے اسٹیشن بھی عجیب سا رومانی ہے۔ سامنے گندم کے لہلہاتے کھیت ہیں، پلیٹ فارم سے کچھ پیچھے ہی ریلوے اسٹیشن کی ترک شدہ عمارت ہے اور کچھ دور ہی سہ منزلہ ایک مہمان خانہ ہے جسے 1926 میں یہاں سے گزرنے والے مہمانوں کے لیے نہ جانے کس نے تعمیر کیا تھا۔ اس سہ منزلہ عمارت کے ساتھ ہی تین گم نام سی قبریں ہیں جن کے بارے مشہور ہے کہ اس عمارت کو تعمیر کرنے والوں کی ہیں مگر حتمی بات کوئی نہیں۔ سہ منزلہ عمارت کی چھت دیکھنے کے لائق ہے۔

لکڑی کے بنے دروازے عمارت کے مالک کے قابلِ ذوق ہونے کی نشانی ہیں۔ ترک شدہ ریلوے اسٹیشن اور اس سرائے کے علاوہ دور دور تک کوئی عمارت نہیں۔ میں جی چاہتا ہے کہ میں سردیوں یا بہار سے اچھے دنوں میں علی پور سیداں ریلوے اسٹیشن پر جاؤں اور وہاں ایک پورا دن اپنے کسی پسندیدہ شخص کے ساتھ گزار دوں مگر پسندیدہ شخص بھی مانے تب ناں۔ علی پور سیداں شریف سے تعلق رکھنے والی روحانی شخصیت پیر جماعت علی شاہ 1834 میں علی پور سیداں میں پیدا ہوئے۔ جب برصغیر میں مسلمانوں میں دین متین کی صحیح روح مفقود ہونے لگی تھی تو آپ نے تجدید دین اور احیائے مذہب کیا۔ برصغیر پاک و ہند میں جابجا دینی مدارس، مساجد، سرائیں، رفاہی ادارے اور علاج معالجے کے لیے اسپتال تعمیر کرائے۔ 1885ء میں لاہور میں انجمن نعمانیہ کی بنیاد رکھی اور 1901ء میں انجمن خدام الصوفیہ کی بنیاد رکھی۔ 1910ء میں جدہ سے مدینہ منورہ تک حجاز ریلوے لائن منصوبے کے لیے حضرت امیرملت نے چھے لاکھ روپے کی گراں قدر رقم مرحمت فرمائی۔  آپ نے تحریکِ پاکستان میں بھرپور کردار ادا کیا۔

 ظفر وال سے حمید بٹ صاحب علی پور سیداں کے سرائے اور ریلوے اسٹیشن بارے معلومات دیتے ہوئے بتانے لگے کہ انھوں نے بچپن اسی اسٹیشن کے کوارٹر میں گزارا، بغیر بجلی کے۔ ماں جی کوئلوں کی استری سے ہم بہن بھائیوں کے یونی فارمز استری کر رہی ہوتیں۔ ہم لالیٹن کی روشنی میں پڑھتے۔ بیٹری سیلز سے چلنے والے ریڈیو اور ٹارچیں۔ اسٹیشن پر کپڑے کو کھینچ کر چلانے والا پنکھا اور پیتل کے ٹینکر والی لالٹنیں۔ اس جگہ کی کل آبادی ہمارا کوارٹر اور ساتھ ایک باغ، اس میں بنی مسجد اور سرائے۔ سرائے ریلوے اسٹیشن کے قیام کے زمانے میں حافظ جماعت علی شاہ صاحب نے بنوائی۔ اس سرائے کی آبادی کے لیے ایک جوان میاں بیوی لائے گئے۔ ہمارے بچپن کے زمانے میں تب بوڑھی ہوچکی ایک بیوہ، اماں، امام بی بی، انہیں جیسا بوڑھا لگنے والا ان کا بیٹا نوردین (بابا نورا) اس کی کل کائنات تھے۔ یہ لوگ علی پور سے وظیفہ پاتے اور ساتھ اسٹیشن کے سامنے باسی پکوڑوں اور سینگنیوں کی دکان بھی بابے کی ملکیت تھی۔ ادھیڑ عمری میں اس کی شادی ایک نابینا عورت سے ہوئی جو حافظانی کہلاتی تھی۔ (یہاں قبریں اسی خاندان کے لوگوں کی ہیں)۔ اس زمانے میں سیالکوٹ سے چک امرو ٹرینیں چلتی تھیں۔ مشہور زمانہ سمہ سٹہ ٹرین بھی جس کی سست رفتاری کے محاورے بنے تھے۔

یہ ویرانہ ہمارے خاندان کے لیے پکنک پوائنٹ تھا۔ مہینے میں کوئی نہ کوئی چچا، تایا، خالہ، ماموں یہاں آئے ہوتے۔ جو، اب دو تین کے علاوہ سارے قبرستانوں میں رہتے ہیں۔ ہمارے جیسے اب تک زندہ لوگوں میں موجود کزنز اس ٹھنڈے میٹھے، سائے دار ماضی کو یاد کرتے رہتے ہیں جو اب پلٹے گا نہیں۔ علی پور، خیراللّہ پور، کھنگوڑے، بلووالی، ساہو بھلو، بٹر، چاہل، کوٹلی محمد صدیق جیسے دیہات جن کے لیے یہ اسٹیشن بنا تھا، اب پتھروں اور تارکول سے بنی سڑکوں کے بیچ میں آ گئے ہیں۔ بندے بندے کے پاس دو پہیے کی سواری آگئی ہے۔ اب ان اسٹیشنوں کی عمارتیں آپ جیسے ریلوے سے رومانس کرنے والے اور ہم جیسے ماضی سے منسلک لوگوں کی یادوں میں رہ گئی ہیں۔

یہ کیسے ممکن ہے کہ نارووال وزیرآباد برانچ لائن کا ذکر ہو اور جموں سے شروع ہونے والے دو اہم نالوں کا ذکر نہ ہو جو اسی خطے میں بہتے ہیں۔ ایک نالہ ڈیگ ہے اور دوسرا نالہ ایک۔ ڈیگ جموں علاقے میں جسروتا سے شمال کی طرف دو چھوٹی چھوٹی ندیوں کے سنگم سے بنتا ہے اور ظفر وال تحصیل کے شمال مشرقی کونے سے داخل ہوتا ہے۔ پسرور تحصیل میں داخل ہونے سے پہلے اس کی دو شاخیں بنتی ہیں اور پھر یہ دونوں شاخیں الگ الگ ہی رہتی ہیں۔ پہاڑیوں میں زیادہ بارش ہونے پر اکثر ایک دن بہت زیادہ پانی آتا ہے اور طغیانی لاتا ہے جس سے اکثر کافی تباہی پھیلتی ہے۔ زیادہ بارش میں میدانی علاقے سے بھی پانی اس میں آتا ہے کیوں کہ دریائی وادی نشیبی ہونے کی وجہ سے ضلع کے مشرقی حصے کا پانی نکلنے کا مرکزی راستہ ہے۔ نالہ ڈیگ کی کارروائی پہاڑیوں سے فاصلے کے ساتھ ساتھ بدلتی رہتی ہے۔ گزرگاہ میں کہیں کہیں پانی کے کچھ چشمے میں شامل ہوتے رہتے ہیں۔ نالہ ایک بھی جموں پہاڑیوں سے نکلتا ہے اور شہر کے بیچوں بیچ سے گزرتا ہے۔ بالائی حصوں میں گزرگاہ گہری ہے مگر برسات کے دنوں میں اس کا پانی کناروں سے باہر نکل آتا ہے۔

بارشوں کے دوران نالے میں پانی کی سپلائی وافر ہوتی ہے لیکن موسمِ سرما میں پانی بہت کم ہوتا ہے۔ آج نالہ ایک صرف ایک گندے پانی اور سیال کوٹ شہر کے فضلے کو ٹھکانے لگانے والا ایک نالہ بن کر رہ گیا ہے۔ نالہ ایک سیالکوٹ شہر کے مشرق کی طرف سے پاکستان میں داخل ہوتا ہے اور تقریباً دس کلومیٹر سفر کرنے کے بعد اُورا کے قریب شہر میں داخل ہوتا ہے۔ رنگپورہ نیکا پورہ حاجی پورہ سے ہوتا ہوا شہر سے باہر نکل کر وزیرآباد روڈ کے متوازی بہتا ہے۔ پھر بھوپالوالہ قصبہ کے درمیان سے گزرتا ہوا سمبڑیال ڈسکہ روڈ کراس کرتا ہے اور آخر میں سوہدرہ اور وزیرآباد کے درمیان شمال کی جانب مڑتے ہوئے وزیرآباد روڈ کراس کر کے نالہ پلکھو سے جا ملتا ہے جو وزیرآباد کے شمال سے مغرب کی طرف بہتے ہوئے خانکی کے قریب چناب میں جاملتا ہے۔ برسات کے دنوں میں جب نالہ ایک بھر جاتا ہے تو تقریباً سارا شہر ہی اس بھرے ہوئے نالہ ایک کو دیکھنے کے لیے شہر کے مختلف مقامات کا رخ کرتا ہے۔

قلعہ سوبھا سنگھ ریلوے اسٹیشن

 کہانی تین بھائیوں کی ہے۔ تین بھائی سوبھا سنگھ، دیدار سنگھ اور میاں سنگھ۔ قدیم زمانوں میں شہر چوں کہ قلعوں میں آباد ہوتے تھے، اس لیے انھوں نے بھی اپنے لیے ایک قلعہ بنانے کا سوچا مگر جب بھی قلعے کی تعمیر کا آغاز ہوتا تو کچھ ہی عرصہ بعد قلعے کی تعمیر کسی نہ کسی وجہ سے رک جاتی۔ جوتشیوں کو بلایا گیا۔ کسی جوتشی نے بتایا کہ شہر کی بنیادوں میں کسی مسلمان کا خون ڈالا جائے تو ہی قلعہ تعمیر ہوگا۔ فیصلہ ہوا کہ کسی مسلمان کو قتل کرکے اس کا خون قلعے کی بنیادوں میں ڈالا جائے گا۔ اب راجا کے سامنے کون بولتا۔ آس پاس ہی کہیں پیر بلاق علی شاہ کا ڈیرا تھا۔ انھوں نے حل پیش کیا کہ کسی بھی مسلمان کو کوئی چھوٹا سا زخم دے کر اس کا خون نکالا جائے اور اسے قلعہ کی بنیادوں میں ٹپکا دیا جائے تو بھی مسئلہ حل ہو جائے گا۔ پیر صاحب کی تجویز کو جوتشیوں کی رضامندی سے قبول کیا گیا اور کسی مسلمان کا تھوڑا سا خون قلعہ کی بنیادوں میں بہایا گیا اور یوں ’’قلعہ سوبھا سنگھ‘‘ تعمیر ہوا۔ راجا سوبھا سنگھ کی اس حرکت کا ہم نے برسوں بعد کچھ یوں بدلہ لیا کہ استرے کے ساتھ قلعے کا ختنہ کیا گیا۔

ایسے یہ قلعہ سوبھا سنگھ سے قلعہ احمد آباد ہوگیا۔ آج سوبھا سنگھ کا نام صرف ریلوے اسٹیشن کی حد تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ ریلوے اسٹیشن پر احمدآباد کی بجائے سوبھا سنگھ ہی لکھا ہے مگر شہر میں سوبھا سنگھ آپ کو ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا۔ شہر کے لوگ اگر کسی کو جانتے ہیں تو وہ صرف احمد آباد کو جانتے ہیں۔ ایک بات آج تک سمجھ نہیں آئی کہ پرانے وقتوں میں آخر مسلمانوں کے خون میں کون سی ایسی adhesive strength  ہوتی تھی کہ اسے شامل کیے بغیر کوئی قلعہ کھڑا ہی نہیں ہوپاتا تھا۔ ہر دوسرے قلعے کی ایک ہی کہانی ہے۔

میں قلعہ سوبھا سنگھ کے ریلوے اسٹیشن کی عمارت میں داخل ہوا تو اندر ایک جانب ٹیوشن سینٹر کھلا تھا جہاں ایک لڑکی اپنی چھوٹی بہن کو پڑھانے میں مصروف تھی۔ یہی لڑکی بعد میں ایک چھوٹا سا آلو چنے کی چاٹ کا ٹھیلا لگائے اپنی سہیلیوں کو آلو چنے کی جھوٹ موٹ کے پتوں پر رکھ کر چاٹ کھلانے لگی۔ کچھ آگے دو چھوٹے بچے جھولا جھولنے میں مصروف تھے۔ یہ بچپن بھی کیسی عجیب شے ہے ناں۔ ریلوے اسٹیشن کی عمارت کے باہر جانوروں کا باقاعدہ ریوڑ تھا جن میں طرح طرح کے جانور تھے۔ اس ریوڑ میں سے ایک بکرا ایک چھوٹے سے بچے کا تھا۔

میں بکرا ہانکتے ہوئے اس کی تصویر بنانے لگا تو بے چارہ ڈر کر رونے لگا۔ بعد میں واپسی پر اسی ریوڑ کے ایک بکرے کو میں نے اپنی موٹرسائیکل کے ساتھ رنگ رلیاں مناتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا۔ ظالم بکرا میری معصوم اور شریف موٹرسائیکل کو اپنی زبان سے ایسے چاٹ رہا تھا جیسے عرصہ دراز سے اسے کچھ میسر نہ آیا ہو۔ ریلوے اسٹیشن کی عمارت کے بالکل سامنے ایک مدرسہ تھا جو گلگت کے کسی صاحب نے یہاں بنا رکھا تھا۔

یہاں کچھ طلباء شمال کے بھی زیرِتعلیم ہیں مگر زیادہ طلباء پنجابی ہیں۔ پتا نہیں انھیں کیا سوجھی جو گلگت/اسکردو کے بجائے یہاں مدرسہ بنا ڈالا۔ اتوار تھا تو گراؤنڈ میں لڑکے کرکٹ میچ کھیلنے میں مصروف تھے، جب کہ ایک لڑکا بالکل الگ تھلگ بیٹھا تھا۔ یہ اسی مدرسے میں پڑھنے والا گلگتی لڑکا تھا جس سے گپ شپ میں مدرسہ کے متعلق ساری باتیں پتہ چلیں۔ واضح رہے کہ ہم قلعہ سوبھا سنگھ کی بات کر رہے ہیں نہ کہ قلعہ صوبہ سنگھ کی۔ قلعہ سوبھا سنگھ نارووال پسرور روڈ پر ہے جہاں ریلوے اسٹیشن بھی ہے جب کہ قلعہ صُوبہ سنگھ نارووال مریدکے روڈ پر ہے جہاں اسٹیشن نہیں۔ دونوں کے نام اور املا بھی ملتے جُلتے ہیں اس لیے لوگ ایک کو گڈی (ریل) والا قلعہ اور دوسرے کو بس والا قلعہ کہتے تھے۔ قلعہ سوبھا سنگھ کے دوستوں کے بقول راشد منہاس شہید نشان حیدر کا تعلق یہاں سے تھا۔ ان کے دادا دادی کی قبریں قلعہ سوبھا سنگھ کے مقام والا قبرستان میں ہیں۔

پسرور ریلوے اسٹیشن

میں نے پسرور بارے اطہر نظامی صاحب سے پوچھا تو انھوں نے شہر کے بارے میں ایسی باتیں بتائیں جو شاید کتابوں میں بھی نہ مل سکیں۔ ایسی عمارتوں کے بارے میں معلومات دیں جن کا حوالہ صرف اب پسرور کے پرانے باسیوں کے سینوں میں ہے۔ پسرور کو تقریباً تیرہ سو سال پہلے پرس رام نامی شخص نے آباد کیا۔ اسی کے نام پر اس شہر کو پہلے ’’پرس رام پور‘‘ کہا جاتا تھا جو وقت کے ساتھ بگڑ کر ’’پرسرور‘‘ اور پھر رفتہ رفتہ ’’پسرور‘‘ بن گیا۔

دوسری روایت میں اسے اپنے حدود اربعہ اور باغات کی وجہ سے پُرسرور کہا جاتا تھا۔ انیسویں صدی کے مشہور فارسی شاعر دل محمد دلشاد پسروری اپنے شہر کے متعلق فرماتے ہیں شہرِ ما پُرسرور می گوئند کانِ علم و شعور می گوئند۔ یہ شہر بھی دیگر تاریخی شہروں کی مانند ایک فصیل کے اندر آباد تھا، جس کے باہر نو دروازے تھے۔ سِکھ دور تک یہ دروازے شام ہوتے ہی بند کردیے جاتے تھے۔ آج ان میں سے جو چند دروازے باقی ہیں وہ تحصیل دروازہ، ککے زئیاں دروازہ۔ شرابی دروازہ (موجودہ جناح گیٹ)، شاہ ببن دروازہ، موری دروازہ اور دروازہ سیداں ہیں باقی تاریخ کے دھندلکوں میں کھو چکے ہیں۔

پسرور کی سب سے نمایاں نشانی دارا شکوہ کا تعمیر کردہ ایک پختہ ہشت پہلو تالاب ہے جو اس نے پانی کی شہری ضروریات کے لیے بنوایا۔ یہ تالاب ایک پختہ نہر کے ذریعے ڈیک نالے سے پانی لیتا تھا۔ شہر اونچے ٹیلے پر واقع تھا جس کے گرد بھی کئی ٹیلے تھے۔ اس کے علاوہ یہاں ایک کچا تالاب بھی تھا جسے گجرات کی مشہور روحانی شخصیت حضرت شاہ دولا نے تعمیر کروایا۔

 پسرور کی تاریخ میں ایک دل چسپ واقعہ ہمایوں بادشاہ کا ہے، جو شیر شاہ سوری سے شکست کھانے کے بعد کشمیر جاتے ہوئے فقیر کے روپ میں حضرت سید جلال شاہ بخاری کے مزار پر پہنچا جو محلہ دوبرجی پسرور میں واقع ہے۔ وہاں اسے ایک ہندو ساہوکار کے بیٹے مٹیکا نے پہچان لیا اور ایک روپیہ مدد کے طور پر پیش کیا جسے ہمایوں نے قبول نہ کیا۔ ہمایوں دوسری دفعہ بادشاہت واپس ملنے پر مزار پر حاضر ہوا، اسے مٹیکا کی نیکی یاد تھی، اس نے مٹیکا کو پسرور کی جاگیر عطا کرکے پسرور کا حکم راں مقرر کردیا۔ پسرور کا ذکر بابا گرو نانک جی کے آخری سفر سے بھی جُڑا ہے۔ نارووال روڈ پر چونڈہ پھاٹک کے سامنے ان کا قیام رہا، جہاں اب بھی ان کے ہاتھ کی بیریاں اور گوردوارہ مانجی صاحب موجود ہیں۔ کبھی یہ جگہ صاف ستھری، خوب صورت عبادت گاہ تھی، جو اب وقت اور بے توجہی کی نذر ہوچکی ہے۔ شہر کی اندرونی تاریخ بھی خاصی اہم ہے۔

 ریلوے اسٹیشن سے شہر کی طرف جاتے ہوئے ریلوے روڈ پر دائیں جانب کالج اور ہائی اسکول جب کہ بائیں طرف سرائے مایا دیوی بانکا مَل کی دال مل اور دونوں طرف بے شمار قدیم دکانیں تھیں شاہ ببن دروازے کے ساتھ شیرانوالہ بنک اور پرانے ٹیلیفون ایکسچینج کی عمارات جب کہ لنڈا بازار میں پرانے اسپتال کی قلعہ نما بلند اور وسیع عمارت کے علاوہ کاشانہ بلڈنگ، سنکت رائے کی بارہ دری حیات منزل شیش محل چِٹی حویلی اور حویلی امیرتیمور کے علاوہ شہر میں بے شمار خوب صورت قدیم عمارتیں ہم خود اچھی حالت میں دیکھ چکے ہیں لیکن پچھلے پندرہ بیس سال میں سب صفایا ہوگیا۔ 1991 میں بابری مسجد کی شہادت کے واقعے کے ردعمل میں پسرور کے تقریباً تمام مندر صفحۂ ہستی سے مٹ چکے ہیں۔ تقسیم سے قبل ہندو، مسلمان، سکھ سب یہاں آباد تھے، بھابھڑا برادری کے تاجر کاروبار میں خاصے نمایاں تھے۔

پسرور ظروف سازی (مٹی کی ہنڈیاں اور دیگر برتن) میں پورے خطے میں مشہور تھا اور اب بھی یہ روایت برقرار ہے۔ یہ علاقہ چوںکہ بارانی ہے، اس لیے یہاں ماضی میں چنا، مسور، ماش بکثرت پیدا ہوتے تھے اور یہاں ان اجناس کی بڑی منڈی قائم تھی۔ انگریز دور کے آغاز میں ہی پسرور کو سیالکوٹ کی تحصیل بنادیا گیا۔ پسرور میں پہلا اسکول ۴۵۸۱ میں قائم ہوا۔ ۷۶۸۱ میں ضلع سیالکوٹ میں سیالکوٹ اور پسرور کو شہر کا درجہ دے کر یہاں میونسپلٹیز قائم کی گئیں۔ (سیالکوٹ درجہ اول پسرور درجہ دوم) ۹۸۸۱ میں پسرور میں پہلا ہائی اسکول قائم ہوا یہ سیالکوٹ شہر کے علاوہ ضلع کا واحد ہائی اسکول تھا۔ ۰۰۹۱ سے ۰۱۹۱ کے درمیان یہاں بینک قائم ہوا۔ یہ سیالکوٹ شہر کے علاوہ ضلع کا واحد بینک تھا۔

۵۱۹۱ میں یہاں ریل سروس شروع ہوئی۔ ۷۲۹۱ میں پسرور میں گورنمنٹ انٹرمیڈیٹ کالج قائم ہوا۔ گو اس سے کہیں پہلے مرے کالج بن چکا تھا لیکن سرکاری شعبے میں یہ ضلع کا پہلا کالج تھا۔ ۳۲۰۲ کی مردم شماری کے مطابق پسرور تحصیل کی آبادی 970000 ہے جس میں دیہی آبادی 836000 اور شہر کی آبادی 134000 ہے۔ چونڈہ بڈیانہ کلاسوالہ قلعہ کالروالہ بن باجوہ کنگرہ ٹھرو منڈی چوبارہ پسرور کے نمایاں قصبے ہیں چونڈہ کو پاک بھارت ۵۶۹۱ جنگ کے حوالے سے عالمگیر شہرت ملی جو یہاں سے نو کلومیٹر پر واقع ہے۔

پسرور کو ایک اور اعزاز حاصل ہے کہ اسی جنگ میں انڈیا کا ایک فائیٹر جہاز صحیح سلامت پسرور میں اتار لیا گیا تھا جو آج بھی پی اے ایف میوزیم کراچی میں محفوظ ہے۔ پسرور میں شاہ ببن دروازے کے ساتھ دو پرانی عمارتیں تھیں۔ ایک لال عمارت شیرانوالہ بینک کی اور اس کے ساتھ پرانے ایکسچینج کی۔ اب یہ دونوں ختم ہوچکی ہے۔ شاہ ببن دروازے پر ٹائلز چپکا کر اسے بابِ عثمان بنادیا گیا ہے۔ ایک بہت بڑا پختہ ہشت پہلو تالاب جو موجود تو ہے لیکن اسے شہر کے کرتا دھرتاؤں نے کوڑا کرکٹ ڈال کر ہم وار کردیا ہے۔

یہاں ایک کچا تالاب تھا جہاں اب محلے آباد ہوگئے ہیں، کچھ سال پہلے تک اس کے کنارے پسرور کے بابا منگل داس کی سمادھی تھی۔ اسی جگہ پر توسیعی عمارت بنانے کی ایلیمنٹری کالج کے پرنسپل کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے یہ قدیم تاریخی بارہ دری گرادی گئی۔ لالہ سنکت رائے یہاں کا معروف آدمی تھا۔ محلہ ککے زئیاں پسرور میں تقریباً ساڑھے تین سو سال قدیم مسجد تھی جو چند سال پہلے مسجد کمیٹی نے کویتی امداد کے لالچ میں شہید کردی۔ پسرور میں ایک محلہ امام صاحب ہے۔ یہاؓں ایک تصویر میں ایک مزار ایک مندر اور ایک مسجد نظر آ رہی ہے۔ یہ مزار حضرت میراں برخوردار کا ہے جو سیالکوٹ والے حضرت امام علی الحق کے حقیقی چھوٹے بھائی تھے۔

تین ستمبر 1965 کو پاکستان پر حملہ کرنے والے جہازوں میں سے ایک فائیٹر Gnat  جہاز جسے مجبور ہوکر پسرور لینڈ کرنا پڑا، اس کا پائیلٹ برج پال سنگھ تھا جسے گرفتار کرکے جنگی قیدی بنایا گیا۔ پسرور شہر میں دوسری جنگ عظیم کے دوران ایئرفیلڈ تیار کی گئی تھی جس کا پاکستان بننے کے بعد بارڈر کے قریب ہونے کی وجہ سے غیرمحفوظ خیال کرتے ہوئے جنگی مقاصد کے لیے استعمال ترک کردیا گیا تھا۔

پہلے بھی یہ abandoned  تھا اب اسے ختم کرکے یہاں پسرور کنٹونمنٹ ڈویلپ ہورہا ہے۔ کہتے ہیں جب یہ جہاز اتارا گیا یہ اس وقت اسٹارٹ نہیں ہورہا تھا اور کامرہ سے انجنیئرز کی ٹیم ائی اور انہوں نے اسے اسٹارٹ کیا۔ جب یہ فائٹر جہاز ہوائی اڈے سے ہٹا دیا گیا تو اس وقت تھوڑی دیر بعد انڈین فائٹر پلین نے آ کر اس ہوائی اڈے پر بہت ہیوی بم باری کی۔ اسی جہاز کا پائیلٹ برج پال سنگھ تھا۔ یہ اسکواڈرن لیڈر آگے چل کر انڈین ایئر مارشل کے عہدے تک پہنچا۔ لطف کی بات یہ کہ اسے گھیر کر پسرور جہاز اتارنے پر مجبور کرنے والے پاکستانی پائیلٹ حکیم اللّہ بھی بعد میں پاکستان ایئر فورس کے سربراہ بنے۔

چونڈہ ریلوے اسٹیشن

 آپ پسرور سے چلنا شروع کریں تو اگلا ریلوے اسٹیشن چونڈہ ہے۔ ایک حکایت ہے کہ بہت پہلے یہاں ایک بہت بڑا جاگیردار یا زمیں دار تھا جس کی فقط چار بیٹیاں تھیں اولادِنرینہ کوئی نہ تھی۔ جب اس جاگیردار کا آخری وقت قریب آیا تو اس نے اپنی تمام زمین جائیداد ان چار بیٹیوں میں برابر کی ونڈ یعنی تقسیم کردی۔ یہیں سے اس علاقے کا نام چونڈہ پڑا۔ پاکستان میں بسنے والا ایسا کون سا شخص ہے جو چونڈہ کے نام سے واقف نہ ہو۔ 1965 کی پاک بھارت جنگ میں بھارتی افواج جموں کا بارڈر پار کرتے ہوئے چونڈہ تک پہنچ گئی تھی۔ چونڈہ ریلوے اسٹیشن پر مال گاڑی کی جو بوگی کھڑی ہے، اس پر آج بھی جنگ کے زخم باقی ہیں۔ چونڈہ کو بھارتی ٹینکوں کا قبرستان کہا جاتا ہے۔ بھارت چھے سو ٹینکوں کے ساتھ اس علاقے پر حملہ آوار ہوا تھا جو کہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد سب سے بڑا حملہ مانا جاتا ہے مگر ہمارے جوانوں نے اپنے سینوں پر بم باندھے اور ٹینکوں کے نیچے جا کر لیٹ گئے۔

یہاں کا شہداء قبرستان اس بات کی گواہی دیتا ہے جہاں ایک ایک قبر میں تین یا چار شہدا دفن ہیں۔ کسی ایک کی بھی پوری لاش نہیں مل سکی۔ شہداء قبرستان میں بھارتی افواج کا چھوڑا ہوا اسلحہ کچھ میزائل اور انڈین کالا ہاتھی فورس کا ایک ٹینک بھی موجود ہے۔ بھارت جو اپنی کالا ہاتھی فوج کے ساتھ چونڈہ پر حملہ آور ہوا تو بلاشبہہ اسے نہیں روکا گیا، ریجنز میں استطاعت ہی کہاں تھی اس کو روکنے کی۔ چونڈہ محاذ پر پہلی باقاعدہ لڑائی 16 ستمبر 1965 کو چونڈہ ریلوے اسٹیشن پر لڑی گئی۔ ریلوے اسٹیشن کی جانب پاکستانی فوج تھی جب کہ سامنے کی جانب بھارتی افواج۔ یہاں مال گاڑی کا وہ ڈبا بھی موجود ہے جو اس وقت ہمارا ہیڈ کوارٹر بنا ہوا تھا، جس پر گولیوں کے نشان واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔

چونڈہ شہر میں ہی دشمن کو روکنے کا ٹاسک بریگیڈیئر عبدالمک کو دیا گیا مگر جب انھوں نے دیکھا کہ بھارت کی کالا ہاتھی فوج (250 ٹینک) کا مقابلہ ہمارے 44 ٹینک کسی صورت نہ کرسکیں گے تو انھوں نے اپنے جوانوں کو چونڈہ اسٹیشن پر جمع کیا۔ ان کے سامنے ساری حقیقی صورت حال رکھی اور اپنے دلیر جوانوں سے کچھ یوں خطاب کیا،’’ہمارے 44 ٹینک کسی بھی صورت دشمن کی کالا ہاتھی فورس کا مقابلہ نہیں کرسکتے، مگر ہمیں دشمن کو ہر صورت چونڈہ میں روکنا ہے، کیوںکہ اگر دشمن چونڈہ میں نہ رک سکا تو شاید آگے بھی اسے کوئی نہ روک سکے۔ ہمارے سامنے صرف اور صرف ایک ہی راستہ ہے۔ ہم اپنے سینوں پر بم باندھیں گے اور دشمن کے ٹینکوں کے نیچے لیٹ جائیں گے۔ زندہ بچ جانے کی کوئی صورت نہیں۔ آپ سے میں جو رضاکارانہ دشمن کے ٹینک کے نیچے بم باندھ کر لیٹنا چاہے، وہ جا سکتا ہے۔

کسی کو مجبور نہیں کیا جائے گا۔‘‘ اور پھر دنیا نے دیکھا کہ جیسے ننھے ننھے ابابیلوں نے ابرہہ کی ہاتھیوں کی فوج کو بُھس بنا دیا، جیسے معاذؓؓ اور معوذ ؓ نے ابوجہل کا غرور خاک میں ملایا، بالکل اسی طرح ہمارے دلیر جوانوں نے اس کالا ہاتھی فوج کا اپنے سینوں پر بم باندھ کر مقابلہ کیا اور چونڈہ شہر کو بھارتی ٹینکوں کا قبرستان بنادیا۔ ہم نے 1965 کی پاک بھارت جنگ اپنی کتابوں میں پڑھی تھی۔ ہم نے پڑھا تھا کہ بزدل بھارت رات کے اندھیرے میں ہم پر حملہ آور ہوا تھا۔ الحمدللّہ ہم نے آج دیکھا کہ واقعی بزدل دشمن آج بھی رات کے اندھیرے میں حملہ آور ہوا تھا مگر ہمارے شیروں نے صبح کی روشنی کے ساتھ سنتِ مصطفیٰ ﷺ کی دہراتے ہوئے دشمن پر منہ ٹور جوابی حملہ کیا۔ ایسا جوابی حملہ جو نہ صرف دشمن بلکہ ہم پاکستانیوں کے بھی وہم و گمان میں نہ تھا۔ خدا میرے وطن کی حفاظت کرنے والوں کی بھی حفاظت فرمائے۔ آمین۔

الہڑ ریلوے اسٹیشن

 چونڈہ سے اگلا ریلوے اسٹیشن الہڑ ہے۔ الہڑ کے پرانے بزرگ بتاتے ہیں کہ ان کی جوانی میں سب کام ریلوے کے ذریعے ہی ہوا کرتے تھے۔ چوںکہ قریبی بڑا شہر سیالکوٹ تھا، اس لیے صبح کے وقت تمام مزدور، وکلاء، طلباء سب سیالکوٹ کا رخ کرتے اور واپسی بھی ان کی بذریعہ ریل ہی ہوتی تھی۔ طلبہ اور مزدوروں سمیت روز آنے جانے والوں کے پاسز بنے ہوئے تھے جن کی بدولت انھیں آدھے ٹکٹ کے پیسے دینے پڑتے تھے۔ پھر یہاں ایک عجیب نُوسربازی کا بازار گرم ہوا۔ جیسا کہ میں نے اوپر بھی لکھا تھا کہ اس ملک میں صرف ایک ہی کام منصوبہ بندی سے ہوا ہے اور وہ ہے اس ملک کو لوٹنے کا کام۔ ایک کرپٹ آدمی نے کہیں ایک غلط روایت ڈال دی۔ لوگوں نے ٹکٹ لینا چھوڑ دیا۔

ٹکٹ چیکر ان لوگوں سے آدھا کرایہ لے کر انھیں گاڑی میں سوار کروا لیتے اور وہ آدھا کرایہ اسٹیشن کے متعلقہ سب افراد مل کر کھاتے۔ نتیجتاً الہڑ جیسے بہت سے ریلوے اسٹیشنز سرکاری کھاتوں میں نقصان میں جانے لگے، کیوں کہ سرکار کا تو ان اسٹیشنوں سے کوئی ٹکٹ فروخت نہ ہوتا تھا، جس کا واحد مطلب یہ تھا کہ یہاں سے ریل پر کوئی مسافر سوار نہیں ہورہا جب کہ مسافر بہت تھے، بس وہ کسی کھاتے میں شمار نہ ہورہے تھے۔ وزارتِ بلور کا قصور صرف اور صرف یہ تھا کہ اس نے ایسے تمام اسٹیشنز کو بند کرنے کا فیصلہ کیا جہاں ٹکٹ فروخت نہیں ہورہے تھے۔

ایک جرمن کا واقعہ بہت مشہور ہے کہ ایک پاکستانی جرمنی گیا۔ اسے دو تین بار اپنے کسی دوست کے ہمراہ ریل کے سفر کا اتفاق ہوا۔ ہر بار ریل کا ٹکٹ خریدا گیا مگر کسی کے چیک نہ کرنے کی وجہ سے ٹکٹ ’’ضائع‘‘ گیا۔ آخر پاکستانی کے ضبط کا پیمانہ لبریز ہوگیا تو اس نے جرمن سے کہا کہ ہم کیوں ہر بار ٹکٹ خرید کر پیسے ضائع کر رہے ہیں جب کہ ہماری ٹکٹ کوئی چیک بھی نہیں کرتا۔ جرمن نے پھر بھی ٹکٹ خریدا اور جواب دیا،’’میں نے تمہارا ملک تو نہیں دیکھا اور نہ اس کے بارے میں جانتا ہوں مگر اتنا ضرور جان چکا ہوں کہ تمھارے سربراہان مملکت بھی کرپٹ ہی ہوں گے کیوںکہ تم خود کرپٹ ہو۔ یہ بات یہاں اسی لیے یاد آئی کہ جب اس الہڑ ریلوے اسٹیشن کو بند کردیا گیا تو آس پاس کے لوگوں نے یہاں خوب لوٹ مار مچائی، کیا کھڑکیاں، کیا دروازے، اب الہڑ ریلوے اسٹیشن میں کچھ بھی نہیں۔ لوگوں نے الماریاں بھی نہیں چھوڑیں، سب کچھ لوٹ کر لے گئے۔ نہ جانے کیوں مجھے یہاں وہ مہاجر یاد آ گئے جو ان علاقوں سے تقسیمِ ہند کے وقت ہجرت کر کے ہندوستان چلے گئے۔ وہ کیوںکر اور کیسے اپنے سازو سامان کے ساتھ محفوظ رہے ہوں گے۔

ہندوؤں اور سکھوں کا وہاں بس چلا تو انھوں نے قتل و غارت اور لوٹنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ہم چوںکہ یہاں حاکم تھے، اس لیے وہ سارے کام ہم نے یہاں کے اور ہم یہ سب کام کیوںکر نہ کرتے۔ آخر مٹی تو سب کی ایک ہی تھی، خمیر تو سب کا ایک ہی تھا۔ فرق صرف اور صرف مذہب کا تھا۔ مذہب میں شاید اتنی طاقت ہوتی ہو کہ وہ لوگوں کی اخلاقی تربیت کرسکے مگر بدقسمتی سے ہندوستان کے لوگوں کی کوئی بھی مذہب اخلاقی تربیت نہ کر سکا، نہ سرحد کے اِس طرف اور نہ سرحد کے اُس طرف۔ اگر مذہب نے دونوں اطراف کوئی اخلاقی تربیت کی ہوتی تو نہ یہاں لاہور میں لکشمی چوک کو آگ لگتی اور نہ وہاں رام کے نام پر بابری مسجد کو شہید کیا جاتا.

1965 کی جنگ جو چونڈہ محاذ پر لڑی گئی، وہ بنیادی طور پر چونڈہ اور الہڑ میں لڑی گئی، بلکہ چونڈہ اور الہڑ کے ریلوے اسٹیشن پر لڑی گئی۔ یہ ہے تو عجیب بات مگر سچ یہی ہے کہ چونڈہ کا شہر اور الہڑ کا قصبہ، دونوں کا ریلوے اسٹیشن ہی عملی طور پر میدانِ جنگ بنا۔ الہڑ کے پرانے بزرگ جنھوں نے سن 65 کی جنگ دیکھی ہے، وہ بتاتے ہیں کہ یہ جنگ اس اعتبار بھی دل چسپ تھی کہ الہڑ میں ریل کی پٹری کے ایک طرف دشمن فوج تھی اور ایک ہم اور ہمارے جوان۔ یوں سمجھ لیں کہ ایک پٹری دشمن کے پاس تھی اور دوسری پٹری ہمارے پاس.۔ یہاں دونوں افواج باقاعدہ آمنے سامنے ہوکر لڑی تھیں۔

الہڑ کے اختر اعوان صاحب بتانے لگے کہ ان کا بچپن (ساتویں سے لے کر دسویں کلاس تک) لاھور کے مضافاتی علاقے ہربنس پورہ فتح گڑھ وغیرہ میں گزرا۔ اس زمانے میں ریل کار سروس لاھور اسٹیشن سے جلو کے درمیان چلا کرتی تھی۔ لاھور، مغل پورہ، مسلم آباد، ہربنس پورہ، گلر پیر اور جلو۔۔۔یہ چھے اسٹیشن تھے اور ریل کار سروس میں صبح چار بجے سے رات گیارہ بجے تک کسی بھی وقت کھڑا ہونے کی جگہ ملنا کارمحال تھا۔ ریل کار مکمل بھری ہوتی۔ دروازوں تک لوگ جمع ہوتے اور کھڑکیوں سے دودھ کے گھڑوے بندھے ہوتے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں تقریباً دو سال ہربنس پورہ سے مغل پورہ تک اس ریل کار کا مسافر رہا اور اگلے دو سال مسلم آباد سے مغلپورہ اور اگلے دو سال کالج کے زمانے میں مسلم آباد سے لاھور۔۔۔۔ ایک باقاعدہ ریل کلچر تھا۔

روزانہ سفر کرنے والوں کے دکھ سکھ سانجھے تھے۔ میرا اگرچہ لڑکپن تھا لیکن اس دور کا ریل کا سفر آج بھی دل و دماغ کو اسی خوب صورت ماحول کا حصہ بنا دیتا ہے۔ ابھی دو سال پہلے میرا چھوٹا بھائی مشتاق مرحوم و مغفور اسی علاقے میں مقیم تھا۔ ہربنس پورہ ریلوے اسٹیشن جنگل بیابان کا منظر پیش کر رہا تھا۔ عمارت شکست و ریخت کا شکار تھی۔ ٹاہلی کا درخت تن تنہا کھڑا ندامت کے آنسو بہارہا تھا۔ پتا چلا کہ جب سمجھوتا ایکسپریس بند ہوئی تو ساتھ ہی یہ لوکل ریل کار بھی بند کردی گئی اور اس طرح وہ تاریخی ریلوے ٹریک اپنے انجام کو پہنچا جس کے ذریعے قیام پاکستان کے وقت لاکھوں ہندوؤں، سکھوں اور مسلمانوں نے نقل مکانی کی۔ اسی ٹریک کے ایک حصے پر امرتسر کی خون آلودہ داستانیں لکھی گئیں۔ اے حمید کی امرتسر کی یادوں میں بھی اس ریلوے ٹریک کا ذکر ہے۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ریلوے اسٹیشن کی عمارت لاثانی ایکسپریس قلعہ سوبھا سنگھ ریلوے اسٹیشن پر ا ریلوے اسٹیشن کی بنیادوں میں کے پرانے بزرگ رام گوپال کے رام گوپال نے بتانے لگے کہ رام گوپال کا میں سیالکوٹ نارووال سے ہربنس پورہ برانچ لائن نارووال کے کوٹ شہر کے اسٹیشن سے ساتھ ساتھ کے درمیان اسٹیشن کے تا ہے اور کی وجہ سے کے نام پر کہتے ہیں ہوتے تھے کرتے تھے رہتے ہیں پانچ بجے لاہور کے سے لاہور عمارت کے کے ذریعے کے علاوہ کے سامنے قائم ہوا انھوں نے پسرور کو نالہ ایک یہاں ایک لوگوں کی بھی نہیں تقسیم کی پسرور کے سال پہلے بچپن میں جسڑ کیمپ ہے کہ اس دیا گیا اور ایک کے قریب کے بارے رہے تھے ہونے کی قلعے کی کے ساتھ تھے اور ستر سال لڑی گئی کچھ یوں علی شاہ چھوڑ کر گیا تھا میں ایک تھا مگر شاہ ببن ہوتا ہے ریل کار کوئی نہ سے کوئی پر حملہ ہوا تھا جاتی ہے اور پھر یہاں سے ہوتی ہے چلا گیا جائے گا کی جانب رہا تھا کیوں کہ ا ج بھی ریل کی ہے مگر میں یہ کے وقت بھی نہ سے ایک کے پاس ہیں کہ کے بعد تھا جو حملہ ا کے لیے کی ریل کے لوگ اس لیے تھا جس بھی اس بھی یہ کہ میں ریل کا تھا کہ کہ ایک کا نام ایک ہی سے ریل کے ایک یوں کہ کا ذکر کا تھا اور اس

پڑھیں:

بلوچستان: منگوچر میں گرڈ اسٹیشن پر حملہ، کیسکو کے عملے، گارڈز کو یرغمال بنالیا گیا

2 درجن کے قریب مسلح افراد نے زرد غلام جان منگوچر گرڈ اسٹیشن پر حملہ کر دیا، جس کے دوران انہوں نے کنٹرول روم اور دیگر آلات کو شدید نقصان پہنچایا اور کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی (کیسکو) کے عملے اور سیکیورٹی گارڈز کو یرغمال بنالیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کیسکو کے حکام نے اتوار کے روز بتایا کہ تقریباً 20 مسلح افراد نے 132 کے وی گرڈ اسٹیشن پر حملہ کیا، جس سے گرڈ اسٹیشن کو شدید نقصان پہنچا۔

مسلح افراد نے سیکیورٹی گارڈز سے 12 بور رائفل چھین لی اور اسٹیشن کے عملے کو اسلحے کے زور پر یرغمال بناتے ہوئے عمارت میں توڑ پھوڑ کی۔

کیسکو کے ترجمان کے مطابق ملزمان نے گرڈ اسٹیشن کے اندر فائرنگ بھی کی، جس کے نتیجے میں کنٹرول روم، ہائی پاور ٹرانسفارمر، کرنٹ ٹرانسفارمرز، کنزرویٹر ٹینک، ریڈی ایٹر ٹیوبز، اے سی/ڈی سی پینلز، آکسیلری پینلز اور دیگر ضروری برقی آلات کو نقصان پہنچا۔

کچھ دیر تک عملے اور گارڈز کو ہتھیاروں کے زور پر یرغمال رکھنے کے بعد، حملہ آوروں نے انہیں جان سے مارنے کی دھمکی دیتے ہوئے عمارت خالی کرنے کا حکم دیا، اس کے بعد عملہ اور سیکیورٹی گارڈز اپنی جان بچا کر فرار ہو گئے۔
بعد ازاں، کیسکو حکام نے مقامی تھانے میں حملہ آوروں کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے لیے تحریری درخواست جمع کروائی۔

علاوہ ازیں، کچھ افراد نے کچلاک بائی پاس کے قریب 132 کے وی یارو انڈسٹریل ٹرانسمیشن لائن کو رسیوں کے ذریعے فنی خرابی پیدا کر کے نقصان پہنچایا۔

مقامی انتظامیہ اور پولیس کے ساتھ مشترکہ گشت کے دوران تقریباً 700 میٹر کنڈکٹرز اور دیگر برقی آلات چوری شدہ پائے گئے۔

الیکٹرک کمپنی نے بعد میں پولیس کو ایک اور تحریری درخواست دی تاکہ ٹرانسمیشن لائن کی چوری میں ملوث افراد کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔

ترجمان نے کوئٹہ، مستونگ، قلات، دشت، اور سبی میں حالیہ ہفتوں کے دوران بجلی کے نظام کو نشانہ بنانے والے بڑھتے ہوئے تخریبی حملوں اور چوری کے واقعات پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہا کہ ان حملوں سے نہ صرف بجلی کی فراہمی متاثر ہوئی بلکہ یہ عوامی سلامتی اور قومی اثاثوں کے لیے بھی سنگین خطرہ بن چکے ہیں۔

کیسکو نے تمام صارفین سے اپیل کی ہے کہ وہ قومی انفرااسٹرکچر کی حفاظت میں مدد کریں اور ٹرانسمیشن لائنز میں چوری یا چھیڑ چھاڑ سے متعلق کسی بھی مشکوک سرگرمی کی اطلاع فوری طور پر متعلقہ حکام کو دیں۔

Post Views: 6

متعلقہ مضامین

  • جعفر ایکسپریس پر ایک اور حملہ، ٹرین کو دوزان ریلوے اسٹیشن پر روک دیا گیا
  • جعفر ایکسپریس پر ایک بار پھر حملہ، ٹرین کو دوزان ریلوے اسٹیشن پر روک دیا گیا
  • بلوچستان: منگوچر میں گرڈ اسٹیشن پر حملہ، کیسکو کے عملے، گارڈز کو یرغمال بنالیا گیا
  • دھابیجی پمپنگ اسٹیشن پر کل مینٹیننس کیلئے شٹ ڈاؤن ہو گا: کےالیکٹرک
  • 9 گھنٹے تک بجلی بند رکھنے کا فیصلہ
  • لاہور سے کراچی جانے والی پاک بزنس ایکسپریس ٹرین حادثے کا شکار
  • اسپیس ایکس: ’کریو 11‘بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پہنچ گیا، استقبال کیسا ہوا؟
  • ٹرین فریش بریکیج آف ریل کی وجہ سے ہوئی ہے،اسلام آباد ایکسپریس کو شاہدرہ اسٹیشن کے قریب پیش آئے حادثے کی وجہ سامنے آگئی
  • شاہ رخ خان کا 33 سالہ انتظار ختم، پہلی بار نیشنل فلم ایوارڈ مل گیا