لاہور، پی ٹی آئی کا 300 کارکنان گرفتار کیے جانے کا دعوی
اشاعت کی تاریخ: 5th, August 2025 GMT
لاہور(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔05 اگست ۔2025 )پی ٹی آئی نے لاہور سے 300 سے کارکنان کو حراست میں لیے جانے کا دعوی کیا ہے جبکہ سندھ کے ضلع ٹنڈوالہیار میں پی ٹی آئی کے ضلعی صدر ایڈووکیٹ نہال لاشاری کو گرفتار کر کے انصاف ہاﺅس کو بند کردیا گیا. صدرپی ٹی آئی لاہور امتیاز شیخ نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ لاہور میں یوم سیاہ کے طور پر بھرپور احتجاج کیاجارہا ہے ، پی ٹی آئی کے تمام ٹکٹس ہولڈر اور کارکنوں کو ہدایت دی گئی تھی کہ وہ اپنے حلقوں میں احتجاج کریں پی ٹی آئی رہنما نے دعوی کیا کہ لاہور پولیس پی ٹی آئی رہنماں اور کارکنوں کی گرفتاری کیلئے چھاپے مار رہی ہے .
(جاری ہے)
پارٹی ذرائع نے یہ بھی دعوی کیا ہے کہ لاہور سے ہمارے 300کارکنان کو حراست میں لیا گیا ہے، گزشتہ روز پی ٹی آئی کے رکن پنجاب اسمبلی چھاپوں کے خوف سے اسمبلی عمارت سے نہیں نکل رہے تھے دوسری جانب سندھ کے ضلع ٹنڈوالہیار میں پی ٹی آ ئی کے ضلعی صدر ایڈووکیٹ نہال لاشاری کو گرفتار کر لیا گیا جبکہ انصاف ہاﺅس کو بند کردیا گیا. تحریک انصاف ٹنڈوالہیار کے ضلعی صدر ایڈووکیٹ نہال لاشاری کی گرفتاری کی ویڈیو وائرل ہو گئی جس میں پولیس موبائل میں بیٹھے دکھائی دئیے، ضلعی صدر کی گرفتاری کے بعد انصاف ہاﺅس ٹنڈو الہیار پر تالے پڑ گئے ایڈووکیٹ نہال لاشاری کی گرفتاری کے بعد کارکنان میں بے چینی پائی گئی تاہم تحریک انصاف کے ضلعی صدر کی گرفتاری پر پولیس کی جانب سے کوئی موقف سامنے نہیں آیا. پی ٹی آئی ذرائع کے مطابق نہال لاشاری نے 5 اگست کو تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان کی گرفتاری کے دو سال مکمل ہونے پر احتجاج کی کال دے رکھی تھی جبکہ انہوں نے تاجروں سے شٹر ڈاﺅن ہڑتال کی اپیل والی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل کی تھی.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کے ضلعی صدر کی گرفتاری پی ٹی آئی
پڑھیں:
سیلان قتل عام کے متاثرین27 سال گزر جانے کے باوجود انصاف سے محروم
شیخ خاندان کے ان مقتولین کو بندوق کی نوک پر پکڑا گیا اور حسن محمد شیخ کے گھر کے اندر گولیاں ماری گئیں۔ ہائی کورٹ کی مداخلت اور سی بی آئی انکوائری کے باوجودیہ کیس دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے چل رہا ہے لیکن انصاف نہیں مل رہا۔ اسلام ٹائمز۔ سیلان پونچھ قتل عام کے متاثرین ابھی تک انصاف سے محروم ہیں جس میں بھارتی فوجیوں نے 3 اور 4 اگست 1998ء کی درمیانی شب کو ضلع پونچھ کے علاقے سیلان میں 11 بچوں سمیت ایک ہی خاندان کے 19 افراد کو گولیاں مار کرشہید کر دیا تھا۔ ذرائع کے مطابق یہ بہیمانہ قتل عام بھارتی فوج کے 9 پیرا یونٹ کے اہلکاروں نے اسپیشل پولیس آفیسرز کے ہمراہ ایک مقامی مخبر و پولیس اہلکار کے قتل کے بعد کیا تھا۔ شیخ خاندان کے ان مقتولین کو بندوق کی نوک پر پکڑا گیا اور حسن محمد شیخ کے گھر کے اندر گولیاں ماری گئیں۔ زندہ بچ جانے والوں اور انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ بعد میں فوجیوں نے لاشوں کو مسخ کرنے اور یہ یقینی بنانے کے لئے کہ کوئی زندہ نہ بچے، کلہاڑیوں کا استعمال کیا۔ زندہ بچ جانے والوں میں سے ایک شبیر احمد جو اس وقت 18سال کا تھا، یاد کرتا ہے کہ کس طرح فوج آدھی رات کو ان کے گھر میں گھس گئی اور اس کے بوڑھے والدین اور چار بہنوں سمیت پورے خاندان کو ان کے چچا کے گھر میں گھسیٹ کر لے گئے۔
شبیر نے بتایا کہ وہ میرے کزن امتیاز شیخ کو ڈھونڈ رہے تھے۔ جب میرے چچا لسہ شیخ نے کہا کہ ان کا امتیاز سے کوئی رابطہ نہیں ہے تو میجر غصے سے بے قابو ہو گیا اور فوجیوں کو اسے مارنے کا حکم دیا۔افراتفری میں شبیر مویشیوں کے ایک شیڈ میں چھپنے میں کامیاب ہو گیا۔ وہاں سے اس نے چیخیں اور پھر گولیوں کی آوازیں سنیں۔ انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے میرے چچا کو گولی ماری گئی۔ پھر انہوں نے خواتین اور بچوں پر اندھا دھند فائرنگ کی۔ فائرنگ 20منٹ تک جاری رہی۔ اگلی صبح گائوں والوں کو 19 افراد کی لاشیں ملیں جو گولیوں سے چھلنی اور کلہاڑیوں سے کٹی ہوئی تھیں۔ شہید ہونے والوں میں شبیر کے والدین اور چار بہنیں شامل تھیں۔ تمام متاثرین کو دفنانے میں تین دن لگے اور زندہ بچ جانے والوں کو خاموش رہنے کی دھمکیاں دی گئیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم خوف میں رہتے تھے۔ تین سال تک ہم خاموش رہے۔ اگرچہ پولیس کی طرف سے ایف آئی آر درج کی گئی تھی اور چند ایس پی اوز کو مختصر مدت کے لئے گرفتار بھی کیا گیا تھا لیکن سب کو چند دنوں میں ہی رہا کر دیا گیا۔
ہائی کورٹ کی مداخلت اور سی بی آئی انکوائری کے باوجودیہ کیس دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے چل رہا ہے لیکن انصاف نہیں مل رہا۔ جموں و کشمیر کوئلیشن آف سول سوسائٹی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ سیلان کا قتل عام نہ صرف بھارتی فورسز کی طرف سے کی جانے والی بربریت کی ایک واضح مثال ہے بلکہ اسے انصاف سے منظم محرومی بھی بے نقاب ہوتی ہے۔ گروپ نے کہا کہ یہ کیس ظاہر کرتا ہے کہ نظام انصاف کس طرح متاثرین کے خاندانوں کو کمزور کرتا ہے تاکہ مجرموں کو بچایا جائے۔ مقتولین کے اہل خانہ نے قتل عام کے 27سال مکمل ہونے پر قبرستان جا کر دعا کی اور انصاف کے اپنے مطالبے کو دہرایا۔