Daily Sub News:
2025-09-22@11:55:32 GMT

واشنگٹن اور نئی دہلی کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج

اشاعت کی تاریخ: 8th, August 2025 GMT

واشنگٹن اور نئی دہلی کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج

واشنگٹن اور نئی دہلی کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج WhatsAppFacebookTwitter 0 8 August, 2025 سب نیوز

تحریر: محمد محسن اقبال


2000 کی دہائی کے اوائل سے ہندـامریکہ تعلقات کو عموماً بڑھتے ہوئے تزویراتی اشتراک کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا رہا ہے، خاص طور پر دفاعی تعاون، تجارت، اور چین کے ابھار پر مشترکہ تشویش جیسے شعبوں میں۔ تاہم، صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورِ حکومت (2017–2021) میں یہ تعلقات متعدد غیر متوقع نشیب و فراز، سفارتی سرد مہری کے لمحات، اور خاص طور پر امریکی جانب سے برملا عدم اطمینان کے اظہار کا شکار ہوئے۔ دنیا کی دو بڑی جمہوریتوں کے درمیان ”قدرتی اتحاد” کے تصور کے برعکس، ٹرمپ انتظامیہ کا بھارت کے ساتھ رویہ اکثر ٹھنڈی حقیقت پسندی اور واضح ناراضی سے عبارت تھا۔ اوباما دور کی پرامیدی سے یہ انحراف ایک تفصیلی تجزیے کا متقاضی ہے۔


صدر ٹرمپ، جو اپنی لین دین پر مبنی خارجہ پالیسی کے لیے معروف تھے، نے متعدد مواقع پر بھارت کے حوالے سے اپنی مایوسی کا کھلے عام اظہار کیا۔ اس کی ایک ابتدائی مثال 2 جنوری 2018 کو سامنے آئی، جب انہوں نے پاکستان کے خلاف ایک سخت ٹویٹ کی، جس میں کہا گیا کہ امریکہ نے ”گزشتہ 15 برسوں میں بیوقوفی سے پاکستان کو 33 ارب ڈالر سے زائد امداد دی” لیکن بدلے میں ”صرف جھوٹ اور دھوکہ” ملا۔ اگرچہ یہ ٹویٹ اسلام آباد کے خلاف تھی، لیکن اس میں بالواسطہ طور پر جنوبی ایشیا سے متعلق واشنگٹن کی پالیسی میں اس تبدیلی کا اشارہ موجود تھا، جس میں خطے کے اتحادیوں، بشمول بھارت، پر یہ دباؤ ڈالا جا رہا تھا کہ وہ اپنے مفادات کو عملی اور قابلِ پیمائش انداز میں ثابت کریں۔


بھارت سے ٹرمپ کی ناراضی تجارتی مذاکرات کے دوران مزید واضح ہو گئی۔ 5 جون 2019 کو امریکہ نے باقاعدہ طور پر بھارت کو جنرلائزڈ سسٹم آف پریفرنسز (جی ایس پی) کے تحت ترقی پذیر ممالک کی فہرست سے خارج کر دیا، جس سے بھارت کی 5.

6 ارب ڈالر کی برآمدات متاثر ہوئیں۔ امریکی تجارتی نمائندے کے دفتر نے مؤقف اختیار کیا کہ بھارت ”اپنی منڈیوں تک منصفانہ اور معقول رسائی” دینے میں ناکام رہا۔


اگرچہ وزیرِ اعظم نریندر مودی نے صدر ٹرمپ کے ساتھ بظاہر قریبی تعلقات کا مظاہرہ کیا، خاص طور پر 22 ستمبر 2019 کو ہیوسٹن میں منعقدہ”ہیاؤڈی مودی”تقریب میں، جہاں دونوں رہنماؤں نے 50 ہزار سے زائد افراد کے مجمعے سے خطاب کیا، تاہم اس دوستانہ ماحول کے پسِ پردہ کئی بنیادی مسائل بدستور حل طلب رہے۔ ٹرمپ نے اپنی تقریر میں بھارت کی جمہوریت اور معیشت کی تعریف کی، لیکن بعد میں دیے گئے انٹرویوز اور پالیسی اقدامات میں تجارتی کشیدگی جوں کی توں برقرار رہی۔


دفاعی شعبے میں اگرچہ بھارت نے” سی او ایم سی اے ایس اے” (6 ستمبر 2018) اور ”بی ای سی اے” (27 اکتوبر 2020) جیسے اہم معاہدوں پر دستخط کیے، لیکن روس سے 5 ارب ڈالر سے زائد مالیت کا سی 400 میزائل نظام خریدنے کے فیصلے نے واشنگٹن کو ناراض کر دیا۔ امریکی حکام، بشمول اُس وقت کے وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے جون 2019 میں نئی دہلی کے دورے کے دوران بھارت کو خبردار کیا کہ اگر وہ یہ معاہدہ جاری رکھتا ہے تو اسے ” سی اے اے ٹی سی اے” کے تحت امریکی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ بھارت نے اس انتباہ کے باوجود پیچھے ہٹنے کا کوئی اشارہ نہ دیا۔


امریکہ کو یہ بھی تشویش رہی کہ بھارت نے ایشیا میں امریکی اسٹریٹجک اہداف کے ساتھ براہِ راست ہم آہنگی اختیار کرنے سے گریز کیا۔ واشنگٹن چاہتا تھا کہ بھارت انڈو پیسفک خطے میں زیادہ فعال کردار ادا کرے۔ 2017 کی امریکی نیشنل سیکیورٹی اسٹریٹیجی میں بھارت کو کلیدی شراکت دار قرار دیا گیا تھا، تاہم امریکی پالیسی ساز بھارت کے محتاط رویے سے مایوس ہوتے گئے۔ بھارت نے کواڈ اجلاسوں اور مالابار بحری مشقوں میں شرکت کی، مگر چین کے ساتھ کشیدگی کو سفارتی دائرے سے آگے لے جانے سے گریز کیا، خاص طور پر 2017 کے ڈوکلام تنازع اور جون 2020 میں گلوان وادی جھڑپ کے دوران۔


ایک اور اہم واقعہ جو اعتماد میں کمی کا باعث بنا، وہ صدر ٹرمپ کا 22 جولائی 2019 کو وزیرِ اعظم عمران خان کے ہمراہ وائٹ ہاؤس میں مشترکہ پریس کانفرنس میں دیا گیا ایک بیان تھا، جس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ وزیرِ اعظم مودی نے ان سے کشمیر پر ثالثی کی درخواست کی ہے۔ ٹرمپ نے کہا: ”میں دو ہفتے قبل وزیرِ اعظم مودی کے ساتھ تھا، اور انہوں نے واقعی کہا،’کیا آپ ثالث یا مصالحت کار بننا پسند کریں گے؟”’ بھارتی وزارتِ خارجہ نے فوری طور پر اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ”ایسی کوئی درخواست نہیں کی گئی” اور کشمیر ایک دوطرفہ معاملہ ہے۔
صدر ٹرمپ کا پاکستان کی جانب جھکاؤ ہندـامریکہ تعلقات کو مزید پیچیدہ بنا گیا۔ اگرچہ انہوں نے اپنی صدارت کے آغاز میں اسلام آباد پر سخت تنقید کی تھی، مگر 2019 کے وسط تک اُن کا لہجہ خاصا نرم ہو چکا تھا، خاص طور پر جب پاکستان نے افغانستان میں امریکہـطالبان امن مذاکرات میں کردار ادا کیا۔ جولائی 2019 میں عمران خان کے دورہ واشنگٹن کے دوران، ٹرمپ نے پاکستان کے ”زبردست تعاون” پر شکریہ ادا کیا اور مستقبل میں ”بہت اچھے تعلقات” کی امید ظاہر کی۔ یہ مؤقف نئی دہلی کی اس توقع کے برعکس تھا کہ اُڑی اور پلوامہ واقعات کے بعد واشنگٹن بھارت کے ساتھ زیادہ مضبوطی سے کھڑا ہوگا۔


روس کے ساتھ بھارت کے مسلسل تعلقات ٹرمپ کے بعد بھی کشیدگی کا باعث بنے رہے۔ فروری 2022 میں روس کے یوکرین پر حملے کے بعد بائیڈن انتظامیہ اور نیٹو اتحادیوں نے ماسکو پر سخت پابندیاں عائد کیں اور عالمی شراکت داروں، بشمول بھارت، سے مغربی اتحاد میں شامل ہونے کی توقع کی۔ تاہم بھارت نے ایک متوازن، غیر جانبدارانہ مؤقف اختیار کیا۔ اُس نے اقوام متحدہ میں روس کے خلاف کئی قراردادوں میں ووٹنگ سے اجتناب کیا اور روس کے ساتھ سفارتی و اقتصادی روابط جاری رکھے۔


ایک بڑا نقط? اختلاف بھارت کی جانب سے روسی خام تیل کی رعایتی نرخوں پر بڑھتی ہوئی درآمدات تھا۔ جب مغرب روس کو اقتصادی طور پر تنہا کر رہا تھا، بھارت نے اپنی قومی توانائی کی ضروریات اور قیمتوں میں استحکام کا حوالہ دیتے ہوئے خریداری میں اضافہ کیا۔ 2022 کے آخر تک روس، عراق اور سعودی عرب کو پیچھے چھوڑتے ہوئے بھارت کا سب سے بڑا تیل فراہم کرنے والا ملک بن چکا تھا۔ امریکی اور یورپی حکام نے اس پر تنقید کی، مگر بھارت نے اپنے مؤقف کا بھرپور دفاع کیا۔ اپریل 2022 میں واشنگٹن میں ایک پریس بریفنگ کے دوران جب بھارتی وزیرِ خارجہ ڈاکٹر ایس جے شنکر سے روسی تیل کی خریداری پر سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا: ”اگر آپ روس سے توانائی کی خریداری کو دیکھ رہے ہیں تو میں تجویز کروں گا کہ آپ کی توجہ یورپ پر ہونی چاہیے… ہم کچھ توانائی ضرور خریدتے ہیں، جو ہمارے توانائی کے تحفظ کے لیے ضروری ہے”۔


یہیں وہ گہرا سوال جنم لیتا ہیکہ کیا یہ سفارتی سرد مہری صرف تیل کی خریداری سے جڑی ہے، یا اس کے پیچھے وہ بڑھتی ہوئی امریکی بے چینی ہے جو بھارت کے برکس میں کردار، گلوبل ساؤتھ سے اس کی معاشی وابستگی، اور امریکی ڈالر کی عالمی بالادستی کو چیلنج کرنے کی صلاحیت سے متعلق ہے؟ بھارت، چین، روس، برازیل اور جنوبی افریقہ کے ساتھ مل کر برکس میں متبادل ادائیگی نظام کو فروغ دے رہا ہے، جن میں قومی کرنسیوں میں تجارت اور غیر ڈالر ذخیرہ جاتی نظام کی توسیع شامل ہے۔ امریکہ، جو عالمی معاشی اثرورسوخ اور پابندیوں کے نظام کو قائم رکھنے کے لیے ڈالر پر انحصار کرتا ہے، کے لیے یہ رجحان اسٹریٹجک طور پر باعثِ تشویش ہے۔ اگرچہ بھارت کھلے عام مغرب کا مخالف نہیں، لیکن مالیاتی کثیر القطبیت کی اس کی کوششیں — جیسا کہ روس کو روپے میں توانائی کی ادائیگی اور غیر ڈالر لین دین میں شرکت — امریکی قیادت میں قائم اقتصادی غلبے کو چیلنج کرتی ہیں۔ واشنگٹن کے نقط? نظر سے، یہی عوامل نہ صرف نئی دہلی پر دباؤ کا باعث ہیں بلکہ ان ادوار میں سرد رویے کی بھی وضاحت کرتے ہیں، جب بظاہر تعلقات خوشگوار نظر آتے ہیں۔


یہ صورتحال بھارت کے ایک دیرینہ اصول کو اجاگر کرتی ہے — اتحاد پر انحصار کے بجائے ”کثیر جہتی ہم آہنگی”۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ واشنگٹن اور نئی دہلی کے درمیان توقعات کا عدم توازن ایک مستقل حقیقت ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ بھارت روس اور چین دونوں کے خلاف مغربی کیمپ میں مکمل طور پر شامل ہو، جبکہ بھارت اپنے مفادات کو علاقائی توازن، تزویراتی خودمختاری، اور اقتصادی ضرورت کے تناظر میں دیکھتا ہے۔ امریکی بے صبری، خواہ وہ ٹرمپ کے دور میں ہو یا بائیڈن کے، اس بنیادی حقیقت کو تبدیل نہیں کر سکی۔
ماضی کے تناظر میں، ٹرمپـمودی دور ایک تضاد کا حامل تھا؛ عوامی سطح پر دوستی اور گرم جوشی کے مظاہرے درحقیقت پالیسی کی سطح پر موجود اختلافات کو چھپا رہے تھے۔ دوستی حقیقی تھی، مگر مشروط۔ ٹرمپ چاہتے تھے کہ بھارت ”زیادہ خریدے، زیادہ کرے، اور زیادہ ہم آہنگ ہو”۔ لیکن امریکی نقط? نظر سے بھارت اُن کی توقعات پر پورا نہیں اُتر سکا۔


لہٰذا، ٹرمپ کے دورِ صدارت — اور اس کے بعد بھی — ہندـامریکہ تعلقات میں جو سرد مہری دکھائی دی، وہ کسی ایک بڑے واقعے کا نتیجہ نہیں تھی، بلکہ پوری نہ ہونے والی توقعات، متصادم سفارتی رویّوں، اور متضاد قومی مفادات کا حاصل تھی۔ اگر کچھ ثابت ہوا، تو وہ یہ کہ اسٹریٹجک شراکت داری صرف مسکراہٹوں اور نعروں سے قائم نہیں ہوتی — اس کے لیے اعتماد، ایک دوسرے کی سرخ لکیروں کا احترام، اور سب سے بڑھ کر، حقیقت پسندانہ توقعات ضروری ہوتی ہیں۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرسپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کی نیلامی رکوانے کی درخواست مسترد کر دی آزادی کا مطلب کیا؟ — تجدیدِ عہد کا دن اوورسیز پاکستانی: قوم کے گمنام ہیرو اسلام میں عورت کا مقام- غلط فہمیوں کا ازالہ حقائق کی روشنی میں حرام جانوروں اور مردار مرغیوں کا گوشت بیچنے اور کھانے والے مسلمان “کلاؤڈ برسٹ کوئی آسمانی آفت یا ماحولیاتی انتباہ” بوسنیا، غزہ، اور ضمیر کی موت TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: نئی دہلی کے بڑھتی ہوئی کے درمیان

پڑھیں:

امریکی ورک ویزا فیس میں ہوشربا اضافہ، 71فیصد بھارتی لپیٹ میں آگئے

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امیگریشن کے خلاف اپنے تازہ اقدام کے طور پر ایچ-1بی (H-1B) ویزا کے لیے ایک لاکھ ڈالر (تقریباً 88 لاکھ روپے) فیس عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:صدر ٹرمپ کے گولڈ اور پلاٹینم کارڈز کیا ہیں اور اس سے کون فائدہ اٹھا سکتا ہے؟

ماہرین کے مطابق یہ اقدام ٹیکنالوجی کے شعبے کے لیے بڑا دھچکا ثابت ہو سکتا ہے، کیونکہ یہ ویزا سب سے زیادہ بھارت اور چین سے تعلق رکھنے والے ہنر مند افراد کو ملتا ہے۔

بھارتی شہری سب سے زیادہ متاثر

امریکی حکومتی اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال 71 فیصد ایچ-1بی ویزے بھارتی شہریوں کو ملے، جبکہ چین دوسرے نمبر پر رہا جس کا حصہ صرف 11.7 فیصد تھا۔

ایمیزون، مائیکروسافٹ اور میٹا جیسی بڑی کمپنیاں اس ویزا کے ذریعے ہزاروں ملازمین بھرتی کرتی ہیں۔ صرف ایمیزون اور اس کی ذیلی کمپنی اے ڈبلیو ایس کو 2025 کے ابتدائی چھ ماہ میں 12 ہزار سے زائد ویزے منظور ہوئے تھے۔

ماہرین کے مطابق فیس میں زبردست اضافہ بھارتی امیدواروں کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہوگا، کیونکہ انہیں گرین کارڈ کے حصول کے طویل انتظار کے دوران بار بار ویزا تجدید کرنی پڑتی ہے، اور ہر بار یہ بھاری فیس ادا کرنا ہوگی۔

راہول گاندھی کا ردِعمل

بھارت میں اس فیصلے پر اپوزیشن کی جانب سے شدید ردِعمل سامنے آیا ہے۔

 کانگریس رہنما راہول گاندھی نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ مودی حکومت نے بیرون ملک کام کرنے والے بھارتی ماہرین کے مسائل حل کرنے کے لیے کوئی مؤثر حکمتِ عملی نہیں اپنائی۔

I repeat, India has a weak PM. https://t.co/N0EuIxQ1XG pic.twitter.com/AEu6QzPfYH

— Rahul Gandhi (@RahulGandhi) September 20, 2025

انہوں نے خبردار کیا کہ فیس میں اضافہ بھارتی نوجوانوں کے لیے امریکی ملازمتوں کے دروازے بند کر دے گا اور آئی ٹی صنعت کو براہِ راست نقصان پہنچائے گا۔

وائٹ ہاؤس کا مؤقف

وائٹ ہاؤس کے اسٹاف سیکرٹری ول شارف نے کہا کہ ایچ-1بی پروگرام ملک کے امیگریشن نظام میں سب سے زیادہ غلط استعمال ہونے والے ویزوں میں شمار ہوتا ہے۔

ان کے بقول نئی فیس کا مقصد یہ یقینی بنانا ہے کہ جو افراد امریکا آ رہے ہیں وہ واقعی اعلیٰ مہارت رکھتے ہوں اور امریکی کارکنوں کی جگہ نہ لے سکیں۔

صدر ٹرمپ کا اعلان

صدر ٹرمپ نے اعلان کرتے ہوئے کہا ’ہمیں بہترین کارکن چاہیے، اور یہ اقدام اس بات کی ضمانت ہے کہ یہاں صرف وہی آئیں گے جو واقعی اعلیٰ صلاحیت رکھتے ہیں‘۔

ایچ-1بی ویزا کیا ہے؟

ایچ-1بی ویزا امریکہ میں عارضی کام کرنے کا اجازت نامہ ہے جسے 1990 میں متعارف کرایا گیا۔ اس کے تحت ایسی ملازمتوں کے لیے غیر ملکی ماہرین کو رکھا جا سکتا ہے جو سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور میتھ جیسے شعبوں میں مشکل سے پُر ہوتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:امریکی ورک ویزا مزید مہنگا،’ہم بہترین لوگوں کو امریکا میں آنے کی اجازت دیں گے‘،صدر ٹرمپ

یہ ویزا ابتدائی طور پر تین سال کے لیے دیا جاتا ہے جسے زیادہ سے زیادہ چھ سال تک بڑھایا جا سکتا ہے۔

سخت تر شہریت ٹیسٹ

امریکی حکومت نے شہریت کے لیے درخواست دینے والوں پر بھی ایک مشکل ٹیسٹ دوبارہ نافذ کرنے کا اعلان کیا ہے، جو صدر ٹرمپ نے اپنی پہلی مدت میں شروع کیا تھا لیکن صدر بائیڈن نے ختم کر دیا تھا۔

اس نئے ٹیسٹ میں امیدواروں کو امریکی تاریخ اور سیاست سے متعلق 128 سوالات کے ذخیرے سے زبانی طور پر 20 سوال پوچھے جائیں گے، جن میں سے کم از کم 12 کے درست جواب دینا لازمی ہوگا۔

ٹرمپ کا ’گولڈ کارڈ‘ ویزا پروگرام

صدر ٹرمپ نے ایک نیا ’گولڈ کارڈ‘ ویزا پروگرام بھی متعارف کرایا ہے جس کے تحت انفرادی افراد کے لیے فیس ایک ملین ڈالر اور کمپنیوں کے لیے دو ملین ڈالر رکھی گئی ہے۔ امریکی وزیرِ تجارت ہاورڈ لٹ نِک کے مطابق یہ پروگرام صرف غیر معمولی صلاحیت رکھنے والے افراد  کے لیے ہوگا جو امریکہ میں کاروبار اور روزگار پیدا کر سکیں۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ گرین کارڈ پروگرام غیر منطقی تھا کیونکہ اس کے ذریعے ہر سال اوسطاً 2.8 لاکھ افراد آتے تھے جن کی آمدنی سالانہ صرف 66 ہزار ڈالر تھی اور وہ زیادہ تر حکومتی امداد پر انحصار کرتے تھے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ایچ-1بی) ویزا بھارت بھارتی شہری چین گولڈ کارڈ ورک ویزا

متعلقہ مضامین

  • ٹیرفس اور ویزا خدشات کے درمیان آج بھارتی اور امریکی وزرائے خارجہ کی ملاقات
  • برسوں بعد امریکی ایوانِ نمائندگان کے وفد کا چین کا اہم دورہ
  • بگرام ایئربیس واپس نہ ملی توبُرے نتائج ہوں گے، ٹرمپ کی افغانستان کو  دھمکی
  • ٹک ٹاک پر چین کا مؤقف برقرار، ٹرمپ کال کے بعد بھی لچک نہ دکھائی
  • امریکی ورک ویزا فیس میں ہوشربا اضافہ، 71فیصد بھارتی لپیٹ میں آگئے
  • ٹک ٹاک نے صدر بننے میں مدد دی‘ ٹرمپ کا اعتراف
  • واشنگٹن میں امریکی فوجی ہیلی کاپٹر گر کر تباہ‘4ہلاکتوں کا خدشہ
  • بڑھتی عمر میں طلاق: بالغ بچوں پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟
  • ٹرمپ کا روس-یوکرین جنگ بندی کرانے میں ناکامی کا اعتراف، پیوٹن کو ذمہ دار قرار دے دیا
  • ڈونلڈ ٹرمپ اور شی جن پنگ کے درمیان ٹیلیفونک گفتگو: ٹک ٹاک اور تجارتی معاہدے زیر بحث