افراد کی طرح ممالک کے بھی قد کاٹھ ہوتے ہیں۔ جو کچھ اہم شعبوں کسی بھی ملک کی پیش رفت یا قدرتی طور پر موجود کچھ امتیازات سے جڑے ہوتے ہیں۔ ان میں جغرافیہ، وسائل، آبادی، ٹیکنالوجی، دفاعی صلاحیت، سفارتی اثر و رسوخ اور ثقافتی اثراندازی کی صلاحیت شامل ہیں۔ آئیے ان حوالوں سے پاکستان کی صورتحال سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
جغرافیائی لحاظ سے پاکستان کا محلِ وقوع انتہائی اسٹریٹیجک ہے۔ یہ وسطی ایشیا، مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کے سنگم پر واقع ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ یہ ابھرتے ہوئے ورلڈ لیڈر چائنا کا سب سے محفوظ اور قریب ترین گیٹ وے بھی ہے۔ ہماری جغرافیائی اہمیت بڑھانے میں انقلاب کے بعد والے ایران کا بھی کلیدی رول ہے۔ عالمی سیاست میں جس کے بے لچک مؤقف نے صورتحال ہمارے حق میں کر رکھی ہے اور لینڈ لاک سینٹرل ایشیا تک زمینی راستہ ہمارا ہی دستیاب ہے۔ بات صرف سینٹرل ایشیا تک نہیں بلکہ روس کو بھی تو راستہ درکار ہے۔ یوں ہماری یہ اہمیت ون وے نہیں بلکہ دو طرفہ ٹریفک کی ہے۔ بالخصوص روس کے لیے ہماری بندرگاہوں کی اہمیت تو بہت قدیمی معلوم ہے۔ گزرے وقتوں میں سوویت ایمپائر نے بھی اس تک رسائی کی خون ریز کوشش کی تھی۔ سوچنے والا سوچ سکتا ہے کہ روس کو تو ایران جیسے بااعتماد دوست کی بندرگاہیں دستیاب ہوسکتی ہیں۔ وہ ہماری بندرگاہوں میں دلچسپی کیوں لینے لگا؟ تو ایسا ہے کہ ایرانی بندرگاہیں ہر وقت خطرے سے دوچار بندرگاہیں ہیں۔ یوں محفوظ اور بلا تعطل سروسز صرف ہم ہی فراہم کرسکتے ہیں۔ حال ہی میں روس نے لاہور تک ریلوے لائن لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ اس کی ہماری بندرگاہوں سے استفادے کی طرف ہی پیش رفت ہے۔ اسی طرح سی پیک کی صورت ہماری چین کے لیے اہمیت معلوم حقیقت ہے۔ اور خیر سے ڈونلڈ ٹرمپ کی رال بھی آج کل جس طرح پاکستان پر ٹپک رہی ہے وہ بھی آپ کے سامنے ہے۔ اس اہم ترین راستے کو امریکا اپنی چوکی کے قیام کے بغیر چھوڑ سکتا ہے؟ سو نوٹ کرنے والی بات یہ ہے کہ جغرافیائی اہمیت والی کٹیگری میں پاکستان کا مقام بہت غیر معمولی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کون بچائے گا اسرائیل کو؟
وسائل والی کیٹیگری میں صورتحال یہ ہے کہ ہمارے پاس کوئلہ، نمک، تانبا، سونا، گیس اور دیگر معدنیات موجود ہیں۔ مگر نالائقی یہ ہے کہ ہم نے گیس اور تیل کے علاوہ کسی اور چیز کی تلاش اور اسے کام میں لانے سے تو جیسے گریز کی قسم اٹھا رکھی ہے۔ ہم بس اسی کوشش میں لگے رہے ہیں کہ کسی طرح تیل والی لاٹری نکل آئے، تو ہم بھی عرب شیخوں کی طرح ہر ویک اینڈ پر جوا کھیلنے لاس ویگاس جا پائیں۔ اور ہم بھی اپنے ملک کی بجائے امریکا اور مغرب میں سرمایہ پھنسانے کی توفیق حاصل کر پائیں۔ لیکن ہوا یہ کہ تیل بھی تاحال نہ ملا اور دیگر معدنیات کو کام میں لانے کی کوئی سکیم بھی نہ بن سکی۔ یوں وسائل ہونے کے باوجود پاکستان وسائل والی کٹیگری میں ایک کمزور ملک ہے۔
آبادی والی کٹیگری کی صورتحال بہت ہی شاندار ہے۔ مگر اس میں کلیدی رول اس بات کا ہے کہ معاشرہ مجموعی طور پر اعلی تعلیم یافتہ نہیں۔ یوں آبادی کم ہی اچھی والی ’دانش‘ یہاں جڑ نہ پکڑسکی اور ملک 24 کروڑ کی آبادی ہی نہیں رکھتا بلکہ سب سے زبردست بات یہ ہے کہ اس آبادی کا 60 فیصد 30 سال اور اور اس سے کم عمر والے نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ جس کا مطلب پولیٹکل سائنس کی اصطلاح میں یہ ہے کہ پاکستان ایک ’نوجوان ملک‘ ہے۔ اور اہمیت اس کی یہ ہے کہ اگر ایک ایسی حکومت آگئی جس نے پوری ایمانداری سے یہ فیصلہ کرلیا کہ آبادی کو پوری طرح متحرک کرکے ملک کو ترقی کے راستے پر اسی سنجیدگی کے ساتھ ڈالنا ہے جو سنجیدگی چینی قیادت کی شناخت ہے تو پاکستان کو جوان اور توانا بازو ورک فورس کے طور پر دستیاب ہوں گے۔ اور اس کی ترقی غیر معمولی ہوگی۔فی الحال تو ہماری سیاسی قیادت اس مشن پر ہے کہ سب نے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنی ہیں۔ اور ملک کی 60 فیصد جوان آبادی اس کام میں ان کا خوب خوب ہاتھ بٹا رہی ہے۔
نواز اور شہباز شریف کی لیپ ٹاپ اسکیم کیا ہے؟ یہی کہ دیکھو بیٹا، اس لیپ ٹاپ سے آن لائن روزی بھی کماؤ اور اور ہماری خوشامد بھی کرو۔ ہم سے بڑے بڑے کارخانوں اور ان میں نوکریوں کی امید مت رکھنا، اور کبھی بھی مت بھولنا کہ موٹروے کس نے بنائی۔ اور یہی نوجوان پھر انہی لیپ ٹاپس کی مدد سے یہ بھی پوچھتے ہیں ’ہم ترقی کیوں نہیں کر رہے؟‘ یوں آبادی والی کٹیگری میں پاکستان ہے تو بہت زبردست پوزیشن میں مگر معدنیات کی طرح یہاں بھی فائدہ اٹھانے کا کوئی عزم موجود نہیں۔
ٹیکنالوجی والی کٹیگری کی سب سے بڑی اہمیت یہ ہے کہ صنعتی معیشت کا دارومدار اس پر ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ قوت خرید کے لحاظ سے پاکستان دنیا کی 25 ویں بڑی جبکہ نامنل جی ڈی پی کے لحاظ سے 38 ویں بڑی معیشت ہے۔ ہم تو یہ بھی نہیں جانتے کہ یہاں ’بڑی‘ لفظ بنتا بھی ہے یا نہیں، مگر اپنے ملک کے لیے کہنا اچھی فیلنگز دیتا ہے سو برت دیا۔ پاکستان ٹیکسٹائل، سرجیکل آلات، چمڑے کی مصنوعات، کھیلوں کا سامان، چاول اور آم برآمد کرنے میں عالمی حیثیت رکھتا ہے۔ زراعت کا جی ڈی پی میں بڑا حصہ ہے، مگر اس میں بھی جدید ٹیکنالوجی کی کمی ہے۔یوں یہ شعبہ اپنی پوری استعداد کے مطابق پیداوار نہیں دے رہا۔ حیرت ہوتی ہے کہ امریکا، جرمنی اور برطانیہ جیسے ممالک کے اسپتالوں میں سرجیکل آلات پاکستان کے استعمال ہوتے ہیں۔ کھیلوں کے سامان والے شعبے میں بلندی یہ ہے کہ فیفا ورلڈ کپ میں بھی فٹبال ہمارا استعمال ہوتا ہے۔ چمڑے کی مصنوعات میں بھی ہم بڑی ساکھ کے ساتھ موجود رہے ہیں۔ اور ٹیکسٹائل میں تو ہماری دھاک امریکا اور یورپ کی مارکیٹوں میں ہے۔ لیکن پھر بھی قومی قیادت کو یہ خیال نہ آسکا کہ اس ٹیلنٹ کا دائرہ صنعت کے دیگر شعبوں تک بھی پھیلایا جائے۔ جو تب ہی ممکن ہے جب ملک ٹیکنالوجی میں بھی آگے بڑھ رہاہو۔ یہاں تو حالت یہ ہے کہ چمڑے کی مصنوعات میں محض اس وجہ سے اب ہم اب تنزلی کا شکار ہیں کہ پرانی ٹیکنالوجی استعمال کر رہے ہیں۔
معیشت کے پہلو سے بحران یہ ہے کہ قرضوں کا بوجھ، بڑھتی کرپشن، پالیسی کا تسلسل نہ ہونا اور انفراسٹرکچر کی کمی پہاڑ جیسے چیلنجز ہیں۔ جس نے نوجوان نسل کو مایوس کر رکھا ہے۔ مگر نوجوان نسل کی مایوسی کو سیریس لینے کی ضرورت نہیں۔ وہ اس مایوسی کا اظہار تب کرتے ہیں جب یہ اپنے اپنے لیڈر کے یاقوت و مرجان تولنے سے فراغ پاکر ماں باپ کے اس سوال کا سامنا کرتے ہیں، ملی نوکری؟ بس گھنٹے بھر کی مایوسی ہوتی ہے۔ اس کے بعد یہ ایک بار پھر یاقوت ومرجان تولنے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔اس کٹیگری میں صورتحال یہ ہے کہ پاکستان ابھرتی ہوئی معیشت ہے مگر غیر مستحکم بھی اور بے یقینی کا شکار بھی۔ مستحکم اور ٹھوس معیشت اسی ملک کی ہوتی ہے جو ٹیکنالوجی کے میدان میں وقت کے تقاضے پورے کر رہا ہو۔ اس معاملے میں مضحکہ خیزی کا اندازہ اسی سے لگا لیجیے کہ پرویز ہود بھائی تنخواہ فزیکس پڑھانے کی لیتے ہیں مگر شہرت ان کی ان سوالات کے جوابات ڈھونڈنے کی ہے کہ پاکستان کا قیام درست تھا یا غلط؟ علامہ اقبال کو فلسفہ آتا تھا یا نہیں؟ رنجیت سنگھ کا مجسمہ بننا چاہیے یا نہیں؟ فزیکس میں انہوں نے فزیکس کا تو کچھ نہیں اکھاڑا البتہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام اکھاڑنے کی انتھک مگر بے ثمر محنت بھی ان کا ایک حوالہ ہے۔
مزید پڑھیے: ’اسلام کا دفاع‘
دفاعی صلاحیت والی کٹیگری میں پاکستان کی پوزیشن بہت مضبوط ہے۔ اگرچہ اس لحاظ سے عالمی درجہ بندیوں کے کئی پیمانے رو بعمل ہیں مگر خود فوجی دنیا میں جن معیارات کو پیش نظر رکھا جاتا ہے ان کے مطابق ہمارے پاس دنیا کی چھٹی بڑی فوج ہے۔ سات ممالک پر مشتمل ایلیٹ ملٹری کلاس یعنی نیوکلیئر کلب کا ہم حصہ ہیں۔ ہمارے پاس ابھرتی ہوئی دفاعی صنعت بھی ہے جو ٹینکوں سے ے کر طیارہ سازی تک کئی شعبوں میں بہت ہی نمایاں پیش رفت کر رہی ہے۔ یوں صورتحال یہ ہے کہ خود سے کئی گنا بڑے انڈیا کی صرف 4 دن میں ہم نے طبیعت ایسی صاف کی کہ پچھلے 3 ماہ سے ایسا دن نہیں جاتا جب عالمی سطح پر گبر سنگھ سے یہ سوال نہ ہوتا ہو
’کتنے طیارے تھے؟‘
اور گبر سنگھ بتاتا ہی نہیں کہ
’6 تھے استاد 6 ‘
شکر ہے کہ ہمارے دفاعی شعبے کے لوگ ڈاکٹر پرویز ہودبھائی اور ڈاکٹر عائشہ صدیقہ جیسوں کے جھانسے میں کبھی نہیں آئے ورنہ صورتحال یہ ہوتی کہ آج کی تاریخ میں یہ دونوں تو امریکا کے کسی بار میں ملتے اور ہم سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد ایک اور زخم چاٹ رہے ہوتے۔
سفارتی اثر رسوخ والی کٹیگری میں تو ہم بلاشبہ بے تاج بادشاہ ہیں۔ اس شعبے میں ہماری دور اندیشی دیکھئے کہ 50 سال قبل ہم نے دنیا کی سب سے بڑی سپر طاقت اور آنے والے دور کی سپر طاقت یعنی امریکا اور چین سے پوچھا
’تم دونوں آپس میں بولتے کیوں نہیں؟’
ایک ناراض تھا، دوسرا شرما رہا تھا سو ہم نے دونوں کو سمجھایا اور رچرڈ نکس کا تاریخی دورہ بیجنگ کروا دیا۔ ایٹمی ملک بننے کی کوشش کرنے والے عراق، لیبیا اور ایران کے ساتھ کیا ہوا اور ہو رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ ہم ایٹم بنا بھی چکے، سنبھال بھی چکے لیکن اس کوشش میں کسی بھی فزیکل ڈیمج کا شکار نہ ہوئے۔ یہ صرف وزارت دفاع کی کامیابی تھی؟ نہیں اس میں وزارت خارجہ کا بھی کلیدی رول رہا۔ جس نے ’بات چیت‘ کو کبھی اس ناکامی تک پہنچنے ہی نہ دیا جس کے بعد پیٹاگون اور نیٹو کے حرکت میں آنے کا امکان پیدا ہوجاتا ہے۔جنرل ضیاء کے دور میں اپنے ایٹمی پروگرام کو جس مہارت سے سفارتی ہتھیار سے ہم نے بچایا ہے وہ بجائے خود سفارتکاری کا ایک شاہکار ہے۔ کتنا عجیب ہے کہ ابھی روسی اس جمع تفریق میں مصروف تھے کہ سوویت زوال کے اثرات کا دائرہ کتنا وسیع ہے؟ کہ اچانک ہم نے کریملن کے دروازے پر دستک دیدی۔ اندر سے آواز آئی
’کون ہے ؟‘
ہم بتا چکے کہ کون ہیں تو حیرت بھرے لہجے میں پوچھا گیا
’اب کیا لینے آئے ہو ؟‘
’دوستی، ہم آپ کے ساتھ گہری اور مضبوط دوستی کرنا چاہتے ہیں‘
صرف یہی نہیں بلکہ امریکی یہ بتاتی ڈاکومنٹریز بنا بنا کر تھک گئے کہ افغانستان میں ہم پاکستان کے ہاتھوں شکست سے دو چار ہیں۔ یہ ڈبل گیم کھیل رہا ہے۔ وہ اس کے ثبوت بھی دیتے، جنہیں ہم مسترد کر دیتے۔ مگر سچ تو سچ ہے جس کا انکار ممکن نہیں۔ ہمارا ہداف تھا کیا؟ یہی کہ ہمیں اپنی سرحد پر امریکا کا مستقل قیام منظور نہیں۔ یہ ہدف حاصل ہونے کے صرف 4 سال بعد فیلڈ مارشل عاصم منیر امریکی صدر کے ساتھ لنچ کرتے پائے گئے۔ وہ کھانا اور ہم دانہ ڈال رہے تھے۔ کسی کو اندازہ بھی ہے کہ یہ سفارتکاری کے شعبے میں ہماری کتنے بڑے درجے کی مہارت کا ثبوت ہے؟
مزید پڑھیں: امریکی دفاع اور منی لانڈرنگ
آخری کٹیگری ثقافتی اثر اندازی کی ہے۔اس پہلو سے پاکستان اردو زبان کا تنہا وارث ہے جو دنیا بھر میں 30 کروڑ سے زائد لوگوں کی زبان ہے۔ اس زبان میں نثری و شعری لحاظ سے پاکستان کی خدمات مسلم ہیں۔ موسیقی میں نصرت فتح علی خان نے اس ہندوستان پر راج کیا ہے جو مشرق گائیکی پر اپنی اجارہ داری کا دعویدار ہے۔ صرف نصرت ہی نہیں بلکہ حالیہ عرصے میں کوک سٹوڈیو پاکستان کو دنیا کے کئی ممالک نے بطور ماڈل فالو کیا۔ اور ایک انڈین گلوکارہ کو پچھلے ہفتے ہی یہ طنز کرنا پڑا
’پاکستان کے پاس کوک اسٹوڈیو کے سوا کچھ نہیں‘
ہماری فلمیں تو کچھ خاص نہیں رہیں لیکن ڈرامے کی نسبت سے تو انڈین بھی ہماری برتری کے معترف رہے ہیں۔ وہ الگ بات پرائیویٹ ٹی وی چینلز نے آکر ہمارے ڈرامے کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ فیشن اور ہینڈی کرافٹس میں بھی پاکستان کے تمام صوبے اپنے منفرد رنگوں کے ساتھ موجود ہیں۔ ڈیجٹل ثقافت کے پہلو سے بھی سوشل میڈیا پر پاکستان تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ ایک خاص چیز یہ کہ صوفی ازم کی مذہبی حیثیت سے قطع نظر اس کے صرف ثقافتی پہلو کو دیکھا جائے تو صوتی حوالے سے ہی تلاوت، نعت خوانی اور صوفی گائیکی نے عالمگیر شہرت حاصل کر رکھی ہے۔ بالخصوص صوفی گائیکی میں اب مغربی موسیقار بھی تجربات کر رہے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ ثقافتی اثر اندازی کے لیے درکار مسالے ہمارے پاس پورے ہیں۔ یوں اس کٹیگری میں پاکستان بہت تگڑا ملک ہے۔ چونکہ پاکستان تمام کٹیگریز میں بہتر پرفارم نہیں کرہا۔ بعض میں بہت اچھا اور بعض میں بہت کمزور ہے۔ یوں ہمارا مجموعی قد کاٹھ درمیانے درجے کا ہے۔ اور اس میں بہتری کی تب تک کوئی امید نہیں جب تک یہ قوم تمامتر بربادی کے باوجود نا اہل لیڈروں کی غلامی پر آمادہ ہے !
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا پاکستان کی سفارتی پوزیشن جنوبی ایشیا چین سینٹرل ایشیا صورتحال یہ ہے کہ کہ پاکستان پاکستان کی سے پاکستان پاکستان کے پاکستان کا ہمارے پاس نہیں بلکہ ہوتے ہیں رہے ہیں کے ساتھ میں بہت میں بھی ہی نہیں کے بعد کے لیے بھی ہے اور ہم ملک کی اور اس
پڑھیں:
اسرائیلی جارحیت؛ پاکستان کا اقوام متحدہ میں فوری غزہ جنگ بندی کا مطالبہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
نیویارک: اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں پاکستان نے فلسطینی عوام کی آواز بلند کرتے ہوئے واضح کیا کہ غزہ میں جاری خونریزی اب مزید برداشت نہیں کی جا سکتی۔
پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان نہ صرف فوری اور غیر مشروط جنگ بندی کا مطالبہ کرتا ہے بلکہ جب تک آزاد فلسطینی ریاست قائم نہیں ہو جاتی، پاکستان اپنی سفارتی کوششیں جاری رکھے گا۔
انہوں نے عالمی برادری کو متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ روزانہ درجنوں نہتے فلسطینی شہید ہو رہے ہیں، معصوم بچے بھوک اور پیاس سے دم توڑ رہے ہیں، اسپتال اور امدادی مراکز بھی اسرائیلی بمباری سے محفوظ نہیں رہے۔ یہ سب بین الاقوامی انسانی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے، اور اگر عالمی ضمیر اب بھی خاموش رہا تو تاریخ اسے کبھی معاف نہیں کرے گی۔
پاکستانی مندوب نے زور دے کر کہا کہ اسلام آباد فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑا ہے اور ہر عالمی فورم پر ان کی آواز بلند کرتا رہے گا۔ ہماری منزل ایک آزاد، خودمختار فلسطینی ریاست ہے جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو۔
واضح رہے کہ یہ مؤقف اُس وقت سامنے آیا جب پاکستان سمیت سلامتی کونسل کے 10 غیر مستقل اراکین نے غزہ میں فوری جنگ بندی اور انسانی امداد کی فراہمی کے لیے قرارداد پیش کی، جسے امریکا نے حسبِ روایت ویٹو کر دیا۔
قرارداد میں اسرائیل سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ انسانی امداد کی راہ میں حائل رکاوٹیں ختم کرے، مگر واشنگٹن کے انکار نے عالمی سطح پر مایوسی کی فضا کو اور گہرا کر دیا۔
عاصم افتخار نے اس فیصلے کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ غزہ کے بچے اور عورتیں موت کے دہانے پر ہیں اور دنیا کا ضمیر اب جاگنا ہوگا۔ ان کا پیغام واضح تھا کہ فلسطینی عوام کے ساتھ اظہارِ یکجہتی صرف الفاظ میں نہیں بلکہ عملی اقدامات میں دکھانا ہوگا، ورنہ ہر گزرتا لمحہ انسانیت پر کاری ضرب ہے۔