باجوڑ میں قبائل اور خارجیوں کے بارے میں ابہام پیدا کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں: سیکیورٹی ذرائع
اشاعت کی تاریخ: 8th, August 2025 GMT
— فائل فوٹو
سیکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ باجوڑ میں قبائل اور خارجیوں کے بارے میں ابہام پیدا کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔
سیکیورٹی ذرائع کے مطابق قبائلی جرگہ ایک منطقی قدم ہے تاکہ کارروائی سے پہلے عوامی تحفظ یقینی بنایا جاسکے۔
سیکیورٹی ذرائع نے بتایا کہ خوارج باجوڑ میں دہشتگرد اور مجرمانہ کارروائیوں میں ملوث ہیں، خیبر پختونخوا حکومت، وزیراعلیٰ اور سیکیورٹی حکام نے قبائل کے سامنے 3 نکات رکھے۔
سیکیورٹی ذرائع کے مطابق پہلا نکتہ زیادہ تعداد میں افغانوں پر مشتمل خارجیوں کو باہر نکالیں، دوسرا یہ کہ قبائل خارجیوں کو نہیں نکال سکتے تو 1 یا 2 دن کے لیے علاقہ خالی کر دیں تاکہ فورسز یہ کام کرلیں، تیسرا یہ کہ قبائل اگر دونوں کام نہیں کرسکتے تو حتی الامکان حد تک کولیٹرل ڈیمیج سے بچیں۔
سیکیورٹی ذرائع نے بتایا کہ دہشتگردوں کے خلاف کارروائی ہر صورت جاری رہے گی، ریاست اور خیبر پختونخوا کے عوام خوارج کے ساتھ کمپرومائز کی اجازت نہیں دیتے، مسلح کارروائی کا اختیار صرف ریاست کے پاس ہے۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: سیکیورٹی ذرائع
پڑھیں:
ڈالر کے ریٹ پر قابو پانے کی سرکاری کوششیں ناکام‘ملک میں کرنسی کی قلت
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔07 اگست ۔2025 )ڈالر کے ریٹ پر قابو پانے کی سرکاری کوششیں ناکامی کے باعث ملک میں کرنسی کی قلت اور غیر یقینی صورتحال مزید بڑھ گئی ہے رپورٹ کے مطابق حکومت کی جانب سے ڈالر کا ریٹ مصنوعی طور پر کم کرنے کی کوششیں ناکام ہوتی نظر آ رہی ہیں کیونکہ مارکیٹ قوتیں 250 روپے کے ہدف کے خلاف مزاحمت کر رہی ہیں اور اوپن مارکیٹ سے غیر ملکی کرنسیاں غائب ہو رہی ہیں 23 جولائی سے شروع ہونے والے ڈالر اسمگلنگ کے خلاف کریک ڈاﺅن کے نتیجے میں اوپن اور انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت میں محض 3 روپے کی معمولی کمی واقع ہوئی ہے.(جاری ہے)
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ کمی مارکیٹ کے جذبات اور سرکاری توقعات کے درمیان فرق کو کم کرنے میں ناکام رہی ہے ڈالر اب بھی 280 روپے سے زائد میں فروخت ہو رہا ہے اور کرنسی کی واضح قلت دیکھنے میں آ رہی ہے اسلام آباد میں حالیہ اجلاسوں کے دوران جن میں بینکوں، کرنسی ڈیلرز اور جیولرز نے شرکت کی حکام نے ایک بار پھر ڈالر کو 250 روپے تک لانے کی خواہش کا اظہار کیا. ادھر ماہرین کا کہنا ہے کہ ماضی میں پیش آنے والے واقعات کے تناظرمیں دیکھا جائے تو ڈالر کی قلت اسمگلنگ اور طاقتور لوگوں کی جانب سے بھاری مقدار میں غیرملکی کرنسی کی صورت میں بیرون ممالک قانونی وغیرقانونی اثاثوں کو منتقل کیا جاتا ہے ملک میں ڈالرکی قلت پیدا ہوجاتی ہے جس کی قیمت عام شہریوں کو اداکرنا پڑتی ہے. انہوں نے کہا کہ یہ صورتحال ہر چند سال کے بعد پیدا ہوناشروع ہوگئی ہے طاقتور لوگ بغیرکسی رکاوٹ اور دستاویزات کے کروڑوں ڈالرکیش کی صورت میں بیرون ممالک منتقل کرتے ہیں جبکہ قانونی طور پر کاروبار کرنے والے تاجروں کو دس‘پندرہ ہزار ڈالر کے حصول کے لیے کئی اداروں سے اجازت حاصل کرنا پڑتی ہے. ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی حکمران اشرافیہ افغان جنگ ہو یا موجودہ صورتحال وہ امریکا سمیت دیگر عالمی طاقتوں سے ملک اور قوم کے مفاد میں نہیں بلکہ ذاتی مفادات کے لیے ڈیل کرتی ہے . انہوں نے کہا کہ ڈالرکی خریداری پر پابندیاں‘مارکیٹ میں قلت حکومت کے اقتصادیوں اشاریوں کے بارے میں دعوﺅں کی نفی کرتے ہیں اگر اقتصادی اشاریے درست ہیں تو ملک میں ڈالر کی قلت نہیں ہونی چاہیے‘جب تجارتی اور بیرونی سرمایہ کاری کے معاملات ٹھیک ہوں تو ڈالر کا فلو مارکیٹ میں نظرآتا ہے مگر حکومتی اقدامات اور کرنسی مارکیٹ کے خلاف کاروائیاں ان دعوﺅں کی نفی کرتی ہیں . ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈالر کی اسمگلنگ میں بھی کرپٹ اعلی سرکاری حکام شامل ہوتے ہیں عام شہری کے لیے ڈالروں کا ٹرک بھر کر افغانستان‘ایران یا کسی اور ملک میں اسمگل کرنا ممکن ہی نہیں انہوں نے کہا کہ سرحدی علاقوں میں روایتی اسمگلر بھی بغیرسرپرستی کے کام نہیں کرسکتے تو حکومت قانونی طریقے سے کرنسی مارکیٹ میں کام کرنے والی کمپنیوں اور تاجروں کے خلاف کاروائیوں کی بجائے ان سرکاری حکام کے خلاف کاروائیاں کرئے جو دہائیوں سے ڈالر سمیت ہر قسم کی اجناس کی اسمگلنگ کرواتے ہیں. ماہرین نے کہا کہ پاکستان کی ہمسایہ ممالک سے تجارت نہ ہونے کے برابر ہے اور سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ہماری درآمدات ‘برآمدت کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں اگر پاکستان بھارت سمیت ہمسایہ ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات کو بہتر بنائے تو مارکیٹ میں ڈالروں کی کمی ممکن ہی نہیں بلکہ روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدربتدریج کم ہوتی چلی جائے گی ‘انہوں نے زور دیا کہ ”سارک“معاہدے کے تحت رکن ممالک باہمی تجارت مقامی کرنسی میں کرسکتے ہیں بھارت سستاصاف تیل فروخت کرنے والے نمایاں ممالک میں شامل ہے پاکستان اس سے فائدہ اٹھا سکتا تھا ‘چین بھارت کے ساتھ سرحدی تنازعوں کے باوجود سالانہ کئی سو ارب ڈالر کی تجارت کرتا ہے حتی کہ لداخ میں دونوں ملکوں کے درمیان جنگ کے دوران بھی بیجنگ نے دہلی کے ساتھ تجارتی تعلقات کو ختم نہیں کیا تھا . انہوں نے کہا کہ پاکستان کی حکمران اشرافیہ کو ذاتی مفادات کی بجائے اب ملک اور قوم کے مفاد میں پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے امریکا اگر اس وقت بھارت کی بجائے پاکستان کو ترجیح دے رہا ہے تو پاکستان کے پاس امریکا کو امپورٹ کرنے کے لیے کونسی تجارتی اجناس ہیں؟ ہمارے پاس ٹیکسٹائل ‘سپورٹس اور چمڑے کی مصنوعات تھیں مگر وہ بھی توانائی کے بحران کی وجہ سے تقریبا ختم ہوچکی ہیں ‘زرعی شعبہ بھی مسلسل زوال پذیر ہے اور پاکستان کو حکمران اشرافیہ نے ایک ایسا ملک بنادیا ہے جو بنیادی ضروریات کے لیے بھی دوسروں کا محتاج ہے. انہوں نے کہا کہ سالانہ اربوں ڈالر پام آئل کی درآمد پر خرچ کیئے جاتے ہیں جبکہ بھارت میں کوکنگ آئل کی اوسط قیمت 60روپے لیٹر ہے جبکہ پاکستان میں یہ قیمت 600روپے لیٹرکے قریب ہے ‘بھارت نے تیل والے بیجو ں کی کاشت کو فروغ دیا اور تقریبا اپنی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے وہ انڈونیشیا یا کسی دوسرے ملک کا محتاج نہیں ہے پاکستان میں کنولاسمیت تیل والے بیج پیدا کرنے کے وسیع مواقع ہیں مگر حکومتوں نے کسانوں کو صرف تین چاربنیادی فصلوں سے آگے بڑھنے ہی نہیں دیا . انہوں نے کہا کہ درآمدات پر بھاری زرمبادلہ خرچ کرنے کے علاوہ پاکستان نے اپنی مجموعی معیشت سے کئی سوگنا زیادہ کے بانڈجاری کررکھے ہیں جنہیں فروخت کرنے کے لیے بھاری شرح منافع آفرکیا جاتا ہے ہرسال ان بانڈزپر منافع اداکرنے کے لیے اربوں ڈالرکی ضرورت ہوتی ہے اور یہ اربوں ڈالر بیرون ممالک جاتے ہیں حکومتیں ملک کے اندر شہریوں کو ان بانڈزپر انتہائی کم منافع آفر کرتی ہیں اگر ملک کے اندر شہریوں کو حکومتی بانڈزپر مناسب منافع آفر کیا جائے تو ادائیگی کے لیے امریکی ڈالروں کی ضرورت نہیں ہوگی. دوسری جانب بینکرز کا اندازہ ہے کہ مارکیٹ میں حقیقی تبادلہ ریٹ 281 روپے کے قریب ہے کرنسی ڈیلرز کے مطابق بڑی غیر ملکی کرنسیاں بشمول امریکی ڈالر، برطانوی پاﺅنڈ اور یورو مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہیں ایک’ ’اے“ کیٹیگری ایکسچینج کمپنی کے سینئر ڈیلر نے کہا کہ کچھ کاﺅنٹرز پر چند سو ڈالر مل سکتے ہیں لیکن زیادہ تر ڈیلرز شدید قلت کا شکار ہیں. اگرچہ پاکستان فاریکس ایسوسی ایشن کے صدر ملک بوستان نے حال ہی میں کرنسی کی قلت کی خبروں کو مسترد کرتے ہوئے طلب پوری کرنے کی تیاری کا دعویٰ کیا تاہم زیادہ تر ڈیلرز ان سے اتفاق نہیں کرتے کئی افراد کو شبہ ہے کہ ایک غیر قانونی متوازی مارکیٹ دوبارہ سرگرم ہو گئی ہے جہاں ڈالر ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان (ای سی اے پی) کے نرخوں سے زیادہ پر فروخت ہو رہا ہے گزشتہ روز ای سی اے پی نے اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت 285 روپے 15 پیسے جب کہ انٹربینک میں 282 روپے 87 پیسے درج کی. ایک سینئر انٹربینک تجزیہ کار نے کہا کہ حقیقتاً کوئی قلت نہیں ہے، بلکہ قیمت پر کنٹرول کی مزاحمت ہی قلت کا تاثر پیدا کر رہی ہے انٹربینک مارکیٹ میں کام کرنے والے ڈیلر عاطف احمد نے وضاحت کی کہ وہ بینک جو درآمد کنندگان کو ڈالر فروخت کرنے کے لیے اسٹیٹ بینک سے اجازت رکھتے ہیں وہ اپنے ذاتی صارفین کو ترجیح دے رہے ہیں اور ایسے ریٹ مقرر کر رہے ہیں جو خریداروں کے لیے قابل قبول ہوں انہوں نے کہا کہ آج کل 5 لاکھ ڈالر کا ایل سی کھولنا درآمد کنندگان کے لیے بہت مشکل ہو گیا ہے. اگرچہ مالی سال 2025 میں درآمدات میں اضافہ ہوا ہے جو پچھلے سال کے مقابلے میں آسان درآمدی نظام کی نشاندہی کرتا ہے تاہم تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ موجودہ زرمبادلہ کی صورتحال میں 250 روپے کا ہدف حاصل کرنا مشکل ہوگا ممکن ہے کہ روپیہ وقتی طور پر 270 کی حد میں مضبوط ہو جائے، مگر مسلسل مضبوطی کی توقع نہیں کی جا سکتی. ایک سینئر بینکر نے کہا کہ موجودہ معیشت اس وقت ایک مضبوط روپیہ سپورٹ نہیں کرتی ہم اب بھی عالمی مارکیٹ میں امریکی ڈالر کی کارکردگی پر انحصار کرتے ہیں اور اگرچہ 2025 میں ڈالر میں کچھ کمی آئی ہے لیکن یہ اتنی نہیں کہ روپیہ 250 روپے تک آ سکے.