پاکستان ریلویز کا کاسمیٹک سرجری پر سارا زور، خستہ حال ٹریک اپ گریڈیشن کا منتظر
اشاعت کی تاریخ: 6th, August 2025 GMT
لاہور:
پاکستان ریلویز کا کاسمیٹک سرجری پر سارا زور، ریلوے اسٹیشن تو تیزی کے ساتھ اَپ گریڈ کیے جا رہے ہیں جبکہ ریلوے انفرا اسٹرکچر 10 سے 150 سال پرانہ ہے۔ ریل بوگیوں کی شدید کمی کے باعث مسافروں کو دیگر ٹرینوں میں ایڈجسٹ کیا جانے لگا جبکہ جو ٹرین پٹڑی پر دوڑنے لگے تو وہ حادثے کا شکار ہو جاتی ہے۔
بعض ٹرینوں کے اچانک ایئر کنڈیشنڈ سسٹم بھی جواب دے جاتے ہیں، مسافر ٹکٹ ایئر کنڈیشنڈ کوچ کی لیتے ہیں لیکن سفر بغیر ایئر کنڈیشنڈ کے کرنا پڑتا ہے۔ مسافر ٹرین ہو یا گڈز ٹرین اس کو منزل مقصود پر پہنچنے کے لیے کبھی دہشت گری تو کبھی حادثات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ریلوے انتظامیہ تمام تر کوششوں کے باوجود مسافروں کو بروقت پہنچانے میں ناکام ہے۔
پاکستان ریلوے نے مسافروں کو جدید سہولیات فراہم کرنے کے لیے زیادہ توجہ ’’کاسمیٹک سرجری‘‘ پر مرکوز کر رکھی ہے۔ لاہور، کراچی، راولپنڈی اور ملتان سمیت دیگر ریلوے اسٹیشن کو بڑی ہی تیز رفتاری کے ساتھ اَپ گریڈ کیا جا رہا ہے مگر ریلوے انفرا اسٹرکچر انتہائی بدحالی کا شکار ہے۔
ریلوے ٹریک کی خستہ حالی اور ٹوٹ پھوٹ کی نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ کوئی ٹرین اگر بروقت روانہ ہو بھی جائے تو راستہ مکمل کرنا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے، جیسے ہی ٹرین تھوڑی اسپیڈ پکڑتی ہے تو اچانک پٹڑی سے اتر کر الٹ جاتی ہے، یا دہشت گردی یا کراسنگ پر کسی گاڑی اور ٹرک سے ٹکرا جاتی ہے، جو ٹرینیں پٹڑی سے نہ اتریں تو ان کے ایئر کنڈیشنڈ سسٹم اچانک کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور مسافر سارا راستہ شدید گرمی اور حبس میں بغیر ایئر کنڈیشنڈ سفر کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں جبکہ ٹکٹ ایئر کنڈیشنڈ کوچ کی ادا کی ہوتی ہے۔
ریلوے انتظامیہ کو ریل گاڑی کی بوگیوں کی بھی شدید کمی کا سامنا ہے یہی وجہ ہے کہ لاہور سے کراچی، راولپنڈی یا دیگر شہروں کو جانے والی ٹرینیں یا تو منسوخ کر دی جاتی ہیں اور پھر ان منسوخ شدہ ٹرینوں کے مسافروں کو دوسری ٹرین میں ایڈجسٹ کیا جاتا ہے۔
ایکسپریس نیوز کو ملنے والے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان ریلویز کو یکم جنوری سے لے کر اب تک مسافر اور مال بردار ٹرینوں کے پٹڑیوں سے اترنے سمیت مختلف نوعیت کے 46 سے زائد حادثے رونما ہو چکے ہیں۔ مسافر ٹرینوں کے پٹڑیوں سے اترنے کے 23 جبکہ مال بردار ٹرینوں کے 20 اور 3 دیگر حادثات شامل ہیں۔
جعفر ایکسپریس ٹرین کو تخریب کاری کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ ٹرینوں کے حادثات سے سیکڑوں مسافر زخمی ہوئے جبکہ ان حادثات کی وجہ سے پاکستان ریلوے کے انفرا اسٹرکچر کو بھی کروڑوں روپے کا نقصان پہنچا، 21 مئی کو کراچی سے لاہور آنے والی ٹرین شالیمار ایکسپریس کو سیاں والا دارلحسان کے قریب حادثہ پیش آیا۔ ٹرین ان مینڈ لیول کراسنگ پر اینٹوں والے ٹرالے سے ٹکرا گئی جس سے ٹرین کی تمام 15 کوچز پٹڑی سے اتر گئیں۔
اسی طرح، 30 مئی کو رحمان بابا ایکسپریس ٹرین ان مینڈ لیول کراسنگ پر ٹرالے سے ٹکرا گئی۔ یکم جون کو پاکستان ایکسپریس کو مبارک پور کے قریب حادثہ پیش آیا جس سے ٹرین کی ڈائننگ کار کے نیچے سے پوری ٹرالی نکل گئی تاہم ٹرین بڑے حادثے سے بال بال بچ گئی۔
اس کے علاوہ، 14 جون کو ٹرینوں کے حادثات کے تین واقعات پیش آئے۔ پشاور جانے والی ٹرین خوشحال خان خٹک کی 6 بوگیاں کندھ کوٹ کے مقام پر پٹڑی سے اتر گئیں۔ اسی روز، علامہ اقبال ایکسپریس ٹرین بھی بڑے حادثے سے بچ گئی، ٹرین کے چلتے چلتے بریک بلاک میں خرابی پیدا ہوگئی۔ تھل ایکسپریس ٹرین کار سے ٹکرا گئی۔
اس کے بعد، 18 جون کو جعفر ایکسپریس کو جیکب آباد کے قریب تخریب کاری کا نشانہ بنایا گیا، ریلوے ٹریک کو دھماکا خیز مواد سے اڑا دیا گیا اور ٹرین کی 5 بوگیاں پٹڑی سے اتر گئیں۔ اسلام آباد ایکسپریس کالا شاہ کاکو کے قریب ڈی ریل ہو کر الٹ گئی، پاور پلانٹ سمیت چھ بوگیاں پٹڑی سے اتر گئین جس میں 25 سے زائد مسافر زخمی ہوئے۔
دوسری جانب، ریلوے انتظامیہ بروقت کوچوں کی تیاری کو بھی ممکن نہ بنا سکی، 31 ارب روپے کی لاگت سے تیار ہونے والی بوگیوں کا منصوبہ 71 ارب روپے میں پہنچ گیا اور لاگت ڈبل ہونے کے باوجود بوگیاں بروقت تیار نہیں ہوئیں۔
وفاقی وزیر ریلوے کا کہنا ہے کہ پاکستان ریلویز کو اَپ گریڈ کر رہے ہیں اور ریلوے انفرا اسٹرکچر پر بھی اربوں روپے خرچ کیے جا رہے ہیں، لاہور سے راولپنڈی ٹریک کو اَپ گریڈ کرنے کے لیے پنجاب حکومت نے 350 ارب روپے دے دیے ہیں۔ ریلوے اسٹیشن پر وائی فائی سمیت ایگزیکٹو اور فیملی لاونچ بنا دیے گئے ہیں، مسافروں کو ریلوے اسٹیشن سے لیکر جدید سفری سہولیات فراہم کر رہے ہیں جلد ریلوے کو اپنے پاؤں پر کھڑا کر دیں گے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پاکستان ریلویز انفرا اسٹرکچر ایکسپریس ٹرین ایئر کنڈیشنڈ ریلوے اسٹیشن پٹڑی سے اتر مسافروں کو ٹرینوں کے ا پ گریڈ رہے ہیں سے ٹکرا کے قریب
پڑھیں:
اے آئی سرجری اور میڈیکل فیلڈ کے مختلف شعبوں کو تیزی سے بدل رہا ہے: ماہرین
بین الاقوامی طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت (اے آئی) انٹرنل میڈیسن اور ریڈیالوجی جیسے شعبوں میں ایسی باریکیاں پکڑنے کی صلاحیت رکھتی ہے جو بعض اوقات ماہر ڈاکٹرز کی نگاہ سے بھی اوجھل رہتی ہیں۔اے آئی سی ٹی اسکین میں وہ چیزیں شناخت کر لیتی ہے جنہیں انسانی آنکھ نظر انداز کر دیتی ہے، یہی وجہ ہے کہ اے آئی سرجری اور تحقیق سمیت میڈیکل فیلڈ کے مختلف شعبوں کو تیزی سے بدل رہا ہے۔
نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی سے وابستہ طبی ماہرین نے جناح اسپتال کراچی میں منعقد ہونے والی لیپرواسکوپی (laparoscopy) اور ویٹ لاس (بیریاٹرک) سرجری کی جدید تکنیکوں پر مبنی دو روزہ ورکشاپ میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
اس ورکشاپ میں نیویارک سے تعلق رکھنے والے کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر آف سرجری جارج ایس فرزلی اور ان کے فیلو ڈاکٹر الیگزینڈر وو نے شرکت کی۔
اس موقع پر سرجیکل ریزیڈنٹس اور پوسٹ گریجویٹس کو جدید تکنیکوں کی عملی تربیت دی گئی۔ورکشاپ کا مقصد محفوظ، مؤثر اور بین الاقوامی معیار کے مطابق سرجری کے طریقے متعارف کرانا تھا۔
جناح اسپتال کراچی کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر پروفیسر شاہد رسول کا کہنا تھا کہ ہم معمول کے مطابق ورکشاپس کا انعقاد کرتے ہیں، جن میں بین الاقوامی ماہرین کو مدعو کرکے نئی تکنیکیں سیکھتے ہیں۔اس ورکشاپ میں نیویارک سے تعلق رکھنے والے کالمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر جارج ایس فرزلی نے شرکت کی یہ سرجری کے پروفیسر ہیں۔ جنرل سرجری اور ویٹ لاس سرجری کے ماہر ہیں۔ انہوں نے ہماری پی جی اور پوسٹ گریجویٹ طلبہ کو مختلف سرجریز کے محفوظ اور مؤثر طریقوں سے آگاہ کیا۔
سربراہ جناح اسپتال نے کہا کہ میں نے دنیا کے کئی ممالک میں ماہرین کے ساتھ کام کیا ہے اور ہر تجربے سے کچھ نیا سیکھا ہے۔ اس طرح کی ورکشاپس میں جب ہم ماہرین کی نگرانی میں نئی تکنیکوں پر عمل کرتے ہیں تو غلطیوں کا امکان کم ہو جاتا ہے۔ روبوٹک سرجری سیکھنے سے پہلے لیپرواسکوپک سرجری پر عبور حاصل کرنا ضروری ہے۔ آئندہ 20 برسوں میں بھی روبوٹک سرجری لیپرواسکوپک سرجری کی جگہ نہیں لے سکتی، کیونکہ دونوں کا اپنا الگ کردار ہے۔
ڈاکٹر الیگزینڈر وو نے کہا کہ مصنوعی ذہانت (اے آئی) کی ترقی پر بات کرنے کے لیے اس سے بہتر جگہ کوئی نہیں، خاص طور پر جب یہاں ایسے افراد موجود ہوں جو خود موجد (انوویٹر) ہیں۔ 90 کی دہائی کے اوائل میں لیپرواسکوپی آ رہی تھی اور اوپن سرجری عام تھی۔ اس وقت بھی نئی ٹیکنالوجی کو اپنانے کے لیے جرات اور قبولیت کی ضرورت تھی۔ پھر لیپرواسکوپی کو اپنایا گیا اور اس کی صلاحیت دیکھی گئی۔
انہوں نے کہا کہ آج بھی یہی صورتحال ہے، کوئی شک نہیں کہ مصنوعی ذہانت میڈیسن (طب) کے شعبے کو سنبھالنے اور اسے بدلنے جا رہی ہے۔ہم اس کے اثرات ابھی سے دیکھ رہے ہیں، مریض اب خود اپنی بیماریوں اور ادویات کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں، اور وہ چیٹ جی پی ٹی جیسے اے آئی ماڈلز سے رجوع کرتے ہیں۔فی الحال اے آئی سب سے زیادہ جس شعبے پر اثر کر رہی ہے وہ اندرونی طب (Internal Medicine) اور ریڈیالوجی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اے آئی کبھی کبھار سی ٹی اسکین پر وہ چیزیں شناخت کر لیتی ہے جو ہم ڈاکٹرز سے بھی چھپ جاتی ہیں، کیونکہ کئی چیزیں طبی طور پر بہت زیادہ اور پیچیدہ ہو چکی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ سرجری کے شعبے میں اے آئی کا اثر دو طریقوں سے ہو رہا ہےپہلا طریقہ یہ ہے کہ اے آئی بڑے پیمانے پر ڈیٹا کی بنیاد پر نتائج اور تحقیق کو دیکھ کر نئے ماڈلز، سیکھنے کے طریقے اور پیشن گوئیاں دے رہی ہے، جو سرجنز آپریشن سے پہلے یا بعد میں اپنی سرجری کو بہتر بنانے کے لیے استعمال کریں گے۔ اب تحقیق محض تحقیق نہیں رہی، کیونکہ انسان اتنے بڑے ڈیٹا کو خود سے پروسیس نہیں کر سکتا، یہ کام اب اے آئی کر رہا ہے۔دوسرا طریقہ روبوٹک سرجری کی صورت میں ہے،روبوٹک سرجری میں بڑی تیزی سے ترقی ہو رہی ہے۔ جب بھی آپ روبوٹ کو حرکت دیتے ہیں، کمپنیاں اور پروگرامز آپ کے سرجری کے ہر قدم کو ریکارڈ کرتے ہیں اور نتائج سے جوڑتے ہیں۔ ایک وقت ایسا آ سکتا ہے کہ روبوٹ کے حرکات کو مثالی نمونہ بنا سکتے ہیں۔تاکہ وہ خود سرجری کرسکے،ابھی ہم اس مقام سے بہت دور ہیں۔لیکن اس سب کے باوجود، لیکن ہم تب بھی آپریٹنگ رومز میں موجود ہوں گے اور سرجریز کررہے ہوں گے۔
نیویارک یونیورسٹی (این وائی یو) کی ریزیڈنٹ دینا ہانی نے کہا کہ وہ ضیاءالدین یونیورسٹی کی گریجویٹ ہیں اور اب این وائی یو میں سرجری کی چوتھے سال کی ریزیڈنٹ ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں سرجیکل ٹیم کے ساتھ کام کا تجربہ انتہائی خوش آئند رہا اور یہاں کے پوسٹ گریجویٹس میں بے حد صلاحیت موجود ہے۔
انہوں نے کہا کہ انہوں نے بھرپور کوشش کی کہ نیویارک میں حاصل کی گئی تربیت اور تکنیکی مہارت یہاں منتقل کریں۔ ان کے مطابق کچھ نئی تکنیک متعارف کروائی گئیں اور یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ یہاں موجود سرجیکل آلات اور ٹیکنالوجی بھی بین الاقوامی معیار کی ہیں۔
بعد ازاں پاکستان کی پہلی اور واحد باقاعدہ سرکاری طور پر رجسٹرڈ سوسائٹی پاکستان سوسائٹی آف میٹابولک اینڈ بیریاٹرک سرجری (PSMBS) کی تقریبِ حلف برداری کا انعقاد کیا گیا۔
تقریب سندھ چیپٹر کے صدر ڈاکٹر سورندر داوانی کی زیر نگرانی منعقد ہوئی۔یہ سوسائٹی 2017 میں قائم کی گئی تھی اور اب اس کے صدر پروفیسر ڈاکٹر شاہد رسول ہیں، جو کہ جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر بھی ہیں۔
اس کا مقصد پاکستان میں موٹاپے جیسے موذی مرض کے علاج کو ہر فورم پر ممکن بنانا ہے۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ بیریاٹرک سرجری کے ذریعے نہ صرف موٹاپے پر قابو پایا جاسکتا ہے بلکہ اس سے منسلک کئی بیماریوں جیسے شوگر بلڈ پریشر، کولیسٹرول اور گھٹنوں کے درد کو بھی مؤثر طور پر کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹرز نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ سوسائٹی نہ صرف علاج بلکہ آگاہی تحقیق، اور پالیسی سازی کے میدان میں بھی اپنا فعال کردار ادا کرے گی تاکہ پاکستان میں موٹاپے سے جڑے صحت کے بحران پر قابو پایا جا سکے۔