WE News:
2025-08-07@05:06:20 GMT

پاکستان کا عالمی قد کاٹھ

اشاعت کی تاریخ: 7th, August 2025 GMT

افراد کی طرح ممالک کے بھی قد کاٹھ ہوتے ہیں۔ جو کچھ اہم شعبوں کسی بھی ملک کی پیش رفت یا قدرتی طور پر موجود کچھ امتیازات سے جڑے ہوتے ہیں۔ ان میں جغرافیہ، وسائل، آبادی، ٹیکنالوجی، دفاعی صلاحیت، سفارتی اثر و رسوخ اور ثقافتی اثراندازی کی صلاحیت شامل ہیں۔ آئیے ان حوالوں سے پاکستان کی صورتحال سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

 جغرافیائی لحاظ سے پاکستان کا محلِ وقوع انتہائی اسٹریٹیجک ہے۔ یہ وسطی ایشیا، مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کے سنگم پر واقع ہے۔  صرف یہی نہیں بلکہ یہ ابھرتے ہوئے ورلڈ لیڈر چائنا کا سب سے محفوظ اور قریب ترین گیٹ وے بھی ہے۔ ہماری جغرافیائی اہمیت بڑھانے میں انقلاب کے بعد والے ایران کا بھی کلیدی رول ہے۔ عالمی سیاست میں جس کے بے لچک مؤقف نے صورتحال ہمارے حق میں کر رکھی ہے اور لینڈ لاک سینٹرل ایشیا تک زمینی راستہ ہمارا ہی دستیاب ہے۔ بات صرف سینٹرل ایشیا تک نہیں بلکہ روس کو بھی تو راستہ درکار ہے۔ یوں ہماری یہ اہمیت ون وے نہیں بلکہ دو طرفہ ٹریفک کی ہے۔ بالخصوص روس کے لیے ہماری بندرگاہوں کی اہمیت تو بہت قدیمی معلوم ہے۔ گزرے وقتوں میں سوویت ایمپائر نے بھی اس تک رسائی کی خون ریز کوشش کی تھی۔ سوچنے والا سوچ سکتا ہے کہ روس کو تو ایران جیسے بااعتماد دوست کی بندرگاہیں دستیاب ہوسکتی ہیں۔ وہ ہماری بندرگاہوں میں دلچسپی کیوں لینے لگا؟ تو ایسا ہے کہ ایرانی بندرگاہیں ہر وقت خطرے سے دوچار بندرگاہیں ہیں۔ یوں محفوظ اور بلا تعطل سروسز صرف  ہم ہی فراہم کرسکتے ہیں۔ حال ہی میں روس نے لاہور تک ریلوے لائن لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ اس کی ہماری بندرگاہوں سے استفادے کی طرف ہی پیش رفت ہے۔ اسی طرح سی پیک کی صورت ہماری چین کے لیے اہمیت معلوم حقیقت ہے۔ اور خیر سے ڈونلڈ ٹرمپ کی رال بھی آج کل جس طرح پاکستان پر ٹپک رہی ہے وہ بھی آپ کے سامنے ہے۔ اس اہم ترین راستے کو امریکا اپنی چوکی کے قیام کے  بغیر چھوڑ سکتا ہے؟ سو نوٹ کرنے والی بات یہ ہے کہ جغرافیائی اہمیت والی کٹیگری میں پاکستان کا مقام بہت غیر معمولی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کون بچائے گا اسرائیل کو؟

وسائل والی کیٹیگری میں صورتحال یہ ہے کہ ہمارے پاس کوئلہ، نمک، تانبا، سونا، گیس اور دیگر معدنیات موجود ہیں۔ مگر نالائقی یہ ہے کہ ہم نے گیس اور تیل کے علاوہ کسی اور چیز کی تلاش اور اسے کام میں لانے سے تو جیسے گریز کی قسم اٹھا رکھی ہے۔ ہم بس اسی کوشش میں لگے رہے ہیں کہ کسی طرح تیل والی لاٹری نکل آئے،  تو ہم بھی عرب شیخوں کی طرح ہر ویک اینڈ پر جوا کھیلنے لاس ویگاس جا پائیں۔ اور ہم بھی اپنے ملک کی بجائے امریکا اور مغرب میں سرمایہ پھنسانے کی توفیق حاصل کر پائیں۔  لیکن ہوا یہ کہ تیل بھی تاحال نہ ملا اور دیگر معدنیات کو کام میں لانے کی کوئی سکیم بھی نہ بن سکی۔ یوں وسائل ہونے کے باوجود پاکستان وسائل والی کٹیگری میں ایک کمزور ملک ہے۔

آبادی والی کٹیگری کی صورتحال بہت ہی شاندار ہے۔ مگر اس میں کلیدی رول اس بات کا ہے کہ معاشرہ مجموعی طور پر اعلی تعلیم یافتہ نہیں۔ یوں آبادی  کم ہی اچھی والی ’دانش‘ یہاں جڑ نہ پکڑسکی اور ملک 24 کروڑ کی آبادی ہی نہیں رکھتا بلکہ سب سے زبردست بات یہ ہے کہ اس آبادی کا 60 فیصد 30 سال اور اور اس سے کم عمر والے نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ جس کا مطلب پولیٹکل سائنس کی اصطلاح میں یہ ہے کہ پاکستان ایک ’نوجوان ملک‘ ہے۔ اور اہمیت اس کی یہ ہے کہ اگر ایک ایسی حکومت آگئی جس نے پوری ایمانداری سے یہ فیصلہ کرلیا کہ آبادی کو پوری طرح متحرک کرکے ملک کو ترقی کے راستے پر اسی سنجیدگی کے ساتھ ڈالنا ہے جو سنجیدگی چینی قیادت کی شناخت ہے تو پاکستان کو جوان اور توانا بازو ورک فورس کے طور پر دستیاب ہوں گے۔ اور اس کی ترقی غیر معمولی ہوگی۔فی الحال تو ہماری سیاسی قیادت اس مشن پر ہے کہ سب نے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنی ہیں۔ اور ملک کی 60 فیصد جوان آبادی اس کام میں ان کا خوب خوب ہاتھ بٹا رہی ہے۔

 نواز اور شہباز شریف کی لیپ ٹاپ اسکیم کیا ہے؟ یہی کہ دیکھو بیٹا، اس لیپ ٹاپ سے آن لائن روزی بھی کماؤ اور اور ہماری خوشامد بھی کرو۔ ہم سے بڑے بڑے کارخانوں اور ان میں نوکریوں کی امید مت رکھنا، اور کبھی بھی مت بھولنا کہ موٹروے کس نے بنائی۔ اور یہی نوجوان پھر انہی لیپ ٹاپس کی مدد سے یہ بھی پوچھتے ہیں ’ہم ترقی کیوں نہیں کر رہے؟‘ یوں آبادی والی کٹیگری میں پاکستان ہے تو بہت زبردست پوزیشن میں مگر معدنیات کی طرح یہاں بھی فائدہ اٹھانے کا کوئی عزم موجود نہیں۔

ٹیکنالوجی والی کٹیگری کی سب سے بڑی اہمیت یہ ہے کہ صنعتی معیشت کا دارومدار اس پر ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ قوت خرید کے لحاظ سے پاکستان دنیا کی 25 ویں بڑی جبکہ نامنل جی ڈی پی کے لحاظ سے 38 ویں بڑی معیشت ہے۔ ہم تو یہ بھی نہیں جانتے کہ یہاں ’بڑی‘ لفظ بنتا بھی ہے یا نہیں، مگر اپنے ملک کے لیے کہنا اچھی فیلنگز دیتا ہے سو برت دیا۔ پاکستان ٹیکسٹائل، سرجیکل آلات، چمڑے کی مصنوعات، کھیلوں کا سامان، چاول اور آم برآمد کرنے میں عالمی حیثیت رکھتا ہے۔ زراعت کا جی ڈی پی میں بڑا حصہ ہے، مگر اس میں بھی جدید ٹیکنالوجی کی کمی ہے۔یوں یہ شعبہ اپنی پوری استعداد کے مطابق پیداوار نہیں دے رہا۔ حیرت ہوتی ہے کہ امریکا، جرمنی اور برطانیہ جیسے ممالک کے اسپتالوں میں سرجیکل آلات پاکستان کے استعمال ہوتے ہیں۔ کھیلوں کے سامان والے شعبے میں بلندی یہ ہے کہ فیفا ورلڈ کپ میں بھی فٹبال ہمارا استعمال ہوتا ہے۔ چمڑے  کی مصنوعات میں بھی ہم بڑی ساکھ کے ساتھ موجود رہے ہیں۔ اور ٹیکسٹائل میں تو ہماری دھاک امریکا اور یورپ کی مارکیٹوں میں ہے۔ لیکن پھر بھی قومی قیادت کو یہ خیال نہ آسکا کہ اس ٹیلنٹ کا دائرہ صنعت کے دیگر شعبوں تک بھی پھیلایا جائے۔ جو تب ہی ممکن ہے جب ملک ٹیکنالوجی میں بھی آگے بڑھ رہاہو۔ یہاں تو حالت یہ ہے کہ چمڑے کی مصنوعات میں محض اس وجہ سے اب ہم اب تنزلی کا شکار ہیں کہ پرانی ٹیکنالوجی استعمال کر رہے ہیں۔

معیشت کے پہلو سے  بحران یہ ہے کہ قرضوں کا بوجھ، بڑھتی کرپشن، پالیسی کا تسلسل نہ ہونا اور انفراسٹرکچر کی کمی پہاڑ جیسے چیلنجز ہیں۔ جس نے نوجوان نسل کو مایوس کر رکھا ہے۔ مگر نوجوان نسل کی مایوسی کو سیریس لینے کی ضرورت نہیں۔ وہ اس مایوسی کا اظہار تب کرتے ہیں جب یہ اپنے اپنے لیڈر کے یاقوت و مرجان تولنے سے فراغ پاکر ماں باپ کے اس سوال کا سامنا کرتے ہیں، ملی نوکری؟ بس گھنٹے بھر کی مایوسی ہوتی ہے۔ اس کے بعد یہ ایک بار پھر یاقوت ومرجان تولنے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔اس کٹیگری میں صورتحال یہ ہے کہ پاکستان ابھرتی ہوئی معیشت ہے مگر غیر مستحکم بھی اور بے یقینی کا شکار بھی۔ مستحکم اور ٹھوس معیشت اسی ملک کی ہوتی ہے جو ٹیکنالوجی کے میدان میں وقت کے تقاضے پورے کر رہا ہو۔ اس معاملے میں مضحکہ خیزی کا اندازہ اسی سے لگا لیجیے کہ پرویز ہود بھائی تنخواہ فزیکس پڑھانے کی لیتے ہیں مگر شہرت ان کی ان سوالات کے جوابات ڈھونڈنے کی ہے کہ پاکستان کا قیام درست تھا یا غلط؟ علامہ اقبال کو فلسفہ آتا تھا یا نہیں؟ رنجیت سنگھ کا مجسمہ بننا چاہیے یا نہیں؟ فزیکس میں انہوں نے فزیکس کا تو کچھ نہیں اکھاڑا البتہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام اکھاڑنے کی انتھک مگر بے ثمر محنت بھی ان کا ایک حوالہ ہے۔

مزید پڑھیے: ’اسلام کا دفاع‘

دفاعی صلاحیت والی کٹیگری میں پاکستان کی پوزیشن بہت مضبوط ہے۔ اگرچہ اس لحاظ سے عالمی درجہ بندیوں کے کئی پیمانے رو بعمل ہیں مگر خود فوجی دنیا میں جن معیارات کو پیش نظر رکھا جاتا ہے ان کے مطابق ہمارے پاس دنیا کی چھٹی بڑی فوج ہے۔ سات ممالک پر مشتمل ایلیٹ ملٹری کلاس یعنی نیوکلیئر کلب کا ہم حصہ ہیں۔ ہمارے پاس ابھرتی ہوئی دفاعی صنعت بھی ہے جو ٹینکوں سے ے کر طیارہ سازی تک کئی شعبوں میں بہت ہی نمایاں پیش رفت کر رہی ہے۔  یوں صورتحال یہ ہے کہ خود سے کئی گنا بڑے انڈیا کی صرف 4 دن میں ہم نے طبیعت ایسی صاف کی کہ پچھلے 3 ماہ سے ایسا دن نہیں جاتا جب عالمی سطح پر گبر سنگھ سے یہ سوال نہ ہوتا ہو

’کتنے طیارے تھے؟‘

اور گبر سنگھ بتاتا ہی نہیں کہ

’6 تھے استاد 6 ‘

شکر ہے کہ ہمارے دفاعی شعبے کے لوگ ڈاکٹر پرویز ہودبھائی اور ڈاکٹر عائشہ صدیقہ جیسوں کے جھانسے میں کبھی نہیں آئے ورنہ صورتحال یہ ہوتی کہ آج کی تاریخ میں یہ دونوں تو امریکا کے کسی بار میں ملتے اور ہم سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد ایک اور زخم چاٹ رہے ہوتے۔

سفارتی اثر رسوخ والی کٹیگری میں تو ہم بلاشبہ بے تاج بادشاہ ہیں۔ اس شعبے میں ہماری دور اندیشی دیکھئے کہ 50 سال قبل ہم نے دنیا کی سب سے بڑی سپر طاقت اور آنے والے دور کی سپر طاقت یعنی امریکا اور چین سے پوچھا

’تم دونوں آپس میں بولتے کیوں نہیں؟’

ایک ناراض تھا، دوسرا شرما رہا تھا سو ہم نے  دونوں کو سمجھایا اور رچرڈ نکس کا تاریخی دورہ بیجنگ کروا دیا۔ ایٹمی ملک بننے کی کوشش کرنے والے عراق، لیبیا اور ایران کے ساتھ کیا ہوا اور ہو رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ ہم ایٹم بنا بھی چکے، سنبھال بھی چکے  لیکن اس کوشش میں کسی بھی فزیکل ڈیمج کا شکار نہ ہوئے۔ یہ صرف وزارت دفاع کی کامیابی تھی؟ نہیں اس میں وزارت خارجہ کا بھی کلیدی رول رہا۔ جس نے ’بات چیت‘ کو کبھی اس ناکامی تک پہنچنے ہی نہ دیا جس کے بعد پیٹاگون اور نیٹو کے حرکت میں آنے کا امکان پیدا ہوجاتا ہے۔جنرل ضیاء کے دور میں اپنے ایٹمی پروگرام کو جس مہارت سے سفارتی ہتھیار سے ہم نے بچایا ہے وہ بجائے خود سفارتکاری کا ایک شاہکار ہے۔ کتنا عجیب ہے کہ ابھی روسی اس جمع تفریق میں مصروف تھے کہ سوویت زوال کے اثرات کا دائرہ کتنا وسیع ہے؟ کہ اچانک ہم نے کریملن کے دروازے پر دستک دیدی۔ اندر سے آواز آئی

’کون ہے ؟‘

ہم بتا چکے کہ کون ہیں تو حیرت بھرے لہجے میں پوچھا گیا

’اب کیا لینے آئے ہو ؟‘

’دوستی، ہم آپ کے ساتھ گہری اور مضبوط دوستی کرنا چاہتے ہیں‘

صرف یہی نہیں بلکہ امریکی یہ بتاتی ڈاکومنٹریز بنا بنا کر تھک گئے کہ افغانستان میں ہم پاکستان کے ہاتھوں شکست سے دو چار ہیں۔ یہ ڈبل گیم کھیل رہا ہے۔ وہ اس کے ثبوت بھی دیتے، جنہیں ہم مسترد کر دیتے۔ مگر سچ تو سچ ہے جس کا انکار ممکن نہیں۔ ہمارا ہداف تھا کیا؟ یہی کہ ہمیں اپنی سرحد پر امریکا کا مستقل قیام منظور نہیں۔ یہ ہدف حاصل ہونے کے صرف 4 سال بعد فیلڈ مارشل عاصم منیر امریکی صدر کے ساتھ لنچ کرتے پائے گئے۔ وہ کھانا اور ہم دانہ ڈال رہے تھے۔ کسی کو اندازہ بھی ہے کہ یہ سفارتکاری کے شعبے میں ہماری کتنے بڑے درجے کی مہارت کا ثبوت ہے؟

مزید پڑھیں: امریکی دفاع اور منی لانڈرنگ

آخری کٹیگری ثقافتی اثر اندازی کی ہے۔اس پہلو سے پاکستان اردو زبان کا تنہا وارث ہے جو دنیا بھر میں 30 کروڑ سے زائد لوگوں کی زبان ہے۔ اس زبان میں نثری و شعری لحاظ سے پاکستان کی خدمات  مسلم ہیں۔ موسیقی میں نصرت فتح علی خان نے اس ہندوستان پر راج کیا ہے جو مشرق گائیکی پر اپنی اجارہ داری کا دعویدار ہے۔ صرف نصرت ہی نہیں بلکہ حالیہ عرصے میں کوک سٹوڈیو پاکستان کو  دنیا کے کئی ممالک نے بطور ماڈل فالو کیا۔ اور ایک انڈین گلوکارہ کو پچھلے ہفتے ہی یہ طنز کرنا پڑا

’پاکستان کے پاس کوک اسٹوڈیو کے سوا کچھ نہیں‘

ہماری فلمیں تو کچھ خاص نہیں رہیں لیکن ڈرامے کی نسبت سے تو انڈین بھی ہماری برتری کے معترف رہے ہیں۔ وہ الگ بات پرائیویٹ ٹی وی چینلز نے آکر ہمارے ڈرامے کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ فیشن اور ہینڈی کرافٹس میں بھی پاکستان کے  تمام صوبے اپنے منفرد رنگوں کے ساتھ موجود ہیں۔ ڈیجٹل ثقافت کے پہلو سے بھی سوشل میڈیا پر پاکستان تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ ایک خاص چیز یہ کہ صوفی ازم کی مذہبی حیثیت سے قطع نظر اس کے صرف ثقافتی پہلو کو دیکھا جائے تو صوتی حوالے سے ہی تلاوت، نعت خوانی اور صوفی گائیکی نے عالمگیر شہرت حاصل کر رکھی ہے۔ بالخصوص صوفی گائیکی میں اب مغربی موسیقار بھی تجربات کر رہے ہیں۔  خلاصہ یہ کہ ثقافتی اثر اندازی کے لیے درکار مسالے ہمارے پاس پورے ہیں۔ یوں اس کٹیگری میں پاکستان بہت تگڑا ملک ہے۔ چونکہ پاکستان تمام کٹیگریز میں بہتر پرفارم نہیں کرہا۔ بعض میں بہت اچھا اور بعض میں بہت کمزور ہے۔ یوں ہمارا مجموعی قد کاٹھ درمیانے درجے کا ہے۔ اور اس میں بہتری کی تب تک کوئی امید نہیں جب تک یہ قوم تمامتر بربادی کے باوجود نا اہل  لیڈروں کی غلامی پر آمادہ ہے !

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

رعایت اللہ فاروقی

امریکا پاکستان کا عالمی قد کاٹھ پاکستان کی سفارتی پوزیشن جنوبی ایشیا چین سینٹرل ایشیا مشرق وسطیٰ.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: امریکا پاکستان کی سفارتی پوزیشن جنوبی ایشیا چین سینٹرل ایشیا صورتحال یہ ہے کہ کہ پاکستان پاکستان کی سے پاکستان پاکستان کے پاکستان کا ہمارے پاس نہیں بلکہ ہوتے ہیں رہے ہیں کے ساتھ میں بہت میں بھی ہی نہیں کے بعد کے لیے بھی ہے اور ہم ملک کی اور اس

پڑھیں:

پاکستان میں تحفظ خوراک کے لیے تیزی سے پکنے والی فصل کی اقسام کی ضرورت ہے. ویلتھ پاک

فیصل آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔04 اگست ۔2025 )پاکستان میں غذائی تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے فصلوں کی تیزی سے پکنے والی اقسام ضروری ہیں۔

(جاری ہے)

یونیورسٹی آف ایگریکلچر فیصل آباد کے ڈاکٹر افتخار احمد نے ویلتھ پاک سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے کاشت کے انداز تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں. انہوں نے کہاکہ صرف تیزی سے پختہ ہونے والی فصلوں کی اقسام ہی پاکستان کو زیادہ خوراک پیدا کرنے، پانی کی بچت، موسمیاتی تبدیلیوں سے لڑنے اور درآمدات پر انحصار کم کرنے میں مدد کر سکتی ہیں اگر ہم واقعی یہ کام کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں مضبوط پالیسی سپورٹ اور بیجوں تک بہتر رسائی کی ضرورت ہے انہوں نے کہا کہ ان چیلنجوں سے نمٹنے کا سب سے اہم عنصر کسانوں کو بااختیار بنانا ہے جو ملک کی خوراک اگاتے ہیں.

انہوں نے کہا کہ یہ بات سب جانتے ہیں کہ پاکستان کو متعدد چیلنجز کا سامنا ہے جن میں موسمیاتی تبدیلی، پانی کی قلت، بڑھتی ہوئی آبادی اور زرعی زمین پر بڑھتا ہوا دباو ہے آگے کا واحد راستہ تیزی سے اگنے والی فصلوں کی اقسام پر توجہ مرکوز کرنا ہے یہ فصلیں کم وقت میں زیادہ خوراک پیدا کرنے میں ہماری مدد کر سکتی ہیںجو پاکستانی لوگوں کو کھانا کھلانے، زراعت کے شعبے کو ترقی دینے اور ہماری معیشت کو سہارا دینے کے لیے بہت اہم ہے.

انہوں نے کہا کہ جو فصلیں تیزی سے پکتی ہیں وہ کسانوں کو عام روایتی اقسام کے مقابلے زیادہ تیزی سے پیداوار کرنے کے قابل بنائے گی اس سے وہ ایک ہی موسم میں ایک سے زیادہ فصلیں کاشت کر سکیں گے، خاص طور پر ان جگہوں پر جہاں ترقی کا وقت محدود ہے انہوں نے کہا کہ یہ اقسام بھی کم پانی استعمال کرتی ہیںجو ان علاقوں کے لیے فائدہ مند ہے جہاں پانی کی کمی ہے .

ترقی پسند کسان احتشام شامی نے بتایا کہ پاکستانی کسان محنتی اور لگن والے ہیں لیکن آج کل ان کی کوششیں رائیگاں جا رہی ہیں اس کی بنیادی وجہ کیڑے مار ادویات، کھادوں اور جعلی بیجوں کے استعمال کے ساتھ ساتھ موسمیاتی تبدیلیاں ہیں انہوں نے کہا کہ اگر صورتحال اسی طرح جاری رہی تو کسانوں کو بری طرح نقصان پہنچے گا اور وہ زراعت کی ترقی میں اپنا حصہ نہیں ڈال سکیں گے وقت کے ساتھ ساتھ کاشتکاری کے طریقے بدل رہے ہیں لیکن ہمیں اپنی فصلوں سے وہی فائدہ نہیں مل رہا جیسا کہ ہم چند سال پہلے حاصل کرتے تھے دوسرے لفظوں میں، ہماری فصل کی پیداوار پہلے سے کم ہے.

انہوں نے کہا کہ ایسے حالات میں یونیورسٹیوں، محکمہ زراعت اور سائنسدانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ فصل کی نئی اقسام متعارف کرائیں جو کم محنت میں زیادہ پیداوار دے سکیں کاشتکاری کے طریقے بدل رہے ہیںلیکن بہت سے کسان اب بھی فرسودہ اور روایتی تکنیکوں کا استعمال کر رہے ہیں. انہوں نے تجویز پیش کی کہ کسانوں کو جدید طریقوں کے مطابق تربیت دینا حکومت کی ذمہ داری ہے تاکہ وہ ملک کے لوگوں کے لیے زیادہ خوراک اگائیں انہوں نے کہا کہ حکمران غذائی تحفظ کے نعرے لگا رہے ہیں جس کا مطلب ہے کہ ہر شخص کو کافی محفوظ، صحت مند اور سستی خوراک میسر ہے لیکن عملی طور پر وہ سست ہیں کسانوں کو قدرت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں.

انہوں نے کہاکہ ہم خوراک کے اہداف تک پہنچ سکتے ہیں اگر ہم تیزی سے پختہ ہونے والی فصلیں اگائیں جس سے کسانوں کو خوراک کی پیداوار بڑھانے میں مدد ملے گی انہوں نے کہا کہ سیلاب، خشک سالی یا فصل ناکام ہونے کی صورت میں کسان دوبارہ پودے لگا سکتے ہیں اور پھر بھی فصل حاصل کر سکتے ہیں کیونکہ ان فصلوں کو اگنے میں بہت کم وقت لگتا ہے انہوں نے کہا کہ پاکستان کی معیشت کمزور پوزیشن میں ہے اور موجودہ طریقوں سے زرعی شعبہ ملک کو مناسب خوراک فراہم کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہے گا اس حقیقت کو سمجھتے ہوئے انہوں نے درآمدات پر کم انحصار کرنے کی اہمیت پر زور دیاکیونکہ پاکستان دالوں اور دیگر فصلوں کی درآمد پر اربوں روپے خرچ کر رہا ہے تیزی سے پختہ ہونے والی اقسام کا استعمال کرتے ہوئے گھر پر زیادہ خوراک اگانے سے ہم پیسے بچا سکتے ہیں اور زرمبادلہ کے ذخائر پر دبا ﺅکو کم کر سکتے ہیں. 

متعلقہ مضامین

  • لیجنڈز لیگ: پاکستان چیمپئنز کے مالک نے پی سی بی کی پابندی کو رد کردیا
  • مسلح افواج پاکستان ہماری محافظ ہیں ، وزیراعظم آزاد کشمیر 
  • بحریہ ٹاؤن بحران کا شکار، ہمیں باوقار حل کی طرف واپسی کا موقع فراہم کیا جائے، ملک ریاض کی اپیل
  • کشمیر پاکستان کی شہ رگ اور ہماری قومی میراث ہے، وزیراطلاعات
  • شہید اء کا خون ریاست کی سب سے مضبوط اینٹ ‘ فراموش نہیں کرینگے : مریم نواز 
  • بدقسمتی سے ہم نے ہمیشہ اپنی پولیس کو تنقید، تمسخر اور الزام تراشی کا نشانہ بنایا ہے، شرجیل میمن
  • پولیس شہدا کا لہو ہماری ریاست کی بنیاد ہے،کبھی فراموش نہیں کرینگے: مریم نواز
  • پاکستان میں تحفظ خوراک کے لیے تیزی سے پکنے والی فصل کی اقسام کی ضرورت ہے. ویلتھ پاک
  • پولیس شہداء کا لہو ہماری ریاست کی بنیاد ہے‘ فراموش نہیں کرینگے،مریم نواز شریف