لاہور ہائیکورٹ کا پناہ گاہ پراجیکٹ کے ملازمین کی مستقلی سے متعلق بڑا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 6th, August 2025 GMT
لاہور ہائیکورٹ کے پناہ گاہ پراجیکٹ کے ملازمین کی مستقلی سے متعلق کیئے گئے فیصلے کے مطابق ملازمت کی مستقلی بنیادی حق نہیں، مستقل ملازمت ایک رعایت ہے جو پالیسی اور قانونی شرائط سے منسلک ہے۔ تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ حکومت چاہے تو مخصوص شرائط کے تحت اس رعایت کا اختیار استعمال کر سکتی ہے، 2018ء کے ریگولرائزیشن ایکٹ کا اطلاق پراجیکٹ پوسٹوں پر نہیں ہوتا۔ اسلام ٹائمز۔ لاہور ہائیکورٹ نے پناہ گاہ پراجیکٹ کے ملازمین کی مستقلی سے متعلق بڑا فیصلہ سنا دیا۔ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے مطابق پراجیکٹ کی پوسٹوں پر ریگولرائزیشن ایکٹ کا اطلاق نہیں ہوتا، 2 رکنی بینچ نے پناہ گاہ منصوبے کے کنٹریکٹ ملازمین کی مستقل تقرری کی اپیلیں خارج کر دیں۔ لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس عاصم حفیظ اور جسٹس خالد اسحاق پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے فیصلہ سنایا، 2 رکنی بینچ نے محمد قدیر سمیت دیگر کی درخواستوں پر 11 صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کیا۔
فیصلے کے مطابق ملازمت کی مستقلی بنیادی حق نہیں، مستقل ملازمت ایک رعایت ہے جو پالیسی اور قانونی شرائط سے منسلک ہے۔ تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ حکومت چاہے تو مخصوص شرائط کے تحت اس رعایت کا اختیار استعمال کر سکتی ہے، 2018ء کے ریگولرائزیشن ایکٹ کا اطلاق پراجیکٹ پوسٹوں پر نہیں ہوتا۔ فیصلے کے مطابق 2018ء کے ریگولرائزیشن ایکٹ میں پراجیکٹ ملازمین کو ملازم کی تعریف سے خارج کیا گیا ہے، آئینی عدالتیں خود سے ملازم کا درجہ تبدیل کرنے کی مجاز نہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: لاہور ہائیکورٹ فیصلے کے مطابق ملازمین کی کی مستقلی پناہ گاہ
پڑھیں:
پمز اسپتال کے ڈاکٹرزکے دوبارہ ٹیسٹ کا معاملہ، اسلام آباد ہائیکورٹ نے مزید اقدام سے روک دیا
اسلام آ باد:اسلام آبادہائی کورٹ نے پمز اسپتال شعبہ ایمرجنسی کے ریگولر ڈاکٹرزکے دوبارہ ٹیسٹ اور انٹرویوز کے معاملے پر وفاقی وزارت صحت کو مزید کسی اقدام سے روک دیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس انعام امین منہاس نے ڈاکٹر شرجیل ظہیر اور ڈاکٹر سعدیہ نثار کی درخواست پر سماعت کا حکم نامہ جاری کردیا، جس میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزاران کے مطابق ان کو 2012 میں ریگولر کر دیا گیا تھا۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزاران کے مطابق ریگولرائزیشن کے 13 سال بعد کہا گیا کہ بھرتی درست نہیں لہٰذا ٹیسٹ اور انٹرویو دیاجائے، وکیل کے مطابق سول سرونٹس ایکٹ1973کی دفعہB-11 کے مطابق ریگولرملازمین سے ٹیسٹ وغیرہ نہیں لیا جا سکتا۔
عدالت نے کہا کہ درخواست گزار وکیل کی جانب سے سپریم کورٹ آف پاکستان کے مختلف فیصلوں کا حوالہ بھی دیاگیا اور کہا کہ سپریم کورٹ کا پٹیشن نمبر949/2023 کا فیصلہ درخواست گزارن پرلاگو نہیں ہوتا۔
حکم نامے کے مطابق وکیل نے بتایا کہ درخواست گزاران کو وفاقی کابینہ کے فیصلے کے مطابق ریگولرائز کیاگیا، فیصلے سے حاصل ہونے والے حقوق 13 سال بعد ختم نہیں کیے جاسکتے ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکم دیا کہ معاملہ قابل غور ہے، فریقین آئندہ سماعت پر پیرا وائز کمنٹس جمع کرائیں جبکہ اگلی سماعت تک درخواست گزاران کا گزشتہ اسٹیٹس برقرار رہے گا۔