خفیہ دستاویزات لیک، نیتن یاہو ہی "اسرائیلی قیدیوں کی رہائی" میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار
اشاعت کی تاریخ: 5th, August 2025 GMT
قابض اسرائیلی رژیم کے چینل 13 نے انکشاف کیا ہے کہ سکیورٹی حکام کے مشورے کے برعکس مارچ میں ممکنہ "قیدیوں کی رہائی و غزہ میں جنگبندی کے جامع معاہدے" کی غاصب اسرائیلی وزیراعظم نے ہی مخالفت کی تھی! اسلام ٹائمز۔ غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے تک پہنچنے کی تازہ ترین کوششوں کے دوران ہی اسرائیلی حکام کی سیاسی و سکیورٹی نشستوں سے متعلق لیک ہونے والی خفیہ دستاویزات منظر عام پر آ گئی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ غاصب اسرائیلی وزیر اعظم ہی تھا کہ جس نے نت نئی رکاوٹیں کھڑی کرتے ہوئے قیدیوں کی رہائی اور غزہ میں جنگ بندی کے عمل کو معطل کر دیا تھا۔ قابض اسرائیلی رژیم کے چینل 13 نے اس حوالے سے خصوصی رپورٹ نشر کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ تمام اسرائیلی رہنماؤں نے غلط اندازہ لگا رکھا تھا کہ "انسانی دباؤ" حماس کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دے گا! اپنی رپورٹ میں صیہونی میڈیا نے تاکید کی ہے کہ اس کے برعکس اس فیصلے کے 5 ماہ گزر جانے کے بعد بھی نہ صرف حماس کمزور نہیں پڑی بلکہ غزہ میں انسانی امداد کے داخلے کے حوالے سے اسرائیل کے غیر انسانی رویے نے بھی بین الاقوامی سطح پر صیہونی رژیم کے امیج کو شدید نقصان پہنچایا ہے!
واضح رہے کہ غزہ میں جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کا پہلا مرحلہ، مصر و قطر کی ثالثی اور "امریکہ کی حمایت" سے، 19 جنوری کے روز شروع ہوا تھا جو مارچ میں ختم ہو گیا جبکہ اس دوران حماس نے تو اس معاہدے پر مکمل عملدرآمد کیا تاہم نیتن یاہو نے اس معاہدے کے دوسرے مرحلے کو ترک کرتے ہوئے 18 مارچ سے غزہ میں دوبارہ سے قتل عام شروع کر دیا تھا۔ بعد ازاں گذشتہ ہفتے بھی اسرائیل نے؛ غزہ سے انخلاء، جنگ کے خاتمے، فلسطینی قیدیوں کے انجام اور انسانی امداد کی تقسیم پر موجود "اختلافات" کا بہانہ بناتے ہوئے، دوحہ میں حماس کے ساتھ جاری بالواسطہ مذاکرات سے یکطرفہ طور پر دستبرداری اختیار کر لی تھی۔ اسرائیلی اندازوں کے مطابق غزہ میں اب بھی تقریباً 50 اسرائیلی قیدی موجود ہیں کہ جن میں سے 20 کے زندہ ہونے کا امکان ہے۔ دوسری جانب اسرائیلی جیلوں میں تقریباً 11 ہزار فلسطینی شہری قید ہیں جنہیں، انسانی حقوق کے متعدد اداروں کے مطابق؛ تشدد، بھوک اور طبی غفلت کا مسلسل سامنا ہے!
ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
قطر کا اسرائیل کیخلاف عالمی فوجداری عدالت سے رجوع کرنے کا اعلان
قطر نے کہا ہے کہ وہ اسرائیل کے دوحہ میں حماس رہنماؤں پر حملے کے خلاف بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) میں قانونی چارہ جوئی کرے گا۔
اس بات کا اعلان قطری وزیرِ مملکت برائے خارجہ امور ڈاکٹر محمد بن عبدالعزیز الخلیفہ نے اپنے ایک بیان میں کیا۔
وزیر خارجہ نے بتایا کہ ہیگ میں آئی سی سی کی ڈپٹی پراسیکیوٹر نزہت خان سے دو ملاقاتیں کی ہیں جن میں اسرائیل کو قانونی طور پر کٹہرے میں لانے کے امکانات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
قطر کے وزیر خارجہ ڈاکٹر الخلیفہ نے کہا کہ قطر اپنی خودمختاری اور عوام کے تحفظ کے لیے ہر دستیاب قانونی راستہ اختیار کرے گا۔
محمد بن عبدالعزیز الخلیفہ کا مزید کہنا تھا کہ مجرموں کو سزا دلوانے اور عالمی قوانین کے تحت جوابدہ بنانے کے لیے عالمی انصاف کے در پر دستک دی ہے۔
یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی جب رواں ماہ اسرائیل نے دوحہ میں ایک رہائشی عمارت کو نشانہ بنایا جس میں حماس کی اعلیٰ قیادت غزہ جنگ بندی سے متعلق امریکی تجویز پر مشاورت کر رہے تھی۔
حماس نے تصدیق کی کہ اسرائیلی حملے میں الخلیل الحیا کے بیٹے سمیت 5 ارکان شہید ہوگئے تھے۔
دوسری جانب اسرائیلی حکام نے تصدیق کی کہ حماس رہنما الخلیل الحیا ہدف تھے جو 7 اکتوبر 2023 کے اسرائیل پر حملے کے ذمہ دار تھے۔
اسرائیلی فوج کے بیان میں کہا گیا تھا کہ نشانہ بنائے گئے حماس رہنما وہ افراد تھے جو اسرائیل میں 1,200 شہریوں کے قتل اور 251 افراد کے اغوا میں ملوث تھے۔
تاہم بعض اسرائیلی سیکیورٹی حکام نے اس حملے پر تحفظات ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام یرغمالیوں کی رہائی اور جنگ بندی کے مذاکرات کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
یاد رہے کہ قطر نے دو سال تک اسرائیل اور حماس کے درمیان مذاکرات کی میزبانی کی اور ایک مرکزی ثالث کے طور پر سامنے آیا ہے لیکن دوحہ پر حملے کے بعد اس نے اسرائیل کے خلاف قانونی جنگ کا فیصلہ کیا۔